جدید ٹیکنالوجی کی حامل گامانائف مشین سے کینسر اور مرگی کا علاج آسان ہوگا
جدید مشین گامانائف اور پیٹ سی ٹی کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ماہرین کا اظہار خیال
٭ دنیا کے ہر ملک کی طرح ہمارے ملک میں بھی عوام کی سب سے اہم ضرورت بنیادی سہولتوں تک رسائی ہے۔ جہاں تعلیم ہر بچے کا حق ہے اور اُسے ملنا چاہیے، وہاں اشیائے ضروریہ تک بھی عام آدمی کی رسائی وقت کی ضرورت ہے، صاف پانی، بہتر ماحول زندگی، آمدنی کے مطابق کھانے پینے کی چیزوں کی دستیابی سب ایک خواب بھی ہیں اور ضرورت بھی، حکومت اس سلسلے میں اپنا کام کررہی ہے اور کرنا بھی چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی صحت بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ہر عام آدمی تک صحت کی بنیادی سہولتیں پہنچیں، ہر جگہ ڈاکٹرہوں، طبی عملہ موجود ہو، دوائیں دستیاب ہوں اور مہلک ترین امراض کے علاج کے لیے بھی کسی کو ٹھوکریں نہ کھانا پڑیں۔
کراچی میں کچھ سال قبلطبی شعبے کی معروف شخصیت پروفیسر ستار ہاشم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل رک انتہائی جدید ٹیکنالوجی کی حامل گامانائف مشین نیورو اسپائنل میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں لگائی، اس جدید مشین کے ذریعے کینسر جیسے مہلک مرض کا علاج بھی اس طرح کیا جاتا ہے کہ ریڈی ایشن سے مریض کا دوسرا حصہ متاثر نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بھی پروفیسر ستار ہاشم اور ان کی ٹیم کے ارکان ایم ہاشم میموریل ٹرسٹ کے تحت کام کررہا ہے۔ یہ ٹرسٹ کیسے کام کرتا ہے؟، گامانائف مشین کی ہمارے ملک میں کیا اہمیت ہے؟، اس کے ذریعے علاج میں کتنے اخراجات ہوتے ہیں؟، ایسے ہی بہت سے سوالات کے جواب جاننے کیلیے ہم نے کراچی میں پروفیسر ستار ہاشما ور ان کی ٹیم سے ''ایکسپریس فورم '' میں گفتگو کی جو نذرقارئین ہے۔
٭ پروفیسر ستار ہاشم ۰سابق سربراہ نیورو سرجری جناح اسپتال)
نیورو اسپائنل میڈیکل انسٹی ٹیوٹ 1995 میں قائم کیاگیا، یہاں نیورو سرجری ، ریڑھ کی ہڈی کے مہروں ،سروائیکل سمیت دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار2008 میں ہم نے اپنے انسٹی ٹیوٹ میں اسٹیرویوٹیکٹک ریڈی ایشن تھراپی(محفوظ شعاعوں سے علاج) کو متعارف کرایا۔ محفوظ ریڈی ایشن (شعاعیں) جدید مشینوںکے ذریعے دے کر دماغی ٹیومرکاکامیاب علاج ممکن ہوگیا جبکہ پہلی بار مرگی کا علاج بھی گامانائف مشین سے کیاگیا جو کامیاب رہا، نیورواسپائنل انسٹی ٹیوٹ میں دنیا کی جدیدترین گامانائف اورسینر جی ایس میشنوں کے ذریعے ریڈیوسرجری پاکستان میں متعارف کرادی گئی ہے۔
دنیا میں مختلف جدید ٹیکنالوجی کویکجا کرکے پیٹ سی ٹی مشین کے ذریعے کینسرکے ابتدائی اسٹیج کا بھی معلوم کیا جاسکتا ہے اس مشین کے ذریعے کینسر اور جسم میں اس کے روٹس یا ٹیومرکا بھی معلوم کیاجاتا ہے جس کے بعدگامانائف اور دیگر جدید مشینوںکے ذریعے محفوظ ریڈی ایشن دیکر ٹیومرکوختم کیا جاسکتا ہے، اسٹرویوٹیکٹک ریڈیوسرجری ماہرین ریڈی ایشن انکالوجسٹ ڈاکٹر اظہر رشیدکی نگرانی میں دی جاتی ہے جس میں مریض کوبے ہوش کیے بغیر ریڈی ایشن دی جاتی ہیں،گامانائف مشین کے ذریعے3 ملی میٹر تک کے ٹیومرکومخصوص جدید مشین سے محفوظ ریڈی ایشن دی جاتی ہیں جس سے ٹیومرختم ہوجاتا ہے۔
سینرجی ایس مشین سے ریڈی ایشن5سے10منٹ کا ایک سیشن ہوتا ہے جو مجموعی طورپرکمپیوٹرائزڈ ہوتا ہے، ریڈیوتھراپسٹ ماہرین ریڈی ایشن کوکنٹرول کرتے ہیں، دی جانے والی ریڈی ایشن دوسری جانب سے باہر نکلتی رہتی ہے، ریڈی ایشن جسم میں جمع نہیں ہوتی ، این ایم آئی میں فوکس ریڈی ایشن دی جاتی ہیں جس سے کم سے کم مضر اثرات ہوتے ہٰن، دماغ میں ٹیومرکی وجہ سامنے نہیں آئی،کسی بھی وجہ سے ٹیومر بن سکتا ہے تاہم سر دردکے ساتھ قے کا ہونا ٹیومرکی علامات ہوتی ہیں مستقل سر درد، چکر کا آنا اور قے کا ہونا ان علامات میں تشخیص لازمی ہوجاتی ہے، بعض دماغی ٹیومر ٹشوز سے بھی بنتے رہتے ہیں۔
مرگی کا علاج بھی ان جدید مشینوں کے ذریعے ممکن بنادیاگیا ، مرگی کے دورے کی وجہ پیٹ سٹی PETCT مشین سے معلوم کی جاسکتی ہے ، دوا سے دورے نہ روکنے کی صورت میں گامانائف مشین کے ذریعے ٹارگٹ فوکس شعاعیں دی جاتی ہیں جومکمل محفوظ ہوتی ہیں ، پیٹ سٹی مشین سے سر،گردن،پھپھٹروں، آنتوں، غدود، خوراک کی نالی، بریسٹ سمیت دیگرجسم میں موجود کینسرکی فوری تشخیص کرلی جاتی ہے جبکہ اسٹریوٹیک ٹیکنالوجی کی مدد سے ریڈی ایشن دیکر علاج آسان بنادیاگیا ہے، مرگی کے مریض کو پیٹ سٹی مشین کے ذریعے دماغ کا وہ حصہ جس کی وجہ سے مرگی کے دورے پڑتے ہیں مکمل معلومات حاصل کرلی کاتی ہے مرگی کے مرض میں دماغ کا ایک حصہ غیر فعال ہونے کے بعد یہ دورے پڑتے ہیں۔
گامانائف مشین کے ذریعے اس غیر فعال حصے کوفوکس ریڈی ایشن کے ذریعے جزوی طورپر ناکارہ بنادیاجاتا ہے تاکہ مریض کو مزید دورے نہ پڑے۔اس طریقہ علاج میں2 نیوروسرجن2 ریڈی ایشن انکالوجسٹ بھی شامل ہوتے ہیں جو مریض کو مسلسل مانیٹرکرتے ہیں، انتہائی مہارت سے شعاعیں دی جاتی ہیں تاکہ دماغ کے دیگر حصے یا سیل متاثر نہ ہوں، پیٹ سٹی مشین سے قبل ازوقت کسی بھی مرض کی تشخیص کی جاسکتی ہے جبکہ دنیا کی جدیدترین گامانائف سے انتہائی محفوظ ریڈی ایشن دیکر کر مرگی کے علاج کو بھی ممکن بنادیاگیا، پیٹ سٹی مشین میں دوران تشخیص مریض کو بے ہوش کیے بغیر ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، ایک مخصوص جوہری دوا دی جاتی ہے جو جسم کے کسی بھی حصے میں موجود معمولی سے بھی کینسر کی نشاندہی کرتی ہے اس مشین سے بریسٹ میں موجود گلٹی کی بھی نشاندہی کرلی جاتی ہے جبکہ اس مشین سے کینسر کے مرض میں دی جانے والی کیموتھراپی کے موثر ہونے یا نہ ہونے کی بھی تصدیق کرلی جاتی ہے۔
ہارٹ اٹیک کے بعد دل کے پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں اس مشین سے یہ بھی معلوم کرلیاجاتا ہے ، مشین سے یہ تصدیق بھی کرلی جاتی ہے کہ مریض کا بائی پاس یا انجیوگرافی سے فائدہ ہوگا یا نہیں، پیٹ سٹی مشین سے دل میں موجود خون کی نالیوں میں خون کے بہاؤ کو جانچنے کیلیے بھی ٹیسٹ کیاجاتا ہے تاہم دی جانے والی جوہری دوا جسم میں کوئی منفی اثرات مرتب نہیں کرتی،مخصوص دوا جسم میں داخل ہوکر جسم میں موجود کسی بھی کینسریاکسی بھی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے ، بدقسمتی سے یہ مشین پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں موجود نہیں،دنیا میں یہ مشین 1970میں متعارف کرائی گئی تھی۔
ہماری ٹیم کے ممبران میں انکاکالوجسٹ ریڈی ایشن ماہر ڈاکٹر اظہر رشید اورنیوروسرجن ڈاکٹر عابد سمیت دیگر ماہرین اور ٹیکنالوجسٹ بھی شامل ہیں، تمام ڈاکٹرکوالیفائیڈ ہیں جبکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے کوآرڈی نیٹرز بھی ہیں، ہماری ٹیم کی مجموعی تعداد 7ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جدید ترین گامانائف اور سنرجی ایس مشینیں کے ذریعے انتہائی محفوظ علاج کیاجارہا ہے ان جدیدترین مشینوںکوبھی پیلی بار این ایم آئی میں نصب کیاگیا دونوں مشینیں اپنے اپنے لحاظ سے انتہائی جدید ترین مشینیں ہیں جن کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مریضوںکا علاج کیا جاتا ہے۔دماغ کے امراض کیلیے گامانائف مشین استعمال کی جاتی ہے جبکہ دماغ کے علاوہ پورے جسم میں موجود کسی بھی ٹیومرکا علاج بھی سنرجی ایس کے ذریعے ہوتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مریض کے جسم میں صرف اُسی جگہ ریڈی ایشن ریز(محفوظ شعاعیں) پہنچائی جاتی ہیں جہاں ٹیومرہوتا ہے، متاثرہ جگہ کے علاوہ باقی جسم کے حساس سیل ریڈی ایشن سے محفوظ رہتے ہیں۔اگر دماغی ٹیومرکے علاج کے لیے پورے دماغ کو ریڈی ایشن دی جائے تو اس میں دماغ کے متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔دماغ میں ٹیومر کو دی جانے والی ریڈی ایشن کوانتہائی محفوظ طریقے (فوکس ریڈی ایشن) دی جاتی ہیں ، یہ ریڈٰی ایشن انکالوجسٹ ریڈی ایشن کے ماہرین اور ٹیکنیشن کی نگرانی میں دی جاتی ہے ہمارے پاس پاکستانیوںکے علاوہ بیرون ممالک سے بھی مریض آتے ہیں جن کی مجموعی تعداد تمام ومریضوںکا 2.5 فیصد بنتی ہے۔ان میں افغانستان، ایران، دبئی، سعودی عرب، یمن کے باشندے شامل ہیں۔اس کے علاوہ ہم نے اپنے انسٹی ٹیوٹ میں لیبیا کے ایک مریض کا بھی علاج کیا ہے۔
ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں علاج کے اخراجات دنیا بھر میں سب سے کم ہیں، ہم نے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے اسپتالوں اورمریضوںکو جدید ترین مشینوں اور محفوظ ریڈٰ ایشن کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتیء جس کے بعد بیشتر ممالک سے مریض ہیں ہم سے رابطہ کرتے ہیں، پھر اُن کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔اس طرح پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ لانے میں بھی ادارہ اہم کردار ادا کررہا ہے پاکستان میں پہلی بار2008 میں گامانائف ٹیکنالوجی این ایم آئی نے متعارف کرائی گئی ۔ 2008 سے لیکر اب تک ہم تقریباً ساڑھے 3 ہزار مریضوں کا علاج کرچکے ہیں۔
ہمارے ملک میں پہلے یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی۔یہ بات غور طلب ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں موت کا بڑا سبب کینسر ہے۔گامانائف سے علاج کے دوران دماغ کے 3 سینٹی میٹرکے ٹیومر سے لیکر اس سے بڑے ٹیومرکا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ گامانائف سے ایک دن میں 4 سے 8 مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔سنرجی ایس کے ذریعے ایک دن میں 20 مریضوں کا بھی علاج ہوجاتا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کی مشین کو لانے اور اس کی تنصیب میں مجموعی طور پر ایک ارب روپے کی لاگت آتی ہے۔ مشین کی قیمت تقریباً15کروڑ ہے، پھر ریڈی ایشن کے اخراج کو روکنے کے لیے خصوصی بنکر بنوایاجاتا ہے جس پر اچھی خاصی لاگت آجاتی ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اپنے انسٹی ٹیوٹ میں آنے والے مریضوں سے کم سے کم پیسے لیے جائیں۔
ہمارا ادارہ چیریٹی کے تحت کام کررہا ہے جسے ہم نے کینسرکیئرانسٹیٹوٹ کا نام دیا ہے۔ ایم ہاشم میموریل ٹرسٹ کے تحت علاج کا سلسلہ جاری ہے۔ غریبوںاور مستحقین کے لیے زکوٰۃ فنڈکا بھی انتظام کیاگیا ہے، اس کے لیے ہمیں پاکستان بیت المال کی خدمات اور تعاون بھی حاصل ہے جس کے لیے ہم اُن کے شکرگزار ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ ہمارے پاس جو بھی مریض آئے وہ خالی واپس نہیں جائے۔بیرون شہر سے آنے والے مریضوںکو ہم رہائش کی بھی سہولت دیتے ہیں۔اس وقت جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل گاما نائف مشین صرف ہمارے پاس ہے اور پاکستان میں یہ واحد مشین ہے۔
٭ڈاکٹر اظہر رشید (ریڈی ایشن انکالوجسٹ)
گامانائف ٹیکنالوجی بہت جدید ہے۔ ریڈی ایشن کا اپنا طریقہ ہے ، علاج کے دوران کسی مریض کے جسم میں ایک جانب سے ریڈی ایشن کی شعاعیں داخل ہوتی ہیں جو دوسری جانب سے نکل جاتی ہیں۔ شعاعیں دینے کیلیے انتہائی محفوظ طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، جہاں شعاعیں دی جاتی ہیں ان کے لیے خصوصی بنکر بنائے جاتے ہیں ، دروازوں کے درمیان خصوصی جست کی چاردیں لگائی جاتی ہیں جبکہ کمروں کی دیواریں بھی خصوصی طورپر بنوائی جاتی ہیں تاکہ ریڈیائی شعاعیں کسی اور شخص کو متاثر نہ کریں اور کمرے سے باہر نہ جائیں، مریض کو آرام دہ مشین پرلٹا دیاجاتا ہے جبکہ ریڈی ایشن کنٹرول روم سے کمپیوٹرائزڈ مانیٹرکیاجاتا ہے، مریض کو مائیک دیاجاتا ہے، کنٹرول روم سے مریض سے بات چیت بھی کی جاتی ہے۔
گامانائف اور سنرجی ایس، دونوں جدید طریقہ علاج انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں۔ہم صرف ٹیومر کے اوپر ریڈی ایشن کی ریز(شعاعیں) لگاتے ہیں، (فوکس ٹارگیٹڈ شعاعیں ) تاکہ یہ شعاعیں جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر نہ کریں، شعاعیں انتہائی محفوظ طریقے سے صرف اسی جگہ پر لگائی جاتی ہین جہاں ضرورت ہوباقی جسم کے تمام حصے محفوظ رہتے ہیں۔ گامانائف مشین کہ شعاعیں متاثر حصے پر ہی دی جاتی ہیں، اس طریقہ علاج کے بعدکچھ نہ کچھ سائیڈ ایفیکٹس ضرور ہوتے ہیں لیکن اگر اس کا موازنہ پرانے طریقہ علاج سے کیا جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔اس میں سائیڈ ایفیکٹس پہلے کے مقابلے میں کم سے کم ہوتے ہیں۔مریض کو ریڈی ایشن دیتے وقت تمام ٹیکنالوجسٹ ماہرین ریڈی ایشن کی نگرانی میںکام کرتے ہیں، مخصوص لباس زیب تن کیاجاتا ہے، ریڈی ایشن کی مانیٹرنگ متعلقہ ادارہ بھی کرتا ہے کہ شعاعیں کمرے سے باہر تو نہیں نکل رہیں، اس سلسلے پاکستان اٹامک انرجی کے حکام معائنہ کرتے رہتے ہیں ۔
٭ ڈاکٹر عابد (نیوروسرجن)
دماغ میں جہاں بھی ٹیومر ہوتا ہے، ہم صرف اسی جگہ کو فوکس کرکے علاج کرتے ہیں، کوشش کی جاتی ہے کہ علاج سے دوسرے حصے متاثر نہ ہوں۔برین ٹیومر کی کچھ علامات ہیں جن میں صبح کے وقت سردرد سب سے اہم ہے۔مرگی کی مختلف اشکال بھی اس سے متعلق ہیں جبکہ سردرد کے ساتھ قے آنا بھی برین ٹیومرکی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔اس کے علاوہ فالج بھی ٹیومرکی ایک علامت ہے۔اب تک اس کی مکمل تشخیص نہیںکی جاسکی کہ کینسر ہوتا کیوں ہے؟ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔انسانی جسم میں موجود cells کا میکنزم خراب ہونے سے بھی یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔کچھ ٹیمر برین کے ٹشوزہی سے بنتے ہیں۔
میں آپ کوبتاؤں کہ ایک دو سال کے بچوںکو بھی ٹیومر ہوجاتا ہے، جس کی تشخیص کرلی جاتی ہے۔ ہم اپنے انسٹی ٹیوٹ میں جب کسی مریض کا علاج کرلیتے ہیں تو پھر بھی کئی سال اس سے رابطے میں رہتے ہیں تاکہ ہمیں پتہ چلتا رہے کہ اب اس کی حالت کیسی ہے، مرض نے کہیں دوبارہ جڑ تو نہیں پکڑلی۔PETCT کے ذریعے پورے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں یاکسی بیماری یا ٹیومرکا پتہ چل جاتا ہے، ٹیومرکسی بھی سائز کاہو ، پیٹ سی ٹی کے ذریعے اس کی نشاندہی فوری کرلی جاتی ہے ۔مختلف نوعیت کے مریضوںکے علاج کے لیے وقت بھی الگ الگ لگتا ہے، کسی کا علاج دوہفتوں میں ہوسکتا ہے توکسی کے علاج میں چار پانچ ہفتے لگ جاتے ہیں۔
پیٹ سی ٹی سے کیموتھراپی کے مفید اور موثر ہونے یا نہ ہونے کا بھی پتہ لگ جاتا ہے،اس کے علاوہ امراض قلب کے حوالے سے cardiac PETCT بھی ہوتا ہے، پیٹ سٹی سے دماغٰ امراض کی تشخیص بھی کی جاتی ہے ، دماغ کے کام میں کوئی روکاٹ یا تبدیلی کی بھی معلوم کیا جاسکتا ہے، اس مشین سے یادداشت کی خراچی اور الزائمر کی بیماری کی بھی فوری تشخیص میں مدد ملتی ہے، مرگی کے مریضوں میں علاج اوردماغی جراحی کی رہنمائی کیلیے ئی ٹیسٹ بہت مفید ہوتا ہے ،پیٹ سی ٹی اسکین غیر مضر اور انتہائی حساس اسکین کا طریقہ ہے جس کسی بھی بیماری کی درست تشخیص اور علاج میں مدد ملتی ہے۔
جوہری طریقہ سے بیماری کی تشخیص کرنے میں پیٹ سی ٹی سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے، اس ٹیسٹ کے ذریعے جراحی یا بائیوایپسی کے ذریعے بیماری کی تشخیص کرنے میں بھی رہنمائی کرتی ہے اس مشین سے تھائرائیڈ،، بڑی آنت کے کینسر میں مفید معلومات دیتی ہے، کینسر کے مریض میں علاج مکمل ہونے کے بعد اس ٹیسٹ کے ذریعے بیماری کے دوبارہ ظاہر ہونے کی بھی فوری تشخیص کی جاسکتی ہے، ایسے مریض جن کے دل کے پٹھے ہارٹ اٹیک کے بعد کمزور ہوجاتے ہیں ان کو چیک کرنے کیلیے کہ ان پٹھوں کو بائی پاس اور انجیوپلاسٹی سے فائدہ ہوگا یا نہیں، یہ ٹیسٹ ایک انتہائی مفید اور معیاری طریقہ اسکین ہے جبکہ بعض مریضوں میں دل میں موجودہ خون کی نالیوں میں خود کے بہاؤکو جانچنے کیلیے پیٹ سی ٹی بہترین ذریعہ تشخیص ہوتی ہے۔
کراچی میں کچھ سال قبلطبی شعبے کی معروف شخصیت پروفیسر ستار ہاشم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل رک انتہائی جدید ٹیکنالوجی کی حامل گامانائف مشین نیورو اسپائنل میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں لگائی، اس جدید مشین کے ذریعے کینسر جیسے مہلک مرض کا علاج بھی اس طرح کیا جاتا ہے کہ ریڈی ایشن سے مریض کا دوسرا حصہ متاثر نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بھی پروفیسر ستار ہاشم اور ان کی ٹیم کے ارکان ایم ہاشم میموریل ٹرسٹ کے تحت کام کررہا ہے۔ یہ ٹرسٹ کیسے کام کرتا ہے؟، گامانائف مشین کی ہمارے ملک میں کیا اہمیت ہے؟، اس کے ذریعے علاج میں کتنے اخراجات ہوتے ہیں؟، ایسے ہی بہت سے سوالات کے جواب جاننے کیلیے ہم نے کراچی میں پروفیسر ستار ہاشما ور ان کی ٹیم سے ''ایکسپریس فورم '' میں گفتگو کی جو نذرقارئین ہے۔
٭ پروفیسر ستار ہاشم ۰سابق سربراہ نیورو سرجری جناح اسپتال)
نیورو اسپائنل میڈیکل انسٹی ٹیوٹ 1995 میں قائم کیاگیا، یہاں نیورو سرجری ، ریڑھ کی ہڈی کے مہروں ،سروائیکل سمیت دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار2008 میں ہم نے اپنے انسٹی ٹیوٹ میں اسٹیرویوٹیکٹک ریڈی ایشن تھراپی(محفوظ شعاعوں سے علاج) کو متعارف کرایا۔ محفوظ ریڈی ایشن (شعاعیں) جدید مشینوںکے ذریعے دے کر دماغی ٹیومرکاکامیاب علاج ممکن ہوگیا جبکہ پہلی بار مرگی کا علاج بھی گامانائف مشین سے کیاگیا جو کامیاب رہا، نیورواسپائنل انسٹی ٹیوٹ میں دنیا کی جدیدترین گامانائف اورسینر جی ایس میشنوں کے ذریعے ریڈیوسرجری پاکستان میں متعارف کرادی گئی ہے۔
دنیا میں مختلف جدید ٹیکنالوجی کویکجا کرکے پیٹ سی ٹی مشین کے ذریعے کینسرکے ابتدائی اسٹیج کا بھی معلوم کیا جاسکتا ہے اس مشین کے ذریعے کینسر اور جسم میں اس کے روٹس یا ٹیومرکا بھی معلوم کیاجاتا ہے جس کے بعدگامانائف اور دیگر جدید مشینوںکے ذریعے محفوظ ریڈی ایشن دیکر ٹیومرکوختم کیا جاسکتا ہے، اسٹرویوٹیکٹک ریڈیوسرجری ماہرین ریڈی ایشن انکالوجسٹ ڈاکٹر اظہر رشیدکی نگرانی میں دی جاتی ہے جس میں مریض کوبے ہوش کیے بغیر ریڈی ایشن دی جاتی ہیں،گامانائف مشین کے ذریعے3 ملی میٹر تک کے ٹیومرکومخصوص جدید مشین سے محفوظ ریڈی ایشن دی جاتی ہیں جس سے ٹیومرختم ہوجاتا ہے۔
سینرجی ایس مشین سے ریڈی ایشن5سے10منٹ کا ایک سیشن ہوتا ہے جو مجموعی طورپرکمپیوٹرائزڈ ہوتا ہے، ریڈیوتھراپسٹ ماہرین ریڈی ایشن کوکنٹرول کرتے ہیں، دی جانے والی ریڈی ایشن دوسری جانب سے باہر نکلتی رہتی ہے، ریڈی ایشن جسم میں جمع نہیں ہوتی ، این ایم آئی میں فوکس ریڈی ایشن دی جاتی ہیں جس سے کم سے کم مضر اثرات ہوتے ہٰن، دماغ میں ٹیومرکی وجہ سامنے نہیں آئی،کسی بھی وجہ سے ٹیومر بن سکتا ہے تاہم سر دردکے ساتھ قے کا ہونا ٹیومرکی علامات ہوتی ہیں مستقل سر درد، چکر کا آنا اور قے کا ہونا ان علامات میں تشخیص لازمی ہوجاتی ہے، بعض دماغی ٹیومر ٹشوز سے بھی بنتے رہتے ہیں۔
مرگی کا علاج بھی ان جدید مشینوں کے ذریعے ممکن بنادیاگیا ، مرگی کے دورے کی وجہ پیٹ سٹی PETCT مشین سے معلوم کی جاسکتی ہے ، دوا سے دورے نہ روکنے کی صورت میں گامانائف مشین کے ذریعے ٹارگٹ فوکس شعاعیں دی جاتی ہیں جومکمل محفوظ ہوتی ہیں ، پیٹ سٹی مشین سے سر،گردن،پھپھٹروں، آنتوں، غدود، خوراک کی نالی، بریسٹ سمیت دیگرجسم میں موجود کینسرکی فوری تشخیص کرلی جاتی ہے جبکہ اسٹریوٹیک ٹیکنالوجی کی مدد سے ریڈی ایشن دیکر علاج آسان بنادیاگیا ہے، مرگی کے مریض کو پیٹ سٹی مشین کے ذریعے دماغ کا وہ حصہ جس کی وجہ سے مرگی کے دورے پڑتے ہیں مکمل معلومات حاصل کرلی کاتی ہے مرگی کے مرض میں دماغ کا ایک حصہ غیر فعال ہونے کے بعد یہ دورے پڑتے ہیں۔
گامانائف مشین کے ذریعے اس غیر فعال حصے کوفوکس ریڈی ایشن کے ذریعے جزوی طورپر ناکارہ بنادیاجاتا ہے تاکہ مریض کو مزید دورے نہ پڑے۔اس طریقہ علاج میں2 نیوروسرجن2 ریڈی ایشن انکالوجسٹ بھی شامل ہوتے ہیں جو مریض کو مسلسل مانیٹرکرتے ہیں، انتہائی مہارت سے شعاعیں دی جاتی ہیں تاکہ دماغ کے دیگر حصے یا سیل متاثر نہ ہوں، پیٹ سٹی مشین سے قبل ازوقت کسی بھی مرض کی تشخیص کی جاسکتی ہے جبکہ دنیا کی جدیدترین گامانائف سے انتہائی محفوظ ریڈی ایشن دیکر کر مرگی کے علاج کو بھی ممکن بنادیاگیا، پیٹ سٹی مشین میں دوران تشخیص مریض کو بے ہوش کیے بغیر ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، ایک مخصوص جوہری دوا دی جاتی ہے جو جسم کے کسی بھی حصے میں موجود معمولی سے بھی کینسر کی نشاندہی کرتی ہے اس مشین سے بریسٹ میں موجود گلٹی کی بھی نشاندہی کرلی جاتی ہے جبکہ اس مشین سے کینسر کے مرض میں دی جانے والی کیموتھراپی کے موثر ہونے یا نہ ہونے کی بھی تصدیق کرلی جاتی ہے۔
ہارٹ اٹیک کے بعد دل کے پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں اس مشین سے یہ بھی معلوم کرلیاجاتا ہے ، مشین سے یہ تصدیق بھی کرلی جاتی ہے کہ مریض کا بائی پاس یا انجیوگرافی سے فائدہ ہوگا یا نہیں، پیٹ سٹی مشین سے دل میں موجود خون کی نالیوں میں خون کے بہاؤ کو جانچنے کیلیے بھی ٹیسٹ کیاجاتا ہے تاہم دی جانے والی جوہری دوا جسم میں کوئی منفی اثرات مرتب نہیں کرتی،مخصوص دوا جسم میں داخل ہوکر جسم میں موجود کسی بھی کینسریاکسی بھی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے ، بدقسمتی سے یہ مشین پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں موجود نہیں،دنیا میں یہ مشین 1970میں متعارف کرائی گئی تھی۔
ہماری ٹیم کے ممبران میں انکاکالوجسٹ ریڈی ایشن ماہر ڈاکٹر اظہر رشید اورنیوروسرجن ڈاکٹر عابد سمیت دیگر ماہرین اور ٹیکنالوجسٹ بھی شامل ہیں، تمام ڈاکٹرکوالیفائیڈ ہیں جبکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے کوآرڈی نیٹرز بھی ہیں، ہماری ٹیم کی مجموعی تعداد 7ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جدید ترین گامانائف اور سنرجی ایس مشینیں کے ذریعے انتہائی محفوظ علاج کیاجارہا ہے ان جدیدترین مشینوںکوبھی پیلی بار این ایم آئی میں نصب کیاگیا دونوں مشینیں اپنے اپنے لحاظ سے انتہائی جدید ترین مشینیں ہیں جن کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مریضوںکا علاج کیا جاتا ہے۔دماغ کے امراض کیلیے گامانائف مشین استعمال کی جاتی ہے جبکہ دماغ کے علاوہ پورے جسم میں موجود کسی بھی ٹیومرکا علاج بھی سنرجی ایس کے ذریعے ہوتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مریض کے جسم میں صرف اُسی جگہ ریڈی ایشن ریز(محفوظ شعاعیں) پہنچائی جاتی ہیں جہاں ٹیومرہوتا ہے، متاثرہ جگہ کے علاوہ باقی جسم کے حساس سیل ریڈی ایشن سے محفوظ رہتے ہیں۔اگر دماغی ٹیومرکے علاج کے لیے پورے دماغ کو ریڈی ایشن دی جائے تو اس میں دماغ کے متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔دماغ میں ٹیومر کو دی جانے والی ریڈی ایشن کوانتہائی محفوظ طریقے (فوکس ریڈی ایشن) دی جاتی ہیں ، یہ ریڈٰی ایشن انکالوجسٹ ریڈی ایشن کے ماہرین اور ٹیکنیشن کی نگرانی میں دی جاتی ہے ہمارے پاس پاکستانیوںکے علاوہ بیرون ممالک سے بھی مریض آتے ہیں جن کی مجموعی تعداد تمام ومریضوںکا 2.5 فیصد بنتی ہے۔ان میں افغانستان، ایران، دبئی، سعودی عرب، یمن کے باشندے شامل ہیں۔اس کے علاوہ ہم نے اپنے انسٹی ٹیوٹ میں لیبیا کے ایک مریض کا بھی علاج کیا ہے۔
ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں علاج کے اخراجات دنیا بھر میں سب سے کم ہیں، ہم نے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے اسپتالوں اورمریضوںکو جدید ترین مشینوں اور محفوظ ریڈٰ ایشن کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتیء جس کے بعد بیشتر ممالک سے مریض ہیں ہم سے رابطہ کرتے ہیں، پھر اُن کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔اس طرح پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ لانے میں بھی ادارہ اہم کردار ادا کررہا ہے پاکستان میں پہلی بار2008 میں گامانائف ٹیکنالوجی این ایم آئی نے متعارف کرائی گئی ۔ 2008 سے لیکر اب تک ہم تقریباً ساڑھے 3 ہزار مریضوں کا علاج کرچکے ہیں۔
ہمارے ملک میں پہلے یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی۔یہ بات غور طلب ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں موت کا بڑا سبب کینسر ہے۔گامانائف سے علاج کے دوران دماغ کے 3 سینٹی میٹرکے ٹیومر سے لیکر اس سے بڑے ٹیومرکا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ گامانائف سے ایک دن میں 4 سے 8 مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔سنرجی ایس کے ذریعے ایک دن میں 20 مریضوں کا بھی علاج ہوجاتا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کی مشین کو لانے اور اس کی تنصیب میں مجموعی طور پر ایک ارب روپے کی لاگت آتی ہے۔ مشین کی قیمت تقریباً15کروڑ ہے، پھر ریڈی ایشن کے اخراج کو روکنے کے لیے خصوصی بنکر بنوایاجاتا ہے جس پر اچھی خاصی لاگت آجاتی ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اپنے انسٹی ٹیوٹ میں آنے والے مریضوں سے کم سے کم پیسے لیے جائیں۔
ہمارا ادارہ چیریٹی کے تحت کام کررہا ہے جسے ہم نے کینسرکیئرانسٹیٹوٹ کا نام دیا ہے۔ ایم ہاشم میموریل ٹرسٹ کے تحت علاج کا سلسلہ جاری ہے۔ غریبوںاور مستحقین کے لیے زکوٰۃ فنڈکا بھی انتظام کیاگیا ہے، اس کے لیے ہمیں پاکستان بیت المال کی خدمات اور تعاون بھی حاصل ہے جس کے لیے ہم اُن کے شکرگزار ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ ہمارے پاس جو بھی مریض آئے وہ خالی واپس نہیں جائے۔بیرون شہر سے آنے والے مریضوںکو ہم رہائش کی بھی سہولت دیتے ہیں۔اس وقت جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل گاما نائف مشین صرف ہمارے پاس ہے اور پاکستان میں یہ واحد مشین ہے۔
٭ڈاکٹر اظہر رشید (ریڈی ایشن انکالوجسٹ)
گامانائف ٹیکنالوجی بہت جدید ہے۔ ریڈی ایشن کا اپنا طریقہ ہے ، علاج کے دوران کسی مریض کے جسم میں ایک جانب سے ریڈی ایشن کی شعاعیں داخل ہوتی ہیں جو دوسری جانب سے نکل جاتی ہیں۔ شعاعیں دینے کیلیے انتہائی محفوظ طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، جہاں شعاعیں دی جاتی ہیں ان کے لیے خصوصی بنکر بنائے جاتے ہیں ، دروازوں کے درمیان خصوصی جست کی چاردیں لگائی جاتی ہیں جبکہ کمروں کی دیواریں بھی خصوصی طورپر بنوائی جاتی ہیں تاکہ ریڈیائی شعاعیں کسی اور شخص کو متاثر نہ کریں اور کمرے سے باہر نہ جائیں، مریض کو آرام دہ مشین پرلٹا دیاجاتا ہے جبکہ ریڈی ایشن کنٹرول روم سے کمپیوٹرائزڈ مانیٹرکیاجاتا ہے، مریض کو مائیک دیاجاتا ہے، کنٹرول روم سے مریض سے بات چیت بھی کی جاتی ہے۔
گامانائف اور سنرجی ایس، دونوں جدید طریقہ علاج انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں۔ہم صرف ٹیومر کے اوپر ریڈی ایشن کی ریز(شعاعیں) لگاتے ہیں، (فوکس ٹارگیٹڈ شعاعیں ) تاکہ یہ شعاعیں جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر نہ کریں، شعاعیں انتہائی محفوظ طریقے سے صرف اسی جگہ پر لگائی جاتی ہین جہاں ضرورت ہوباقی جسم کے تمام حصے محفوظ رہتے ہیں۔ گامانائف مشین کہ شعاعیں متاثر حصے پر ہی دی جاتی ہیں، اس طریقہ علاج کے بعدکچھ نہ کچھ سائیڈ ایفیکٹس ضرور ہوتے ہیں لیکن اگر اس کا موازنہ پرانے طریقہ علاج سے کیا جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔اس میں سائیڈ ایفیکٹس پہلے کے مقابلے میں کم سے کم ہوتے ہیں۔مریض کو ریڈی ایشن دیتے وقت تمام ٹیکنالوجسٹ ماہرین ریڈی ایشن کی نگرانی میںکام کرتے ہیں، مخصوص لباس زیب تن کیاجاتا ہے، ریڈی ایشن کی مانیٹرنگ متعلقہ ادارہ بھی کرتا ہے کہ شعاعیں کمرے سے باہر تو نہیں نکل رہیں، اس سلسلے پاکستان اٹامک انرجی کے حکام معائنہ کرتے رہتے ہیں ۔
٭ ڈاکٹر عابد (نیوروسرجن)
دماغ میں جہاں بھی ٹیومر ہوتا ہے، ہم صرف اسی جگہ کو فوکس کرکے علاج کرتے ہیں، کوشش کی جاتی ہے کہ علاج سے دوسرے حصے متاثر نہ ہوں۔برین ٹیومر کی کچھ علامات ہیں جن میں صبح کے وقت سردرد سب سے اہم ہے۔مرگی کی مختلف اشکال بھی اس سے متعلق ہیں جبکہ سردرد کے ساتھ قے آنا بھی برین ٹیومرکی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔اس کے علاوہ فالج بھی ٹیومرکی ایک علامت ہے۔اب تک اس کی مکمل تشخیص نہیںکی جاسکی کہ کینسر ہوتا کیوں ہے؟ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔انسانی جسم میں موجود cells کا میکنزم خراب ہونے سے بھی یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔کچھ ٹیمر برین کے ٹشوزہی سے بنتے ہیں۔
میں آپ کوبتاؤں کہ ایک دو سال کے بچوںکو بھی ٹیومر ہوجاتا ہے، جس کی تشخیص کرلی جاتی ہے۔ ہم اپنے انسٹی ٹیوٹ میں جب کسی مریض کا علاج کرلیتے ہیں تو پھر بھی کئی سال اس سے رابطے میں رہتے ہیں تاکہ ہمیں پتہ چلتا رہے کہ اب اس کی حالت کیسی ہے، مرض نے کہیں دوبارہ جڑ تو نہیں پکڑلی۔PETCT کے ذریعے پورے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں یاکسی بیماری یا ٹیومرکا پتہ چل جاتا ہے، ٹیومرکسی بھی سائز کاہو ، پیٹ سی ٹی کے ذریعے اس کی نشاندہی فوری کرلی جاتی ہے ۔مختلف نوعیت کے مریضوںکے علاج کے لیے وقت بھی الگ الگ لگتا ہے، کسی کا علاج دوہفتوں میں ہوسکتا ہے توکسی کے علاج میں چار پانچ ہفتے لگ جاتے ہیں۔
پیٹ سی ٹی سے کیموتھراپی کے مفید اور موثر ہونے یا نہ ہونے کا بھی پتہ لگ جاتا ہے،اس کے علاوہ امراض قلب کے حوالے سے cardiac PETCT بھی ہوتا ہے، پیٹ سٹی سے دماغٰ امراض کی تشخیص بھی کی جاتی ہے ، دماغ کے کام میں کوئی روکاٹ یا تبدیلی کی بھی معلوم کیا جاسکتا ہے، اس مشین سے یادداشت کی خراچی اور الزائمر کی بیماری کی بھی فوری تشخیص میں مدد ملتی ہے، مرگی کے مریضوں میں علاج اوردماغی جراحی کی رہنمائی کیلیے ئی ٹیسٹ بہت مفید ہوتا ہے ،پیٹ سی ٹی اسکین غیر مضر اور انتہائی حساس اسکین کا طریقہ ہے جس کسی بھی بیماری کی درست تشخیص اور علاج میں مدد ملتی ہے۔
جوہری طریقہ سے بیماری کی تشخیص کرنے میں پیٹ سی ٹی سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے، اس ٹیسٹ کے ذریعے جراحی یا بائیوایپسی کے ذریعے بیماری کی تشخیص کرنے میں بھی رہنمائی کرتی ہے اس مشین سے تھائرائیڈ،، بڑی آنت کے کینسر میں مفید معلومات دیتی ہے، کینسر کے مریض میں علاج مکمل ہونے کے بعد اس ٹیسٹ کے ذریعے بیماری کے دوبارہ ظاہر ہونے کی بھی فوری تشخیص کی جاسکتی ہے، ایسے مریض جن کے دل کے پٹھے ہارٹ اٹیک کے بعد کمزور ہوجاتے ہیں ان کو چیک کرنے کیلیے کہ ان پٹھوں کو بائی پاس اور انجیوپلاسٹی سے فائدہ ہوگا یا نہیں، یہ ٹیسٹ ایک انتہائی مفید اور معیاری طریقہ اسکین ہے جبکہ بعض مریضوں میں دل میں موجودہ خون کی نالیوں میں خود کے بہاؤکو جانچنے کیلیے پیٹ سی ٹی بہترین ذریعہ تشخیص ہوتی ہے۔