کینسر ایک چیلنج

کسی زمانے میں چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کو امیروں کے طبقے کی بیماری سمجھا جاتا تھا


Shakeel Farooqi March 08, 2016
[email protected]

کسی زمانے میں چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر کو امیروں کے طبقے کی بیماری سمجھا جاتا تھا یا یہ مرض ترقی یافتہ ممالک میں لاحق ہوا کرتا تھا، مگر اب یہ غریب طبقے کو بھی لاحق ہورہاہے اور دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں بھی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں اس موذی مرض کی شرح اب خطرناک حدود کو چھورہی ہے۔

اس شرح میں اضافے کے کئی اسباب ہیں جن میں ماڈرن لائف اسٹائل اختیارکرنے کی اندھی دوڑ سرفہرست ہے، ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہمارے بزرگ سادہ زندگی اور بلند خیالات کے فلسفہ ٔ زندگی پر خود بھی عمل کرتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کو بھی یہی تلقین کیا کرتے تھے۔ دوسروں کی حرص کرنے کو معاشرے میں برا سمجھا جاتا تھا، بقول بھگت کبیرؔ

دیکھو پرائی چوپڑی مت للچائے جی
روکھی سوکھی کھائے کے ٹھنڈا پانی پی

لوگ گھر کی دال روٹی کھاکر رب کا شکر ادا کیا کرتے تھے اورگھر سے باہر کھانے پینے والوں کو چٹورا اور فضول خرچ کہا جاتا تھا۔گھر کے کھانوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کون کون سے اجزا شامل ہیں جب کہ باہر کھانوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان میں کیا ملا ہوا ہے، بریسٹ کینسر میں تیزی سے اضافے کا دوسرا سبب تولیدی طرز عمل (Reproductive behaviour) میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں، جب کہ تیسرا سبب عرصہ حیات میں بہتری ہے تاہم ترقی پذیر ممالک میں ریسرچ اور اعداد وشمار کے فقدان کی وجہ سے اس مرض کے اسباب کے بارے میں یقین سے کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے۔

بچہ پیدا کرنے کی عمر والی پاکستانی خواتین میں بریسٹ کینسر سے واقع ہونے والی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ابھی چند روزقبل جب ہم نے مدت دراز بعد خیروعافیت دریافت کرنے کے لیے اپنے ایک دوست کو فون کیا تو ہمیں یہ سن کر شدید دھچکا لگا کہ ان کی اہلیہ اﷲ کو پیاری ہوگئی ہیں۔

وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ بریسٹ کینسرکے موذی مرض نے ان کی جان لے لی۔ براعظم ایشیا میں بریسٹ کینسر کی بھینٹ چڑھنے والی خواتین کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے یعنی ایک لاکھ خواتین میں 69.1 ہر سال 90,000 خواتین بریسٹ کینسر میں مبتلا پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے 40 ہزار خواتین پاکستان میں موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 18کروڑ کی آبادی والے ہمارے ملک پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے، جس میں سے تقریباً دو تہائی آبادی 30سال سے کم عمر والی عورتوں کی ہے۔

ان حالات میں بریسٹ کینسرکے موزی مرض کے بارے میں تشویش کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس منحوس بیماری میں مزید تیزی سے اضافے کا خدشہ لاحق ہے۔ کسی بھی گھر کا دارومدار خاتون خانہ پر ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اسے گھر والی کہا جاتا ہے اور گھر،گھر والی سے ہی آباد ہوتا ہے گھر والی کی وفات کے نتیجے میں گھر ویران ہوجاتا ہے اور ماں کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد بے چارے بچے رل جاتے ہیں۔

بریسٹ کینسرکے مرض کی تشخیص اگر جلد ہوجائے تواس سے نجات حاصل کرنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں طبی سہولتوں کی بہترین دستیابی کی وجہ سے وہاں کی خواتین بڑی خوش قسمت ہیں کہ 10 میں 9مریضائیں اس مرض کے چنگل سے نکل کر شفایاب ہوجاتی ہیں، مگر ہمارے ملک میں جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں اور غربت کی وجہ سے علاج کرانا بھی مشکل ہے۔ بریسٹ کینسر کی مریضاؤں کا بس اﷲ ہی حافظ ہے۔ ان بے چاریوں میں سے اکثرکے مرض کی تشخیص تو اس وقت ہوتی ہے، جب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوتا ہے اور مرض جڑ پکڑچکا ہوتا ہے۔ اس موذی مرض کی تشخیص اورعلاج میں تاخیر جان لیوا ہی ثابت ہوتی ہے۔

اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ اس موذی مرض کے بارے میں عوام کے اندر زیادہ سے زیادہ شعور بیدار کیا جائے۔ یہ بڑی امید افزا اور لائق تحسین پیش وقت ہے کہ چند خدا ترس دوست ادارے اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لے رہے ہیں اور امید کی کرن نظر آرہی ہے، تاہم وطن عزیز میں بریسٹ کینسر کیئر کی سمت میں منظم کاوشوں کا بہت بڑا فقدان ہے، اوراس کے لیے ملک گیر اسکریننگ پروگرام کی بھی اشد ضرورت ہے بد قسمتی سے ہمارا ملک اس معاملے میں ابھی دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے۔

ہمارے ملک میں یہ مہلک مرض جس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں علاج معالجے کی صورتحال بڑی مایوس کن ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں بریسٹ کینسر سرجنوں کی شدید کمی ہے، اس کے علاوہ اس مرض کی تشخیص کرنے والے ماہرین (Oncologists) کی تعداد بھی ضرورت کے مقابلے میں کافی کم ہے اسی طرح Radiologists اور دیگر تربیت یافتہ عملے کی تعداد بھی طلب کے لحاظ سے بہت کم ہے۔

بریسٹ کینسر کے علاج کی دوائیں بھی بڑی مہنگی ہیں جن کا خریدنا عام آدمی کے بس سے باہر ہے اور دوسری جانب لیبارٹری کے ٹیسٹ بھی بہت مہنگے ہیں۔ حکومت اور اصحاب خیر کو اس جانب انسانی ہمدردی کے ناتے فوری اور بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ دوسری جانب تدارک کے اقدامات پر دھیان دینا بھی بہت ضروری ہے ۔

جس میں ماؤں کو بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے گریزکی غلط عادت کا ترک کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ اور بچے کی پیدائش میں غیر ضروری تاخیر سے گریزکرنا بھی بریسٹ کینسر سے بچنے کا اچھا طریقہ ہے، و مغربی لائف اسٹائل اپنانے کی غلط روش کو ترک کرکے بھی اس موذی مرض سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ مغربی تہذیب کی نقالی میں ہم اپنی حدوں سے اس حد تک گزر چکے ہیں کہ ہم پر ''کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی چال بھول گیا'' والی کہاوت صادق آرہی ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ اس موذی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے بلا تاخیر ایک جامع اور ملک گیر پروگرام تیارکیا جائے جس میں عوامی شعورکی بیداری کی ٹویٹر مہم، آبادی کی اسکریننگ اور علاج معالجے کی سہولیات میں خاطر خواہ اضافے کا اہتمام شامل ہونا چاہیے۔

ہماری تجویز یہ ہے کہ مرکزی سطح پر ایک کینسر رجسٹری کا ادارہ قائم کیا جائے جسے ملک میں اس موذی مرض کا شکار ہونے والوں کے اعداد وشمار جمع کرنے کا کام سونپا جائے تاکہ اس بات کا بالکل درست اندازہ لگایا جاسکے کہ وطن عزیز میں کینسر کے مریضوں کی تعداد کیا ہے ان کی عمریں کیا ہیں ان کی جنس کیا ہے اور انھیں کس کس قسم کا کینسر لاحق ہے۔ ان اعداد وشمار سے اس موذی مرض کا علاج کرنے والے اسپتال اور معالجین کو بڑی مدد ملے گی۔

ہماری دوسری تجویز یہ ہے کہ میڈیا اس سلسلے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پرکینسر کے بارے میں عوامی شعور بیدارکرنے کے لیے اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرے اور یہ کام قومی خدمت کے فریضے کے طور پر انجام دے۔

معالجین سے ہماری گزارش ہے کہ وہ مریضوں کے علاج کے سلسلے میں اپنی دنیا سنوارنے سے زیادہ اپنی عاقبت سنوارنے کو اہمیت دیں کیوں کہ جلد یا بدیر انھیں بھی ایک نہ ایک روز اس عالم فانی کو خیر باد کہہ کر اپنے خالق حقیقی کے پاس جانا ہے ایک فلمی شاعر کے بقول:

صنم دے جھوٹ موت بولو
خدا کے پاس جانا ہے

جن لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے دھن دولت سے نوازا ہے وہ اپنے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھے رہنے کے بجائے دکھی مریضوں کے علاج معالجے کے لیے بھی دست شفقت دراز کریں کیوں کہ ذخیرہ کیا ہوا مال نہیں بلکہ مستحقین پر خرچ کیا ہوا روپیہ پیسہ ہی آخرت میں کام آئے گا۔ ساحرؔ نے کیا خوب کہا ہے:

دھن دولت کے پیچھے کیوں ہے یہ دنیا دیوانی
یہاں کی دولت یہاں رہے گی ساتھ نہیں یہ جانی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔