اداکاری کا ایک اور درخشاں ستارہ ڈوب گیا

اپنے دراز قد اور مردانہ وجاہت کے باعث اُردو اور پنجابی فلموں کے سپر سٹار رہے، ٹی وی پر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے

اپنے دراز قد اور مردانہ وجاہت کے باعث اُردو اور پنجابی فلموں کے سپر سٹار رہے، ٹی وی پر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ فوٹو : فائل

حبیب اپنے نام کی طرح ہردلعزیز اور پروقار شخصیت کے مالک تھے، ان کا شمار فلم انڈسٹری کے چند تعلیم یافتہ فنکاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے تین مضامین میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔ وہ اداکاری کی طرف حادثاتی طور پر آئے، ہدایتکار لقمان نے فلم ''لخت جگر'' کی شوٹنگ کے دوران چند دوستوں کے ساتھ آنے والے حبیب الرحمان میں مستقبل کا کامیاب اداکار دیکھ لیا تھا۔

اسی لئے انہوں نے فلم ''لخت جگر'' میں ایک مختصر کردار کرنے کی آفر کر دی۔ کیریئر کا پہلا سین ہی مقبول گلوکارہ اور اداکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ کیا۔ دوستوں کے ساتھ شوٹنگ دیکھنے کے لئے آنے والا یہ نوجوان جو فوج میں جانے کا خواہشمند تھا، اسے کیا معلوم تھا کہ وہ آگے چل کر فلم انڈسٹری کا نامور فنکار بننے والا ہے۔ حبیب الرحمان یعنی حبیب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش اور بعدازاں اردو، فارسی میں بھی ایم اے کیا۔ پہلے وہ ایریگیشن پھر سول ایوی ایشن میں ملازم رہے۔

ان کے دو بھائی حفیظ الرحمن اور ریاض الرحمن آرمی میں تھے۔وہ خود بھی فوج میں جانے کے خواہشمند تھے۔ اس حوالے سے پائلٹ بننے کے لئے ایئرفورس کا امتحان دیا لیکن وہ ٹیسٹ میں پاس نہ ہو سکے۔ ایک روز اپنے چند دوستوں کے ہمراہ فلم کی شوٹنگ دیکھنے کا پروگرام بنا کر سٹوڈیو آگئے جہاں ہدایتکارلقمان اپنی فلم ''لخت جگر'' کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔ لقمان نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا کہ فلم میں کام کرو گے؟ تو انہوں نے بتایا کہ مجھے اداکاری کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں تو میں کیسے کر سکتا ہوں۔ اس کے باوجود لقمان نے انہیں اداکاری کرنے کے لئے راضی کرتے ہوئے اسی فلم کے ایک مختصر کردار میں کاسٹ کرلیا۔ فلم ''لخت جگر'' میں سنتوش کمار، یاسمین اور نورجہاں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔

1956ء میں حبیب الرحمان یعنی حبیب نے اس فلم میں پہلا سین ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ عکسبند کروایا۔ دراز قد اور خوبصورتی کی وجہ سے شائقین نے حبیب کو بڑی سکرین پر پسند کیا جس کے بعد انہیں نذیراجمیری نے فلم ''شہرت'' میں کاسٹ کر لیا اور یوں ان کا فلمی سفر شروع ہوگیا۔ اس فلم کے بعد انہیں مسعود پرویز کی فلم ''زہرعشق'' میں کاسٹ کیاگیا جس میں انہیں مسرت نذیر کے مقابل کام کا موقع ملا اور فلم سپرہٹ ہونے سے ان کا شمار فلم انڈسٹری کے کامیاب فنکاروں میں ہونے لگا۔ ان کے سامنے فلموں کی لائن لگ گئی۔ ہر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر انہیں اپنی فلم میں کاسٹ کرنا چاہتا تھا۔

ان کی اہم فلموں میں آدمی، گمراہ، سٹریٹ77، ایاز، ثریا، مہتاب، محبوب، کالاپانی، ایاز، ماں کے آنسو، اولاد، غزالہ، وقت، دیوداس، سازش، جمیلہ، شکریہ، آخری داؤ، مے خانہ، دیوانہ، آشیانہ، بادل، ماں کا پیار، زندہ لاش، معجزہ، کالے لوگ، پھول اور کانٹے، فریب، چھوٹی سی دنیا اور پردیس شامل ہیں۔ حبیب کو دراز قد اور مردانہ وجاہت کے باعث پنجابی فلموں میں بھی کاسٹ کیا جانے لگا۔ انہوں نے پنجابی فلموں میں بھی اپنی منفرد اداکاری کے ذریعے فلم بینوں کے ساتھ فلمی ناقدین سے بھی داد پائی۔


ان فلموں میں موج میلہ، بابل دا ویہڑہ، میلہ دودن دا، لنگوٹیا، بازی جت لئی، رنگوجٹ، اَت خدا دا ویر، پیار نہ منے ہار، چن چودھویں دا، ٹیکسی ڈرائیور، خلیفہ، دومٹیاراں، مکھڑا چن ورگا، دولت تے غیرت، بالا گجر، خوشیا، ہتھکڑی، چن ویر، دو پتر اناراں دے، وارنٹ اور چن شیر قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے اردو اور پنجابی کی 600 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

انہوں نے دو سندھی فلمیں ''باغی '' اور ''اللہ بچایو'' پروڈیوس اور ڈائریکٹ بھی کیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو اردو فلمیں ''ہار گیا انسان '' اور ''پردیس'' بھی پروڈیوس کیں مگر یہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکیں۔ انہوں نے ایک پشتو فلم ''تباہی'' میں بھی کام کیا۔ان کی آخری فلم ''ٹیچر'' سال 2015ء میں ریلیز ہوئی۔ فلموں کے ساتھ انہوں نے بہت سے ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا۔ پی ٹی وی لاہور مرکز کی مقبول سیریل ''راہیں'' میں انہوں نے اہم کردار کیا تھا۔ حبیب دو قومی نظریے کے زبردست حامی تھے۔

انہوں نے ہمیشہ بھارتی فلموں اور ثقافت کی مخالفت کی جس پر وہ آخری دم تک قائم رہے۔ فلم انڈسٹری کی حالت کو دیکھ کر افسردہ ہو جاتے مگر نئے فلم میکرز کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل اگر اسی محنت اور ہوم ورک کے ساتھ کام کرتی رہی تو انشاء اللہ ہماری فلم انڈسٹری دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی۔ انہوں نے اداکارہ نغمہ سے دوسری شادی کی جو زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی لیکن ان سے ان کی ایک بیٹی بھی ہے جو آسڑیلیا میں شادی شدہ زندگی گزار رہی ہے۔

وہ پچھلے کچھ عرصہ سے مختلف بیماریوں کا شکار تھے۔ انہیں برین ہیمبرج ہوا تھا جس پر انہیں فوری ہسپتال لے جایا گیا جہاں چند روز زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد 25فروری کو 78برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی نماز جنازہ میں فلم انڈسٹری نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور کئی برسوں تک پردہ سکرین پر راج کرنے والے ورسٹائل فنکار کے آخری سفر میں ساتھ دینے کے لئے ہدایتکار سیدنور، گلوکار شوکت علی، محسن شوکت علی، ہدایتکار الطاف حسین، انور رفیع، فلمساز غفور بٹ، سرور بھٹی، شوکت جاوید، اچھی خان، اختر شاد اور جاوید رضا کے علاوہ کوئی نہ آیا۔ حبیب مرحوم کے پسماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔

فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے سینئر افراد نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے جن میں مصطفی قریشی، ندیم بیگ، غلام محی الدین، بہار بیگم، شاہدہ منی، نشو، شاہد، مدیحہ شاہ، میرا، لیلیٰ، عرفان کھوسٹ، راشد محمود، شفقت چیمہ، سیدنور، چوہدری اعجازکامران، سید فیصل بخاری، حسن عسکری، پرویزرانا، مسعود بٹ، شہزاد رفیق، پرویز کلیم سمیت دیگر نے گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حبیب فن اداکا ری کا ایک سنہرا باب ہیں جس کی روشنی سے اداکاری میں نئے آنے والے مستفید ہوتے رہیں گے۔

مرحوم نے فلم ہو یا ٹی وی ہر کردار کو اپنی پرفارمنس کے ذریعے یادگار بنا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا اپنے لیجنڈز اور ہیروز کو معاشرے میں اعلی مقام دیتی ہے مگر ہمارے ہاں وہ گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں، ہمیں اپنی اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ حبیب کی فلم انڈسٹری کے لئے فنی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
Load Next Story