مردوں کے حقوق بھی تسلیم کرو
ارے آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جیسے ایک عورت کی عزتِ نفس ہوتی ہے ویسے ہی مرد کی عزتِ نفس کا پاس رکھنا بھی ضروری ہے۔
DERA ISMAIL KHAN:
شام کے 6 بج چکے تھے، ٹریفک کا ایک اژدھام تھا، ہر ایک پر جلدی کا بھوت سوار تھا اور اڑ کر اپنی منزل تک پہنچنے کی پڑی تھی۔ میں بھی تیزی سے اسی ہجوم کے درمیان راستہ بناتے ہوئے اپنے گھر کی طرف گامزن تھا۔ دن بھر کی تھکن اور ٹریفک کی گرد و غبار کی وجہ سے تھکن نے برا حال کردیا تھا اور اب سر بھاری محسوس ہورہا تھا۔ میں دل میں ارادہ کرچکا تھا کہ گھر پہنچتے ہی سکون سے اپنے کمرے میں آرام کروں گا۔ اسی سوچ میں مگن گھر میں داخل ہوا، مگر اُف! حسبِ معمول شاذیہ نے پھر سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔
کہاں تھے آپ؟ اتنی دیر سے کیوں آئے؟ کس کے ساتھ تھے؟ فون کیوں بند جارہا تھا؟ جب میں نے دفتر کے نمبر پر رابطہ کیا تھا تو کس کے ساتھ گفتگو ہورہی تھی مجھے کسی عورت کی آواز آرہی تھی اور یہ کھانا واپس کیوں لے آئے آپ؟ کیوں نہیں کھایا؟ اچھا تو آج باہر کھانا کھایا ہوگا، کس کے ساتھ کھایا؟ اور اس سے پہلے کے میں اس کے بے تکے سوالوں کا جواب دیتا اس نے خود ہی سارے جواب اپنے دماغ سے اختراع کرلئے اور میرے موبائل کو میرے ہی ہاتھ سے چھین کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
یا اللہ! میں کہاں جاؤں؟ میں ابھی اس کے سوالوں سے نمٹنا ہی چاہ رہا تھا کہ وہ ایک بار پھر دھڑ سے دروازہ کھولتے ہوئے اندر آئی، دوسری لڑکیوں کے ساتھ باہر گھومتے ہو، کھانا کھاتے ہو، کبھی یہ بھی سوچا کہ میں بھی دن بھر اکیلی رہتی ہوں۔ میرا بھی کچھ حق ہے، مجھے تو کبھی گھر سے باہر گھمانے نہیں لے جاتے ہیں، سارا دن کس سے باتیں کرتے ہیں؟ جو یہ نمبر تمہارے پاس بار بار آتا ہے، کون ہے یہ چڑیل؟ بتائیے مجھے، جواب دیجئے ناں، کیا ہے یہ سب؟ اور میں نے اپنا سر پیٹ لیا کہ یہ خواتین اتنی کم فہم کیوں ہوتی ہیں؟ کیا انہیں اپنےعلاوہ بھی کچھ نظر آتا ہے یا نہیں؟ ہر وقت اپنا رونا روتی رہتی ہیں اور سر درد کے باعث اس سے زیادہ نہ سوچا جا سکا تو آنکھیں بند کرکے وہیں بستر پر گر پڑا۔
جسے دیکھو ساری دنیا خواتین کے حقوق کا علم اٹھائے پھرتی ہے، ڈرامے دیکھو تو لاچار عورت، بے زباں لڑکی، مجبور خاتون، اور زنجیروں میں جکڑی عورت جیسے موضوعات ہی نظر آئیں گے، دفاتر میں ہوں تو لیڈیز فرسٹ کے اخلاقیات کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔ این جی اوز کے سلوگن بھی عورت کی آواز، برابری کی حقدار ٹائپ نظر آتے ہیں۔ ارے آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جیسے ایک عورت کی عزتِ نفس ہوتی ہے ویسے ہی ایک مرد کی عزتِ نفس کا پاس رکھنا بھی ضروری ہے۔
جیسے خواتین کے حقوق ہیں ویسے ہی ہم مردوں کے بھی، جب ایک عورت یہ امید رکھتی ہے کہ اس کوعزت ملے، مان ملے، محبت اور اعتبار ملے، بالکل ویسے ہی ایک مرد کا بھی حق ہے کہ اس پر شک نہ کیا جائے، بلکہ اعتبار کیا جائے۔ ہم کیوں ہمیشہ عورتوں کی ہی بات کرتے ہیں اور مردوں کو پس منظر میں ڈال دیتے ہیں؟ مرد کے تخلیق کردہ معاشرہ میں رہتے ہوئے ہر وقت اپنی مظلومیت کا رونا رو رو کر ہمیشہ حمایت اور ہمدردی اپنے حصے میں لے جاتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم صنفی امتیازات سے باہر نکل کر سوچیں اور انسانی برابری کی بات کریں۔ جہاں اس دنیا میں خواتین کا استحصال ہورہا ہے وہیں ان حقوق کے نام پر مردوں کے حقوق کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ تو بجائے حقوق کے نعرہ لگانے کے اپنے روزمرہ کے رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم کسی بھی انسان کے ساتھ زیادتی تو نہیں کررہے؟ یہ معاشرہ مرد و عورت کے باہم ملاپ سے توازن میں رہتا ہے، اس لئے کسی ایک کو دوسرے پر برتری نہیں ایک دوسرے کو سمجھیئے اور ایک دوسرے کیلئے تھوڑی گنجائش پیدا کیجئے، اگر ایسا کرلیا تو یقین کیجئے پھر مظلوم، لاچار، بے زباں کے نعرے بلند نہیں کرنے پڑیں گے۔
[poll id="1007"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شام کے 6 بج چکے تھے، ٹریفک کا ایک اژدھام تھا، ہر ایک پر جلدی کا بھوت سوار تھا اور اڑ کر اپنی منزل تک پہنچنے کی پڑی تھی۔ میں بھی تیزی سے اسی ہجوم کے درمیان راستہ بناتے ہوئے اپنے گھر کی طرف گامزن تھا۔ دن بھر کی تھکن اور ٹریفک کی گرد و غبار کی وجہ سے تھکن نے برا حال کردیا تھا اور اب سر بھاری محسوس ہورہا تھا۔ میں دل میں ارادہ کرچکا تھا کہ گھر پہنچتے ہی سکون سے اپنے کمرے میں آرام کروں گا۔ اسی سوچ میں مگن گھر میں داخل ہوا، مگر اُف! حسبِ معمول شاذیہ نے پھر سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔
کہاں تھے آپ؟ اتنی دیر سے کیوں آئے؟ کس کے ساتھ تھے؟ فون کیوں بند جارہا تھا؟ جب میں نے دفتر کے نمبر پر رابطہ کیا تھا تو کس کے ساتھ گفتگو ہورہی تھی مجھے کسی عورت کی آواز آرہی تھی اور یہ کھانا واپس کیوں لے آئے آپ؟ کیوں نہیں کھایا؟ اچھا تو آج باہر کھانا کھایا ہوگا، کس کے ساتھ کھایا؟ اور اس سے پہلے کے میں اس کے بے تکے سوالوں کا جواب دیتا اس نے خود ہی سارے جواب اپنے دماغ سے اختراع کرلئے اور میرے موبائل کو میرے ہی ہاتھ سے چھین کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
یا اللہ! میں کہاں جاؤں؟ میں ابھی اس کے سوالوں سے نمٹنا ہی چاہ رہا تھا کہ وہ ایک بار پھر دھڑ سے دروازہ کھولتے ہوئے اندر آئی، دوسری لڑکیوں کے ساتھ باہر گھومتے ہو، کھانا کھاتے ہو، کبھی یہ بھی سوچا کہ میں بھی دن بھر اکیلی رہتی ہوں۔ میرا بھی کچھ حق ہے، مجھے تو کبھی گھر سے باہر گھمانے نہیں لے جاتے ہیں، سارا دن کس سے باتیں کرتے ہیں؟ جو یہ نمبر تمہارے پاس بار بار آتا ہے، کون ہے یہ چڑیل؟ بتائیے مجھے، جواب دیجئے ناں، کیا ہے یہ سب؟ اور میں نے اپنا سر پیٹ لیا کہ یہ خواتین اتنی کم فہم کیوں ہوتی ہیں؟ کیا انہیں اپنےعلاوہ بھی کچھ نظر آتا ہے یا نہیں؟ ہر وقت اپنا رونا روتی رہتی ہیں اور سر درد کے باعث اس سے زیادہ نہ سوچا جا سکا تو آنکھیں بند کرکے وہیں بستر پر گر پڑا۔
جسے دیکھو ساری دنیا خواتین کے حقوق کا علم اٹھائے پھرتی ہے، ڈرامے دیکھو تو لاچار عورت، بے زباں لڑکی، مجبور خاتون، اور زنجیروں میں جکڑی عورت جیسے موضوعات ہی نظر آئیں گے، دفاتر میں ہوں تو لیڈیز فرسٹ کے اخلاقیات کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔ این جی اوز کے سلوگن بھی عورت کی آواز، برابری کی حقدار ٹائپ نظر آتے ہیں۔ ارے آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جیسے ایک عورت کی عزتِ نفس ہوتی ہے ویسے ہی ایک مرد کی عزتِ نفس کا پاس رکھنا بھی ضروری ہے۔
جیسے خواتین کے حقوق ہیں ویسے ہی ہم مردوں کے بھی، جب ایک عورت یہ امید رکھتی ہے کہ اس کوعزت ملے، مان ملے، محبت اور اعتبار ملے، بالکل ویسے ہی ایک مرد کا بھی حق ہے کہ اس پر شک نہ کیا جائے، بلکہ اعتبار کیا جائے۔ ہم کیوں ہمیشہ عورتوں کی ہی بات کرتے ہیں اور مردوں کو پس منظر میں ڈال دیتے ہیں؟ مرد کے تخلیق کردہ معاشرہ میں رہتے ہوئے ہر وقت اپنی مظلومیت کا رونا رو رو کر ہمیشہ حمایت اور ہمدردی اپنے حصے میں لے جاتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم صنفی امتیازات سے باہر نکل کر سوچیں اور انسانی برابری کی بات کریں۔ جہاں اس دنیا میں خواتین کا استحصال ہورہا ہے وہیں ان حقوق کے نام پر مردوں کے حقوق کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ تو بجائے حقوق کے نعرہ لگانے کے اپنے روزمرہ کے رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم کسی بھی انسان کے ساتھ زیادتی تو نہیں کررہے؟ یہ معاشرہ مرد و عورت کے باہم ملاپ سے توازن میں رہتا ہے، اس لئے کسی ایک کو دوسرے پر برتری نہیں ایک دوسرے کو سمجھیئے اور ایک دوسرے کیلئے تھوڑی گنجائش پیدا کیجئے، اگر ایسا کرلیا تو یقین کیجئے پھر مظلوم، لاچار، بے زباں کے نعرے بلند نہیں کرنے پڑیں گے۔
[poll id="1007"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔