جناب سوات اور کالام کو بھی اپنا ہی سمجھیے

خیبر پختونخوا ہائی وے اتھارٹی کے ملازمین صرف دفتر میں بیٹھ کر مکھیاں اڑانے کی تنخواہیں لے رہے ہیں؟


صوبے کی ترقی کا انحصار صوبے کی سیاحت پر ہی ہے، جہاں کے مواصلاتی نظام کی بحالی کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فوٹو:فائل

میڈیا ذرائع کے مطابق ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے صوبہ خیبر پختونخوا میں 5 سو کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر کے لئے 20 ارب روپے مختص کرکے رقم صوبائی حکومت کو جاری کردیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اس منصوبے پر اپنا اظہارِ خیال کچھ یوں کیا ہے کہ اس منصوبے سے نہ صرف عوام کو سفری سہولت فراہم ہوں گی بلکہ یہ صوبے کی سماجی و معاشی ترقی کے لئے بھی نیک شگون ثابت ہوگا۔

ہم جناب وزیر اعلیٰ صاحب کی اس بات سے صد فیصد اتفاق رکھتے ہیں کہ صوبے کے بیشتر کھنڈرات سڑکوں کی تعمیر سےعوام کو بہت سی سفری سہولیات میسر آئیں گیں، مگر بصد ادب و احترام! ہم وزیر اعلیٰ صاحب کی اس سماجی و معاشی ترقی والی بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتے کیوںکہ منصوبے میں معاشی و سماجی ترقی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل اور پچھلی حکومتوں کی جانب سے نظرانداز شدہ علاقوں کی سڑکوں کی بحالی کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔

20 ارب کی خطیر رقم سے تیار شدہ اس منصوبے میں 12 ارب یعنی نصف سے بھی زیادہ روپے چمکنی تا بڈھ بیر بیرونی رنگ روڈ کے لئے رکھے گئے ہیں۔ یقیناً اس سڑک کی تعمیر سے جنوبی اضلاع کو جانے والی گاڑیوں کو پشاور سے نہیں گزرنا پڑے گا، جس سےعوام کو سفری سہولیات تو حاصل ہوں گی مگر جن علاقوں کا مواصلاتی نظام بہتر کرنے کیلئے سماجی و معاشی لحاظ سے انتہائی نا گزیر ہے ان کی سڑکوں کو بہتر بنائے بغیر صوبہ کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے؟



صوبے کی ترقی کا دار و مدار سیاحتی علاقوں سے وابستہ ہے۔ جن میں بالعموم ضلع سوات اور بالخصوص بالائی سوات عرف عام میں سوات کوہستان میں گورنال سے لے کر کالام تک۔ سڑک کے ساتھ جڑے تمام علاقے پھر کالام سے مٹلتان، مہوڈنڈ جھیل اور پھر اتروڑ سے لے کر گبرال تک علاقے پاکستان کے اہم سیاحتی مقام ہونے کے ساتھ ساتھ معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل سے مالامال علاقے ہیں۔ مگر شو مئی قسمت کہ حکمرانوں نے اپنے دورِ حکومت میں ان علاقوں کی رابطہ سڑکوں کی بحالی کی طرف توجہ نہیں دی۔ 2 سال پہلے جناب وزیراعلیٰ پرویز خٹک بذات خود کالام آئے تھے۔ اُس دوران وزیراعلیٰ صاحب کو کالام کے حسن پر بد نما داغ بحرین تا کالام سڑک کی فوری تعمیر کی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہوا تھا، اور وہ اگلے سیاحتی سیزن شروع ہونے سے قبل سڑک کی تعمیر کا وعدہ کرکے چلے گئے تھے۔ مگر بقول شاعر،
دن ڈھل گیا سورج کا کہیں نام نہیں ہے
اے وعدہ شکن اب بھی تیری شام نہیں ہے

ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ کچھ وعدے وقت کے تقاضوں کے مطابق عوام سے کرنے پڑتے ہیں، چاہے ایفا ہوسکیں یا نہیں، مگر یہاں پر سوال صوبے کی ترقی کا ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب، اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ سوات کوہستان کے باسی''پاکستانیوں'' میں شمار نہیں ہوتے، پھر بھی سوات کوہستان کی خوبصورت وادیاں، جھیلیں اور دلکش مقامات کا کیا کیا جائے جو صوبے کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ صوبے کی ترقی کا انحصار صوبے کی سیاحت پر ہی ہے، جہاں کے مواصلاتی نظام کی بحالی کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔



سوات سے صوبے کی حکمران جماعت نے کلین سوئپ کیا ہے۔ حکمران جماعت کے 5 ممبر صوبائی اسمبلی اور خواتین سمیت 4 ممبران قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں، مگر جب ان سے سوات کوہستان کی سڑکوں کی بحالی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہی پرانا راگ الاپا جاتا ہے کہ ''وفاق صوبے پر ظلم ڈھا رہا ہے''۔ وادی کالام شاہراہ کی تعمیر کی ذمہ داری وفاقی ادارے این ایچ اے پر ڈالی جاتی ہے۔ راقم ان سے یہ پوچھنے کی گستاخی کرتا ہے کہ پی کے ایچ اے کس مرض کی دوا ہے؟ عوام کی جیبوں سے چلنے والا ''پختونخوا ہائی وے اتھارٹی'' کے ملازمین صرف دفتر میں بیٹھ کر مکھیاں اڑانے کی تنخواہیں لے رہے ہیں؟

اگر 5 سو کلو میٹر سڑکوں کی تعمیر میں بحرین تا کالام 35 کلو میٹر سڑک کسی شمار و قطار میں نہیں تو یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اگر وفاق کا برتاؤ صوبے کے ساتھ اچھا نہیں تو صوبے کا برتاؤ بھی سوات کوہستان کے ساتھ انتہائی برا ہے۔

اگر صوبائی حکومت ایشیا کا سیاحتی زون وادی سوات اور پھر سوات کوہستان جیسی حسین وادیوں کی سیاحت کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہوتی تو ان 5 سو کلو میٹر سڑکوں میں سے کم از کم 2 سو کلو میٹر سوات کوہستان کے خوبصورت سیاحتی علاقوں کو ملانے والی سڑکوں پر خرچ کرتی۔ سڑکوں کے اس منصوبے میں سوات کا کہیں بھی ذکر نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست کے اس کھیل کے مطابق وہی حصہ اہم ہے جہاں آپ کا ووٹ بینک ہو۔ بقول شاعر،
ہماری شرط وفا یہی ہے
وفا کروں گے وفا کریں گے

شاید سوات کوہستان سیاسی مفادات کے حوالے سے اتنا اہم نہیں، اس لئے یہاں کوئی بھی حکمران نظرِ التفات ڈالنا گوارا نہیں کرتا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں