یہ کتے ہیں دہشتگرد نہیں

جس طرح ہمارے معاشرے میں کتوں کو مارنے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں وہ کسی بھی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔

حکام اس بات کی کیا ضمانت دے سکتے ہیں کہ گاڑی میں لے جائے جانے والے کتوں کا گوشت بعد میں انسانوں کو کھلایا نہیں جائے گا بلکہ اِن کو ٹھیک اُسی طرح تلف کیا جاتا ہے جس طرح اِس کو ہونا چاہیئے؟

زیر نظر تصویر میں کتے کراچی کی شاہراہ پر سستا نہیں رہے بلکہ ان آوارہ کتوں کو مار کر دھوپ میں سوکھنے کے لئے رکھا گیا ہے۔



کہا یہ جاتا ہے کہ ہر کچھ دن بعد 'کتا مار کارروائی' کا آغاز عوامی شکایات پر کیا جاتا ہے، اگر سچ پوچھا جائے تو عوام کی اور بھی درجنوں شکایات ہیں، مگر مجال ہے کہ کبھی وہ سن لی گئی ہوں، خیر اِن بار بار کی کارروائیوں کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی شر پسندانہ حرکات کی وجہ سے کئی شہری اسپتال کی سیر کر چکے ہیں۔ ویسے تو جب بھی اِس کار روائی کا آغاز اِس عزمِ مصمم کے ساتھ ہوتا ہے کہ اب اِن 'کتوں' میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا، لیکن ہر بار کچھ کے علاوہ سب بچ جاتے ہیں۔

ویسے تو مملکتِ خداداد میں دیگر مسائل کے انبار کی موجودگی میں کبھی اِس گھمبیر مسئلے پر سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا کہ اِن کے خلاف کارروائی ہمیشہ ناکام کیوں ہوجاتی ہے؟ لیکن پھر ایک دوست نے اِس کی وجہ بتائی، ویسے تو کبھی اُس دوست کی بات پر یقین نہیں کیا، لیکن اِس بار اُس کی رائے میں دم ضرور نظر آیا، موصوف کہتے ہیں کہ جتنی بار بھی شہری انتظامیہ نے اس مسئلے سے مستقل بنیاد پر جان چھڑوانے کے لئے کارروائی کی درحقیقت اُس میں اخلاص کم اور دکھاوا زیادہ ہوتا ہے، پھر جس طرح سے کتوں کو مارنے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں وہ کسی بھی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔

اِس وقت دو طرح سے آوارہ کتوں کو تلف کیا جا رہا ہے۔ یا تو کھانے کی چیزوں میں زہر ملا دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں خدشہ یہ ہوتا ہے کہ زہر کی ملاوٹ کی گئی اشیاء کوئی اور بھی کھا سکتا ہے۔ دیکھیئے یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں غربت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اور اکثر ہمیں رلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جب انسان غربت کے سبب زمین پر پڑے کچرے میں سے اپنی خوراک کو تلاش کررہے ہوتے ہیں، تو اِس طرح یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ اُس زہر کا نشانہ انسان بھی بن سکتے ہیں، پھر اِسی طرح دوسرے طریقے میں بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ انسان کی جان کو خطرہ پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ دوسرا طریقہ گولی مارنے کا ہے۔ یہ طریقے جہاں بے حسی اور بربریت کو ظاہر کرتے ہیں وہیں اپنے ساتھ کئی مسائل بھی لاتے ہیں۔ آوارہ کتوں کی لاشوں کو مناسب طور پر ٹھکانے نہ لگانے سے کئی طرح کی خطرناک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جن سے بچاؤ نا ممکن ہے، لیکن اگر اِن طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے کتوں کا صفایا ہوگیا ہوتا تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ مقصد کے حصول کے لیے تھوڑا بہت خطرہ مول لیا جاسکتا ہے، مسئلہ تو یہی ہے کہ ہر بار کی کارروائی کے بعد نتیجہ صفر ہی نظر آیا۔




بحیثیت قوم ہم لوگ جس اخلاقی پستی کا شکار ہیں اس سے کون واقف نہیں؟ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس میں یہ قوم بد دیانتی یا ملاوٹ سے کام نہ لیتی ہو؟ آئے دن حرام جانور کا گوشت گاہکوں کو بیچنے اور کھلانے کے واقعات میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ حکام اس بات کی کیا ضمانت دے سکتے ہیں کہ گاڑی میں لے جائے جانے والے کتوں کا گوشت بعد میں انسانوں کو کھلایا نہیں جائے گا بلکہ اِن کو ٹھیک اُسی طرح تلف کیا جاتا ہے جس طرح اِس کو ہونا چاہیئے؟

تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا ایسا طریقہ ہے جس سے اختیار کر کے کراچی کے عوام کو ان خطرات سے بھی بچا لیا جائے اور آوارہ کتوں کو بھی تلف کردیا جائے؟ یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تو اِس سوال کا جواب بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ دیکھیئے سائنس نے ہر شعبے میں بے پناہ ترقی کی ہے اور طب کی دنیا میں بھی انقلاب برپا کیا ہے۔ طب کی دنیا میں ایک اصطلاح ہے نس بندی، جسے انگریزی میں 'اسٹیریلائزیشن' کہتے ہیں۔

اس طریقے کو اگر بروئے کار لایا جائے تو آوارہ کتوں میں ری پروڈکشن کا عمل مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ ری پروڈکشن کا عمل رکنے سے ان کی نسل خود کار طریقے سے خود بخود ختم ہوجائے گی۔ یہ طریقہ صبر آزما ضرور ہے، لیکن اس پر عمل سے اوپر بیان کئے گئے مسائل سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں یہ طریقہ مہذب بھی ہے اور جانوروں کے لئے کم اذیت ناک بھی۔ نس بندی سے یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، پڑوسی ملک بھارت کے شہر جے پور میں بھی آوارہ کتوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے یہی طریقہ اپنایا گیا ہے۔ کئی مغربی ممالک اس طریقے پر عمل کر کے اس مسئلے سے جان چھڑا چکے ہیں۔

[poll id="999"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story