خواتین کا عالمی دنایک شہزادی کی کہانی
کل 8 مارچ تھی۔ ہمارے یہاں اور دنیا کے دوسرے بہت سے ملکوں میں اس روزخواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے
کل 8 مارچ تھی۔ ہمارے یہاں اور دنیا کے دوسرے بہت سے ملکوں میں اس روزخواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کراچی میں اس حوالے سے خواتین کی سرگرمیاں 7 مارچ سے ہی شروع ہوگئی تھیں۔ میں نے بھی چند محفلوں میں شرکت کی۔ ان میں سے ایک صحافی خواتین کے مسائل اور ان کے ساتھ ہونے والے صنفی امتیاز کے بارے میں تھی۔ اس میں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد صحافی بھی موجود تھے جن کی کم سنی گئی اور خواتین نے اپنی شکایتیں کھل کر سامنے رکھیں۔
ان میں سے کچھ درست تھیں اورکچھ ایسی بھی تھیں جن کا تعلق اس بات سے تھا کہ عمر رسیدہ خواتین کو اینکر پرسن ہونے کا موقع کیوں نہیں ملتا۔ بات اتنی سی ہے کہ ہمارے یہاں حسن اور عمر کو ذہانت اور تجربے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ بعض مرد صحافیوں کا کہنا تھا کہ اینکر پرسن کو منتخب کرتے ہوئے اس کی فیس ویلیوکو اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ بی بی سی، سی این این اور دوسرے مغربی چینلوں کے اسکرین پر نمودار ہونے والی کرسٹن امان پور اور دوسری خواتین کو نظر میں کیوں نہیں رکھتے جن کے تجربے اورمہارت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ ان میں کئی فربہ اندام، سیاہ فام اور عمر رسیدہ خواتین ہیں لیکن انھیں دیکھنے والوں کو کبھی اس بات کی شکایت نہیں ہوتی۔
اس گفتگو میں میری باری آخر میں آئی تو میں نے کہا کہ جب میں نے اخباری دنیا میں قدم رکھا تھا تو مجھے اپنے ارد گرد کام کرنے والے مرد صحافیوں سے کسی قسم کے ناروا یا نازیبا سلوک کی شکایت نہیں ہوئی تھی، نہ کسی امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ وہ دن ابھی ماضی بعید نہیں بنے تھے، جب صحافت، تجارت نہیں عبادت تھی۔ ہمارے یہاں بھی تجارت کا آغاز ہو توچکا تھا لیکن ابھی اس کے دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے تھے۔
یوں بھی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے تقاضے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ میرا یہ بھی کہنا تھا کہ پرنٹ میڈیا ہو یا ٹیلی ویژن اس میں صنفی امتیاز کی اگر بات کی جائے تو انگریزی اخبارات میں کام کرنے والی خواتین کا تجربہ ذرا مختلف ہے۔ وہاں ایسے ماہنامے ہیں جن میں 70 فی صد کام کرنے والیاں خواتین ہیں اور وہ اپنی قابلیت کی بنیاد پر ایڈیٹر اور ڈپٹی ایڈیٹر بنتی ہیں۔
ان میں رضیہ بھٹی جیسی دبنگ اور جی دار مدیر بھی رہی ہے جس نے جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ کا مقابلہ اس حد تک کیا کہ برین ہیمبرج ہوا اور وہ جان سے گزرگئی۔ ہم مسز زیب النساء حمید اللہ کو کیسے بھلا سکتے ہیں جو 'مرر' جیسے پرکشش اور شاندار انگریزی رسالے کی مدیر تھیں۔ بہ ظاہر وہ طبقہ اعلیٰ کی تقریبات کا عکاس تھا لیکن زیب النساء جو خود ملکی اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے بے باک تنقیدی اداریوں سے ہمارے پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو خوف محسوس ہوتا تھا اور جنہوں نے ان کے رسالے کی اشاعت پر پابندی عائد کردی تھی۔
ہم اگر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ پاکستانی آئین صنف کی بنیاد پر سب کے ساتھ مساوی سلوک کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کوئی عورت پاکستان میں صدر نہیں بن سکتی، بالکل اسی طرح جس طرح اقلیتوںسے تعلق رکھنے والا کوئی فرد پاکستان کا صدر نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی عورت کے ساتھ سب سے زیادہ نا انصافیاں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئیں جنہوں نے اسلام اور شریعت کا نام لیتے ہوئے چند ایسے آرڈیننس نافذ کردیے جنہوں نے عورتوں کے حقوق کو سخت نقصان پہنچا یا۔
اس وقت سے خواتین کے علاوہ سول سوسائٹی کے کئی عناصر ان امتیازی قوانین کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اب تک ان قوانین سے نجات نہیں مل سکی ہے۔ 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن مناتے ہوئے پاکستانی خواتین یہ نہیں بھول سکتیں کہ انھیں بہت گنجائش بے نظیر بھٹو کے دور میں ملی۔ بے نظیر دو مرتبہ وزیر اعظم ہوئیں اور دونوں مرتبہ انھوں نے پیپلز پارٹی میں ذہین، فعال اور سیاسی شعور رکھنے والی خواتین کو آگے آنے کا موقع دیا ۔
چند ہفتوں پہلے پنجاب اسمبلی نے خواتین کے تحفظ کے لیے جوبل منظور کیا ہے، اس پر مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیا شوروغل ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق اس بل کے ذریعے اسلام اور شریعت پر حملہ کیا گیا ہے اور وہ اس کے خلاف ایک بڑی مہم چلانے کے درپے ہیں۔ ان حضرات سے مودبانہ صرف ایک سوال ہے کہ وہ عورت جس کے قدموں کے نیچے جنت آباد ہونے کی بات کی جاتی ہے، وہی عورت جب تیزاب، گھریلو تشدد اور بات بے بات طلاق کا شکار ہوتی ہے، کسی ایک مرد کے جرم کی سزا میں اس کے گھر کی بیوی، بہن یا بیٹی سر بازار پھرائی جاتی ہے، اس وقت ان میں سے کتنوں کے لب کھلتے ہیں اور کتنے اس کی تذلیل اور توہین پر برسر منبر گرجتے اور برستے ہیں؟
اس بل کی جس قدر مزاحمت ہورہی ہے، جو کس حد تک کی جائے گی اور پنجاب اسمبلی اپنے منظورشدہ اس بل کا دفاع کس طرح کرے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ مرد ہوں یا عورتیں ان کی زندگی میں قانون سازی کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے، اس بارے میں ہمیں بہت شعوری ہونے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مجھے ریاست بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کی خودنوشت یاد آئی۔ بھوپال برٹش راج کی ایک نہایت اہم ریاست تھی۔ وہاں جو قوانین لاگو تھے۔
ان کے مطابق شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کی صورت میں اولاد باپ کے پاس رہتی تھی۔ اس وقت ایک عام تصور یہ تھا کہ شہزادی عابدہ سلطان ایک دبنگ اور خودسر خاتون ہیں۔ان کی پرورش کسی لڑکی کے بجائے لڑکوں کی طرح ہوئی تھی۔ وہ گھڑ سواری کرتیں، اسکواش کھیلتیں ، 100 میل سے اوپر کی رفتار سے گاڑیاں دوڑاتیں اور ہر وہ کام کرتیں جن کے بارے میں اس زمانے کی اور ان کے خاندان کی لڑکیاں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ ان کی شادی اپنے رشتے کے ایک بھائی سے ہوئی جو عمر میں ان سے بڑے تھے اور اسی لیے وہ شادی کے بعد بھی انھیں، دادا بھائی کہتی رہیں۔
شادی سے پہلے ان کے دادا بھائی سے اچھے تعلقات تھے لیکن دادا بھائی جب ان کے شوہر بنے تو انھیں اندازہ ہوا کہ وہ کسی پنجرے میں بند کردی گئی ہیں۔ چند مہینوں کے اندر ہی میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوئے اور اس حد کو پہنچے کہ وہ اپنے شوہر کی ریاست چھوڑ کر اپنے والد نواب صاحب بھوپال کے پاس چلی آئیں اور وہیں وہ ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ انھوں نے طے کیا کہ اب وہ 'دادا بھائی' کی بیوی بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے شوہر کو اس بات کا اندازہ ہوا تو انھوں نے بھوپال کی شہزادی کو ہر طرح سے تنگ کرنا شروع کیا۔ 'دادا بھائی' انھیں مستقل یہ دھمکی دیتے تھے کہ وہ اپنا بیٹا ان سے چھین لیں گے جس پر وہ ہزار جان سے عاشق تھیں۔
انھیں معلوم تھا کہ قانون ان کے ساتھ نہیں اور ان کے شوہر جب چاہیں گے ان کا بیٹا اُن سے چھین لیں گے۔ آخر کار انھوں نے جان پر کھیل جانے کا فیصلہ کیا۔ آدھی رات کو گاڑی تن تنہا چلاتی ہوئی وہ 100 میل دور اپنے شوہر کی ریاست پہنچیں۔ وہاں محل میں پہنچ کر وہ سیدھی اپنے شوہر کی خوابگاہ میں گئیں۔
وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے تو شہزادی عابدہ سلطان نے کہا ''میں یہاں اکیلی آئی ہوں تاکہ تم پر ایک دفعہ، ہمیشہ کے لیے واضح کردوں کہ میں اپنے بیٹے سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی۔ میں مرنے کو اس پر ترجیح دوں گی۔ اس لیے تمہیں ایک بہترین موقع دیتی ہوں کہ تم مجھے قتل کردو اور کہہ دو کہ یہ سب کچھ خود میری وجہ سے ہوا''۔ شہزادی عابدہ سلطان نے لکھا ہے کہ اس وقت میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔میں نے اپنا ریوالور نکال کر دادا بھائی کی گود میں پھینک دیا اور بولی ''ہتھیار میرا ہے اور بھرا ہوا ہے اسے استعمال کرو اور مجھے قتل کرو، نہیں تو میں تمہیں قتل کردوں گی''۔ آخر کار جان کے خوف سے ان کے شوہر اپنے حق سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوئے۔
یہ 1935میں برٹش راج کے زیر سایہ زندگی گزارنے والی بھوپال جیسی اہم ریاست کی شہزادی کا قصہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماں باپ کی علیحدگی کی صورت میں اولاد کی تحویل کا قانون برٹش راج میں بھی عورت کے حق میں نہ تھا اس لیے اعلیٰ اور حکمران طبقے کی عورت بھی اپنی جان پر کھیل کر ہی اپنی آزادی اور اپنے حقوق کا تحفظ کرسکتی تھی۔
آج زمانہ بدل چکا ہے پاکستانی عورت کے حق میں متعدد قوانین بنے ہیں لیکن اصل مسئلہ ان قوانین کے نافذ ہونے کا ہے۔ پاکستانی عورت کے حق میں اگر اس کے نمایندے جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں، کوئی قانون منظور بھی کردیتے ہیں تو اس کو نافذ کرانا ہمارے منتخب نمایندوں، ہماری عدالتوں اور ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔
8 مارچ کا اس سے اہم پیغام اور کیا ہوسکتا ہے۔
ان میں سے کچھ درست تھیں اورکچھ ایسی بھی تھیں جن کا تعلق اس بات سے تھا کہ عمر رسیدہ خواتین کو اینکر پرسن ہونے کا موقع کیوں نہیں ملتا۔ بات اتنی سی ہے کہ ہمارے یہاں حسن اور عمر کو ذہانت اور تجربے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ بعض مرد صحافیوں کا کہنا تھا کہ اینکر پرسن کو منتخب کرتے ہوئے اس کی فیس ویلیوکو اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ بی بی سی، سی این این اور دوسرے مغربی چینلوں کے اسکرین پر نمودار ہونے والی کرسٹن امان پور اور دوسری خواتین کو نظر میں کیوں نہیں رکھتے جن کے تجربے اورمہارت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ ان میں کئی فربہ اندام، سیاہ فام اور عمر رسیدہ خواتین ہیں لیکن انھیں دیکھنے والوں کو کبھی اس بات کی شکایت نہیں ہوتی۔
اس گفتگو میں میری باری آخر میں آئی تو میں نے کہا کہ جب میں نے اخباری دنیا میں قدم رکھا تھا تو مجھے اپنے ارد گرد کام کرنے والے مرد صحافیوں سے کسی قسم کے ناروا یا نازیبا سلوک کی شکایت نہیں ہوئی تھی، نہ کسی امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ وہ دن ابھی ماضی بعید نہیں بنے تھے، جب صحافت، تجارت نہیں عبادت تھی۔ ہمارے یہاں بھی تجارت کا آغاز ہو توچکا تھا لیکن ابھی اس کے دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے تھے۔
یوں بھی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے تقاضے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ میرا یہ بھی کہنا تھا کہ پرنٹ میڈیا ہو یا ٹیلی ویژن اس میں صنفی امتیاز کی اگر بات کی جائے تو انگریزی اخبارات میں کام کرنے والی خواتین کا تجربہ ذرا مختلف ہے۔ وہاں ایسے ماہنامے ہیں جن میں 70 فی صد کام کرنے والیاں خواتین ہیں اور وہ اپنی قابلیت کی بنیاد پر ایڈیٹر اور ڈپٹی ایڈیٹر بنتی ہیں۔
ان میں رضیہ بھٹی جیسی دبنگ اور جی دار مدیر بھی رہی ہے جس نے جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ کا مقابلہ اس حد تک کیا کہ برین ہیمبرج ہوا اور وہ جان سے گزرگئی۔ ہم مسز زیب النساء حمید اللہ کو کیسے بھلا سکتے ہیں جو 'مرر' جیسے پرکشش اور شاندار انگریزی رسالے کی مدیر تھیں۔ بہ ظاہر وہ طبقہ اعلیٰ کی تقریبات کا عکاس تھا لیکن زیب النساء جو خود ملکی اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے بے باک تنقیدی اداریوں سے ہمارے پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو خوف محسوس ہوتا تھا اور جنہوں نے ان کے رسالے کی اشاعت پر پابندی عائد کردی تھی۔
ہم اگر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ پاکستانی آئین صنف کی بنیاد پر سب کے ساتھ مساوی سلوک کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کوئی عورت پاکستان میں صدر نہیں بن سکتی، بالکل اسی طرح جس طرح اقلیتوںسے تعلق رکھنے والا کوئی فرد پاکستان کا صدر نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی عورت کے ساتھ سب سے زیادہ نا انصافیاں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئیں جنہوں نے اسلام اور شریعت کا نام لیتے ہوئے چند ایسے آرڈیننس نافذ کردیے جنہوں نے عورتوں کے حقوق کو سخت نقصان پہنچا یا۔
اس وقت سے خواتین کے علاوہ سول سوسائٹی کے کئی عناصر ان امتیازی قوانین کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اب تک ان قوانین سے نجات نہیں مل سکی ہے۔ 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن مناتے ہوئے پاکستانی خواتین یہ نہیں بھول سکتیں کہ انھیں بہت گنجائش بے نظیر بھٹو کے دور میں ملی۔ بے نظیر دو مرتبہ وزیر اعظم ہوئیں اور دونوں مرتبہ انھوں نے پیپلز پارٹی میں ذہین، فعال اور سیاسی شعور رکھنے والی خواتین کو آگے آنے کا موقع دیا ۔
چند ہفتوں پہلے پنجاب اسمبلی نے خواتین کے تحفظ کے لیے جوبل منظور کیا ہے، اس پر مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیا شوروغل ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق اس بل کے ذریعے اسلام اور شریعت پر حملہ کیا گیا ہے اور وہ اس کے خلاف ایک بڑی مہم چلانے کے درپے ہیں۔ ان حضرات سے مودبانہ صرف ایک سوال ہے کہ وہ عورت جس کے قدموں کے نیچے جنت آباد ہونے کی بات کی جاتی ہے، وہی عورت جب تیزاب، گھریلو تشدد اور بات بے بات طلاق کا شکار ہوتی ہے، کسی ایک مرد کے جرم کی سزا میں اس کے گھر کی بیوی، بہن یا بیٹی سر بازار پھرائی جاتی ہے، اس وقت ان میں سے کتنوں کے لب کھلتے ہیں اور کتنے اس کی تذلیل اور توہین پر برسر منبر گرجتے اور برستے ہیں؟
اس بل کی جس قدر مزاحمت ہورہی ہے، جو کس حد تک کی جائے گی اور پنجاب اسمبلی اپنے منظورشدہ اس بل کا دفاع کس طرح کرے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ مرد ہوں یا عورتیں ان کی زندگی میں قانون سازی کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے، اس بارے میں ہمیں بہت شعوری ہونے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مجھے ریاست بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کی خودنوشت یاد آئی۔ بھوپال برٹش راج کی ایک نہایت اہم ریاست تھی۔ وہاں جو قوانین لاگو تھے۔
ان کے مطابق شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کی صورت میں اولاد باپ کے پاس رہتی تھی۔ اس وقت ایک عام تصور یہ تھا کہ شہزادی عابدہ سلطان ایک دبنگ اور خودسر خاتون ہیں۔ان کی پرورش کسی لڑکی کے بجائے لڑکوں کی طرح ہوئی تھی۔ وہ گھڑ سواری کرتیں، اسکواش کھیلتیں ، 100 میل سے اوپر کی رفتار سے گاڑیاں دوڑاتیں اور ہر وہ کام کرتیں جن کے بارے میں اس زمانے کی اور ان کے خاندان کی لڑکیاں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ ان کی شادی اپنے رشتے کے ایک بھائی سے ہوئی جو عمر میں ان سے بڑے تھے اور اسی لیے وہ شادی کے بعد بھی انھیں، دادا بھائی کہتی رہیں۔
شادی سے پہلے ان کے دادا بھائی سے اچھے تعلقات تھے لیکن دادا بھائی جب ان کے شوہر بنے تو انھیں اندازہ ہوا کہ وہ کسی پنجرے میں بند کردی گئی ہیں۔ چند مہینوں کے اندر ہی میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوئے اور اس حد کو پہنچے کہ وہ اپنے شوہر کی ریاست چھوڑ کر اپنے والد نواب صاحب بھوپال کے پاس چلی آئیں اور وہیں وہ ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ انھوں نے طے کیا کہ اب وہ 'دادا بھائی' کی بیوی بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے شوہر کو اس بات کا اندازہ ہوا تو انھوں نے بھوپال کی شہزادی کو ہر طرح سے تنگ کرنا شروع کیا۔ 'دادا بھائی' انھیں مستقل یہ دھمکی دیتے تھے کہ وہ اپنا بیٹا ان سے چھین لیں گے جس پر وہ ہزار جان سے عاشق تھیں۔
انھیں معلوم تھا کہ قانون ان کے ساتھ نہیں اور ان کے شوہر جب چاہیں گے ان کا بیٹا اُن سے چھین لیں گے۔ آخر کار انھوں نے جان پر کھیل جانے کا فیصلہ کیا۔ آدھی رات کو گاڑی تن تنہا چلاتی ہوئی وہ 100 میل دور اپنے شوہر کی ریاست پہنچیں۔ وہاں محل میں پہنچ کر وہ سیدھی اپنے شوہر کی خوابگاہ میں گئیں۔
وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے تو شہزادی عابدہ سلطان نے کہا ''میں یہاں اکیلی آئی ہوں تاکہ تم پر ایک دفعہ، ہمیشہ کے لیے واضح کردوں کہ میں اپنے بیٹے سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی۔ میں مرنے کو اس پر ترجیح دوں گی۔ اس لیے تمہیں ایک بہترین موقع دیتی ہوں کہ تم مجھے قتل کردو اور کہہ دو کہ یہ سب کچھ خود میری وجہ سے ہوا''۔ شہزادی عابدہ سلطان نے لکھا ہے کہ اس وقت میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔میں نے اپنا ریوالور نکال کر دادا بھائی کی گود میں پھینک دیا اور بولی ''ہتھیار میرا ہے اور بھرا ہوا ہے اسے استعمال کرو اور مجھے قتل کرو، نہیں تو میں تمہیں قتل کردوں گی''۔ آخر کار جان کے خوف سے ان کے شوہر اپنے حق سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوئے۔
یہ 1935میں برٹش راج کے زیر سایہ زندگی گزارنے والی بھوپال جیسی اہم ریاست کی شہزادی کا قصہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماں باپ کی علیحدگی کی صورت میں اولاد کی تحویل کا قانون برٹش راج میں بھی عورت کے حق میں نہ تھا اس لیے اعلیٰ اور حکمران طبقے کی عورت بھی اپنی جان پر کھیل کر ہی اپنی آزادی اور اپنے حقوق کا تحفظ کرسکتی تھی۔
آج زمانہ بدل چکا ہے پاکستانی عورت کے حق میں متعدد قوانین بنے ہیں لیکن اصل مسئلہ ان قوانین کے نافذ ہونے کا ہے۔ پاکستانی عورت کے حق میں اگر اس کے نمایندے جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں، کوئی قانون منظور بھی کردیتے ہیں تو اس کو نافذ کرانا ہمارے منتخب نمایندوں، ہماری عدالتوں اور ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔
8 مارچ کا اس سے اہم پیغام اور کیا ہوسکتا ہے۔