خواتین اور حقوق
انسان بھی عجیب ہے اور کچھ انسان بہت ہی عجیب، مر بھی رہے ہوتے، ہیں مگر اپنی چالبازیوں سے باز نہیں آتے
انسان بھی عجیب ہے اور کچھ انسان بہت ہی عجیب، مر بھی رہے ہوتے، ہیں مگر اپنی چالبازیوں سے باز نہیں آتے اور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو باقی لوگوں کے لیے باعث عبرت ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو اور ان کی چالبازیوں کی مثالیں دی جاتی ہیں اور کانوں کو بھی ہاتھ لگائے جاتے کہ اللہ ایسا کسی کو نہ بنائے۔ دنیا کیونکہ ہزاروں سال سے قائم ہے اور انسانوں کا معاملہ بھی ہزاروں سال پرانا ہے۔
دھوکا بازی، فریب، نفرت، شرانگیزی، شیطانی صفات بھی انسانی زندگی میں انسانوں کی فطرت رہی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی جو ہر طرح ہر طریقے سے اپنے آپ کو فائدہ میں رکھنا چاہتے ہیں، سب کے حقوق غصب کرتے ہیں اور باقی دنیا کے لیے ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بن جاتے ہیں، مگر سلام ہو اس طرح کے لوگوں پر کہ باز نہیں آتے، اﷲ، رسولؐ کی خوبصورت باتیں کریں گے اور ایسی ایسی سازشیں کہ اللہ کی پناہ!
ترس آتا ہے ان کی اولاد پر کہ نسل در نسل یہ دھوکا بازی اور فریب کاری چلتی رہے گی، ہاں اگر اللہ کی ہدایت ملی تو یقیناً ہدایت کا راستہ ہوگا اور وہ ہمیشہ اللہ ہی عطا فرماتا ہے۔ بے تحاشا اﷲ کی ہدایت ہے کہ حقوق العباد کو ادا کرو، ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرو مگر کیا کیجیے پیٹ اتنا بڑا ہے کہ بھرتا ہی نہیں۔ دل ایسے کالے کہ اﷲ کی پناہ۔
جانوروں اور انسانوں میں اتنا ہی فرق ہے، ورنہ کھانا تو سب ہی کھاتے ہیں اور رزق تو اﷲ کیڑے کو بھی دیتا ہے۔ مگر اﷲ کی شان دیکھیے کہ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود انسان خود اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کیڑے سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ کبھی لوٹتے ہوئے، کبھی ڈاکا زنی، کبھی چوری چکاری، قتل و غارت میں مارا جاتا ہے اور عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔
خیر بھلائی اور برائی ساتھ ساتھ چلنے کے لیے ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور آستین کے سانپ بھی آستینوں میں پلتے رہیں گے۔ میری والدہ کا انتقال 2009 میں ہوا، میری والدہ کی تمام اولاد بیاہ رچا کر اپنے اپنے گھروں کی ہوگئیں اور والدہ اکیلی رہ گئیں اور کئی سال اپنی زندگی کے انھوں نے تنہا گزارے۔ تنہائی اور تکلیف دونوں میری والدہ نے برداشت کی، وہ کبھی اسپتال میں داخل ہونا نہیں چاہتی تھیں، مگر ان کی وفات اسپتال کے وینٹی لیٹر پر ہوئی۔ میری والدہ کی زندگی کی پوری کہانی ضرور کبھی نہ کبھی لکھوں گی کہ ایک عورت ہوتے ہوئے کس طرح وہ لالچ و حرص کے بھرے ہوئے اپنے لوگوں میں تکلیف میں رہیں اور کس طرح وہ ایک گھر سے ایک اسپتال کے وینٹی لیٹر پر پہنچیں۔
یہ بات آج اس لیے یاد آرہی ہے کہ عورتوں کے تحفظ بل پر بڑی لے دے ہورہی ہے۔ وراثت پر بڑی بات ہوتی ہے۔ ونی، کاروکاری پر بڑی باتیں ہوتی ہیں، جائیدادوں کے لیے لڑکیوں کی شادی قرآن سے کرادی جاتی ہے، گھر کی بیٹیوں کو اپنے مطالب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گھر کے مرد لالچ و حرص کے ایسے شاہکار بن جاتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ اور جب یہی مرد اپنی بیٹیوں کے باپ بنتے ہیں تو کیا حشر کرتے ہوں گے اور جانے کن کن مطالب کے لیے اور کس کس طرح یہ اپنی اولاد کو استعمال کرتے ہوں گے۔
تعلیم و تربیت یقیناً ایک بہت بڑی کمی ہے مگر سمجھدار ہونے پر عقل و دل دونوں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں، انسان سوچے تو سہی، لالچ سے باہر آئے تو سہی۔ قبر میں تو مرنے کے بعد ہی جانا ہے مگر اپنے گھروں کو قبرستان بنانے والے ہر دور میں اپنے گھر کی خواتین پر ظلم کرتے رہے ہیں، کہ 70 سال کی والدہ کا گلہ کاٹ دینا، بہنوں اور بیٹیوں کو ان کی وراثت سے محروم کرنا، زبردستی مارپیٹ کے ذریعے ان کے حقوق سلب کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اتنے زیادہ واقعات ہیں۔ اب جو تھوڑی بہت بات حقوق کی ہوئی تو ہر طرف واویلا کھڑا ہوگیا، حرام کار، نشہ میں مبتلا مرد کیا سزا سے مبرا ہے؟
گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں ہر دوسرے دن اپنے نشہ کرنے والے مرد سے پٹ کر آتی ہیں، مار پٹائی کے نشانات اور زخم دونوں کو لے کر آنسو بہاتی ہوئی یہ عورت نہ جانے کس جرم کی سزا پاتی ہے؟
ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے تو کیوں نہیں عدل و انصاف کا قانون بناتی۔ کیوں نہیں خواتین کے لیے آسان طریقے وضع کرتی کہ حقوق سب کے سب کو ملیں۔ نجانے کیوں عورتوں کے تحفظ کے بل پر اتنی پریشانی پھیلی ہوئی ہے۔ معاشرہ اور اسلام دونوں خطرے میں آگئے، بحث و مباحثے طویل ہوتے جارہے ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ تبدیلی اب آنی چاہیے، کچھ کا خیال ہے کہ اﷲ کے غضب کو آواز دی جا رہی ہے، کچھ کا خیال ہے لبرل معاشرہ ہی بہتر ہوگا، دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
حالانکہ بات اتنی آسان ہے کہ اگر اسلامی قوانین کے مطابق ہی خواتین کو حقوق دے دیے جائیں تو تمام مسئلے کا حل ہوگا، تمام راستہ، تمام طریقہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے پاس موجود ہے، مگر ہے انگریز بننے کا شوق، کیا کیجیے۔
بچپن سے پچپن تک جاہل آدمی جاہل ہی رہتا ہے، اگر وہ تعلیم سے بے بہرہ ہو، چاہے اس کے پاس ڈگری ہو مگر علم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اور علم تو میراث ہے، خزانہ ہے، جو ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے، اگر وہ واقعی علم ہے تو۔ خواتین کی تعلیم اور ان کی تربیت ایک پوری نسل کو جنم دیتی ہے۔ جو اولاد اپنی ماؤں کے لیے سکھ کا سبب ہوتی ہے، ان کی عزت و حرمت کا خیال رکھتی ہے، وہی اولاد اپنی اولاد کو بہتر انسان بناسکتی ہے۔ جو لوگ اپنی ماؤں کی عزت نہیں کرسکتے انھیں ان کا مقام نہیں دے سکتے وہ بھلا کسی بھی خاتون کو کیا مقام دیں گے، چاہے وہ ان کی بہن ہو یا بیٹی۔ کبھی غیرت کے نام پر قتل کردیا، وراثت پر سانپ بن کر بیٹھ گئے اور لالچ و حرص کے لیے کسی حد تک بھی گرجانا کوئی بری بات نہیں۔
اب اگر قانون بن گیا ہے تو اس کا اطلاق ہونا بہت ضروری ہے۔ اور کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ ہم سب کو اپنی اچھی نسلوں کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے۔ جو جائز مقام خواتین کا ہے وہ ان کو ملنا چاہیے، جو حقوق غصب کرنے والوں کا انجام ہے وہ اس انجام کو پہنچے، ناجائز خواتین کا خون خرابہ، مار پٹائی، ان سب سے آگے بڑھیں اور اسلام میں بتائے گئے اصولوں کی قوانین کی پاسداری کریں کہ یہی ہم سب کے لیے فلاح ہے۔
جانوروں اور کیڑے مکوڑوں سے بہتر ہے کہ ہم واقعی انسانوں کی طرح سوچیں، اپنے بڑے بڑے خون پینے والے دانت اپنے منہ سے نکالیں۔ گندگی، غلاظت، بے راہ روی کی دلدلیں بے تحاشا پھیلتی جا رہی ہیں، طالب علم سے لے کر عمر رسیدہ افراد ان دلدلوں میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ بے حساب حرص و لالچ خون بن کر جسم میں رواں دواں ہے، تمام رشتے ناتے اسی گندگی اور غلاظت کی نذر ہورہے ہیں، بوڑھے والدین کو ٹارچر کرنا، ان سے زندگی کی سہولیات چھین لینا اور ان کے مرنے پر لمبے لمبے ٹسوے بہانا، انسان کتنا ہی چالاک اور بے رحم کیوں نہ ہوجائے، اﷲ کے قوانین اٹل ہیں، اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، اﷲ ہی دینے پر قدرت رکھتا ہے اور اﷲ ہی چھین لینے پر قدرت رکھتا ہے اور بڑے بڑے بے رحم، گردن کو اکڑانے والے صرف اور صرف ایک کالی مکھی کی طرح اپنے ہاتھ پیر مسلتے رہ جاتے ہیں۔ ابھی بھی بہت وقت ہمارے پاس ہے، حق اور انصاف کی بات کریں، جینے کا حق بچوں سے لے کر عمر رسیدہ افراد کے لیے یکساں ہے۔
عورت اور مرد دونوں اﷲ کے بنائے گئے اصولوں پر چلیں گے تو فائدے میں رہیں گے، ورنہ حرام کار، نشے میں مبتلا، چوری اور ڈاکا زنی میں عادی افراد اپنے گھروں سے نکالے جائیں گے کہ یہ حق بھی اﷲ ہی نے دیا ہے۔
مارچ کا مہینہ ہے اور عورتوں کا عالمی دن بھی 8 مارچ کو منایا جاتا ہے، انگریزی تاریخ میں تو یقیناً ہمارے ملک میں بھی منایا جائے گا، خواتین زور و شور سے اپنے حقوق کی بات کریں گی، سیمینارز ہوں گے، ایوارڈز ہوں گے، مگر مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ وراثت میں خواتین کا حق غصب ہوتا رہے گا، مکر و فریب والے اپنے بوڑھے والدین کا جینا حرام کرتے رہیں گے، اپنے عیش و عشرت کے لیے اپنے بوڑھے والدین کو بے سہارا، بے آسرا کرتے رہیں گے اور پھر دنیا کے لیے عبرت بنتے رہیں گے اور ہم ایک دوسرے کو ان لوگوں کی کہانیاں سناتے رہیں گے، ان کی شکلوں پر پھٹکار برس رہی ہوگی مگر یہ اپنی خصلت اور مکاری سے باز آنے والے نہیں۔