بچوں کے ادب کا رواج   پہلا حصہ

پاکستان کے استحکام اور ترقی کے حوالے سے ہم آئے دن سیاسی و عسکری بیانیوں کی زد میں رہتے ہیں۔

پاکستان کے استحکام اور ترقی کے حوالے سے ہم آئے دن سیاسی و عسکری بیانیوں کی زد میں رہتے ہیں۔ استحکام اور ترقی دو ایسی چیزیں ہیں جو کسی بھی ساخت کی ابتدائی بنیاد سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ اگر ابتدائی بنیاد نظر انداز کی گئی ہو تو ان دو مقولوں کو مذکور کیے جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک چلانے والی قوتیں عوام اور خود کو دھوکے میں رکھنے کے لیے جتن کررہی ہیں۔

پاکستان کے مستحکم اور ترقی یافتہ اسٹرکچر کے تصور کو تبھی ممکن بنایا جاسکتا ہے جب یہ تمام سرکاری وغیر سرکاری قوتیں مل کر اپنی بنیاد یعنی بچوں کی درست تعلیم و تربیت پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کردیں۔ لیکن جب ہم حقیقی منظرنامہ دیکھتے ہیں تو دکھ کی لہر حیرت ناک حد تک بدن میں سرائیت کرتی ہے اور ہمیں نظر آتا ہے کہ ہم اپنی بنیادیں بے دردی کے ساتھ مسلسل کھود رہے ہیں۔ ہمارے سماجی نظام میں بچے ایک فراموش شدہ اور غفلت زدہ علاقے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ہم استحکام اور ترقی کے جن عزائم کا اظہار کرتے ہیں ان کی بنیاد ہوا میں رکھتے ہیں اور زمین پر موجود ہمارے بچے ہر حوالے سے نہ صرف منتشر رہتے ہیں بلکہ سماجی و معاشی عدم تحفظ کے ساتھ مسلسل غیر یقینی صورت حال سے لبریز ماحول میں بلوغت کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ بچوں کی تعلیمی، تفریحی اور تخلیقی ضرورتیں تو ایک طرف، زندگی گزارنے کے لیے بنیادی ضروریات مثلاً صاف پانی، صحت بخش غذا اور مناسب علاج کی سہولت تک سے ملک کے بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد محروم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آلودہ پانی، ناکافی غذا اور نامناسب علاج ایک سطح پر دستیاب ہے۔ اس سے بنیاد کی مضبوطی اور ترقی کے امکانات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

اصل موضوع پر آنے سے قبل اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بچوں کے اردو ادب پر بات کرنے سے قبل خود بچوں کے حوالے سے ان کی سماجی صورت حال سامنے رہے۔ ادب ایک سماجی ثقافتی سرگرمی ہے جو سماجی طبقات کی حقیقی صورت حال سے اغماض نہیں برتتی۔ بطور ریاست بچوں کے طبقے سے ہم مجرمانہ حد تک غفلت برت رہے ہیں۔ یہ رویہ سیاست کی سطح سے مزید نیچے اتر کر ثقافت کی سطح میں بھی سرائیت کرچکا ہے، اس لیے اردو ادب میں متعدد بڑے ناموں کے باوجود بچوں کے ادب میں ان میں سے یا ان جیسا کوئی نام نظر نہیں آتا۔

بچوں کے ادب میں اگر کوئی نام ہم سربلند کرکے پیش کرسکتے ہیں تو وہ صرف اشتیاق احمد کا ہے، جنھوں نے بچوں کے لیے دلچسپ محاوراتی زبان میں ناولوں پر مبنی ایک قابل ذکر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ ان ناولوں کو پڑھتے دو نسلیں جوان ہوچکی ہیں لیکن بچوں کے اردو ادب کا دائرہ اس سے آگے ذرا بھی نہیں پھیل سکا ہے۔ کوئی ایسی شخصیت سامنے نہیں آسکی ہے جس نے اپنے منفرد کردار بنائے ہوں اور ان پر مبنی طبع زاد کہانیاں لکھی ہوں۔ ایسی کہانیاں جن کا اگر زبان کی سطح پر تجزیہ کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ یہ بچوں کی عمروں سے مطابقت رکھتی ہو بلکہ خود زبان بھی بچوں کو بہت کچھ سکھاتی ہو اور انھیں ترغیب دیتی ہو۔


بات یہ نہیں ہے کہ بچوں کا ادب لکھا نہیں جارہا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ لکھا جارہا ہے اگر پہلے قدم پر اس کی زبان ہی کا تجزیہ کیا جائے تو وہ غیر معیاری نکل آتا ہے۔ غیر معیاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی عمر کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی ہو، الفاظ محض ایک سوچی ہوئی کہانی کو بیان کرتے ہوں اور اس سے زیادہ اپنا کوئی معنی نہ رکھتے ہوں' حتیٰ کہ زبان اپنے قواعد و ضوابط میں بھی ناقص ہو۔ کہانی کا خیال اور اس کا مواد اس کے بعد کے معاملات ہیں جس کے لیے ایک زرخیز اور پروان چڑھا ہوا ادبی رواج (کلچر) بہت ضروری ہوتا ہے جب کہ ہمارے ہاں بچوں کے ادبی رواج میں اشتیاق احمد کے کرداروں پر مشتمل جاسوسی ناولوں سے ہٹ کر کوئی قابل ذکر کام موجود نہیں ہے۔

بالعموم بچوں کے ادب پر جب بھی مضامین تحریر کیے جاتے ہیں تو اشتیاق احمد کے ساتھ کئی اور نام بھی مذکور کیے جاتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ سب جعلی نام ہوتے ہیں جنھیں اشتیاق احمد کے ساتھ ملاکر ان کے ادبی قد کو متعین کرنے کی بے کار کوشش کی جاتی ہے۔ جب مرحلہ آتا ہے کہ اب اشتیاق احمد کے کام کے ساتھ ان کا کام رکھا جائے تو نہ صرف مقدار بلکہ معیار کے حوالے سے بھی ہاتھی اور چیونٹی کے مصداق صورت حال دکھائی دینے لگتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہم بچوں کے ادبی رواج کی کھوج لگائیں اور ہمیں کوئی اہم نام نظر ہی نہ آئے۔ لیکن یہ اہم نام بچوں کے ادب کی وجہ سے نہیں بنے بلکہ اردو کے افسانوی ادب یا ناول کی صنف میں بڑا کام کرنے کے سبب بنے ہیں۔ قرۃ العین حیدر، کرشن چندر، عظیم بیگ چغتائی، عصمت چغتائی اور مرزا ادیب جیسے ادیبوں نے بچوں کے لیے کئی ناول لکھے ہیں۔

ڈپٹی نذیر احمد، محمد حسین آزاد، پریم چند، احمد ندیم قاسمی اور شوکت تھانوی جیسے ادیبوں نے بچوں کے لیے کہانیاں تحریر کی ہیں اور اسی طرح نظموں میں کئی بڑے نام موجود ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان سب کے باوجود بچوں کے ادب کا اپنا رواج (کلچر) قائم نہیں ہوسکا ہے۔ ان ناموں کے تذکرے کا ایک مقصد بڑے ادیبوں پر اس الزام کی تردید بھی ہے کہ انھوں نے بچوں کے لیے کچھ نہیں لکھا۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے کا مطلب بچوں ہی کے لیے مختص ہوکر لکھنا ہے۔ بچوں کے ادب کو کسی ادیب کی نمایندہ تحریر کی نہیں بلکہ نمایندہ ادیب کی ضرورت ہے جس کی موجودی سے بچوں کے ادب کی شناخت قائم ہو اور اس کا سارا کام اس کی شخصیت کا نمایندہ ہو۔

یہ ایک ایسا اصول ہے جس کے بغیر بچوں کے ادب کا رواج پڑنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کی بھرپور مثال تو اشتیاق احمد ہی ہے تاہم ایک اور مثال حکیم محمد سعید بھی ہیں جن کی شخصیت بچوں کے حوالے سے بہت روشن رہی ہے۔ اگرچہ بچوں کا ادب تحریر کرنے کا معاملہ متنازعہ ہے لیکن بچوں کے ادب کے حوالے سے ان کی دیگر سرگرمیاں مثلاً نونہال کا اجرا اور نونہالوں کے لیے سالانہ تقریبات وغیرہ ان کے وژن اور بچوں سے ان کی محبت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ایسے نمایندہ ادبا ہی کی، جن کی سرگرمی یا کام سے معاشرے کا ایک قابل ذکر حصہ متاثر ہو، مثال دی جاسکتی ہے اور درحقیقت ایسی ہی شخصیات بچوں کے ادب کا رواج قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

(جاری ہے)
Load Next Story