خودی پیدا کر

بھارت کو معلوم ہے کہ جب تک پاکستان کے اثاثے محفوظ ہیں اور ایٹمی پروگرام برقرار ہے

fnakvi@yahoo.com

اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے نام پر مذاکرات کا جو ڈھونگ رچایا گیا اس کی حقیقت صرف یہ تھی کہ پاکستان اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارے اور اپنی ایٹمی قوت جس کی وجہ سے ہی خطے میں اس کی سالمیت برقرار ہے اس کو محدود کرے، ورنہ تمنا تو ان کی یہ ہے کہ سرے سے ختم ہی کر دے۔ دراصل امریکا اپنے لے پالک بھارت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے.

بھارت کو معلوم ہے کہ جب تک پاکستان کے اثاثے محفوظ ہیں اور ایٹمی پروگرام برقرار ہے وہ کسی بھی طرح پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے اپنے خواب پورے نہیں کر سکتا۔ شمالی علاقوں میں دہشت گردی ہو یا بلوچستان میں ریشہ دوانیوں کے ذریعے بھارت مکمل طور پر اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، کیونکہ پاکستانی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ایٹمی پروگرام کی حفاظت میں فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ بھارت دو جنگوں میں منہ کی کھا چکا ہے، پاکستانی قوم کتنا ہی آپس میں لڑے مگر جب بھارت کے ساتھ مقابلے کی بات آ جاتی ہے تو پھر سب ایک ہو جاتے ہیں.

کوئی پنجابی رہتا ہے نہ پٹھان اور نہ سندھی، مہاجر، سب پاکستانی ہو کر ایک ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھے، اس لیے امریکا کے ذریعے ہم پر اپنے دباؤ کو بڑھانا چاہتا ہے۔ افسوس تو حکمرانوں کی ذہنیت پر ہوتا ہے کہ وہ بھارت میں اپنے تجارتی روابط کو بڑھا رہے ہیں اور وہاں کاروبار کر رہے ہیں، ان کا کاروبار بھارت کی سرزمین پر پھل پھول رہا ہے، جس سے بھارتی عوام کو ہی فائدہ پہنچ رہا ہے اور ساتھ ساتھ حکمرانوں کی جیبیں بھر رہی ہیں، مگر ملک کی عزت و وقار اور سالمیت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

حکمرانوں کی اپنے ذاتی مفادات میں کی جانے والی بھارتی سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں اور مودی کی خوشامد سے عوام متفق نہیں، اس لیے حکمرانوں کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عزت و وقار پر سودے بازی کرنے والے کبھی تاریخ میں اچھا مقام نہیں بنا سکتے۔ امریکا ہو یا کوئی دوسری سپر طاقت، ان کو اپنا مددگار اور ان داتا سمجھنا صریحاً ایسی غلطی ہو گی جو کہ دیگر نے بھی کی مگر انجام یہ ہوا کہ دنیا کے لیے عبرت کا نمونہ بن گئے۔


معمر قذافی اور صدام حسین کی کہانیاں دنیا کے سامنے ہیں اور ماضی قریب کا ہی حصہ ہیں، امریکا سمجھتا ہے کہ ہمارے یہ تجارت پیشہ حکمران اپنی تجارت بڑھانے کے صدقے میں ایٹمی پروگرام کو محدود اور بالآخر ختم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، مگر یہ ان کی خام خیالی ہے، کیونکہ مغرب کی خوشنودی کے لیے مرے جانے والے حکمران ایٹمی پروگرام کی حفاظت کے ذمے دار نہیں، اس کی حفاظت کے اصل ذمے دار کوئی اور ہیں، جن کے پیش نظر صرف اور صرف ملکی سالمیت ہے، جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے امریکا، بھارت مل کر کچھ بھی کر لیں، نتیجہ بے سود ہی رہے گا۔

افسوس تو حکمرانوں کے طرز عمل اور پالیسیوں پر ہوتا ہے کہ ملک میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والے امریکا اور اس کے حواریوں کے آگے بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرتاج عزیز صاحب امریکا کو راضی کرتے کہ وہ پاکستان کو نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کا موقع دے، مگر پہلے کب سنی گئی ہے جو اب سنی جاتی، الٹا فرمائشی پروگرام نشر کر دیا گیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام کو محدود کر دے۔ ممتاز قادری کی پھانسی اور تحفظ نسواں بل نے بھی کوئی اثر نہیں ڈالا۔ اصل میں ہم پر مسلط لوگوں کے اندر ایسا جذبہ ہی موجود نہیں ہے جو کہ خوددار قوموں کے حکمرانوں کا خاصا ہے۔

جہاں ذاتی مفادات قومی مفادات سے بالاتر ہو جائیں وہاں نتیجہ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ آج تقریباً 70 سال گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک ذہنی طور پر غلام ہیں۔ اپنے معاشرے، اپنے لوگوں سب پر ہمیں شرمندگی ہوتی ہے تو ہم کیسے سر اٹھا کر بات کر سکتے ہیں۔ خوف زدہ لوگوں کی کوئی نہیں سنتا، اپنی بات منوانے کے لیے طرز عمل کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ واقعہ پٹھان کوٹ سے ہی ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم کس قدر چاپلوس اور بے اختیار لوگ ہیں، نریندر مودی کی راہ میں پلکیں بچھانے والے حکمراں راتوں رات 150 لوگوں کو ویزا جاری کر دیتے ہیں اور بھارت میں ہمارے فنکاروں کے داخلے پر پابندی ہوتی ہے، کنسرٹ کے کنسرٹ کینسل ہو جاتے ہیں مگر بھارتی اعلیٰ منصب کے حامل لوگ اتنا سا بھی بیان نہیں دیتے کہ یہ غلط ہے۔

مگر ہمارے ہاں اس کی الٹی تصویر ہے، ہم ذاتی خوشیوں میں ان کو شریک کر کے قربت کے نئے دریچے وا کرتے ہیں، مگر قوم کی خوشیوں میں آگ اس وقت لگ جاتی ہے جب بھارت کا وزیر دفاع آنکھیں دکھاتا ہے اور پٹھان کوٹ واقعے کی تمام تر ذمے داری پاکستان پر ڈال کر پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے اور مجبور کرتا ہے کہ پاکستان اپنی کارروائیوں کو بند کرے اور ملزموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرے۔ اور ہمارا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم جارحانہ طرز عمل کی جگہ مفاہمتی پوزیشن اختیار کر کے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور ایسے طرز عمل کی بدولت کہ آج ہم سے کوئی خوش نہیں، ہر ملک ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے.

کیونکہ اس کمزوری کا اپنوں اور غیروں سب کو علم ہے کہ ہمیں صرف اپنی روزی روٹی کی فکر ہے، تو پھر یہ لوگ ہمیں جب ہی تو لالچ دے کر مجبور کرتے ہیں کہ ہم قومی مفادات کی سودے بازی کر لیں۔ جب تک ہمارے حکمرانوں میں یہ سوچ پروان نہیں چڑھے گی ملک و قوم کے مفادات کیا ہیں اور ان مفادات کے لیے مضبوط ہونا پڑے گا اور ان مفادات کے لیے کسی بھی پس و پیش سے کام نہیں لیا جائے تو اسی طرح بھارت، امریکا، حتیٰ کہ افغانستان بھی ہمیں ڈکٹیشن دیتے رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو سب چھوڑ کر اصولی فیصلے کرنے پڑیں گے جب ہی ایک باعزت باوقار ملک کا تصور پیدا ہو گا۔
Load Next Story