خالص

ایوب خان کا مارشل لا لگا تو دکاندار ڈر گئے۔ انھوں نے اصلی گھی کی مٹھائیاں بنانی شروع کردیں

03332257239@hotmail.com

ایوب خان کا مارشل لا لگا تو دکاندار ڈر گئے۔ انھوں نے اصلی گھی کی مٹھائیاں بنانی شروع کردیں۔ ماموں بتاتے ہیں کہ لوگ اتنی خالص مٹھائیوں کے عادی نہ تھے، خالص کا الٹ ملاوٹ ہے، دودھ میں پانی کی ملاوٹ، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکوں کی ملاوٹ، گھی میں آلو کی ملاوٹ اور مصالحوں میں رنگ دار برادے کی ملاوٹ۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک آدمی نے ملاوٹ بھری زندگی سے تنگ آکر خودکشی کا فیصلہ کرلیا، زہر پیا تو کئی گھنٹوں کے بعد بھی نہ مرا کہ زہر میں بھی ملاوٹ تھی۔ دواؤں میں ملاوٹ، یقین جانیے گراوٹ کی انتہا ہے۔

بھارت میں دھوکا دہی کو دو نمبری کہتے ہیں، ہمیں بتایا گیا کہ ممبئی کی سڑکوں پر شرٹ بیچنے والے آواز لگاتے ہیں پانچ پانچ روپے، یہ سن چوراسی کی بات ہے ۔ لوگ پانچ روپے سمجھ کر خریدتے تو کہتے کہ یہ پچپن روپے کی ہے۔ پانچ پانچ روپے کی۔ یہ ان کی اپنی تشریح تھی۔ بھولے ہندوستانیوں کو علم نہ تھا کہ ہمارے لڑکپن میں جوس بیچنے والے، چار چار آنے کی آواز لگاتے اور جب گاہک گلاس ختم کرکے چونی آگے بڑھاتا تو ایک روپیہ مانگتے، چار کو چار سے ضرب دینے والوں کو ہمارے اسکول کے تگڑے لڑکوں نے ضرب لگائی تو پتہ چلا کہ حساب کیا ہوتا ہے۔

دھوکا بازی اور فراڈ اس لیے ہے کہ ہم میں خود غرضی پیدا ہوگئی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر ایک فرد کا ہاتھ دوسرے کی جیب میں ہے۔ حکومتی وزرا عوام سے دھوکا کرتے ہیں تو پھر اعلیٰ افسران کو موقع ملتا ہے۔ ان کو دیکھ کر بڑے بڑے صنعت کار اور بیوپاری بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے لگتے ہیں۔ ڈاکٹرز، وکلا، انجینئرز سے ہوتے ہوئے یہ سلسلہ ٹھیلے والوں، رکشہ والوں، چھوٹے ملازمین سے ہوتا ہوا بھکاریوں تک جا پہنچتا ہے، ایمانداری کی اکا دکا مثال پر حیرانی ہوتی ہے، بعض اوقات یہ خبر بریکنگ نیوز کے درجے میں پہنچ جاتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے معاشروں کی ملاوٹ اور بے ایمانی سے الگ ہٹ کر ہمارے سامنے دو خوب صورت مثالیں ہیں۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور کے واقعات اور آج کے مغربی معاشرے کی انسان دوستی ان دو خوبصورت مثالوں کو پڑھنے سے قبل قارئین کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب تک آپ کالم پورا نہ پڑھ لیں اس وقت تک کوئی رائے قائم نہ کریں۔ خلفائے راشدین میں سے دو جلیل القدر اصحابؓ کی عدالتوں میں پیشی کے علاوہ کئی واقعات ایسے ملتے ہیں کہ لین دین میں سچائی دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں۔

گھوڑے کی کم قیمت بتانے پر ''مال مفت دل بے رحم'' سمجھ کر خرید لینے کے بجائے صحیح قیمت پر مال خریدنے کے علاوہ بارش میں بھیگے مال کے گاہک تک پہنچ جانے کے باوجود تلاش کے بعد ہرجانے کی ادائیگی، ملاوٹ میں لتھڑے اور دھوکا دہی کی بنیاد پر قائم معاشروں میں ان کا چلن کہاں ہوسکتا ہے۔وہ ریاست جو ماں کے جیسی ہو تو وہاں کے بیٹے بھی فرماں بردار ہوتے ہیں، ہمارے ہاں ریاست نے اپنی رعایا کے روٹی، کپڑا، مکان، صحت، روزگار اور تعلیم کی ذمے داری نہیں لی، کوئی جیتا ہے تو جیے اور کوئی مرتا ہے تو مرے۔ ریاست تین سال کے ہر بچے کو کہہ رہی ہے کہ اگر تمہارے باپ کے پاس پیسہ ہے تو تم تعلیم حاصل کرلینا، جس قدر تمہارے خاندان کے سربراہ کے پاس زیادہ رقم ہوگی تمہیں اسی قدر بہتر تعلیم ملے گی۔

یہی اعلان ریاست ہر نوجوان سے کرتی ہے کہ ہم تمہارے روزگار کے ذمے دار نہیں ہیں۔ ہر غریب بے چارے کو یہ ہولناک اطلاع ریاست پہنچارہی ہے، وہ کہہ رہی ہے کہ ''او ایرے غیرے نتھو خیرے! بھول جاؤ کہ ہم تمہاری صحت کے ذمے دار ہیں۔ ہم نے تو مہدی حسن، ماجد جہانگیر اور ببوبرال جیسے بڑے مشہور فنکاروں کی بیماریوں اور آہ و زاریوں پر کان نہیں دھرے، تو تم کیا چیز ہو۔ بیمار پڑے ہو اور پیسہ ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجانا''۔ جب حکمران اپنی رعایا کے حوالے سے بے حس ہوں تو عوام بھی اپنے حکمرانوں کے حوالے سے اس قدر پیار کرتے ہیں۔ ووٹ تو دے آتے ہیں لیکن جب ان کے منتخب حکمران مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو عوام ان کے لیے باہر نہیں نکلتے۔


مغربی معاشرے جس قدر جانوروں کا خیال رکھتے ہیں ہم اپنے انسانوں کا بھی اس قدر خیال نہیں رکھتے، آپ اپنے گھر کا درخت نہیں کاٹ سکتے کہ وہاں چڑیا بچے دیتی ہے۔ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے بعد ہی آپ کے گھر کی تعمیر شروع ہوسکے گی۔ بلدیاتی ادارہ بل بورڈ اس لیے تاخیر سے گراتا ہے کہ سانپ نے انڈے دیے ہیں، یہ وہ معاشرے ہیں جہاں ریاست نے عوام کے روزگار کا بندوبست کیا ہے، اگر آپ کے پاس کوئی کام نہیں تو ریاست آپ کو بے روزگاری الاؤنس دے گی۔ تہواروں پر دکاندار اشیا سستی کردیںگے کہ خوشیاں آپ کے لیے بوجھ نہ بن جائیں۔ فلاحی ریاست صرف اپنے شہری کا نہیں بلکہ اس سرزمین پر آنے والے غیر ملکی کے علاج کی بھی ذمے دار ہوتی ہے۔

چاکلیٹ سے اربوں ڈالر کمانے والی ملٹی نیشنل کمپنی کی ایمانداری آج کل موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے، ذرا سی خرابی پر سیکڑوں ممالک سے کئی کروڑ ٹن مال منگوا کر ضایع کردیا گیا، یہ کام چند ہزار ڈالر سے بھی ہوسکتا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور کے بعد قرون وسطیٰ کے زمانے کے تابندہ واقعات کے بعد مغربی معاشرے کی روشن مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں غیر خالص چیزوں کی بھرمار ہے، ہم خود اپنی رگوں میں زہر بھر رہے ہیں، نہ صرف اپنی رگوں میں بلکہ ہم اپنے کرتوتوں کی بدولت اپنی آنے والی نسل کو غیر خالص خوراک دے رہے ہیں، نہ صرف پانی، نہ عمدہ خوراک بلکہ مرغیوں کو غیر خالص اناج کھلارہے ہیں۔ بھینسوں کو انجکشن لگاکر زیادہ لیکن امراض شدہ دودھ حاصل کررہے ہیں، گوشت میں پانی کی تیز دھار لگا کر وزن بڑھارہے ہیں اور تو اور ہم اپنے شہریوں کو دھوکا دہی سے گدھوں کا گوشت کھلاکر سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے لیکن سچا اور حقیقی، دو مرتبہ کہا جاچکا ہے کہ جب تک آپ کالم کے آخری پیراگراف تک نہ آجائیں اس وقت تک کوئی رائے قائم نہ کریں۔ مغربی معاشرے کی ان اچھائیوں میں کوئی بات غلط نہیں ہے، ہمارے دانشور حضرات جو کچھ بیان کررہے ہیں ان میں کوئی غلط بیانی نہیں۔ اس کے باوجود بھی یہ تصویر کا ایک رخ ہے، گلاس آدھا بھرا ہوا ہے اور گلاس آدھا خالی ہے۔ دونوں باتیں صحیح ہیں لیکن اگر مغربی معاشرے کی بات کی جائے تو بھرے ہوئے اور ہمارے معاشرے کی بات کی جائے تو خالی ہے والی بات کی جائے تو؟ تو یہ غلط ہے۔

یہ منظر کشی انصاف پر مبنی نہیں، یہ قلم زندہ و جاوید کالم نگاروں پر نثار لیکن اگر لندن اور لاہور کی گلیوں میں غلاظت ہو اور جہاں سے یہ دیکھا جارہا ہے وہ عمارت شاندار ہو تو؟ دو شہر اور دو اچھائیاں و برائیاں لندن کی عمارت کی خوب صورتی اور لاہور کی گلی کی غلاظت بیان کی جائے تو یہ ظلم ہوگا، ہمیں دونوں مقامات کے خیر و شر کی بات جوں کی توں بیان کرنی چاہیے۔

ہمارا ایک دوست جاوید میٹرک کے بعد نیویارک چلا گیا، جب وہ چند برسوں بعد آیا تو اس کے ساتھ ایک امریکی مرد اور ایک عورت تھے، انھوں نے جب ہماری دادی کو ہمارے ساتھ رہتے ہوئے دیکھا تو انھیں حیرانی ہوئی، یہ پچیس سال پہلے کی بات ہے، خاندانی نظام مغربی معاشروں سے ختم ہوچکا ہے، نہ والدین اپنی اولاد کی لڑکپن میں دیکھ بھال کرتے ہیں اور نہ اولاد بڑھاپے میں والدین کی خدمت کا تصور بھی رکھتی ہے۔

مغربی معاشروں کی نقل میں ہمارے ہاں بھی آہستہ آہستہ اولڈ ہاؤسز بڑھتے جارہے ہیں، پچھلے دنوں جاوید پاکستان آیا اس نے بتایاکہ وہ دونوں بہن بھائی تھے، جاوید نے اس خاتون سے پاکستان میں شادی کی تھی، اب وہ اسے طلاق دینا چاہتا ہے کہ وہ نہ جانے کہاں چلی گئی ہے، جاوید کو ڈر ہے کہ اس کے بعد وہ اس کی جائیداد کی طلب گار ہوگی، ہم نے طلاق نامہ اور ایک خط پاکستان میں امریکی سفارت خانے کو بھجوادیا ہے کہ بات ریکارڈ پر آجائے جب کاغذات پر جاوید کی ولدیت لکھی تو اس نے کہا کہ امریکا میں یہ ضروری نہیں، اب مغربی معاشروں میں کسی سے والد کا نام پوچھنا گالی بن چکا ہے، ناجائز اولاد ہونا اب مغربی سماج میں عام ہے، ہم مشرقی لوگ چیزوں میں ملاوٹ کرتے ہیں اور بہت برا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں خالص چیزیں نایاب ہیں لیکن ہم فخریہ اپنے باپ دادا اور خاندان کا نام بیان کرتے ہیں، جب کہ گورے اس پر شرماتے ہیں کہ ان کی نسلوں میں ملاوٹ ہوچکی ہے۔ سچ بات یہ ہوگی کہ مشرق کی خوراک اور مغرب کی اولاد نہیں رہیں خالص۔
Load Next Story