فرض اور ایک عرض
بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے اضلاع میں خواتین کے حوالے سے ایک دلچسپ پابندی لگی ہے
بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے اضلاع میں خواتین کے حوالے سے ایک دلچسپ پابندی لگی ہے۔ بناس کانٹھا اور مہسانا نامی دو گاؤں میں غیر شادی شدہ لڑکیوں اور اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکیوں کے موبائل فون رکھنے پر پابندی لگنے کے سلسلے میں ڈسٹرکٹ کونسل کے صدر رنجیت سنگھ ٹھاکر کا کہنا ہے کہ ''لڑکیوں کے پاس اگر موبائل فونز ہوں تو نہ صرف وہ ٹھیک طریقے سے پڑھ نہیں سکتیں بلکہ وہ ہر قسم کی بری صورتحال کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔''
پچھلے چند برسوں سے بھارت میں خواتین پر تشدد اور جنسی جرائم کے رجسٹرڈ کیسز کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے، یہ جرائم بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ مغربی اقدار میں ڈھلتے بھارت میں ان حالات کا ذمے دار کون ہے؟ اس حوالے سے آئے دن مختلف بیانات آتے رہتے ہیں کہیں لڑکیوں کے اسکول میں اسکرٹ پہننے پر پابندی تو کسی وزیر کے مطابق خواتین کو میک اپ نہیں کرنا چاہیے۔ ان تمام مسائل کا حل ڈھونڈتے ڈھونڈتے فی الحال بات موبائل فون تک آ پہنچی ہے۔
اسے ذمے داری کہہ لیں یا انسانیت لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں بے باکی، عریانیت گھروں میں پل بڑھ رہی ہے۔ سوچ کے دھارے بنتے رہتے ہیں، ہم اپنے معاشرے کو اس طوفان بدتمیزی سے کیسے بچا سکتے ہیں یہ ایک اہم سوال ہے، لیکن اس کی فرصت ابھی نہیں ہے کیونکہ فی الحال کرپشن، غبن، جلاؤ گھیراؤ، تعصب اور ایک دوسرے کی ٹانگ گھسیٹنے کا عمل جاری ہے لیکن یہی وہ وقت ہے جب سنجیدگی سے اس مسئلے کے لیے ہمیں بھی کچھ کرنا ہے۔
فلم، ٹی وی ایک ایسا میڈیا ہے جو ہمارے گھروں میں ہمارے ساتھ رہتا ہے، ہمارے بچوں کو سکھاتا پڑھاتا ہے۔ کیا اچھا ہے کیا برا، یہ ہم سے بہتر وہ پڑھا رہا ہے۔ اس میں کتنا مثبت ہے اور کتنا منفی اس کا تعین بھی اب ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ جہاں تک فلم کا تعلق ہے یہ میڈیا نئی نسل کے لیے نیا تو نہیں ہے ہاں البتہ پاکستانی فلموں کے حوالے سے یہ ایک نیا جھونکا ضرور ہے ورنہ پڑوسی فلموں کی یلغار میں مختصر کپڑے کھلے واہیات جملے اور گانوں میں دھڑاکے سے گالیوں کا استعمال تو عام ہے جسے وہ بچپن سے سنتے اور دیکھتے آ رہے ہیں۔
اب پاکستانی فلم اس میں کسی حد تک تڑکا لگاتی ہے یہ ہمارے فلم میکرز پر منحصر ہے لیکن ٹی وی ڈراموں اور مختلف پروگراموں کے حوالے سے محبت کی جس گردان کا اظہار ہوتا رہتا ہے اسے دیکھ کر کبھی خوف کا شکنجہ کچھ زیادہ ہی شدید ہو جاتا ہے۔ ایک بڑے ڈرامہ پروڈیوسر کا اس سلسلے میں کہنا ہے ''میں تو اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ ڈراموں کے ذریعے میں نیکی کی تلقین کروں یا نصیحت کروں اور ایسا ہوتا بھی نہیں۔ لوگ بالکل بھی سبق وبق نہیں لیتے ہاں لوگوں کو بہتر انداز میں انٹرٹین کرنا چاہیے میری خواہش ہے کہ لوگ خوش ہوں۔ میں خود بھی ہنسی مذاق کی فلمیں پسند کرتا ہوں۔ ہاں البتہ اتنا خیال ضرور رکھتا ہوں کہ بیہودگی لچر پن Vulgarity نہ ہو۔''
بھارت میں خواتین پر جنسی جرائم کے سلسلے میں بہت سے فلمی ستاروں میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ فلموں کے ذریعے عوام جس بے حیائی اور بے راہ روی کے جذبات ابھرتے ہیں لیکن پیسہ سب سے بڑا سرکار۔ یہ خیال انھیں کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ فلموں کے ذریعے ایسا ہرگز نہیں ہو رہا، بلکہ فلمیں تو ایسی برائیوں کی نشاندہی کرتی ہیں، ایسے خیالات کا اظہار سب سے زیادہ کمانے والے ستارے کرتے رہتے ہیں کیونکہ انھیں یہ خوف بھی ہے کہ کہیں اسمبلی میں ان کے لیے بھی حدود مقرر کرنے کا کوئی ایسا بل پاس ہو جائے جس سے ان کے اپنے بلز متاثر ہوں۔
معروف پاکستانی فلم میکر شرمین عبید چنائے کا بھی یہی کہنا ہے کہ ''ایسے ایشوز پر کام کیا جائے جو معاشرے کا بدنما داغ ہیں۔'' شرمین نے اپنی اہلیت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں ''شاباش ہے انھیں'' پڑوس میں خواتین کے ساتھ جو بدترین سلوک کیا جا رہا ہے جس نے ان کے وزرا کے سر کے بال کھڑے کر دیے۔
سب سے زیادہ منافع بخش فلم انڈسٹری کا مالک بھارت۔ جہاں بڑے بڑے مانے ہوئے اداکاروں اور نہایت قابل اور پڑھے لکھے ماہر ہدایت کاروں کی کمی نہیں۔ کسی میں بھی ذرا سا ظرف نہیں کہ وہ شرمین کی طرح اپنے معاشرے کے بدنما داغوں پر فلمیں بنائے اور مغرب کے بڑے بڑے ایوارڈ وصول کریں۔ حالانکہ یہ زہر پڑوس سے سرائیت کرتا ہماری جڑوں کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے۔ ویسے اب تو ہمارے وزرا نے بھی شرمین کے اعلیٰ پائے کی اس فلم کا بھی نظارہ کر لیا۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے یہاں بھی کوئی ایسی پابندی لگے یا بل منظور ہو۔ کچھ تو ہو کہ جو پہلے نہ ہوا ہو، ورنہ یہاں نشان دہی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ چھوٹا سا پیارا سا پاکستان اور ایشوز ایسے بڑے بڑے کہ نہ پوچھیے۔ پر اس کا سدباب کیا ہو۔
بچپن میں اپنی خالہ سے (جو یقیناً کسی بڑے نے ہی کہا ہو گا) سنا تھا کہ ''احساس برتری بھی دراصل احساس کمتری کی ہی ایک قسم ہے'' ہم مجموعی طور پر اس احساس کا شکار ہیں۔ ہم اپنی مدح سرائی کے لیے گھوم گھوم کر دیکھتے ہیں اور جب تالیاں بجتی ہیں تو سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔
اس فخر میں صرف ہم اور ہماری ذات شامل ہوتی ہے۔ یہ لمحہ بہت ظالم ہوتا ہے جو ہمارے رب کی نظر میں ہمیں بے حیثیت کر دیتا ہے کیونکہ تکبر انھیں پسند نہیں۔ اجتماعی طور پر ہمیں اس سے نکل کر اپنے اردگرد دیکھنا ہے اپنے بچوں، گھر کے ہر فرد کے موبائل فونز پر دھیان دینا ہے، اکیلے میں نیٹ پر بچے یا گھر کے دوسرے فرد کیا کچھ دیکھتے ہیں، گھر میں کس قسم کے ڈرامے پسند کیے جا رہے ہیں اور انھیں تنبیہ کرتے رہنا چاہیے کم از کم اتنا تو ہم کر سکتے ہیں۔ ہمارے لیے اتنی نشان دہی تو فرض بنتی ہی ہے باقی جو فرض اختیار رکھنے والوں کا ہے امید ہے وہ بھی پورا ہو ہی جائے گا کہ امید پر دنیا قائم ہے۔