فخر کیجئے کہ آپ عورت ہیں

کیا یہ مساوات کےمنافی نہیں کہ مرد صرف معاش کی ذمہ داریوں تک محدود رہے اورعورت اپنی فطرت اور طاقت سے بڑھ کربوجھ اٹھائے؟

مرد و عورت کے عز و شرف کو ان کی صنف سے مشروط نہیں کیا کہ مرد بلند رتبہ ہے تو اس لئے کہ وہ مرد ہے، یا عورت کے کمتر ہونے کی وجہ اس کا عورت ہونا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ابتدائے آفرینش سے حیاتِ انسانی کا دار و مدار اور تعلق جس چیز سے سب سے زیادہ رہا وہ اس زمانے کا عنوان ٹھہری مثلاً، پتھر کا دور، کانسی کا دور، لوہے کا دور۔ اس اصول کے تحت موجودہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا دور کہلایا۔ بلا شبہ یہ عنوان 100 فیصد درست بھی ہے کہ حیاتِ انسانی کی رفتار بلکہ پرواز اب کائنات میں بکھری ان گنت برقی لہروں پر محوِ سفر ہے۔ دورِ انسانی کی انتساب کے اصول کو اگر وسعت کے ساتھ دیکھیں تو موجودہ دور میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک اور اہم عنوان اس کے متوازی دکھائی دیتا ہے، اور وہ ہے عورت۔

یعنی اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے ساتھ حیاتِ انسانی کے رابطے میں رہنے والی اہم ہستی عورت ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ تعلق کس نوعیت کے ہیں؟ اخبار و رسائل کی سرکولیشن بڑھانا ہو، چینلز کی ریٹینگ درکار ہو یا سیاست کی قلابازیاں، یہاں تک کے ہر قسم کے کاروبار میں بھی کامیابی کا ذریعہ عورت ہی نظر آتی ہے۔

بلا شبہ انسانی معاشرے کی کامیابی کا اہم ترین وجود عورت ہے۔ حیاتِ انسانی کی محسنہ اس عورت کے ساتھ دورِ جہالت میں تحقیر کا کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو روا نہ رکھا جا تا ہو۔ اُسے فتنہ و فساد کا موجب سمجھا جاتا تھا، بازاروں میں اجناس اور جانوروں کی طرح خرید و فروخت ہوتی تھی، مرد سے کم تر سمجھا جاتا تھا اس کی پیدائش کو باعثِ شرم جانا جاتا تھا۔ اس کو معاشرہ میں کسی قسم کا حق دینا تو درکنار، اس کی زندگی تک کے درپے ہو کر اس کو زندہ زمین میں گاڑنے سے بھی دریغ نہ کیا جاتا تھا، یہ عورت کی محکومی اور غلامی کا دور تھا۔

یہاں تک کہ چھٹی صدی عیسوی میں اسلام نے عورت کی اس محکومی و مظلومی اور غلامی کے خلاف اس شدت سے آواز بلند کی کہ تمام عالم اس سے گونج اٹھا۔ مساواتِ مرد و زن کا پہلا نعرہ اسلام نے لگایا کہ ''سارے انسان ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں''۔ مرد و عورت کے عز و شرف کو ان کی صنف سے مشروط نہیں کیا کہ مرد بلند رتبہ ہے تو اس لئے کہ وہ مرد ہے، یا عورت کے کمتر ہونے کی وجہ اس کا عورت ہونا ہے۔ ایمان اور حسنِ عمل کو دونوں کے لئے ہر جگہ کامیابی کا ذریعہ بتایا۔ دونوں اصناف (مرد و عورت) کے میدانِ کار کو ایک دوسرے سے جدا رکھا۔ ایک تو دونوں کی عفت و عصمت کی حفاظت کی خاطر، دوسرے کی قوتیں اور صلاحیتیں ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے۔ عورت کی فطرت اور عدل و انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ عورت پر مرد سے کم بوجھ ڈالا جائے۔

چنانچہ اسلام نے گھر کی خدمات عورت کے لئے اور باہر کی مرد کے ذمے ڈالیں۔ اس طرح کارخانہِ حیات میں عورت کا کام گھر میں مرد و عورت پر مشتمل نسل کو تیار کرنا اور مرد کا کام اس کے لئے بیرونِ خانہ اسباب و سامان فراہم کرنا ٹھہرا، تاکہ انسان سازی کا عمل بہترین صورت میں جاری و ساری رہے اور معاشرے کو اچھے انسان ملتے رہیں۔ حیاتِ انسانی میں عورت کا اصل کام انسانوں کے معاشرے کی تعمیر ہے۔


اسلام نے عورت کے لئے گھر سے باہر جا کر کام کرنے کی نہ ممانعت کی ہے اور نہ ضروری قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ اس کے ذمہ اس سے کہیں زیادہ بڑا عظیم المرتبت کام نسلِ انسانی کی تربیت ہے۔ اس لئے اسے ہر قسم کی معاشی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا۔ اس کی جملہ ضروریات و سہولیات، باپ کے بعد شوہر اور اولاد یا ان کے ذمہ لگائی جو حسبِ مراتب اس کے سر پرست ہیں۔ البتہ مجبوری کی حالت میں باہر نکل کر کام کرنا ایک استثنیٰ کی صورت ہے۔

گھریلو اور ازدواجی زندگی میں سلیقہ و نزاکت، اور شوہر کی خوشی و ناخوشی کے رویوں کو بھانپنے والی عورت کا احساس اور فکر ضروری ہے، ورنہ جذباتی و نفسیاتی مسائل ازدواجی زندگی کو اجیرن کردیں گے۔ دوسری جانب اولاد کی پیدائش سے لے کر اس کی پرورش اور تربیت کرکے مفید انسان کی تعمیر، یہ انتہا درجے کا پُر مشقت کام ہی عورت کی اصل ذمہ داری ہے۔ ایسی صورت میں گھر سے باہر کا کام عورت کے لئے اضافی بوجھ ہے۔ دورِ جہالت میں بھی جب عورت غلام تھی تب اس پر دوہرا بوجھ نہ ڈالا جاتا تھا، جیسا کہ آج کی عورت، مرد کے ساتھ برابری کے شوق میں بیرونِ خانہ ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہے۔ کیا یہ مساوات کے منافی نہیں کہ مرد تو اپنے مزاج کے لحاظ سے معاش کی ذمہ داریوں تک ہی محدود رہے اور عورت اپنی فطرت اور طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھائے؟

تاریخ گواہ ہے کہ معاشرتی اور اخلاقی امور میں تبدیلیاں قانونی جبر سے نہیں بلکہ تعلیم و تربیت سے آتی ہیں۔ اسی لئے نئی نسل کی ایسی ذہن سازی کی ضرورت ہے کہ خواتین سمیت تمام نسل انسانی کی عزت، احترام اور محبت کو شعار بنائے اور یہ تربیت سازی کا جوہر عورت کی عظمت کیلئے کافی ہے، لہذا خواتین کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس معاشرہ کو انسان دوست بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔

[poll id="1001"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story