کمال کی چیز ۔۔اور علی سنارا

ہر جانب آنسو گیس کی بُو پھیلی ہوئی تھی ۔ جنگ کا ماحول تھا

muhammad.anis@expressnews.tv

لاہور:
ہر جانب آنسو گیس کی بُو پھیلی ہوئی تھی ۔ جنگ کا ماحول تھا ۔ اور ان سب میں اہم بات یہ تھی کہ جو کام ضیاء کے دور میں نہیں ہو سکا تھا وہ خود پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہو رہا تھا ۔ تاریخ میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ'' المرتضٰی ''پر پولیس فائرنگ کر رہی تھی ۔ ہر ایک منٹ میں ایک آنسو گیس کا شیل فائر کیا جارہا تھا ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کا گھر آنسو کی لپیٹ میں تھا ۔ نصرت بھٹو بے ہوش ہو چکی تھیں ۔ غنویٰ کی حالت خراب تھی ۔ مگر کیوں ؟

بے نظیر بھٹو کے دور میں اُن کے لیے اپوزیشن سے بڑھ کر چیلنج خود اُن کا بھائی اور ماں تھے ۔ 3 جنوری 1994کو میر مرتضی بھٹو کی پیرول پر رہائی کی درخواست مسترد کر دی گئی ۔ وہ چاہتے تھے کہ انھیں اجازت دی جائے کہ وہ 5 جنوری کو بھٹو کا یوم ولادت منا سکیں ۔ دوسری جانب ان کی رہائی کا مطلب یہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور مرتضی کے کارکنان میں تصادم ہو ۔ میر کا الزام تھا کہ عدالت نے حکومت کے دباؤ میں آکر اُن کی پیرول پر رہائی کی درخواست مسترد کی ۔ مرتضیٰ بھٹو نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کا مزار حکومت کا نہیں میرے باپ کا مزار ہے ۔ دوسری جانب ضیاء الحق جیسے شخص کے سامنے ڈٹ جانے والی نصرت بھٹو آج اپنی بیٹی کے سامنے ایک دیوار بنی ہوئی تھیں ۔ انھوں نے اعلان کر دیا کہ ہر صورت میں وہ بھٹو کے مزار پر جائیں گی ۔

4 جنوری کو نصرت بھٹو، غنوی بھٹو ، مخدوم خلیق الزماں ، ناصر حسین ، احترام الحق تھانوی اور دیگر لوگوں کے ساتھ لاڑکانہ پہنچ گئیں ۔ ان سب کا پڑاؤ لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی گھر المرتضی تھا ۔ مگر اُسی رات حکومت نے پابندی لگا دی کہ ان میں سے کوئی بھی مزار پر نہیں جائیگا ۔ نصرت بھٹو بھی اپنی ضد کی پکی تھیں ۔ اس ساری صورتحال سے بے نظیر واقف تھیں ۔ یہ سخت احکامات دے دیے گئے کہ ان میں سے کوئی بھی پانچ جنوری کو باہر نہ نکل سکے ۔

جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ۔ مرتضٰی کے حامی بہت بڑی تعداد میں جمع ہو چکے تھے ۔ جیسے ہی 5جنوری کا سورج نکلا دونوں جانب سے تناؤ میں اضافہ ہو چکا تھا ۔ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی تھی ۔ انھوں نے المرتضی کے باہر کھڑی رکاوٹوں کو ہٹانا شروع کر دیا ۔ پولیس نے پہلے انھیں روکنے کی کوشش کی اور پھر ایک دم تصادم شروع ہو گیا ۔

بھٹو کے گھر پر بھٹو کی حکومت میں گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ تاریخ میں پہلی بار اتنے آنسو گیس لاڑکانہ میں استعمال کیے گئے کہ ہر شہری کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ نصر ت بھٹو بار بار کہہ رہی تھیں کہ بے نظیر کی گولیاں مجھے اپنے شوہر کے مزار پر جانے سے نہیں روک سکتیں ۔ اور پھر ایک شیل اُن کی جیپ میں آکر گرا ۔وہ بے ہوش ہو گئیں ۔ غنویٰ کی حالت خراب ہو گئی ۔ اس تصادم میں چار افراد ہلاک ہو گئے ۔ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوںکا تعلق کسی سے بھی ہو اُسے سزا دی جائے گی ۔

مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے درمیان تصادم کی یہ ایک کھُلی شکل تھی ۔ دونوں جانب سے بیانات کا سلسلہ جاری تھا ۔ حکومت کی جانب سے ایک اور کارڈ کھیلا گیا ۔ اس سارے واقعہ کے پانچ دن بعد یعنی 10جنوری کو محمد خالد خاں عرف ڈالیا کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا ۔

اُس نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ اُس کا تعلق الذوالفقار تنظیم سے ہے جس کے سربراہ میر مرتضی بھٹو ہیں ۔ ڈالیا نے مزید کہا کہ علی سنارا کے ذریعے میر مرتضی بھٹو نے مجھے بھارت جانے کا حکم دیا تھا ۔ ان کی ہدایت کے مطابق ہم اٹھارہ لوگ سمندر کے راستے بھارت گئے ۔ ہمیں نئی دہلی پہنچایا گیا ۔ جہاں سے ہمیں اتر پردیش کے ایک پہاڑی علاقے میں منتقل کیا گیا ۔ وہاں موجود ایک بھارتی کیمپ میں ہماری تربیت کی گئی ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ مرتضی بھٹو نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر ہم سے قسم لی ۔

اس بیان کے منظر پر آتے ہی نصرت بھٹو نے کہا کہ ضیاء الحق نے بھی لوگوں سے ایسے جھوٹے بیان دلائے تھے اور آج بے نظیر بھی یہ ہی کر رہی ہے ۔ لگ یوں رہا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کی نہیں ضیاء الحق کا دور ہے ۔ دوسری جانب بے نظیر نے اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ70 کلفٹن (بھٹو کی کراچی میں رہائش گاہ ) میں بھارت سے تربیت لے کر آئے ہوئے دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی ہے ۔


ان کے اس بیان کے اگلے ہی دن ایک بار پھر 70 کلفٹن پر چھاپہ مارا گیا اور غنوی بھٹو کے دو محافظوں کو گرفتار کر لیا گیا ۔ اصل کہانی کا موضوع ڈالیا ہے ۔ جسے ''را'' کے ایجنٹ کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔ اور اس ڈالیا نے علی سنار ا کا نام لیا تھا۔ جو کہ لیاری کے علاقے کھارادر میں رہتا تھا ۔ علی سنارا کو مرتضی کا بہت قریبی ساتھی مانا جاتا تھا۔ اس سارے واقعات کے کچھ عرصے بعد میر مرتضی رہا ہو گئے ۔ لیکن یہ ''را'' والا الزام ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ جیسے ہی دونوں بھائی بہن کے درمیان تصادم بڑھتا کوئی نہ کوئی ایجنٹ سامنے آجاتا ۔

اس ساری کہانی کے تقریبا ڈھائی سال بعد ستمبر 1996 میں میر نے ہر جگہ جلسے کرنا شروع کر دیے تھے ۔ اور کہا یہ جارہا تھا کہ آیندہ الیکشن میں وہ پیپلز پارٹی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں ۔ 18 اور 19 ستمبر کے درمیان علی سنار ا کو سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لے لیا ۔ اُن پر الزام تھا کہ وہ بم دھماکوں میں ملوث ہے ۔

علی کو حراست میں لے کر نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا ۔ میر کا خیال تھا کہ یہ ایک بار پھر سیاسی گرفتاری ہے ۔ اور علی کے بیان کے ذریعہ پھر انھیں ''را'' کا ایجنٹ ثابت کیا جائیگا۔ میر ایک جذباتی شخص تھے ۔ فورا اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلے اور کئی تھانوں اور سی آئی سینٹر میں خود علی کو تلاش کرنے لگے ۔ جہاں اُن کی پولیس کے اعلی حکام سے جھڑپیں بھی ہوئیں ۔ سرکاری معاملات میں مداخلت کے الزام لگا کر گارڈن تھانے میں اُن کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا ۔

اگلے دن یعنی 20 ستمبر کو میر مرتضیٰ نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔ انھوں نے حکومت پر شدید تنقید کی ۔ پریس کانفرنس کے بعد وہ سرجانی ٹاؤن جلسے میں شرکت کے لیے گئے ۔

اور وہاں سے واپسی میں ان کے گھر کے سامنے پولیس انتظار کر رہی تھی ۔میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ اُس کے بعد پولیس مقابلے میں میر مرتضی پر گولی کس نے چلائی ۔ مگر بات یہ کہ اُن پر اُن کی جماعت پر وقفے وقفے سے ''را'' کا الزام لگتا رہا یا پھر لگایا جاتا رہا ۔ اُن کے خلاف فائلز کو وقت کی مناسبت سے کھولا جاتا رہا ۔ میر مرتضیٰ کی ہلاکت کے بعد علی سنارا کی گرفتاری ظاہر کر دی گئی ۔ اور پھر ایک دن ''را'' کا انتہائی خطرناک ایجنٹ رہا بھی ہو گیا ۔ جس کی وجہ سے میر مرتضیٰ کا پولیس سے جھگڑا ہوا اور یہ تصادم بعد میں اُن کی ہلاکت پر ختم ہوا۔

ڈالیا کو عدالت میں 10جنوری 1994 کو پیش کیا گیا جس میں اُس نے علی سنارا کا نام لیا تھا ۔ اور اس کے ڈھائی سال بعد علی کو گرفتار کیا گیا جس پر مرتضی کی ہلاکت ہوئی ۔ پھر علی سنارا کو ہماری عدالت نے رہا کر دیا ۔ اور اس سارے واقعہ کے پورے دس سال بعد جنوری 2004 میں علی سنار ا کھارادر میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ کہ نامعلوم افراد موٹر سائیکل میں آئے ۔ اتنے سارے دوستوں کے درمیان موجود علی سنارا کو انھوں نے پہچانا ۔ اور فائرنگ کر دی ۔ علی سنار ا موقعہ پر ہلاک ہو گیا ۔ جس پر ''را'' کے ایجنٹ ہونے کا الزام تھا ۔ جس پر جہاز ہائی جیک کرنے کا الزام تھا ۔ لیکن وہ عدالت سے بری ہو کر آیا تھا ۔ مگر نامعلوم افراد نے اُسے قتل کر دیا ۔

کچھ لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ شراب اپنے غم کو بھول جانے کی لیے پی جاتی ہے ۔جب کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ شراب پی کر غم کو زندہ رکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح سیاست میں یہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا ہے کہ اپنے مخالف پر الزام لگا کر اُسے کمزور کیا جاتا ہے یا پھر خود کو مضبوط کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔

مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ علی سنارا یا پھر ڈالیا ''را'' کا ایجنٹ تھا یا نہیں ۔ لیکن اُس زمانے میں نصرت بھٹو اور میر یہ ہی کہا کرتے تھے کہ اُن کے خلاف مہم چلانے کے لیے یہ بیانات دلائے جاتے ہیں ۔ اور سارے کارڈ وقت پر کھیلے جاتے ہیں ۔ میری کمال کی نظر نہیں ہے ، اس لیے چشمہ لگا کر کمال دیکھنے پڑھتے ہیں ۔ آپ کی نظریں تو تیز ہیں، آپ مجھے بتا دیں کہ یہ کمال اس وقت کمال کیوں دیکھا رہے ہیں ۔ تب تک میں اگلا سنارا تلاش کرتا ہوں۔
Load Next Story