شوال کے شہید

فائرنگ میں 4 سیکیورٹی فورسزکے اہلکار شہید ہوگئے جن میں کیپٹن عمیر، حوالدار حاکم، سپاہی حمید اور سپاہی ارشد شامل ہیں


Zaheer Akhter Bedari March 08, 2016
[email protected]

شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے آخری مرحلے کی جنگ میں شوال کے علاقے میں سیکیورٹی فورسزکی کارروائی میں 34 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردوں نے فرار ہوتے ہوئے سیکیورٹی فورسزکے ایک گروپ کو گھیرے میں لے کر اس پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔

فائرنگ میں 4 سیکیورٹی فورسزکے اہلکار شہید ہوگئے جن میں کیپٹن عمیر، حوالدار حاکم، سپاہی حمید اور سپاہی ارشد شامل ہیں۔ 28 فروری کے ایکسپریس کے صفحہ اول پر ان چاروں شہیدوں کی تصاویر شایع ہوئی ہیں، کیپٹن عمیر سمیت چاروں اہلکار نوجوان ہیں جانے اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں ان بہادر جوانوں نے کیسے کیسے سپنے سجا رکھے تھے، یہ سارے سپنے شوال کی سرزمین پر اپنے ہی خون میں بہہ گئے۔

جس لڑائی میں کیپٹن عمیر جیسے ہزاروں سپاہی اب تک شہید ہوئے ہیں اس لڑائی کو میں ایسا جہاد سمجھتا ہوں جس میں شہید ہونے والے محض شہید نہیں بلکہ وہ عظیم انسان ہیں جو صدیوں کے ارتقائی سفر کو طے کرکے ایک مہذب زندگی کا نشان بننے والی تہذیب کی بقا کی ایسی لڑائی لڑ رہے ہیں جو ساری دنیا کے عوام کا ورثہ ہے۔ میں نہ کیپٹن عمیر کو جانتا ہوں نہ حوالدار حاکم کو نہ سپاہی حمید اور ارشد کو۔ ان کی شہادت سے پہلے انھیں پاکستان کے عوام بھی نہیں جانتے تھے، لیکن ان کی شہادت نے انھی 20 کروڑ پاکستانیوں نے ایک ایسا بلند مقام دے دیا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔

دنیا کی جنگوں کی تاریخ میں اب تک کروڑوں جوان مارے جاچکے ہیں، ان جنگوں میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی شامل ہیں، لاکھوں کروڑوں فوجی مارے گئے یہ جنگیں عموماً بڑی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے لڑی جاتی رہیں ان جنگوں میں مارے جانے والے فوجی بھی اس لیے قابل احترام ہیں کہ وہ ان جنگوں کو لڑنے کے لیے مجبور تھے لیکن اکیسویں صدی کے آغاز سے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں جنگوں کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ مقدس جنگیں ہیں کیونکہ یہ جنگیں جن فریقین کے درمیان لڑی جا رہی ہیں۔ان میں سے ایک فریق ہزاروں سالوں میں تشکیل پانے والی تہذیب کو مٹانے کے درپے ہے، دوسرا فریق اسے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہماری دنیا کی پوری تاریخ جنگوں سے بھری ہوئی ہے، ماضی کے شخصی اورخاندانی حکمرانیوں کے دور میں حکمران طبقات جنگیں عموماً ملکوں کو فتح کرنے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی جاتی تھیں۔ بدقسمتی سے ان جنگوں کو قومی جنگوں کا نام دے کر ان کی اہمیت بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی اور ان جنگوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو ہیروزکا درجہ بھی دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران طبقات کی مفاداتی جنگوں میں اپنی جانیں گنوانے والوں کا بھی احترام کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ ملک و قوم کے نام پر اپنی جانیں گنواتے رہے لیکن انسانی تاریخ کی غالباً یہ پہلی جنگ ہے جوکسی طبقے کسی فرقے کسی ملک کی بقا کے لیے نہیں لڑی جا رہی ہے بلکہ اس دنیا میں رہنے والے 7 ارب انسانوں کی تہذیب کو وحشیوں سے بچانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ یہ جنگ جہاں بھی لڑی جا رہی ہے اور اس جنگ میں دہشت گردوں سے لڑنے والوں کا کسی ملک کسی مذہب سے تعلق ہو یہ سب شہید اور انسانیت کے محافظ ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والوں کے لواحقین کو مالی امداد دی جاتی ہے۔ یہ امداد شہیدوں کے لواحقین کے کام آتی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو جوان جو سویلین ان جنگوں میں شہید ہو رہے ہیں، یہ سب بے گناہ اور معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے عظیم محسن بھی ہیں، یہ نہ حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں نہ محض ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں بلکہ یہ کرہ ارض پر ہزاروں سالوں میں تشکیل پانے والی تہذیب اور مہذب معاشروں اور ان کے مستقبل کے تحفظ کے لیے بہادری سے لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

کیا اس سے بڑھ کر کوئی قربانی محترم ہوسکتی ہے؟ ان شہدا کا تعلق اگرچہ مختلف صوبوں مختلف علاقوں سے ہے لیکن یہ پورے ملک کی آن اور شان ہیں ان کی قربانیوں کا تقاضا یہ ہے کہ بڑے شہروں میں ان کی یادگاریں قائم کی جائیں تاکہ عوام کے دلوں میں ان کی یاد ان کی قربانیاں تازہ ہوتی رہیں کیونکہ حقیقی معنوں میں یہ شہدا مستحق ہیں کہ ان کی قربانیوں کے حوالے سے ملی نغمے تشکیل دیے جائیں۔ ہمارے ملک میں اس حوالے سے ایک نظریاتی انتشار موجود ہے۔ کچھ حلقے بالواسطہ طور پر یا دبے دبے انداز میں مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو ملک و ملت اور مذہب کے پاسبان سمجھتے ہیں۔

میڈیا میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو دہشت گردوں کی بالواسطہ اور ڈھکے چھپے انداز میں حمایت کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد ہر جگہ اس لڑائی کو دین کی سربلندی کی لڑائی کا نام دے رہے ہیں۔ ان کی حمایت میں جو حلقے سرگرم ہیں، ان سے عوام یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ صرف پاکستان میں دین کی سربلندی کے لیے لڑنے والے ان مجاہدین نے 50 ہزار سے زیادہ مسلمانوں اور پاکستانیوں کو جن میں مرد عورت بچے بوڑھے سب شامل ہیں انتہائی بے دردی سے شہید کردیا۔

کیا مسلمانوں کے خون بہانے سے دین سربلند ہوگا۔عوام کے دلوں میں ان کم عمر نوجوانوں، سادہ لوح مذہب پرستوں کے لیے بھی ہمدردی کے جذبات موجود ہیں جو اپنے سینوں پر خودکش جیکٹس باندھ کر عوام کے ہجوموں میں چلے جاتے ہیں اور خود کو بارود سے اڑا لیتے ہیں۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک جیتا جاگتا کم عمر نوجوان جس نے ابھی زندگی کی رعنائیاں بھی نہیں دیکھیں اپنے جسم کے ساتھ ساتھ بے گناہ انسانوں، مردوں، عورتوں اور بچوں کے جسموں کے چیتھڑے بھی اڑا دیتا ہے۔

ان خودکش بمباروں میں دو قسم کے نوجوان شامل ہوتے ہیں ایک وہ جو پیٹ کی خاطر اپنے خاندان کی کفالت کی خاطر پیٹ سے بارود باندھ کر خود کو اڑا لیتا ہے۔ دوسرا وہ نوجوان ہوتا ہے جس کی برین واشنگ کرکے اسے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ دین کی سربلندی کی جنگ ہے اور اس میں جان دینے والا سیدھا جنت میں جائے گا۔ بدقسمتی سے عوام خصوصاً قبائلی عوام میں ایسے لوگ ایسی تنظیمیں موجود نہیں جو منظم انداز میں نوجوانوں کو یہ بتائیں کہ دین میں جبر نہیں ایک مسلمان کا قتل سارے عالم کا قتل ہے۔ مسلمان کا خون مسلمان پر حرام ہے۔ اگر علم حاصل کرنے کے لیے چین جانا پڑے تو چین جانا چاہیے۔یہ خدا اور اس کے رسول کے فرمان ہیں۔ کیا مسلمانوں کو قتل کرکے اور بچوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑانے والے مذہب کے دوست ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔