ریاست کہاں ہے

پتھر کے زمانے میں بقائے حیات بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا


[email protected]

پتھر کے زمانے میں بقائے حیات بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا اور انسان دو وجوہات کی بناء پر جانوروں کا شکار کرنے پر مجبور تھا، اولاً بھوک سے بچنے کے لیے وہ جانوروں کو مار کر کھا جاتے تھے، ثانیاً جنگلی جانوروں کو مارنے میں انسانی بقاء اور قبائلی زندگی کے تحفظ کی ضمانت درکار ہوتی تھی لہٰذا اس میں لطف اندوزی یا تفریح طبع کا عنصر شامل نہیں تھا۔

جیسے جیسے جنگل آبادیوں میں بدلتے گئے تو انسان کو جانوروں کی طرف سے خطرات کی شدت میں کمی آتی گئی تو جانوروں کو مارنے کا رُجحان بھی ماند پڑنے لگا۔ اس سے اگلے مرحلے پر جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین بنائے جانے لگے تاکہ جانوروں کو بے وجہ نہ مارا جائے مگر ہمارے ہاں جانور تو کیا انسان بھی اپنے جیسے انسانوں کے شر سے محفوظ نہیں رہے۔دھوکا دہی، قتل و غارت، نفرتیں، جنگیں، قدرتی وسائل پرقبضے اور سب سے بڑھ کر ''موقع پرستی '' عروج پر پہنچنے کے بعد آج انسان اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ کسی کو نیچا دکھانے اور اپنے حوس کی خاطر دوسروںسے جنگیں لڑنے میں ذرہ برابر بھی دیر نہیں لگاتا۔ بقول شاعر

اک گردن مخلوق جو ہر حال میں خم ہے

اک بازوئے قاتل ہے کہ خوں ریز بہت ہے

ریاست کا خیال بھی اسی دور کی بات ہے جب انسان نے ترقی کی اور رہن سہن کے لیے سنہری اصول بنائے اور اس ریاست میں رہنے والوں کو ان قوانین کا پابند بنایا جن پر چل کر اچھی اور منظم زندگی گزاری جاسکتی ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے ایک بار پھر اُسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔کہیں ریاست نہیں، کہیں قانون نہیں، کوئی بہت امیر تو کوئی بہت غریب، کوئی ظالم تو کئی مظلوم ، جو آواز اُٹھائے وہ باغی اور جو چپ رہے وہ ڈرپوک اور پتا نہیں کیاکیا۔

بہرحال اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ مصطفی کمال نے ایک عرصے بعد ''کمال '' انٹری کرکے چائے کی پیالی میں طوفان ضرور پیدا کر دیا ہے مگر لگتا ہے کہ موجودہ نظام میں ہونے والا کچھ نہیں ہے۔ یہاں بہت سے آئے جنہوں نے حسب روایت انکشافات کے سمندر بہا دیے لیکن آخر میں ہوا کچھ نہیں، کیوں کہ ان الزامات کو ''سیاسی الزامات''کا نام دے کر پیچھے دھکیل دیا گیا۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس نے بھی الزامات لگائے اُس نے ثبوت فراہم نہیں کیے ۔

بعض ناقدین کی جانب سے اس وقت مصطفی کمال سے پوچھا جا رہا ہے کہ اگر وہ سچ بھی بول رہے ہیں تو وہ شواہد لے کر عدالت میں کیوں نہیں جا رہے؟انھیں کب علم ہوا کہ الطاف حسین را کے ایجنٹ ہیں؟وہ اتنا عرصہ کیوں خاموش رہے؟ مصطفی کمال کی واپسی کی ٹائمنگ کس نے طے کی؟ اسٹبلشمنٹ مصطفی کمال، عشرت العباد اور دیگر کو اکٹھا کب کرے گی؟ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون را کا ایجنٹ اور کون محب وطن ؟خیر اب بھی وہی ہونے جا رہا ہے جس کی پیش گوئی اکثر کی جاتی رہی ہے کہ کراچی میں ایک نئی جماعت کو متعارف کروایا جا رہا ہے ۔

خیر یہ تو قیاس آرائیاں ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر بار ایم کیو ایم پر ہی الزامات کیوں لگتے ہیں ، ایسے سنگین الزامات کسی دوسری جماعت پر کیوں نہیں لگتے۔ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ بہرحال 1988ء سے جب سے کراچی میں پہلا ناظم ایم کیو ایم کا بناتھا(اس سے پہلے 1979ء اور 1983ء کے بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی مئیر کراچی تھے)تب سے لے کر آج تک کراچی کے حالات پستی کی جانب کیوں ہیں ؟ سب سے اہم یہ کہ آج تک ماسوائے زرداری حکومت کے ایم کیو ایم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ چل سکی اور نہ ہی نواز حکومت کے ساتھ ان کی بن پائی۔حالانکہ 2004ء میں پارٹی نے اپنا پُرانا مؤقف تبدیل کر کے جنرل پرویز مشرف اور ان کے اقتدار کی حمایت کی جس سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہوئے۔

اُس وقت سے لے کر آج تک ایم کیو ایم تقریباً ہر حکومت کا حصہ رہی ہے اور اقتدار کی غلام گردشوں کے دلفریب تصور کو بھلانا ان کے لیے بہت مشکل کام ہے۔ البتہ پارٹی لیڈر الطاف حسین اپنے متضاد بیانات، غیرروایتی گفتگو اور تیزی سے فیصلے بدلنے کی شہرت رکھتے ہیں مثلاً زرداری کے پانچ سالہ دورِاقتدار میں ایم کیو ایم نے مخلوط حکومت کو کئی بار خیبرباد کہا اور ہر بار مذاکرات کے بعد اپنا فیصلہ واپس لیا لیکن کراچی کے حالات نہیں بدلے ۔ پھر وقت نے کروٹ لی اور گزشتہ تین برس میں وہ کچھ ہوا جو کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ جون ایلیا کا ایک خوبصورت شعر ہے

جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو

آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا

آج اگر ہم کراچی پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں تو یہ شہر 2کروڑ انسانوں کا شہر ہے جو پاکستان کے قومی محصولات میں 40فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے۔ یہاں پر روزگار کے مواقعے کی وجہ سے پاکستان کے کونے کونے سے شہری آباد ہوچکے ہیں اور اب بھی سالانہ 5لاکھ لوگ دوسرے شہروں سے نقل مکانی کر کے کراچی کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ یہاں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو 1947ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے یہاں آئے۔

یہاں آباد ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ ایک تجارتی مرکز تھا اور یہاں روزگار کے مواقعے اور خوشحالی تھی۔1947ء سے اگلے 12سال تک یہ پاکستان کا دارالحکومت بھی تھا۔ بہت سے قومیتوں کے ایک جگہ آباد ہونے سے آہستہ آہستہ یہاں پر نسلی گروہ بندی کو فروغ ملا لیکن اگلے 25سال یعنی 1984ء تک یہ گروپ بندیاں ایسی نہیں تھیں کہ کسی ایک کمیونٹی کے لوگ منظم ہو کر دوسری کمیونٹی پر حملہ آور ہوں، البتہ تناؤ اور کشمکش کی کیفیت موجود تھی۔ 1984ء کراچی کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جب مہاجرقومی موومنٹ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی، جس نے مہاجروں کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگایا۔ اس تنظیم نے دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں مقبولیت حاصل کی۔

اس کے روح رواں الطاف حسین تھے جو ایک طالب علم لیڈر سے عملی سیاست میں داخل ہوچکے تھے۔اس کے قیام کے بعد صورتحال تبدیلی ہوتی چلی گئی، آہستہ آہستہ قتل وغارت گری کے واقعات بڑھنے لگے۔ 1988ء کے عام انتخابات میں اس پارٹی نے کراچی میں کلین سویپ کرتے ہوئے تمام کی تمام صوبائی اور قومی نشستیں جیت لیں اور پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت بن کر اُبھری مگر اس کی ساری نمایندگی کراچی تک محدود تھی۔

بعد ازاں حالات خراب ہوتے ہوتے اس نہج پر پہنچ گئے کہ قائد ایم کیو ایم کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ اس وقت ایم کیو ایم نے ہمدردیاں سمیٹیں لیکن آج صورتحال مختلف ہے،آج کراچی میں ریاستی رٹ کمزور ہے اور ایم کیو ایم کا تو ویسے ہی برا وقت چل رہاہے۔ انگریزی محاورہ ہے کہ

When the misfortunes come, They come in Battallions

برے دن تنہا نہیں آتے وہ اور بھی بہت کچھ ساتھ لاتے ہیں۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جس پر ٹارگٹ کلنگ کے سنگین الزامات کے علاوہ 28مئی 2007ء کو وکلاء کے قتل عام کا کیس درج ہے اور تو اور بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں لگنے والی آگ کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھتہ دینے سے انکار پر 289افراد کو زندہ جلا دیا گیا اور اس کاالزام بھی ایم کیو ایم پر لگا دیا گیا۔

لیکن افسوس کہ اس کھیل میں ریاست کہیں نظر نہیں آرہی۔ یوں لگ رہا ہے ریاست نے سیاستدانوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جو مرضی کریں اور جس مرضی پر کیچڑ اُچھالیں۔ اور جتنے مرضی بندے قتل کرکے دوبارہ اقتدار میں آجائیں کہیں کوئی تحقیقات نہیں ہوگی کسی کو سزا نہیں دی جائے گی۔لیکن ایسا کھیل ملک کے ساتھ کب تک کھیلا جاتارہے گا۔ آخر ریاست کی بھی کوئی ذمے داریاں ہیں کہ وہ ایسے قاعد و قوانین بنائے یا ایسے پلیٹ فارم بنائے جہاں کسی کی شنوائی ہو جہاں کسی کو پروٹیکشن مل سکے ورنہ میرے خیال میں معذرت کے ساتھ ہم اگلی کئی دہائیاں ایسے ہی بغیر منزل کے بھٹکتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں