نئی ایئر لائن
اُس وقت اِس ایئر لائنز کے پاس صرف چند DC 3 جہاز ہی تھے جن پر یہ گزارا کرتی تھی
پی آئی اے کی مجوزہ نجکاری سے متعلق ہمارے یہاں شروع ہونے والے جھگڑے سے ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ وفاقی حکومت نے متبادل بندوبست کے طور پر ایک نئی ایئرلائنز متعارف کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ساری دنیا میں قومی پر چم بردار واحد ایئر لائنز رہی ہے۔
یہ پہلے ''اورینٹ ایئرویز'' کے نام سے پہچانی جاتی تھی، مگر کثیر مالی نقصانات کے باعث اُس وقت کی حکومت نے 1955ء میں ایک نئی ایئرلائنز ''پی آئی اے'' کے نام سے لأنچ کر کے'' اورینت ایئر ویز'' کو بھی اُس میں ضم کر دیا۔ اب پاکستان کے اپنے نام سے ایک ایئر لائنز نے دنیا میں اپنا سفر شروع کر دیا۔ اِس نئی ایئر لائنز کا سب سے سنہری دور ایئرمارشل نورخان کی سربراہی میں دیکھا گیاجب ہماری اِس قومی ایئرلائنز نے خوب ترقی کی اور یہ دنیا کی ایک اچھی ایئرلانز کی حیثیت سے پہچانی جانے لگی۔ ایئر مارشل نور خان نے 1959ء میں اِس کے منیجنگ ڈائریکٹر بنائے گئے تھے۔
اُس وقت اِس ایئر لائنز کے پاس صرف چند DC 3 جہاز ہی تھے جن پر یہ گزارا کرتی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ اِس میں بوئنگ 720، فوکر F-27 اور اسکورشی S-61 ہیلی کاپٹرز بھی شامل کیے گئے اور یہ ایئر لائنز قومی فخر و وقار کا باعث بننے لگی۔ یہ وہ وقت تھا جب1962ء میں ہمارے ایک فلائٹ کیپٹن عبداللہ بیگ نے بوئنگ 720 کو لندن سے کراچی 938.78 کلومیٹر فی گھنٹہ پرواز کر کے ورلڈ ریکارڈ بھی بنا ڈالا تھا، جسے تاحال دنیا کا کوئی پائلٹ توڑ نہیں سکا۔
1960ء سے1975ء تک ہماری اِس ایئرلائنز نے بہت ترقی کی۔ اسی دوران پی آئی اے نے کئی دوست ممالک کی ایئرلائنز کو بھی ٹیکنیکل اور ایڈمنسٹریٹو تربیت بھی فراہم کیں جن میں صومالیہ، فلپائن، مالٹا اور یمنیہ ایئرلائنز شامل ہیں۔1980ء میں متحدہ عرب امارت نے اپنی ایئرلائنز شروع کرنے کا اعلان کیا تو پی آئی اے نے ہی اُسے اپنے دو طیارے اور انتظامی اور ٹیکنیکل مدد فراہم کر کے ایک کامیاب ایئر لائنز بنانے میں اہم کردار ادا کیا، مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری مدد سے دیگر ایئرلائنز تو تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتی گئیں لیکن ہماری اپنی ایئرلائنز اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوتی چلی گئی۔
ایمرٹس ایئرلائنز کے پاس آج 234 جہاز ہیں اور ہمارے پاس صرف 38 جب کہ ملازمین کے تعداد 19000 کے لگ بھگ ہے۔ اِس کے علاوہ ناقص کارکردگی، کام چوری، سیاسی مداخلت اور مالی بدعنوانیاں ایسی خرابیاں ہیں، جن کے ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی ایئرلائنز بھی ترقی نہیں کر سکتی۔ نتیجتاً پی آئی اے کا سالانہ مالی خسارہ کروڑوں اور اربوں روپوں میں بڑھتا چلا گیا اور پھر ایک دن یہ آیا کہ حکومت نے اِس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر اِسے نجی شعبے میں دینے کا تہیہ کر لیا۔
اِس مقصد کے لیے 5 دسمبر2015ء کو ایک آرڈیننس کے ذریعے اِسے کارپوریٹ سیکٹر میں دینے کا اعلان بھی ہو گیا، لیکن ہوا وہی جس کا کہ ڈر تھا۔ حکومت نے اپوزیشن اور دیگر طبقوں کی جانب سے متوقع مخالفت سے بچنے کے لیے پی آئی اے کو لمیٹڈ کارپوریشن کا معاملہ اسمبلی میں لے جانے کی بجائے اِس کا اعلان ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کر ڈالا، مگر ہر طرف سے اُس کے خلاف شور اُٹھنا شروع ہو گیا۔ افسروں اور ورکرز کی جانب سے کام چھوڑ ہڑتال کا اعلان کر دیا گیا۔ کام مکمل بند ہو گیا اور طیارے اُڑنے کی بجائے رن وے پر ہی کھڑے رہ گئے۔ حکومت اپنے ارادوں پر ڈٹی رہی اور ٹس سے مس نہ ہوئی۔
اُس نے متبادل راستے تلاش کرنے شروع کر دیے۔ ملک میں ایک نئی پرائیویٹ ایئرلائنز سے کام چلانے کا اہتمام ہونے لگا۔ اِنہی دنوں حکومت نے ملک کے اندر پہلے سے موجود پرائیویٹ ایئرلائنز کے ذریعے اپنے مسافروں کو سہولت فراہم کرنا شروع کر دی۔ یہ دیکھتے ہوئے مجبوراً اور بادلِ نخواستہ پی آئی اے کی ملازمین بھی اپنی ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے اور فلائٹ آپریشن شروع ہو گیا۔ حکومت اور ملازمین کے مابین معاملات ابھی تک صرف مذاکرات تک ہی محدود ہیں۔
کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ پی آئی اے مزید تباہی اور بربادی سے بچ گئی ہے۔ ایک طرف کارپوریشن بنانے کا کام آگے بڑھنے لگا تو دوسری جانب ایک نئی ایئر لائنز متعارف کروانے کا سامان بھی ہونے لگا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ نئی ایئر لائنز جس کا نام ''پاکستان ایئرویز'' ہو گا بہت جلد اپنا کام شروع کر دے گی۔ ابتدا میں صرف دس طیاروں سے کا م چلایا جائے گا اور رفتہ رفتہ فلیٹ میں مزید طیارے شامل کیے جائیں گے اور یہ ایئرلائنز اگر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے تو پہلے سے موجود قومی ایئرلائنز پی آئی اے کو بھی اِس میں ضم کر دیا جائے گا۔ اِس نئی ایئر لائنز کو نجی شعبے میں چلایا جائے گا اور ایمپلائز کو کنٹریکٹ بنیادوں پر رکھا جائے گا۔ لہذا جو شخص بہتر کارکردگی دکھائے گا، وہی اِس میں مستقل کام کرنے کا اہل سمجھا جائے گا۔
نئی ایئر لائنز کا منصوبہ کہاں تک کامیاب ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ ''پی آئی اے'' کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ اِس میں ہونے والے مسلسل مالی نقصانات کی کوئی بھی قوم متحمل نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی حکومت آنکھیں بند کر کے اور اِس سے لاتعلق ہو کر اِسے تباہ و برباد ہوتا دیکھ سکتی تھی۔ کون اپنے ارادوں اور نیتوں میں کتنا سچا اور مخلص ہے یہ اُس کے طرز عمل اور کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے۔
اِن سے پہلے آنے والوں نے بھی پی آئی اے کو بہتر بنانے کی اپنے طور پر کچھ کوششیں کیں لیکن وہ کیوں بار آور نہ ہو سکیں یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ البتہ موجودہ حکومت نے پاکستان ریلوے کو بھی درست اور صحیح ٹریک پر چلانے کے لیے کوششیں کیں اور وہ اُس میں کامیاب بھی ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ سابقہ ادوار میں ہماری ٹرینوں کا کیا حال تھا۔ کوئی ٹرین بھی نہ وقت پر روانہ ہو سکتی تھی اور نہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ پاتی تھی۔ کارگو سروس کا تقریباً خاتمہ ہو چکا تھا۔
مسافر ٹرینوں میں سہولتوں کا انتہائی فقدان اور بُرا حال تھا۔ اکثر ریلوے انجن ناقص اور خراب ہو چکے تھے اور جو باقی بچے تھے اُن کے لیے بھی ڈیزل اور ایندھن دستیاب نہیں تھا۔ لوگوں نے مجبوراً اُس میں سفر کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حکومتی کوششوں کے سبب اب صورتحال بہت بہتر ہے۔ کوئی بھی شخص اِ س بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہماری ریلوے اپنی تاریخ میں پہلی بار احسن طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔
اِسی طرح حکومت اب پی آئی اے اور اسٹیل مل کے معاملات بھی درست کرنا چاہ رہی ہے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اُس سے تعاون کریں۔ وہ اگر پی آئی اے کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کر رہی ہے تو ہمیں تنقید برائے تنقید کی بجائے اُس کے مثبت پہلوؤں کا جائزہ لے کر اُس کی حمایت کرنی چاہیے۔ لیکن بلا تحقیق الزامات لگا کر اِن کوششوں کو سبوتاژ نہ کیا جائے۔ آج اگر کچھ تعمیری کام ہو رہے ہیں تو بلاوجہ مخالفت کر کے اُنہیں ناکام بنانے کی سعی نہ کریں۔ سب یہ جانتے ہیں کہ گزشتہ دس بیس سالوں میں ''پی آئی اے'' روز بروز زوال کی جانب گرتی جا رہی تھی۔
اُس کے جہازوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی تھی اور ایک وقت یہ آ گیا کہ اُس کے فلیٹ میں صرف 22 طیارے ہی کارآمد حالت میں رہ گئے۔ حکمرانوں کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اِسے تباہ و برباد ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے کی بجائے اُسے پھر سے فعال اور منافع بخش ایئرلائنز بنانے کی کوششیں کریں۔ اِس ضمن میں حکومت نے اُس کے کچھ شیئرز نجی مالکان کو فروخت کرنے اور اُسے کارپوریشن کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسری ایئر لائنز بھی بنانے کا ارادہ کر لیا۔
یہ دونوں آپشنز درست اور صحیح سمت میں ہیں۔ صحت مندانہ مقابلے کے رجحان کے لیے ایک نئی ایئر لائنز کا اضافہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ حکمرانوں کی کوشش ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل یہ دونوں آپشنز کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ حکومت اگر اپنے اِن ارادوں اور عزائم میں کامیاب و سرخرو ہوتی ہے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔ ''پی آئی اے'' یا ہماری کوئی نئی ایئرلائنز اگر چند سالوں اِن کوششوں کے سبب اپنے اطراف کے ملکوں کی ایئر لائنز کے ہم وزن اور ہم پلہ ہو جائے تو یہ بات ہم سب کے لیے یقینا فخر و افتخار کا باعث ہو گی۔
یہ پہلے ''اورینٹ ایئرویز'' کے نام سے پہچانی جاتی تھی، مگر کثیر مالی نقصانات کے باعث اُس وقت کی حکومت نے 1955ء میں ایک نئی ایئرلائنز ''پی آئی اے'' کے نام سے لأنچ کر کے'' اورینت ایئر ویز'' کو بھی اُس میں ضم کر دیا۔ اب پاکستان کے اپنے نام سے ایک ایئر لائنز نے دنیا میں اپنا سفر شروع کر دیا۔ اِس نئی ایئر لائنز کا سب سے سنہری دور ایئرمارشل نورخان کی سربراہی میں دیکھا گیاجب ہماری اِس قومی ایئرلائنز نے خوب ترقی کی اور یہ دنیا کی ایک اچھی ایئرلانز کی حیثیت سے پہچانی جانے لگی۔ ایئر مارشل نور خان نے 1959ء میں اِس کے منیجنگ ڈائریکٹر بنائے گئے تھے۔
اُس وقت اِس ایئر لائنز کے پاس صرف چند DC 3 جہاز ہی تھے جن پر یہ گزارا کرتی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ اِس میں بوئنگ 720، فوکر F-27 اور اسکورشی S-61 ہیلی کاپٹرز بھی شامل کیے گئے اور یہ ایئر لائنز قومی فخر و وقار کا باعث بننے لگی۔ یہ وہ وقت تھا جب1962ء میں ہمارے ایک فلائٹ کیپٹن عبداللہ بیگ نے بوئنگ 720 کو لندن سے کراچی 938.78 کلومیٹر فی گھنٹہ پرواز کر کے ورلڈ ریکارڈ بھی بنا ڈالا تھا، جسے تاحال دنیا کا کوئی پائلٹ توڑ نہیں سکا۔
1960ء سے1975ء تک ہماری اِس ایئرلائنز نے بہت ترقی کی۔ اسی دوران پی آئی اے نے کئی دوست ممالک کی ایئرلائنز کو بھی ٹیکنیکل اور ایڈمنسٹریٹو تربیت بھی فراہم کیں جن میں صومالیہ، فلپائن، مالٹا اور یمنیہ ایئرلائنز شامل ہیں۔1980ء میں متحدہ عرب امارت نے اپنی ایئرلائنز شروع کرنے کا اعلان کیا تو پی آئی اے نے ہی اُسے اپنے دو طیارے اور انتظامی اور ٹیکنیکل مدد فراہم کر کے ایک کامیاب ایئر لائنز بنانے میں اہم کردار ادا کیا، مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری مدد سے دیگر ایئرلائنز تو تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتی گئیں لیکن ہماری اپنی ایئرلائنز اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوتی چلی گئی۔
ایمرٹس ایئرلائنز کے پاس آج 234 جہاز ہیں اور ہمارے پاس صرف 38 جب کہ ملازمین کے تعداد 19000 کے لگ بھگ ہے۔ اِس کے علاوہ ناقص کارکردگی، کام چوری، سیاسی مداخلت اور مالی بدعنوانیاں ایسی خرابیاں ہیں، جن کے ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی ایئرلائنز بھی ترقی نہیں کر سکتی۔ نتیجتاً پی آئی اے کا سالانہ مالی خسارہ کروڑوں اور اربوں روپوں میں بڑھتا چلا گیا اور پھر ایک دن یہ آیا کہ حکومت نے اِس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر اِسے نجی شعبے میں دینے کا تہیہ کر لیا۔
اِس مقصد کے لیے 5 دسمبر2015ء کو ایک آرڈیننس کے ذریعے اِسے کارپوریٹ سیکٹر میں دینے کا اعلان بھی ہو گیا، لیکن ہوا وہی جس کا کہ ڈر تھا۔ حکومت نے اپوزیشن اور دیگر طبقوں کی جانب سے متوقع مخالفت سے بچنے کے لیے پی آئی اے کو لمیٹڈ کارپوریشن کا معاملہ اسمبلی میں لے جانے کی بجائے اِس کا اعلان ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کر ڈالا، مگر ہر طرف سے اُس کے خلاف شور اُٹھنا شروع ہو گیا۔ افسروں اور ورکرز کی جانب سے کام چھوڑ ہڑتال کا اعلان کر دیا گیا۔ کام مکمل بند ہو گیا اور طیارے اُڑنے کی بجائے رن وے پر ہی کھڑے رہ گئے۔ حکومت اپنے ارادوں پر ڈٹی رہی اور ٹس سے مس نہ ہوئی۔
اُس نے متبادل راستے تلاش کرنے شروع کر دیے۔ ملک میں ایک نئی پرائیویٹ ایئرلائنز سے کام چلانے کا اہتمام ہونے لگا۔ اِنہی دنوں حکومت نے ملک کے اندر پہلے سے موجود پرائیویٹ ایئرلائنز کے ذریعے اپنے مسافروں کو سہولت فراہم کرنا شروع کر دی۔ یہ دیکھتے ہوئے مجبوراً اور بادلِ نخواستہ پی آئی اے کی ملازمین بھی اپنی ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے اور فلائٹ آپریشن شروع ہو گیا۔ حکومت اور ملازمین کے مابین معاملات ابھی تک صرف مذاکرات تک ہی محدود ہیں۔
کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ پی آئی اے مزید تباہی اور بربادی سے بچ گئی ہے۔ ایک طرف کارپوریشن بنانے کا کام آگے بڑھنے لگا تو دوسری جانب ایک نئی ایئر لائنز متعارف کروانے کا سامان بھی ہونے لگا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ نئی ایئر لائنز جس کا نام ''پاکستان ایئرویز'' ہو گا بہت جلد اپنا کام شروع کر دے گی۔ ابتدا میں صرف دس طیاروں سے کا م چلایا جائے گا اور رفتہ رفتہ فلیٹ میں مزید طیارے شامل کیے جائیں گے اور یہ ایئرلائنز اگر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے تو پہلے سے موجود قومی ایئرلائنز پی آئی اے کو بھی اِس میں ضم کر دیا جائے گا۔ اِس نئی ایئر لائنز کو نجی شعبے میں چلایا جائے گا اور ایمپلائز کو کنٹریکٹ بنیادوں پر رکھا جائے گا۔ لہذا جو شخص بہتر کارکردگی دکھائے گا، وہی اِس میں مستقل کام کرنے کا اہل سمجھا جائے گا۔
نئی ایئر لائنز کا منصوبہ کہاں تک کامیاب ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ ''پی آئی اے'' کو جوں کا توں نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ اِس میں ہونے والے مسلسل مالی نقصانات کی کوئی بھی قوم متحمل نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی حکومت آنکھیں بند کر کے اور اِس سے لاتعلق ہو کر اِسے تباہ و برباد ہوتا دیکھ سکتی تھی۔ کون اپنے ارادوں اور نیتوں میں کتنا سچا اور مخلص ہے یہ اُس کے طرز عمل اور کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے۔
اِن سے پہلے آنے والوں نے بھی پی آئی اے کو بہتر بنانے کی اپنے طور پر کچھ کوششیں کیں لیکن وہ کیوں بار آور نہ ہو سکیں یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ البتہ موجودہ حکومت نے پاکستان ریلوے کو بھی درست اور صحیح ٹریک پر چلانے کے لیے کوششیں کیں اور وہ اُس میں کامیاب بھی ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ سابقہ ادوار میں ہماری ٹرینوں کا کیا حال تھا۔ کوئی ٹرین بھی نہ وقت پر روانہ ہو سکتی تھی اور نہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ پاتی تھی۔ کارگو سروس کا تقریباً خاتمہ ہو چکا تھا۔
مسافر ٹرینوں میں سہولتوں کا انتہائی فقدان اور بُرا حال تھا۔ اکثر ریلوے انجن ناقص اور خراب ہو چکے تھے اور جو باقی بچے تھے اُن کے لیے بھی ڈیزل اور ایندھن دستیاب نہیں تھا۔ لوگوں نے مجبوراً اُس میں سفر کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حکومتی کوششوں کے سبب اب صورتحال بہت بہتر ہے۔ کوئی بھی شخص اِ س بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہماری ریلوے اپنی تاریخ میں پہلی بار احسن طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔
اِسی طرح حکومت اب پی آئی اے اور اسٹیل مل کے معاملات بھی درست کرنا چاہ رہی ہے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اُس سے تعاون کریں۔ وہ اگر پی آئی اے کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کر رہی ہے تو ہمیں تنقید برائے تنقید کی بجائے اُس کے مثبت پہلوؤں کا جائزہ لے کر اُس کی حمایت کرنی چاہیے۔ لیکن بلا تحقیق الزامات لگا کر اِن کوششوں کو سبوتاژ نہ کیا جائے۔ آج اگر کچھ تعمیری کام ہو رہے ہیں تو بلاوجہ مخالفت کر کے اُنہیں ناکام بنانے کی سعی نہ کریں۔ سب یہ جانتے ہیں کہ گزشتہ دس بیس سالوں میں ''پی آئی اے'' روز بروز زوال کی جانب گرتی جا رہی تھی۔
اُس کے جہازوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی تھی اور ایک وقت یہ آ گیا کہ اُس کے فلیٹ میں صرف 22 طیارے ہی کارآمد حالت میں رہ گئے۔ حکمرانوں کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اِسے تباہ و برباد ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے کی بجائے اُسے پھر سے فعال اور منافع بخش ایئرلائنز بنانے کی کوششیں کریں۔ اِس ضمن میں حکومت نے اُس کے کچھ شیئرز نجی مالکان کو فروخت کرنے اور اُسے کارپوریشن کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسری ایئر لائنز بھی بنانے کا ارادہ کر لیا۔
یہ دونوں آپشنز درست اور صحیح سمت میں ہیں۔ صحت مندانہ مقابلے کے رجحان کے لیے ایک نئی ایئر لائنز کا اضافہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ حکمرانوں کی کوشش ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل یہ دونوں آپشنز کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ حکومت اگر اپنے اِن ارادوں اور عزائم میں کامیاب و سرخرو ہوتی ہے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔ ''پی آئی اے'' یا ہماری کوئی نئی ایئرلائنز اگر چند سالوں اِن کوششوں کے سبب اپنے اطراف کے ملکوں کی ایئر لائنز کے ہم وزن اور ہم پلہ ہو جائے تو یہ بات ہم سب کے لیے یقینا فخر و افتخار کا باعث ہو گی۔