ڈونلڈ ٹرمپ امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ

مبصرین اس کے صدارتی امیدوار ہونے کو امریکا کے لیے المیہ قرار دے رہے ہیں


آصف زیدی March 06, 2016
مبصرین اس کے صدارتی امیدوار ہونے کو امریکا کے لیے المیہ قرار دے رہے ہیں ۔ فوٹو : فائل

2016 میں صدر کے لیے ممکنہ ری پبلکن امیدوار کی حیثیت سے انتہا پسندانہ مزاج کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ کا آگے آنا امریکی جمہوریت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔

انتخابی پنڈت اور سیاسی جماعتوں کے بانی عوامی خواہشات اور پسندیدہ نعرے بازی سے متاثر کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ تھے ، یہی وجہ ہے کہ مختلف اضلاع سے ہر دو سال بعد مختلف علاقوں سے منتخب ہونے والوں کی نگرانی کے لیے سینیٹ نے ایک پروگرام تیار کیا، لیکن موجودہ امریکی صدارتی انتخابات کی مہم سے لگ رہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا جو سیاسی عمل کے نگراں چاہتے تھے۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ صحیح امیدواروں کا انتخاب کرنے کے لیے سرکاری مشینری ہی کام کرسکتی ہے جو اس بار نہیں کرسکی تو غلط ہے، ایسے بہت سے عناصر ہیں جو ری پبلیکن اور ایک اور مسولینی کے ظاہری عروج کے ذمے دار بنے، ان میں میڈیا بھی شامل ہے اور عوام بھی جنھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسوں کو آگے بڑھنے میں مدد دی۔بہت سے مبصرین کے مطابق ٹرمپ جیسے لوگوں کا صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنا المیہ ہے اور اس حوالے سے متعلقہ حکام اپنا کام صحیح طور پر انجام دینے میں بالکل ناکام ہوگئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو تو اُسی وقت ری پبلیکن پارٹی سے لات مارکر باہر نکال دینا چاہیے تھا جب اُس نے پہلی بار آئین کی خلاف ورزی کا عندیہ دیا تھا اور آئین توڑنے کی بات کھلے الفاظ میں کی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے تو انتخاب لڑنے پر اُسی وقت پابندی لگادینی چاہیے تھی جب اس نے اپنی انتخابی ریلیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر حملے کی بات کی۔ اُسے تو فوری طور پر بائیکاٹ کی سزا دینی چاہیے تھی جب اس نے تشدد کے پرچار کا ذکر کیا اور اس کی حمایت کی۔ ٹرمپ کو تو اس وقت بھی کسی نے نہیں روکا اور نہ اس پر پابندی لگائی جب اس نے مذہبی عبادت گاہوں کو بند کرنے جیسی بات کی، اس بات پر تو اُسے فوری طور پر انتخابی مہم سے دھکے مارکر نکال دینا چاہیے تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر بننے کا خواب آنکھوں میں سجاکر ری پبلیکن پارٹی کی نام زدگی حاصل کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے۔ وہ اپنی ہر تقریر، ہر بیان اور ہر مذاکرے میں ایسی باتیں کررہا ہے جنہوں نے ہر طرف تہلکا مچا رکھا ہے۔ امریکا کے سنجیدہ حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہاپسندانہ سوچ کو پورے امریکا کے لیے غلط اور انتہائی منفی سمجھ رہے ہیں ۔ ٹرمپ نے واشگاف الفاظ میں آئین کی پہلی، چوتھی اور آٹھویں ترمیم کی خلاف ورزی کا اعلان کیا ہے۔

اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو شخص اول روز سے آئین کی خلاف ورزی کی خواہش رکھتا ہو وہ کس طرح صدر بننے کے بعد آئین سے وفاداری کا حلف اٹھائے گا اور کس طرح آئین کو مقدم سمجھے گا؟ خود ری پبلیکنز کو اب یہ خدشہ ہے کہ کہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں اور حرکتوں کی وجہ سے ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کے علاوہ کوئی تیسرا فریق بھی اپنی انتخابی مہم شروع نہ کردے۔ آگے چل کر امریکی صدارتی انتخابات میں کیا ہوگا، کوئی نہیں جانتا لیکن امریکا کے اکثریتی سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاسی منظر نامے سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر اس ساری صورت حال میں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے جو بقول ایمی گاڈمین ہر روز ٹرمپ جیسے سیاست دانوں کو اپنے پروگراموں کے ذریعے ہمارے گھروں تک پہنچادیتا ہے، ٹرمپ کو ٹی وی چینل لائیو کوریج دے رہے ہیںِ مختلف پروگراموں اور مذاکروں میں وہ شریک ہوتا ہے، اس کی باتیں سنائی جاتی ہیں، اور یہ سب باقاعدگی سے روزانہ کی بنیاد پر ہورہا ہے۔

اس کے علاوہ امریکی ٹی وی انڈسٹری کی اہم شخصیات اور بڑے چینلوں نے بھی ٹرمپ کی بہت سی باتوں کو نظرانداز کرکے اس کو کوریج دی ہے، ماضی میں ڈان آئیمز کو باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کے لیے غلط زبان استعمال کرنے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن دوسروں کے لیے انتہائی غلط اور معیوب باتیں کرنے والے ٹرمپ کو کھلی آزادی دی جارہی ہے۔ ایتھلیٹس کے بارے میں جانب دارانہ بیان دینے پر ایک ٹی وی پروگرام کے ملازم کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کے غیراندراج شدہ شہریوں کو چور، منشیات فروش اور مختلف جرائم کا سبب قرار دینے کے جھوٹے الزامات لگانے کے باوجود سب کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے اور اس کے بیانات پر ٹی وی چینلز کا رویہ ایسا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے اصل میں اُس کو ووٹ نہیں دیں گے اور وہ لوگ ٹرمپ کی حمایت اس لیے کررہے ہیں کیوںکہ وہ ملک کے حالات سے پریشان ہیں۔ یہ بات درست ہوسکتی ہے لیکن مختلف علاقوں میں کیے گئے سروے بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

ایک اور امریکی صحافی کا تجزیہ ہے کہ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے سمجھتے ہیں کہ امریکی سیاست سے سچائی اور حقیقت پسندی ختم ہوگئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کے سیاسی میدان میں آنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاست میں سچائی آجائے گی؟ ٹرمپ نے تو ابھی تک جو باتیں کی ہیں ان میں نسل پرستی اور جنسی تذکرے ہیں جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی رجحان کیا ہوسکتا ہے اور اس کی اپنی ذہنی حالت کیا ہے؟

ٹرمپ کی انتہاپسندی، تشدد کو فروغ دینے والی باتوں اور متنازعہ خیالات کے باوجود کچھ سیاسی مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تمام باتیں غلط نہیں ہیں اور نہ وہ انتہاپسندانہ ہیں۔ ٹرمپ نے والدین کے حقوق کے حوالے سے قوانین کی حمایت کی، انھیں خوش آئند کہا، لیکن اسقاط حمل کے معاملے پر اس کی رائے امریکی عوام کی اکثریت سے الگ نظر آتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کے لیے کچھ کرے یا نہیں ، وہ ملک کے لیے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ٹرمپ کا ایک اور بیان لوگوں کی توجہ کا مرکز اور میڈیا کی ہیڈلائنز میں نمایاں جگہ پاتا رہا۔ اس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ میں ملک بھر کے عوام کی اکثریت کی حمایت کا شوقین نہیں ، میں ایک سفید فام ہوں اور میں سفید فام عیسائیوں کے حقوق کے لیے چینیوں، میکسیکنز اور مسلمانوں کے سامنے کھڑا رہوں گا۔ اس بیان نے بھی ثابت کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پورے امریکا کا نمائندہ بننے کا کسی طور اہل نہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ عالمی راہ نماؤں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پسند روسی صدر ولادیمر پوتن ہیں۔ بعض سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ امریکی ریاست نیواڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ملنے والے ووٹوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کے لیے سب اچھا نہیں، اس نے صرف 44 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ 66فی صد ووٹر ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالف ہیں۔

ابھی تک کی صدارتی مہم میں یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اب امریکی ریاستوں میں بھی ووٹ مختلف انداز میں تقسیم ہورہے ہیں۔2012 میں نیواڈا کے 70 فی صد لوگوں نے باراک اوباما کو ووٹ دیے تھے اور ان کے مخالف مٹ رومنی صرف 25 فی صد ووٹ لے سکے۔ کچھ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ یہاں رومنی جیسی کارکردگی بھی نہیں دکھا پائیں گے۔

اس ساری صورت حال میں سیاسی راہ نماؤں اور امریکی میڈیا کی کارکردگی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ٹرمپ نے جو پوزیشن لی ہے اور جس طرح اس کی مہم چل رہی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے امریکی تشخص کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور وہ صرف من پسند فیصلوں کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔

ایک مشہور واقعہ ہے کہ آئینی کنونشن کے بعد جب بنجمن فرینکلن سے کسی خاتون نے سوال کیا کہ امریکا میں کس قسم کی حکومت ہوگی؟ تو فرینکلن نے جواب دیا کہ ''وہ ایک جمہوریہ ہوگی، اگر آپ لوگ اسے سنبھال سکیں۔'' اب ڈونلڈ ٹرمپ جیسوں کی صدارتی مہم دیکھ کر ہر عام امریکی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ہم اس طرح اپنی جمہوریہ کو سنبھالیں گے؟



چناؤ یا پیسے کا بہاؤ
امریکی صدارتی انتخابات پر سرمایہ داروں کا راج
امریکی صدارتی الیکشن کے حوالے سے مختلف جائزہ رپورٹیں اور سروے بتاتے ہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت کو یقین ہے کہ ملک کے صدارتی انتخابات پر سرمایہ داروں، ارب پتی افراد اور ان کی بڑی بڑی کمپنیوں کا راج ہے۔

صدارتی انتخابات کی مہم کے آغاز ہی سے امریکیوں کی اکثریت (تقریباً 84 فی صد) چاہے وہ ری پبلیکنز کے ووٹر ہوں، ڈیموکریٹس کے یا آزاد امیدواروں کے، اس بات پر متفق ہیں کہ امریکی انتخابات میں دولت کا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور پیسے کی ریل پیل نے انتخابی مہم کو عجیب رنگ دے دیا ہے۔ اکثریتی عوام نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ امریکی انتخابی نظام میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے، تاکہ سیاست سے پیسے کو نکالا جاسکے۔

امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ ایک دو چیزوں کو چھوڑ کر امریکی انتخابات کے سارے مراحل کو دولت کے انبار کے ذریعے اپنے حق میں موڑنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور تمام کمپنیاں اور ادارے اپنی مرضی کے امیدواروں کے لیے ہر طرح سے کوششیں کرتے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے کروڑ پتی اور ارب پتی افراد کی کوئی کمی نہیں جو صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم کے لیے بھاری رقوم کے چیک لکھتے ہیں، تاہم یہ لوگ پردے کے پیچھے ہی ہوتے ہیں۔

مختلف سرویز اور جائزوں میں عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ صدارتی امیدواروں کی مہم چلانے والوں کو منظر عام پر لانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہییں، تاکہ انتخابی عمل میں پیسوں کے ذریعے دھاندلی کا سلسلہ روکا جاسکے۔امریکا کے آئندہ صدر کے لیے ہونے والی انتخابی مہم ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے، جس میں امیدوار اپنی حتمی نام زدگی کے لیے بھرپور مہم چلارہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ابھی سے انتخابی مہم پر ہونے والے اخراجات کی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار امریکا کے صدارتی الیکشن میں خرچ کی جانے والی رقم ماضی کے تمام ریکارڈ توڑدے گی۔ارب پتی شخصیات اپنی کمپنیوں اور نمائندوں کے ذریعے من پسند انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہارہی ہیں، درجنوں بینکار مستقبل میں مرضی کی معاشی پالیسیوں اور اقدامات کے حصول کے لیے اپنے امیدواروں کو اپنی دولت سے فیض یاب کررہے ہیں، جو سیاسی پنڈتوں کی نظر میں خطرناک رجحان ہے۔

اب ایک نظر صدارتی امیدواروں پر ڈالتے ہیں کہ وہ آگے بڑھنے کے لیے کیا کیا اقدامات کررہے ہیں:
٭مارکو روبیوMarco Rubio : ریپبلکن صدارتی امیدوار مارکو روبیو ہی کو دیکھیں۔ انہوں نے ارب پتی پال سنگر کی ہر طرح سے حمایت کی ہے، تاکہ وہ اس کی انتخابی مہم میں مدد کریں۔ پال سنگر فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آبادکاری کا بڑا حامی ہے اور وہ ہر مذاکرے اور ہر پلیٹ فارم پر اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔

اس طرح مارکو روبیو پال سنگر کی ہاں میں ہاں ملانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ روبیو کے مفادات پال سنگر سے وابستہ ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اسرائیلی کوئی غلطی نہیں کرسکتے۔ پھر اگر اس طرح کی حمایت کے بعد روبیو کو مالی امداد اور تعاون مل رہا ہو تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔

پال سنگرنارمن برامین کے بعد مارکو روبیو کا دوسرا بڑا مالیاتی مددگار ہے، جو ان کی کام یابی کے لیے اپنی دولت کا ہر طرح سے استعمال کررہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دونوں اب تک مارکو روبیو کی انتخابی مہم پر تقریبا ً 11 ملین ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔ دنیا کی پانچویں امیر ترین شخصیت لیری ایلی سن اب تک روبیو کے لیے 47 بلین ڈالر لٹا چکی ہے۔ پال سنگر، ایلی سن اور نارمن برامین، تینوں نے ہی مارکو روبیو کی پالیسیوں اور وعدوں کو سراہا ہے۔

٭ ٹیڈکروزTed Cruz :ٹیڈ کروز نے بھی امریکی صدر بننے کی ٹھانی ہوئی ہے اور ان کے پاس بھی ارب پتی افراد ہیں، جو انہیں آگے بڑھانے کے لیے اپنا اثرورسوخ اور پیسہ استعمال کررہے ہیں۔ ان میں روبرٹ مرکر بھی ہے، جس نے مختلف قوانین میں تبدیلیوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ اس کے علاوہ ارب پتی بینکر ٹوبی نیوگبر بھی ہے۔

جس نے اپنی دولت کا وزن ٹیڈ کروز کے پلڑے میں رکھ دیا ہے، تاکہ وائٹ ہاؤس کا اگلا مکین ٹیڈ کروز ہو اور پھر اس کے ذریعے وہ اپنے مفادات حاصل کرسکے۔ یہ دونوں اب تک ٹیڈ کروز کی انتخابی مہم پر تقریباً 20 ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کرچکے ہیں۔ ٹیڈ کروز کو اس انویسٹمنٹ بینک نے بھی بھاری مالیت کا قرض آسان شرائط پر انتخابی مہم کے لیے دیا ہے جہاں ان کی اہلیہ بطور منیجنگ ڈائریکٹر کام کررہی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنا من پسند صدر بنوانے کے لیے امریکا کے ارب پتی کس طرح کوشاں ہیں۔

٭ جیب بش Jeb Bush: جیب بش نے، اب اب انتخابی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں، اپنی انتخابی مہم کے لیے زیادہ تر پیسہ اپنی اور اپنی فیملی کی ذاتی سرمایہ کاری سے لیا۔ تاہم ان کے دولت مند دوستوں نے بھی ہر طرح سے تعاون کیا۔ ان کے دوستوں کے اس امدادی پیکیج کی مالیت تقریباً 118 ملین ڈالر بنتی ہے۔ امریکی انشورنس گروپ کے سابق چیئرمین ہینک گرین برگ بھی جیب بش کے مالی معاونین میں سے ایک ہیں، جنھوں نے جیب بش کے لیے 10 ملین ڈالر کا چیک جاری کیا۔

٭ ہلیری کلنٹن Hillary Clinton :سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ اور امریکا کی سابق وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم میں بھی دوستوں اور ہم خیال شخصیات کا پیسہ شامل ہے۔ ان میں ایک جارج سوروس ہیں، جنھوں نے ہلیری کلنٹن کے لیے گذشتہ سال 8.5 ملین ڈالر جاری کیے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف افراد اور ادارے اپنی اپنی سطح پر ہلیری کی کام یابی کے لیے دولت کا سہارا لے رہے ہیں۔

بل کلنٹن اور ہلیری کلنٹن دونوں کے پاس مختلف کتابوں کی رائلٹی کے معاہدے ہیں جن کی مالیت لاکھوں ڈالر ہے، اس وقت ہلیری کلنٹن تمام امیدواروں میں مقبولیت کے لحاظ سے آگے ہیں، جن میں زیادہ کردار ان کی لابی کا ہے، جس نے دن رات ایک کرکے ہلیری کے لیے پلیٹ فارم تیار کیا۔ جنوری 2016 تک ہلیری کی انتخابی مہم پر ایک اندازے کے مطابق 115 ملین ڈالر خرچ ہوچکے تھے۔

٭ ڈونلڈ ٹرمپ : ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی مجموعی آمدنی 10 بلین ڈالر سے زاید ہے اور وہ ہر ٹی وی شو کی میزبانی کے بدلے میں 3 ملین ڈالر لیتا ہے۔ اس طرح ٹرمپ کو بھی اپنی انتخابی مہم چلانے میں مالی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔



ان معلومات اور تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سیاست بالخصوص صدارتی الیکشن کے لیے ہونے والی لابنگ اور مہم میں پیسہ مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ میڈیا کے بڑے بڑے نام، سیاسی شخصیات، کاروباری خواتین و حضرات اور عالمی شہرت یافتہ ادارے بھی امریکی صدر بننے کی خواہش رکھنے والوں کی مہم میں کسی نہ کسی طرح سے شریک ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ صدارتی الیکشن لڑنے کے خواہش مند بھی دولت اور پیسے میں کسی سے کم نہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے 2011 میں تقاریر کے ذریعے ہی 100 ملین ڈالر سے زاید کمائے جب کہ ان کی اہلیہ ہلیری کلنٹن صدارتی انتخاب لڑنے کے اعلان کے بعد سے اب تک تقریباً 25ملین ڈالر بطور آمدنی حاصل کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف بینکوں، انسٹی ٹیوٹ ، کمپنیوں اور دیگر فورمز پر مذاکروں ، انٹرویو اور اظہارخیال کی مد میں بھی ہلیری نے کافی رقم کمائی ہے۔

تمام صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم پر خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ لگانے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی مالیت بہت زیادہ ہوگی۔ اصل لاگت کیا آئے گی، اس کا اندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا، اس کے لیے کافی انتظار کرنا ہوگا (شاید جون 2917تک ) لیکن پھر بھی ایک انتہائی محتاط اندازے کے مطابق صدارتی انتخابی مہم پر خرچ ہونے والی رقم 10 سے 15ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں