غیرمتوازن غذا کے انسانی صحت پر مہلک اثرات
لحمیات، نشاستہ، چکنائی، نمکیات اور حیاتیات کا متوازن حصول ہی اچھی صحت کی ضمانت ہے
انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھنے والی خوراک کے بغیر زندگی کی بقاء کا تصور نا ممکن ہے۔ خوراک کئی اجزاء پر مشتمل ہے، جن میں لحمیات، نشاستہ، چکنائی، نمکیات اور حیاتیات شامل ہیں۔
خوراک کے یہ تمام اجزائے ترکیبی صحت مند اور متوازن زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ اور غیر متوازن خوراک سے مراد کسی ایک یا ایک سے زیادہ اجزائے خوراک کی کمی یا زیادتی ہے۔ خوراک کے تمام اجزائے ترکیبی انسانی جسم کے اندر ایک مخصوص کام سرانجام دیتے ہیں، مثال کے طورپر لحمیات کا کام انسانی جسم کی بڑھوتری اور نشوونما کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بچپن اور لڑکپن کے دنوں میں ہمیں لحمیات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ نشاستہ، لحمیات اور چکنائی کاکام انسانی زندگی کے روزمرہ کاموں کے لیے توانائی مہیاکرنا بھی ہے۔
ایسی خوراک جن میں لحمیات، نشاستہ اور چکنائی موجود نہ ہوں ہمیں کسی قسم کی توانائی مہیا نہیں کرتی، جس کی ایک مثال پانی ہے۔ لحمیات سے بھرپور غذاؤں میںگوشت، مچھلی اور دالیں وغیرہ شامل ہیں، نشاستہ سے بھر پور غذاؤں میں سبزیاں اورپھل شامل ہیں جبکہ چکنائی سے بھر پور خوراک میں تلی ہوئی اشیاء پیزہ اور برگر وغیرہ شامل ہیں۔ نشاستہ، لحمیات اور چکنائی کے مقابلے میں نمکیات اور حیاتیات بہت کم مقدار میں انسانی صحت کے لیے ضروری ہیں۔
نمکیات اور حیاتیات ہمیں کوئی توانائی تو مہیا نہیں کرتی ہیں، لیکن ان کی موجودگی ہمارے جسم کے اندر جاری مختلف عوامل کے لیے ضروری ہے اور کمی کی صورت میں ہمار ا جسم ان سے منسوب کام سرانجام نہیں دے پاتا۔ انسانی جسم میں لحمیات کی کمی سے وزن اور قد کے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے اور اس قسم کے بچے پاکستان کے قحط زدہ اور پسماندہ علاقوں میں بکثرت نظر آتے ہیں۔ نشاستہ سے بھر پور غذا ہمارے بہتر نظام انہظام کے لیے ضروری ہے جبکہ چکنائی ہمیں لحمیات اور نشاستہ کے مقابلے میں دو گنا توانائی مہیا کرتی ہے۔
نمکیات کی مختلف اقسام ہوتی ہیں مثلاً کیلشیم ، آئرن، زنک وغیرہ، کیلشیم کے کمی سے ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں ، آئرن کی کمی سے خون بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے، جبکہ زنک کی موجودگی 2سو سے زائد خامروں کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ حیاتیا ت کی مختلف قسمیں ہیں مثلاً حیاتین اے، بی، سی، ڈی وغیرہ اور یہ خوراک کے اندر موجود پانی اور چکنائی میں پائے جاتے ہیں۔ حیاتین اے کی کمی سے رات کے وقت نظر نہیں آتا، حیاتین ڈی کی کمی سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں جبکہ حیاتین کے (K) خون کے جمنے کے عمل کیلئے ضروری ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق حیاتین ڈی کی کمی کو کینسر کے ہونے کا ایک بڑا ذریعہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
قدرت نے ہر ایک شے کو اعتدال میں رکھا ہے۔ جہاں خوراک کے اجزائے ترکیبی کی کمی ہمارے جسم میں مختلف بیماریوں کا باعث ہے، وہاں ان کا ایک حد مقررہ سے تجاوز بھی ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ چکنائی کی زیادتی موٹاپے کا سبب ہے، جس کو بیماریوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے، جن میں سرفہرست دل کی بیماریاں ہیں۔ معدنیات کی زیادتی جگر اور گردوں کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے جبکہ حیاتیات کی زیادتی بھی مختلف پیچیدگیوں کا باعث ہے، مثلاحیاتین اے کی زیادتی سر درد ، قے کا آنا، جلد کی خرابی اور بھوک نہ لگنے کا سبب بنتی ہے، اسی طرح حیاتین ڈی کی زیادتی ہیضہ، وزن کا کم ہونا اور گردوں کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔
غذائیت سے بھر پور زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ متوازن غذا کا استعمال کیا جائے۔ متوازن غذا سے مراد ہے کہ ہم ایک ہی طرح کی خوراک کے متواتر استعمال سے پرہیز کریں۔ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف اقسام کے پھل ، سبزیاں ، گوشت ، مچھلی، دالیں ، دودھ وغیرہ کا باقاعدگی سے استعمال کریں۔
ایک ہی طرح کی خوراک کے متواتر استعمال سے ہمیں صرف ایک ہی طرح کے غذائی اجزاء ملتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے اندر کچھ اہم غذائی اجزا ء کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ متوازن غذا کے پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین خوراک اور طب کے شعبہ سے منسلک افراد مختلف قسم کے غذائی چارٹ بنا کر دیتے ہیں، جن پر عمل کرنے سے ہم ایک متوازن زندگی گزار سکتے ہیں۔ دلچسپ عمل یہ ہے کہ دورانِ زچگی ، دوران حمل یا مختلف بیماریوں کا شکار لوگوں کے لیے بھی مختلف طرح کے غذائی چارٹ موجود ہے، ان غذائی چارٹس پر باقاعدہ عمل کے نتیجے میں مختلف بیماریوں پر زیادہ بہتر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
زراعت کے میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں آج انسانی زندگی کی بقاء کے لیے وافرمقدار میں خوراک موجود ہے جبکہ اس کے برعکس 1960ء تک خوراک کی کمی اور قحط جیسے مسائل پوری دنیا میں عام تھے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس خوراک کی تمام انسانوں میں مساوی تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ محتاط اندازو ں کے مطابق دنیا میں1.2بلین سے زیادہ لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جن میں سے90 فیصد سے زائد لوگ ایشیاء اور افریقہ میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
زیر نظر تحریر عالمی سطح پر غذائیت کی کمی اور اس سے متعلق بیماریوںکے پھیلاؤ کا مکمل احاطہ کئے ہوئے ہے، مثلاً ترقی یافتہ ممالک میں 0.034 بلین جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 0.8 بلین لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 2 بلین لوگ بنیادی غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں، جن میں آئرن ، آیوڈین اور وٹامن اے سرفہرست ہیں۔
ایسے اجزاء جن کی انسانی جسم کو انتہائی کم مقدارمیں ضرورت ہوتی ہے ( مائیکرو نیوٹرینٹ ) اور جن کی انسانی جسم میں کمی عام ہے، ان میں آئرن سب سے زیادہ اہم ہے۔ دنیا کے 1.5بلین سے زیادہ لوگ آئرن اور اس کی وجہ سے ہونے والی خون کی کمی کا شکار ہیں اور ان میں حاملہ خواتین سرفہرست ہیں۔160 ملین سے زیادہ چھوٹے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ تقریباً ایک بلین لوگ دنیا میں آیوڈین کی کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے 0.22ملین لوگ گلہڑ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ دنیا میں تقریباً 13ملین بچے حیاتین اے کی کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے ہر سال 0.5ملین بچے مکمل یا جزوی طور پر اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں ۔
پاکستان میں شہروں اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کے غذا کے استعمال کا معیار مختلف ہے۔ گاؤں کے لوگ زیادہ تر سبزیاں ، پھل ، دودھ اور مکھن پر گزارا کرتے ہیں جبکہ شہر کے لو گ تیار شدہ گوشت، دالیں، پھل اور سبزیاں زیادہ کھاتے ہیں ۔غربت اور خوراک سے متعلق معلومات نہ ہونے کے باعث پاکستا ن کے شہری اور دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ خوراک کے مختلف اجزاء کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کے لوگوں میں جن بنیادی اجزائے خوراک کی زیادہ کمی ہے۔
ان میں آئرن ،حیاتین اے، حیاتین ڈی، زنک اور آئیوڈین سرفہرست ہیں، پاکستان میں 2009-10ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے تقریباً 38 فی صد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے 12فیصد بچے وزن کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن میں گزشتہ کئی سال سے خوراک سے متعلق تحقیقی کام کیا جا رہا ہے ۔
حیاتین ڈی کی مقدار پر ہونے والی ریسرچ میں دیکھا گیا کہ خواتین کے اندر حیاتین ڈی کی کافی کمی ہے بالخصوص پردہ کرنے والی خواتین میں زیادہ کمی کا مشاہدہ کیا گیا، جس کی وجہ ان خواتین پر سورج کی روشنی کا کم پڑنا ہے۔ آئرن سے متعلق ریسرچ میں 70 فی صد خواتین میں آئرن کی کمی کا مشاہدہ کیا گیا۔ انار کے چھلکے پر ہونے والی ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ انار کے چھلکے کے اندر مضر صحت جراثیم کو ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سیاہ رنگ کی گاجر کے اندر بھی کینسر سے بچانے والے مادوں کی خاصی مقدار پائی گئی ہے۔ جدید تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے ناقابل استعمال حصے اور انار کے چھلکے کے اندر موجود کیمیائی اجزاء دل کے متعدد امراض ، کینسر ، الرجی ، ذیابیطس اور دیگر متعدی امراض سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالیہ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ان سود مند عناصر کا خوراک میں استعمال اس کی کوالٹی کو بہتر کرنے کے علاوہ اس کی غذائی صلاحیت کو بڑھانے میں بھی مددگا ر ہوتا ہے۔
( مصنف شعبہ فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اِن کا شمار اعلیٰ پایہ کے ماہرین خوراک میں کیا جاتا ہے، خوراک سے متعلق ان کے 60 سے زائد تحقیقی مکالمے ملکی اور غیر ملکی سطح پر شائع ہو چکے ہیں۔آپ اس موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔)
خوراک کے یہ تمام اجزائے ترکیبی صحت مند اور متوازن زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ اور غیر متوازن خوراک سے مراد کسی ایک یا ایک سے زیادہ اجزائے خوراک کی کمی یا زیادتی ہے۔ خوراک کے تمام اجزائے ترکیبی انسانی جسم کے اندر ایک مخصوص کام سرانجام دیتے ہیں، مثال کے طورپر لحمیات کا کام انسانی جسم کی بڑھوتری اور نشوونما کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بچپن اور لڑکپن کے دنوں میں ہمیں لحمیات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ نشاستہ، لحمیات اور چکنائی کاکام انسانی زندگی کے روزمرہ کاموں کے لیے توانائی مہیاکرنا بھی ہے۔
ایسی خوراک جن میں لحمیات، نشاستہ اور چکنائی موجود نہ ہوں ہمیں کسی قسم کی توانائی مہیا نہیں کرتی، جس کی ایک مثال پانی ہے۔ لحمیات سے بھرپور غذاؤں میںگوشت، مچھلی اور دالیں وغیرہ شامل ہیں، نشاستہ سے بھر پور غذاؤں میں سبزیاں اورپھل شامل ہیں جبکہ چکنائی سے بھر پور خوراک میں تلی ہوئی اشیاء پیزہ اور برگر وغیرہ شامل ہیں۔ نشاستہ، لحمیات اور چکنائی کے مقابلے میں نمکیات اور حیاتیات بہت کم مقدار میں انسانی صحت کے لیے ضروری ہیں۔
نمکیات اور حیاتیات ہمیں کوئی توانائی تو مہیا نہیں کرتی ہیں، لیکن ان کی موجودگی ہمارے جسم کے اندر جاری مختلف عوامل کے لیے ضروری ہے اور کمی کی صورت میں ہمار ا جسم ان سے منسوب کام سرانجام نہیں دے پاتا۔ انسانی جسم میں لحمیات کی کمی سے وزن اور قد کے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے اور اس قسم کے بچے پاکستان کے قحط زدہ اور پسماندہ علاقوں میں بکثرت نظر آتے ہیں۔ نشاستہ سے بھر پور غذا ہمارے بہتر نظام انہظام کے لیے ضروری ہے جبکہ چکنائی ہمیں لحمیات اور نشاستہ کے مقابلے میں دو گنا توانائی مہیا کرتی ہے۔
نمکیات کی مختلف اقسام ہوتی ہیں مثلاً کیلشیم ، آئرن، زنک وغیرہ، کیلشیم کے کمی سے ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں ، آئرن کی کمی سے خون بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے، جبکہ زنک کی موجودگی 2سو سے زائد خامروں کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ حیاتیا ت کی مختلف قسمیں ہیں مثلاً حیاتین اے، بی، سی، ڈی وغیرہ اور یہ خوراک کے اندر موجود پانی اور چکنائی میں پائے جاتے ہیں۔ حیاتین اے کی کمی سے رات کے وقت نظر نہیں آتا، حیاتین ڈی کی کمی سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں جبکہ حیاتین کے (K) خون کے جمنے کے عمل کیلئے ضروری ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق حیاتین ڈی کی کمی کو کینسر کے ہونے کا ایک بڑا ذریعہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
قدرت نے ہر ایک شے کو اعتدال میں رکھا ہے۔ جہاں خوراک کے اجزائے ترکیبی کی کمی ہمارے جسم میں مختلف بیماریوں کا باعث ہے، وہاں ان کا ایک حد مقررہ سے تجاوز بھی ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ چکنائی کی زیادتی موٹاپے کا سبب ہے، جس کو بیماریوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے، جن میں سرفہرست دل کی بیماریاں ہیں۔ معدنیات کی زیادتی جگر اور گردوں کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے جبکہ حیاتیات کی زیادتی بھی مختلف پیچیدگیوں کا باعث ہے، مثلاحیاتین اے کی زیادتی سر درد ، قے کا آنا، جلد کی خرابی اور بھوک نہ لگنے کا سبب بنتی ہے، اسی طرح حیاتین ڈی کی زیادتی ہیضہ، وزن کا کم ہونا اور گردوں کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔
غذائیت سے بھر پور زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ متوازن غذا کا استعمال کیا جائے۔ متوازن غذا سے مراد ہے کہ ہم ایک ہی طرح کی خوراک کے متواتر استعمال سے پرہیز کریں۔ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف اقسام کے پھل ، سبزیاں ، گوشت ، مچھلی، دالیں ، دودھ وغیرہ کا باقاعدگی سے استعمال کریں۔
ایک ہی طرح کی خوراک کے متواتر استعمال سے ہمیں صرف ایک ہی طرح کے غذائی اجزاء ملتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے اندر کچھ اہم غذائی اجزا ء کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ متوازن غذا کے پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین خوراک اور طب کے شعبہ سے منسلک افراد مختلف قسم کے غذائی چارٹ بنا کر دیتے ہیں، جن پر عمل کرنے سے ہم ایک متوازن زندگی گزار سکتے ہیں۔ دلچسپ عمل یہ ہے کہ دورانِ زچگی ، دوران حمل یا مختلف بیماریوں کا شکار لوگوں کے لیے بھی مختلف طرح کے غذائی چارٹ موجود ہے، ان غذائی چارٹس پر باقاعدہ عمل کے نتیجے میں مختلف بیماریوں پر زیادہ بہتر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
زراعت کے میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں آج انسانی زندگی کی بقاء کے لیے وافرمقدار میں خوراک موجود ہے جبکہ اس کے برعکس 1960ء تک خوراک کی کمی اور قحط جیسے مسائل پوری دنیا میں عام تھے۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس خوراک کی تمام انسانوں میں مساوی تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ محتاط اندازو ں کے مطابق دنیا میں1.2بلین سے زیادہ لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جن میں سے90 فیصد سے زائد لوگ ایشیاء اور افریقہ میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
زیر نظر تحریر عالمی سطح پر غذائیت کی کمی اور اس سے متعلق بیماریوںکے پھیلاؤ کا مکمل احاطہ کئے ہوئے ہے، مثلاً ترقی یافتہ ممالک میں 0.034 بلین جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 0.8 بلین لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 2 بلین لوگ بنیادی غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں، جن میں آئرن ، آیوڈین اور وٹامن اے سرفہرست ہیں۔
ایسے اجزاء جن کی انسانی جسم کو انتہائی کم مقدارمیں ضرورت ہوتی ہے ( مائیکرو نیوٹرینٹ ) اور جن کی انسانی جسم میں کمی عام ہے، ان میں آئرن سب سے زیادہ اہم ہے۔ دنیا کے 1.5بلین سے زیادہ لوگ آئرن اور اس کی وجہ سے ہونے والی خون کی کمی کا شکار ہیں اور ان میں حاملہ خواتین سرفہرست ہیں۔160 ملین سے زیادہ چھوٹے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ تقریباً ایک بلین لوگ دنیا میں آیوڈین کی کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے 0.22ملین لوگ گلہڑ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ دنیا میں تقریباً 13ملین بچے حیاتین اے کی کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے ہر سال 0.5ملین بچے مکمل یا جزوی طور پر اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں ۔
پاکستان میں شہروں اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کے غذا کے استعمال کا معیار مختلف ہے۔ گاؤں کے لوگ زیادہ تر سبزیاں ، پھل ، دودھ اور مکھن پر گزارا کرتے ہیں جبکہ شہر کے لو گ تیار شدہ گوشت، دالیں، پھل اور سبزیاں زیادہ کھاتے ہیں ۔غربت اور خوراک سے متعلق معلومات نہ ہونے کے باعث پاکستا ن کے شہری اور دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ خوراک کے مختلف اجزاء کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کے لوگوں میں جن بنیادی اجزائے خوراک کی زیادہ کمی ہے۔
ان میں آئرن ،حیاتین اے، حیاتین ڈی، زنک اور آئیوڈین سرفہرست ہیں، پاکستان میں 2009-10ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے تقریباً 38 فی صد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے 12فیصد بچے وزن کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن میں گزشتہ کئی سال سے خوراک سے متعلق تحقیقی کام کیا جا رہا ہے ۔
حیاتین ڈی کی مقدار پر ہونے والی ریسرچ میں دیکھا گیا کہ خواتین کے اندر حیاتین ڈی کی کافی کمی ہے بالخصوص پردہ کرنے والی خواتین میں زیادہ کمی کا مشاہدہ کیا گیا، جس کی وجہ ان خواتین پر سورج کی روشنی کا کم پڑنا ہے۔ آئرن سے متعلق ریسرچ میں 70 فی صد خواتین میں آئرن کی کمی کا مشاہدہ کیا گیا۔ انار کے چھلکے پر ہونے والی ریسرچ سے یہ معلوم ہوا کہ انار کے چھلکے کے اندر مضر صحت جراثیم کو ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سیاہ رنگ کی گاجر کے اندر بھی کینسر سے بچانے والے مادوں کی خاصی مقدار پائی گئی ہے۔ جدید تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے ناقابل استعمال حصے اور انار کے چھلکے کے اندر موجود کیمیائی اجزاء دل کے متعدد امراض ، کینسر ، الرجی ، ذیابیطس اور دیگر متعدی امراض سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالیہ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ان سود مند عناصر کا خوراک میں استعمال اس کی کوالٹی کو بہتر کرنے کے علاوہ اس کی غذائی صلاحیت کو بڑھانے میں بھی مددگا ر ہوتا ہے۔
( مصنف شعبہ فوڈ سائنس اینڈ نیوٹریشن بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اِن کا شمار اعلیٰ پایہ کے ماہرین خوراک میں کیا جاتا ہے، خوراک سے متعلق ان کے 60 سے زائد تحقیقی مکالمے ملکی اور غیر ملکی سطح پر شائع ہو چکے ہیں۔آپ اس موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔)