ہم زندہ رہیں گے

عارضی اقتدار کے لیے ہم نے مسلمانوں کا یہ ملک توڑ دیا اور اس کی طاقت کو ریزہ ریزہ کر دیا


Abdul Qadir Hassan March 09, 2016
[email protected]

اندر خانے نہ جانے کیا کیا اور کتنی ہی مفید اطلاعات دی جا چکی ہوں گی لیکن بھارت کی خوشامد یا اس پر مہربانی کا تازہ نمونہ ہمارے ایک سابق جرنیل صاحب نے ہمیں دکھایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) جناب ناصر خان جنجوعہ نے بھارت میں اپنے ہم منصب بھارتی اجیت دوول کو بتایا ہے کہ ہمارے ہاں سے خفیہ طور پر دس دہشت گرد بھارت میں داخل ہو گئے ہیں۔ یہ گجرات میں داخل ہوئے ہیں اور ان کا تعلق جیش محمد اور لشکر طیبہ سے ہے۔

ان دہشت گردوں نے سومنات کے مشہور تاریخی مندر اور کئی دوسرے مذہبی مقامات کے علاوہ سیکیورٹی کے اداروں پر بھی حملہ کرنا ہے۔ کولکتہ کا ایئر پورٹ بھی خطرے پر ہے۔ متوقع خطرے سے بچنے کے لیے صوبہ گجرات میں فوج الرٹ کر دی گئی ہے، کچھ جنگجو نئی دہلی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے منصوبوں کے بارے میں بھارت کو یہ بھی معلومات دی ہیں کہ وہ بھیڑ میں اور مصروف بازاروں میں کارروائی کریں گے۔

بھارت میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جا چکی ہیں اور سومنات مندر کا میلہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حفاظتی ادارے سرگرم کر دیے گئے ہیں اور انھوں نے بھارت کے اہم مقامات کی نگرانی اور گشت شروع کر دی ہے۔ وسیع و عریض بھارت میں یہ دس دہشت گرد مختلف شہروں میں پھیل گئے ہیں۔ خبر بڑی بالتفصیل اور طویل ہے اور ہم نے بھارتی خفیہ اداروں کا کام بہت آسان کر دیا ہے کہ انھیں بڑی مکمل اطلاعات دے دی گئی ہیں۔

خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہمارے پاکستانی مخبروں کو بھارت نے کیا انعام دیا ہے یا دینے کا اعلان کیا ہے کیونکہ ایسے خطرناک لوگوں کے سروں کی بڑی قیمت لگائی جاتی ہے اور جو انھیں پکڑاتا ہے وہ یہ وصول کر کے کروڑ پتی بن جاتا ہے، اس لیے چند پاکستانی بھی اب رئیس بننے کا انتظار کریں کہ بھارتی انعام ان کے دروازے پر کھڑا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے بھارت کو خفیہ معلومات دینے کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ میڈیا میں اس کا اعلان بھی کر دیا ہے تا کہ اس مخبری کی تصدیق کی جا سکے اور پاکستانیوں کے خلوص' دیانت داری دوست پڑوسی ہونے کا پاکستانی اعتراف قبول کیا جائے۔

پاکستان کو شاباش دی جائے بالخصوص جرنیل جنجوعہ صاحب کو اس کامیابی پر مبارک ہو جنہوں نے اپنے اسم گرامی کے ساتھ یہ اطلاع دینے کی جسارت کی ہے اور اپنا خلوص ریکارڈ کرایا ہے۔ اب یہ بھارت کے حکام پر منحصر ہے کہ وہ اس ''کارنامے'' کی کتنی قدر کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں ہو چکی ہیں اور امید کی جائے کہ آیندہ کی کسی جنگ کی اطلاع ہمیں بھی بھارت کی طرف سے اسی طرح کی جائے گی جس طرح ہم دہشت گردی والی یہ خبر پیش کر رہے ہیں۔ ہماری یہ پیش کش نہ صرف قبول کی جائے گی بلکہ اس کی قدر بھی کی جائے گی اور اس کا بدلہ بھی کبھی اسی انداز میں دیا جائے گا۔

اس وقت میں بھارت کے خلاف آخری جنگ کو یاد کر رہا ہوں جو ہم پر اچانک ٹھونسی جانے والی تھی لیکن ہماری ایجنسی نے ہمیں بروقت اطلاع کر دی اور ہماری فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو اس کے اڈوں پر ہی ٹھکانے لگا دیا اور انھیں پرواز کی زحمت ہی نہ دی مثلاً اگر اس وقت بھارت میں بھی کوئی جرنیل جنجوعہ ہوتا اور وہ ہمیں بروقت جنگی صورت حال سے مطلع کر دیتا تو ہم نہ صرف فی الفور اس کا منہ موتیوں سے بھر دیتے بلکہ اس کی ایئر فورس بھی بچ جاتی اور جنگ میں دونوں ملکوں کا جو بے پناہ نقصان ہوا ہے وہ بھی نہ ہوتا لیکن ہم بھارت کی طرح خوش نصیب کہاں کہ ہمیں اپنے خلاف کسی دہشت گردی کی بروقت اطلاع مل سکے اور اطلاع بھی ایسی مکمل کہ یہ دہشت گرد کہاں حملہ آور ہوں گے اور کیا وارداتیں کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔

ان کی تعداد کتنی ہے اور ان کے پاس اس مقصد کے لیے سامان کیا کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہر حال جو بھی ہوا اچھا ہی ہوا۔ ہم یوں سمجھیں گے کہ ہم نے بھارت جیسے مصدقہ اور مستند دشمن کو بڑی جرات کے ساتھ یہ اطلاع دے دی اور کسی خطرے کی پروا نہ کی کیونکہ ہمیں اپنی طاقت پر اعتماد ہے جس کو حاصل کرنے میں ہمارے سائنس دان ڈاکٹر قدیر خان صاحب کا بنیادی کردار ہے اور جو اب بھی پاکستان کی خدمت میں مصروف ہیں، اب وہ اسپتال بنا رہے ہیں، یوں وہ پاکستان پر ایک اور احسان کر رہے ہیں۔ وہ سچ مچ کے محسن پاکستان ہیں جو کبھی خاموش نہیں بیٹھتے اور جس قدر ممکن ہے اپنے اس ملک کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔

ایٹم بم سے بڑی خدمت وہ کیا کر سکتے ہیں اور یہی بہت تھی ان کے محض پاکستانی ہونے کے لیے لیکن یہ کام تو ہو گیا اب وہ خدمت کے نئے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں اور اپنی اس کمزور ہمت کے باوجود لگے ہوئے ہیں، مصروف ہیں اب تو یوں لگتا ہے کہ بعض لوگ پیدا ہی پاکستان کی کسی بڑی خدمت کے لیے کیے گئے تھے جو ایک پل بھی اس کی کسی خدمت کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بلاشبہ یہ ملک خداداد ہے اور وہی اس کی سلامتی کا ضامن ہے۔

پاکستان ہمارے سامنے ہے اس کی تخریب اور تعمیر دونوں ہم نے دیکھی ہیں۔ ہمارے سامنے ہمارا یہ ملک نصف ہو گیا اور بعد میں ہمارے اصل دشمن کی وزیراعظم نے برسرعام کہا کہ ہم نے پاکستان سے مسلمانوں کی ہم پر ایک ہزار برس کی حکومت کا بدلہ لیا ہے اور یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہمارے دشمن نے کوئی ذرا سا تکلف بھی نہیں کیا اور ہمارے منہ پر یہ سب کہا ہے اور ہمیں رسوا کرنے کی کوشش کی ہے یہ تو ایک دشمن کی بات ہے لیکن اس پاکستان کے ساتھ خود ہم نے کیا کیا پاکستان کا یہی المیہ جس کا ہمارے دشمن ہمیں طعنہ دے رہے ہیں اس میں خود ہماری قیادت کا بھی ہاتھ تھا کیونکہ پورے پاکستان میں ان کو اقتدار نہیں مل سکتا تھا۔

مشرقی پاکستان جو اکثریت میں تھا، ملک پر اقتدار کا حقدار تھا، اسے اس حق سے محروم کرنے کے لیے ہم نے اپنا ملک ہی اپنے اقتدار کے برابر کر دیا۔ اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں مل سکے جو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کر دی۔ عارضی اقتدار کے لیے ہم نے مسلمانوں کا یہ ملک توڑ دیا اور اس کی طاقت کو ریزہ ریزہ کر دیا لیکن وہ اقتدار جس کی قیمت ملک توڑ کر ادا کی تھی عارضی ثابت ہوا بلکہ صاحب اقتدار کو موت کی گھاٹ بھی اتار گیا۔

اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی ہم پاکستان پر راضی نہیں ہیں اور اس کے دشمنوں کے آلہ کار اور تنخواہ دار بن کر اس کی جڑیں کھود رہے ہیں۔ میں نے ایم کیو ایم کے ایک لیڈر کی پریس کانفرنس سنی اور میں یہ سوچتا رہا کہ اللہ تعالیٰ ابھی ہم سے زیادہ برہم نہیں ہوا اور ہماری بچت کے سامان پیدا کرتا رہتا ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہمیں اتنی عقل دے کہ ہم اپنی تباہی کو سامنے دیکھ کر اس سے بچ سکیں۔ ہم ان تمام حادثوں کے باوجود زندہ چلے آرہے ہیں اور زندہ رہیں گے۔ انشاء اللہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں