1977 کے عام انتخابات کے اثرات
پاکستان میں عام انتخابات اگرچہ 1970 میں بھی ہوئے تھے مگر وہ عام انتخابات اس وقت ہوئے تھے
پاکستان میں عام انتخابات اگرچہ 1970 میں بھی ہوئے تھے مگر وہ عام انتخابات اس وقت ہوئے تھے جب پاکستان متحد تھا اور مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا۔ البتہ سات مارچ1977 کو قومی اسمبلی کے دس مارچ 1977 کو پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ہونے والے عام انتخابات پاکستان کی تقسیم کے بعد پہلے عام انتخابات تھے۔
ان عام انتخابات کے ہماری ملکی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ان اثرات کا ذکر ذیل کی سطور میں کرنے کی کوشش کروں گا۔ پہلے مارچ 1977 کے عام انتخابات کا ذکر کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور حکومت 14 اگست 1978 کو ختم ہوا مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کم و بیش ایک برس سات ماہ قبل ہی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور جنوری 1977 کے آغاز میں ہی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کردیا کہ سات مارچ 1977 کو پاکستان کی قومی اسمبلی و دس مارچ 1977 کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔
اس وقت آئین میں نگران سیٹ اپ کے بارے میں کوئی شق موجود نہ تھی۔چنانچہ ذوالفقارعلی بھٹو نے نگران وزیر اعظم کا منصب اپنے پاس ہی رکھا اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اگرچہ ان کے اس فیصلے پر اعتراضات کیے مگر ان کے تمام اعتراضات کو مسترد کردیا گیا ۔ان عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو شکست سے دوچارکرنے کے لیے حزب مخالف کی نو سیاسی جماعتوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا اور نوجماعتی سیاسی اتحاد کا نام تجویز ہوا۔
پاکستان نیشنل الائنس PNA یا دوسرے الفاظ میں پاکستان قومی اتحاد اس نو جماعتی اتحاد میں شریک سیاسی جماعتیں تھیں، پاکستان جمہوری پارٹی، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، جمعیت علما پاکستان ،جمعیت علما اسلام ،خاکسار تحریک ،پاکستان مسلم لیگ( قاسم گروپ)، نیشنل عوامی پارٹی و آل جموں وکشمیر مسلم لیگ کانفرنس شامل تھیں۔ جب کہ ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ (قیوم گروپ) بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہی تھی۔ نو جماعتی اتحاد کے سربراہ تھے مفتی محمود مرحوم جوکہ فضل الرحمن کے والد تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار جب کہ پاکستان قومی اتحاد جس کا مخفف تھا۔ PNA کا انتخابی نشان تھا ہل۔ PNA کا نعرہ اسلامی قوانین کا نفاذ تھا۔
انتخابی مہم کے دوران PNA میں شریک علمائے کرام نے جو فتویٰ بازی کی وہ کسی بھی مسلمان کے لیے کانوں کو ہاتھ لگانے کے لیے کافی ہے۔ مثلاً اول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکافر ہیں اور ان کو ووٹ دینے والے بھی کافر ہیں جن لوگوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے ان کی بیویاں ان کے نکاح سے نکل جائیں گی۔ سوئم جن لوگوں نے PNA کو ووٹ دیے ان کو ڈھائی لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ اب انتخابی وعدے بھی ملاحظہ فرمالیں۔
PNA اقتدار میں آکر تمام خوردنی وعام استعمال کی اشیا کی قیمتیں 1970 کی سطح پر لائے گی یہ کسی طور ممکن ہی نہ تھا اور اگر PNA یہ عام انتخابات جیت گئی تو رات 12 بجے اقتدار ملنے کی صورت میں رات 12 بج کر دو منٹ پر پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہوگا بندہ پوچھے وہ کون سی قانون سازی ہے جو دو منٹ میں ہوسکتی ہے اور ملک کے تمام موجودہ قوانین تبدیل کرسکتی ہے؟ بہرکیف جیسے جیسے انتخابات کی تاریخ قریب آرہی تھی ملک بھر میں گویا طوفان برپا ہوچکا تھا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید تر ہوتا جا رہا تھا خدا خدا کرکے سات مارچ 1977 کا سورج طلوع اور اس کے ساتھ ہی انتخابی عمل بھی شروع ہوا اور شام تک نتائج آنا بھی شروع ہوگئے۔
200 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی 19 نشستوں پر بلا مقابلہ کامیاب قرار پاچکی تھی ان بلامقابلہ کامیاب ہونے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے جوکہ لاڑکانہ کی نشست سے کامیاب ہوئے تھے بلامقابلہ کامیاب ہونے والوں میں 15 کا تعلق صوبہ سندھ اور 4 کا تعلق صوبہ بلوچستان سے تھا البتہ لاڑکانہ وہ ضلع تھا جہاں انتخابی عمل ممکن نہ ہوا کیونکہ تینوں نشستوں پر حکمران جماعت کے لوگ بھٹو سمیت بلامقابلہ کامیاب ہوگئے تھے۔ 181 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تو PNA فقط 36 نشستیں حاصل کرسکی جب کہ حکمران جماعت نے 155 نشستوں پرکامیابی حاصل کی۔
ایک نشست مسلم لیگ قیوم گروپ کے جب کہ آٹھ نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں۔ PNA نے صوبہ سرحد سے 17 پنجاب سے 8 صوبہ سندھ سے 11 نشستیں حاصل کیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب سے 107 سندھ سے 32 سرحد سے 8 بلوچستان سے 7 نشستیں حاصل کیں۔ ان انتخابات میں PNA کے اکثر رہنما ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑ رہے تھے ان رہنماؤں میں سے مفتی محمود ، بیگم نسیم ولی خان دو دو حلقوں سے کامیاب ہوئے۔ اصغرخان بھی دوحلقوں سے کامیاب ہوئے جب کہ انھوں نے پانچ حلقوں سے انتخاب لڑا تھا۔ یہ ایبٹ آباد وکراچی سے کامیاب ہوئے تھے۔ پروفیسر غفور احمد ، شیربازخان مزاری ایک ایک نشست جیتنے والے رہنما تھے۔
دیگر میں ملک قاسم، چوہدری ظہورالٰہی، عبدالستارخان نیازی کامیابی حاصل نہ کرسکے چنانچہ PNA کے رہنماؤں نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ 10 مارچ 1977 کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کردیا۔ جب کہ PNA کے بائیکاٹ کے باعث خواتین کی مخصوص دس نشستوں پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کامیاب ہوگئیں ۔ان خواتین میں بیگم نصرت بھٹو، نسیم سلطانہ ، مبارک بیگم، نرگس نعیم، دلشاد بیگم، نفیسہ خالد، بیگم کلثوم سیف اللہ ، بیگم سمیعہ عثمان فتح، بیگم بلقیس حبیب اللہ شامل تھیں۔
بہرکیف PNA کے رہنماؤں نے دھاندلی کا الزام لگا کر ملک بھر میں تحریک چلانے کا اعلان کردیا ابتدا میں تحریک بے جان رہی، مگر پھر تین چیزوں نے اس تحریک میں جان ڈال دی۔ وہ چیزیں تھیں اس تحریک کو نظام مصطفی تحریک کا نام دیا گیا اور مذہب کا خوب استعمال کیا گیا۔ دوئم کردار تھا امریکی ڈالر کا۔ سوئم، مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو PNA کے جلسوں میں لایا جاتا تاکہ وہ بتائیں کہ مشرقی پاکستان میں جو ناکامی ہوئی ہے، اس میں ذوالفقارعلی بھٹوکتنے ذمے دار ہیں۔ ان تین عوامل نے مل کر نظام مصطفی کی تحریک میں جان ڈال دی۔ ملک میں آئے روز ہڑتالیں ہونے لگیں بدامنی کے باعث کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا یہ طوفان بدتمیزی چار ماہ تک جاری رہا۔
حتیٰ کہ 4 جولائی 1977 کو امریکی سفیر و اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیا الحق کے مابین ایک ملاقات ہوتی ہے ملاقات کے بعد دونوں کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ ہے۔ اسی رات وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو و PNA کے رہنماؤں کے مابین ایک طویل اجلاس ہوتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو PNA کے رہنماؤں کے تمام مطالبات بشمول نگران سیٹ اپ کی نگرانی میں دوبارہ انتخاب بھی شامل ہیں تسلیم کرلیتے ہیں مگر یہ کیا اسی اجلاس کے دوران فوج کا ایک سپاہی بھٹو کے گوش گزار کرتا ہے کہ سر! فوج نے ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے کوئی لگ بھگ سات سینئر جنرلوں کو نظرانداز کرکے ضیا الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف بنایا تھا۔ چنانچہ ملک میں طویل ترین آمریت مسلط کردی گئی۔
ضیا الحق کے دور حکومت میں جو جبر ہوا وہ ایسا نہیں جوکہ چند سطور میں قلم بند کیا جاسکے۔ دو بار منتخب ہونے والے وزیراعظم کا عدالتی قتل کروایا گیا ،کمیونسٹ پارٹی کے رہنما نذیرعباسی کا CIA سینٹرکراچی میں بہیمانہ قتل ،سینئر سیاست دان فتحیاب علی خان سمیت ہزاروں سیاسی کارکنوں کو قیدوبند وکوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ سامراجی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی پورے ضیا دور میں مسئلہ کشمیر پس پشت ڈال دیا گیا، خواتین پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ بار بار عام انتخابات کا وعدہ کیا گیا اور پھر اپنے وعدے سے انحراف کیا گیا، غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے، جن کے باعث پاکستانی قوم کو قبیلوں برادریوں مسلکی و لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا ایک تصویر ہے ضیا آمریت کی۔
آج ہمارے پاس موقع ہے ہم جمہوریت کو حقیقی جمہوریت بنائیں ایسی جمہوریت جوکرپشن سے پاک ہو جس جمہوریت کے باعث ملک کے تمام باسیوں کو انصاف ملے، تعلیم ملے، روزگار ملے رہائش ملے، علاج کی سہولیات ملیں، اگر ایسا ہوا تو پوری قوم کہے گی ہماری جمہوریت زندہ باد۔
ان عام انتخابات کے ہماری ملکی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ان اثرات کا ذکر ذیل کی سطور میں کرنے کی کوشش کروں گا۔ پہلے مارچ 1977 کے عام انتخابات کا ذکر کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور حکومت 14 اگست 1978 کو ختم ہوا مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کم و بیش ایک برس سات ماہ قبل ہی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور جنوری 1977 کے آغاز میں ہی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کردیا کہ سات مارچ 1977 کو پاکستان کی قومی اسمبلی و دس مارچ 1977 کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے۔
اس وقت آئین میں نگران سیٹ اپ کے بارے میں کوئی شق موجود نہ تھی۔چنانچہ ذوالفقارعلی بھٹو نے نگران وزیر اعظم کا منصب اپنے پاس ہی رکھا اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اگرچہ ان کے اس فیصلے پر اعتراضات کیے مگر ان کے تمام اعتراضات کو مسترد کردیا گیا ۔ان عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو شکست سے دوچارکرنے کے لیے حزب مخالف کی نو سیاسی جماعتوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا اور نوجماعتی سیاسی اتحاد کا نام تجویز ہوا۔
پاکستان نیشنل الائنس PNA یا دوسرے الفاظ میں پاکستان قومی اتحاد اس نو جماعتی اتحاد میں شریک سیاسی جماعتیں تھیں، پاکستان جمہوری پارٹی، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، جمعیت علما پاکستان ،جمعیت علما اسلام ،خاکسار تحریک ،پاکستان مسلم لیگ( قاسم گروپ)، نیشنل عوامی پارٹی و آل جموں وکشمیر مسلم لیگ کانفرنس شامل تھیں۔ جب کہ ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ (قیوم گروپ) بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہی تھی۔ نو جماعتی اتحاد کے سربراہ تھے مفتی محمود مرحوم جوکہ فضل الرحمن کے والد تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار جب کہ پاکستان قومی اتحاد جس کا مخفف تھا۔ PNA کا انتخابی نشان تھا ہل۔ PNA کا نعرہ اسلامی قوانین کا نفاذ تھا۔
انتخابی مہم کے دوران PNA میں شریک علمائے کرام نے جو فتویٰ بازی کی وہ کسی بھی مسلمان کے لیے کانوں کو ہاتھ لگانے کے لیے کافی ہے۔ مثلاً اول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکافر ہیں اور ان کو ووٹ دینے والے بھی کافر ہیں جن لوگوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے ان کی بیویاں ان کے نکاح سے نکل جائیں گی۔ سوئم جن لوگوں نے PNA کو ووٹ دیے ان کو ڈھائی لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ اب انتخابی وعدے بھی ملاحظہ فرمالیں۔
PNA اقتدار میں آکر تمام خوردنی وعام استعمال کی اشیا کی قیمتیں 1970 کی سطح پر لائے گی یہ کسی طور ممکن ہی نہ تھا اور اگر PNA یہ عام انتخابات جیت گئی تو رات 12 بجے اقتدار ملنے کی صورت میں رات 12 بج کر دو منٹ پر پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہوگا بندہ پوچھے وہ کون سی قانون سازی ہے جو دو منٹ میں ہوسکتی ہے اور ملک کے تمام موجودہ قوانین تبدیل کرسکتی ہے؟ بہرکیف جیسے جیسے انتخابات کی تاریخ قریب آرہی تھی ملک بھر میں گویا طوفان برپا ہوچکا تھا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید تر ہوتا جا رہا تھا خدا خدا کرکے سات مارچ 1977 کا سورج طلوع اور اس کے ساتھ ہی انتخابی عمل بھی شروع ہوا اور شام تک نتائج آنا بھی شروع ہوگئے۔
200 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی 19 نشستوں پر بلا مقابلہ کامیاب قرار پاچکی تھی ان بلامقابلہ کامیاب ہونے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے جوکہ لاڑکانہ کی نشست سے کامیاب ہوئے تھے بلامقابلہ کامیاب ہونے والوں میں 15 کا تعلق صوبہ سندھ اور 4 کا تعلق صوبہ بلوچستان سے تھا البتہ لاڑکانہ وہ ضلع تھا جہاں انتخابی عمل ممکن نہ ہوا کیونکہ تینوں نشستوں پر حکمران جماعت کے لوگ بھٹو سمیت بلامقابلہ کامیاب ہوگئے تھے۔ 181 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تو PNA فقط 36 نشستیں حاصل کرسکی جب کہ حکمران جماعت نے 155 نشستوں پرکامیابی حاصل کی۔
ایک نشست مسلم لیگ قیوم گروپ کے جب کہ آٹھ نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں۔ PNA نے صوبہ سرحد سے 17 پنجاب سے 8 صوبہ سندھ سے 11 نشستیں حاصل کیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب سے 107 سندھ سے 32 سرحد سے 8 بلوچستان سے 7 نشستیں حاصل کیں۔ ان انتخابات میں PNA کے اکثر رہنما ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑ رہے تھے ان رہنماؤں میں سے مفتی محمود ، بیگم نسیم ولی خان دو دو حلقوں سے کامیاب ہوئے۔ اصغرخان بھی دوحلقوں سے کامیاب ہوئے جب کہ انھوں نے پانچ حلقوں سے انتخاب لڑا تھا۔ یہ ایبٹ آباد وکراچی سے کامیاب ہوئے تھے۔ پروفیسر غفور احمد ، شیربازخان مزاری ایک ایک نشست جیتنے والے رہنما تھے۔
دیگر میں ملک قاسم، چوہدری ظہورالٰہی، عبدالستارخان نیازی کامیابی حاصل نہ کرسکے چنانچہ PNA کے رہنماؤں نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ 10 مارچ 1977 کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کردیا۔ جب کہ PNA کے بائیکاٹ کے باعث خواتین کی مخصوص دس نشستوں پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کامیاب ہوگئیں ۔ان خواتین میں بیگم نصرت بھٹو، نسیم سلطانہ ، مبارک بیگم، نرگس نعیم، دلشاد بیگم، نفیسہ خالد، بیگم کلثوم سیف اللہ ، بیگم سمیعہ عثمان فتح، بیگم بلقیس حبیب اللہ شامل تھیں۔
بہرکیف PNA کے رہنماؤں نے دھاندلی کا الزام لگا کر ملک بھر میں تحریک چلانے کا اعلان کردیا ابتدا میں تحریک بے جان رہی، مگر پھر تین چیزوں نے اس تحریک میں جان ڈال دی۔ وہ چیزیں تھیں اس تحریک کو نظام مصطفی تحریک کا نام دیا گیا اور مذہب کا خوب استعمال کیا گیا۔ دوئم کردار تھا امریکی ڈالر کا۔ سوئم، مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو PNA کے جلسوں میں لایا جاتا تاکہ وہ بتائیں کہ مشرقی پاکستان میں جو ناکامی ہوئی ہے، اس میں ذوالفقارعلی بھٹوکتنے ذمے دار ہیں۔ ان تین عوامل نے مل کر نظام مصطفی کی تحریک میں جان ڈال دی۔ ملک میں آئے روز ہڑتالیں ہونے لگیں بدامنی کے باعث کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا یہ طوفان بدتمیزی چار ماہ تک جاری رہا۔
حتیٰ کہ 4 جولائی 1977 کو امریکی سفیر و اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیا الحق کے مابین ایک ملاقات ہوتی ہے ملاقات کے بعد دونوں کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ ہے۔ اسی رات وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو و PNA کے رہنماؤں کے مابین ایک طویل اجلاس ہوتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو PNA کے رہنماؤں کے تمام مطالبات بشمول نگران سیٹ اپ کی نگرانی میں دوبارہ انتخاب بھی شامل ہیں تسلیم کرلیتے ہیں مگر یہ کیا اسی اجلاس کے دوران فوج کا ایک سپاہی بھٹو کے گوش گزار کرتا ہے کہ سر! فوج نے ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔ یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے کوئی لگ بھگ سات سینئر جنرلوں کو نظرانداز کرکے ضیا الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف بنایا تھا۔ چنانچہ ملک میں طویل ترین آمریت مسلط کردی گئی۔
ضیا الحق کے دور حکومت میں جو جبر ہوا وہ ایسا نہیں جوکہ چند سطور میں قلم بند کیا جاسکے۔ دو بار منتخب ہونے والے وزیراعظم کا عدالتی قتل کروایا گیا ،کمیونسٹ پارٹی کے رہنما نذیرعباسی کا CIA سینٹرکراچی میں بہیمانہ قتل ،سینئر سیاست دان فتحیاب علی خان سمیت ہزاروں سیاسی کارکنوں کو قیدوبند وکوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ سامراجی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی پورے ضیا دور میں مسئلہ کشمیر پس پشت ڈال دیا گیا، خواتین پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ بار بار عام انتخابات کا وعدہ کیا گیا اور پھر اپنے وعدے سے انحراف کیا گیا، غیر جماعتی انتخابات کرائے گئے، جن کے باعث پاکستانی قوم کو قبیلوں برادریوں مسلکی و لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا ایک تصویر ہے ضیا آمریت کی۔
آج ہمارے پاس موقع ہے ہم جمہوریت کو حقیقی جمہوریت بنائیں ایسی جمہوریت جوکرپشن سے پاک ہو جس جمہوریت کے باعث ملک کے تمام باسیوں کو انصاف ملے، تعلیم ملے، روزگار ملے رہائش ملے، علاج کی سہولیات ملیں، اگر ایسا ہوا تو پوری قوم کہے گی ہماری جمہوریت زندہ باد۔