بادشاہ زندہ باد
اوباما بادشاہ چلا جاتا تو رومنی بادشاہ آ جاتا اور بادشاہ تو بادشاہ ہے۔
باراک اوباما دوسری بار امریکا کے صدر منتخب ہو گئے۔
انھوں نے منتخب ہونے کے بعد قوم سے خطاب بھی کر لیا۔ میں دانشور ہوتا تو ان کے خطاب کا تفصیل کے ساتھ تجزیہ کرتا، اس کی پرتیں کھولتا، یہ بتاتا کہ کونسے فقرے کا اصل میں کیا مطلب ہے، خارجہ پالیسی کی کیا باریکیاں ہیں جو اوباما نے واضح کی ہیں اور ان کے اصل ارادے کیا ہیں جن کو وہ چھپا گئے ہیں۔ باخبر صحافی ہوتا تو بتاتا کہ کس ریاست میں کیا عوامل تھے جن کی بنا پر اوباما پھر جیت گئے اور خاص طور پر فلوریڈا میں کیا ہوا جو ری پبلکن پارٹی کا روایتی گڑھ تھا، وہاں سے اوباما کو اکثریت کیوں ملی؟ ماہر سماجیات یا تاریخ دان ہوتا تو اس بات پر غور کرتا کہ آخر اکثریتی سفید فاموں کی نسل پرستی کو کیا ہوا، کیا وہ اتنے روا دار ہو گئے ہیں کہ ان کی نظر میں کالے گورے کی تمیز بالکل مٹ گئی ہے۔
لیکن اتفاق سے میں دانشور ہوں نہ عالمی امور بالخصوص امریکی امور پر اتنی گہری نظر رکھتا ہوں کہ باخبر صحافی ہونے کا دعویٰ کر سکوں، میں تاریخ دان یا ماہر سماجیات بالکل نہیں ہوں۔ امریکی انتخابات پر میرے تبصرے اور عام آدمی کے تبصرے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لیے میری اس تحریر کو آپ عام آدمی کا تبصرہ سمجھئے۔ اخبارات میں خاص آدمیوں کے تبصرے تو چھپتے ہی رہتے ہیں، عام آدمی کی کیا سوچ ہے، اسے بھی چھپنا چاہیے۔ عام آدمی کی سوچ انگریزی محاورے کے مطابق ہے کہ بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد۔ ساری دنیا پر امریکا کی حکومت ہے، اس کا بادشاہ بدلنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ایک بادشاہ جاتا ہے، دوسرا ویسا ہی آ جاتا ہے اور اس الیکشن میں تو وہی پچھلے والا بادشاہ آ گیا۔ اس لیے اس الیکشن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بدل جاتا تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یعنی اوباما بادشاہ چلا جاتا تو رومنی بادشاہ آ جاتا اور بادشاہ تو بادشاہ ہے۔ رعایا کے ساتھ نیا بادشاہ بھی وہی کچھ کرتا ہے جو پرانا کرتا تھا۔ رعایا کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں، جیسے مغل بادشاہوں کے زمانے میں ہوتی تھیں۔ مثلاً ٹھاکر، نواب وغیرہ اونچی قسم کی رعایا ہوتے تھے۔ چھوٹے موٹے چوہدری دوسرے درجے میں آتے اور کھیت مزدوری کرنے والے تیسرے درجے میں۔ پاکستان دوسرے درجے میں آتا ہے یا تیسرے درجے میں، قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ویسے میرا خیال ہے کہ پاکستان دوسری اور تیسری دونوں قسموں میں آتا ہے۔ ضرورت کے حوالے سے یہ اس لیے دوسرے درجے میں ہے کہ پوری محنت مزدوری نہ کرے تو افغانستان وغیرہ میں بادشاہت کا سکہ پوری طرح نہیں چل سکتا۔ تیسرے درجے میں اس لیے آتا ہے کہ اس کے ساتھ سلوک وہی تیسرے درجے والا ہوتا ہے۔ ایسے کاشتکار کا تصور کیجیے جس کے تن پر کپڑا نہیں ہے اور وہ بیل کی جگہ ہل میں جتا ہوا ہے اور اس کے سر پر ایک موٹا تازہ کوڑا بردار سوار ہے، جہاں اس ننگے بدن کھیت مزدور کی چال میں سستی آئی، کوڑا بردار کا کوڑا حرکت میں آتا ہے اور جسم پر ایک اور نیلا نشان ڈال جاتا ہے۔
بش بادشاہ تھا تو اس نے پاکستان کے جسم پر خوب نیل سجائے۔ اوباما بادشاہ آیا تو بھی نیل اسی طرح پڑتے رہے، اب اوباما بادشاہ دوسری بار آ گیا ہے تو کیا نیل کم ہو جائیں گے۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ کم ہو جائیں گے۔ امریکا نے پاکستان کی امداد کو دہشت گردی کی جنگ کے مثبت نتائج سے اس طرح سے مشروط کر رکھا ہے کہ جب چاہے بند کر دے، جب چاہے تھوڑ ی سی دے دے اور ترسا ترسا کر دے۔ پاکستان کی معیشت کچھ اس کی چالاکیوں اور زور دستیوں اور کچھ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اس کے پنجے میں کچھ ایسے جکڑی گئی ہے کہ یہ غریب کاشتکار بھاگ کر کسی دوسرے ظالم جاگیردار کی چاکری بھی نہیںکر سکتا، ناچار اسی کی چاکری کرتا ہے اور کوڑے کھائے جا رہا ہے۔ معاشی جکڑ بندیوں کا کوڑا کیا کم تھا کہ کسر پوری کرنے کیلیے ڈرون حملے آ گئے۔ ڈرون حملے صرف لوگوں ہی کو نہیں مارتے، اس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں اور پورے ملک کو ان کا درد سہنا پڑتا ہے، جگ ہنسائی الگ۔ پاکستان کے علاوہ امریکا صرف دو ملکوں پر ڈرون حملے کر رہا ہے یعنی یمن اور صومالیہ پر۔
یہ دونوں ملک عالمی برادری کی فہرست میں سب سے آخری درجے والے ملکوں میں شامل ہوتے ہیں۔ امریکا نے ڈرون حملے کر کے ہمیں ان دو ملکوں میں شامل کر دیا ہے۔ یعنی دنیا میں کل تین ملک ایسے ہیں جنہیں آخری درجے پر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اوباما کے دوسری بار بادشاہ بننے کے بعد بھی ہمارا یہ اعزاز قائم رہے گا اور ہم ان ڈرون حملوں پر ویسا ہی پر زور احتجاج کرتے رہیں گے جیسا ذبح ہونے والی بکری گردن پر چھری پھرتے وقت کرتی ہے۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ بکری کی یہ چیخ بہت زور دار ہوتی ہے۔ اوباما کے پھر سے بادشاہ ہونے کے بعد بھی ہماری یہ زور دار چیخیں جاری رہیں گی۔
یہ تو پاکستان کا ماجرا ہے۔ پاکستان سے باہر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہی ایران اور اس کا ایٹمی پروگرام ہو گا اور امریکا اور اسرائیل کی حملہ کرنے کی وہی دھمکیاں ۔ وہی مشرق وسطیٰ اور وہی امریکی بحری بیڑے، وہی چین کی ابھرتی معیشت اور وہی امریکا کی طرف سے آنے والی رکاوٹیں۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سب کچھ ویسا ہی رہے گا اور صدر اوباما کی تقریر کے اندر کچھ چھپا ہے تو اُسے ڈھونڈنے کیلیے بڑی محنت کی ضرورت ہے جو میرے بس کا روگ نہیں۔