کراچی کا امن ملک کی ضرورت

اقتصادی مرکز ہونے کی وجہ سے اس کا امن ملکی سالمیت، معاشی استحکام اور قومی یکجہتی سے جڑا ہوا ہے۔

اگر 4 ہزار اشتہاری ملزمان بھی دندناتے پھر رہے ہیں تو شہر کا کیا ہو گا۔ فوٹو؛ فائل

سپریم کورٹ نے کراچی میں امن وامان کی صورتحال پر سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ دوسری مرتبہ مسترد کردی اور آئی جی سندھ سے استفسارات کے دوران جو ریمارکس دیے انھیں شہر قائد میں بد امنی کے تناظر میں چشم کشاکہا جا سکتا ہے۔

جس کی روشنی میں وفاق ، صوبائی حکومتیں اور بلدیاتی محکمے اپنی اصلاح کے لیے بہتر تدابیر اختیار کرسکتی ہیں۔ پیر کو رینجرز نے کراچی میں امن وامان کی صورتحال کے متعلق پولیس کے خلاف چارج شیٹ سپریم کورٹ میں پیش کرتے ہوئے الگ تھانوں کے قیام اور مقدمات کے اندراج سے تفتیش تک اختیارات سالانہ بنیادوں پر دینے کی درخواست کردی، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں5رکنی لارجر بنچ نے حکومت کو رینجرز کی رپورٹ کا جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی۔

حقیقت یہ ہے کہ کراچی نے تلخیٔ زیست کے جتنے اندوہ ناک مراحل طے کیے ہیں ، عدلیہ نے اپنے ریمارکس میں ان کی درجہ با درجہ نشاندہی کی کیونکہ بد انتظامی، تساہل و غفلت کا نتیجہ خراب نکلا ۔ عدلیہ نے پولیس کارکردگی رپورٹ کو آنکھوں میں دھول جھونکنے سے تعبیر کیا جو امن وامان کے ذمے دار ایک اہم سرکاری ادارے کے حکام اور اس کی ترتیب مراتب سے وابستہ افسران و اہلکاروں کے لیے اپنی اصلاح اور امن کے قیام کے لیے کارکردگی کو بہتر بنانے کا نادر موقع ہے۔

پولیس کی کارکردگی میں اصلاح پر عدالتی اصرار در اصل انصاف و سماجی مساوات اور امن و استحکام کو یقینی بنانے کی اس مشترکہ کوششوں کو نتیجہ خیز بنانا ہے جو رینجرز، پولیس،انٹیلی جنس اداروں اور سندھ حکومت کی زیر نگرانی کراچی انتظامیہ اور مقامی حکومتوں کا بنیادی ٹاسک ہے، امن کراچی اور ملک کی ضرورت ہے ، اقتصادی مرکز ہونے کی وجہ سے اس کا امن ملکی سالمیت، معاشی استحکام اور قومی یکجہتی سے جڑا ہوا ہے۔


اسے ایک المیہ ہی کہا جانا چاہیے کہ دو کروڑ آبادی والے شہر قائد میں 100 سے زائد پولیس اسٹیشنز ہیں جن کے وسیع تر پھیلاؤ کے باوجود شہر امن سے محروم ہے جب کہ کراچی میں جرائم ، قتل وغارت ، بھتہ خوری اور لاقانونیت کی ہر شکل کے سدباب کے لیے عزم ، اسٹرٹیجی اور وژن کی ضرورت ہے، پولیس و رینجرز میں اشتراک عمل ناگزیر ہے ، جب ہی عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ملک میں دو حکومتیں ہیں کہ امن وامان کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے؟ کراچی مافیاؤں کے محاصرہ میں اس لیے آیا کہ بادی النظر میں حکومت سرینڈر کر گئی، گینگ وار اس کی ایک مثال ہے ۔

لہٰذا سرکاری اداروں ، سیاسی جماعتوں ، سول ایڈمنسٹریشن اور بلدیاتی انسٹی ٹیوشنز نے شہر میں امن کے قیام سے مشروط شعبہ ہائے زندگی میں موجود مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے ۔کنکریٹ شہر بد امنی ، مجرمانہ سرگرمیوں سے تقویت لیتے ہوئے ان انتہا پسند قوتوں کے ہاتھوں یرغمال کیوں بنا جنہوں نے کراچی سمیت پورے ملک کو دہشتگردی کی آگ میں جھونک دیا۔ اس دھماکا خیز صورتحال کو سندھ حکومت وفاق کی مدد اور سیاسی سٹیک ہولڈرز کے تعاون سے کنٹرول کرسکتی ہے، چیف جسٹس کی ہدایات اور ارشادات کو سنجیدگی سے روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے، کراچی کو امن کا تحفہ دینے کے لیے سندھ حکومت کو فعال ہونا پڑیگا۔

کراچی کی مقامی انتظامیہ ، سول سوسائٹی، ٹاؤن پلانرز، دانشور، سماجی رہنما، کراچی میٹروپولیٹن حکام، واٹر بورڈ کے کرتا دھرتا، کمشنر و ڈپٹی کمشنرز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جرائم پیش عناصر ڈھیر سارے تھانوں کی موجودگی پر اگر ذرہ برابر خوف محسوس نہیں کرتے تو حکومت شہریوں کو کیا تحفظ فراہم کرسکے گی ۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس دے کر اہل وطن کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ (کراچی) پولیس اہلکار فون کر کے شہریوں کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں پیسے دے کرلے جاؤ ، کئی واقعات میں ایڈیشنل آئی جی کے کہنے پر مغویوں رہا ہوئے اور پیسے واپس کیے گئے مگر پولیس افسروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ، ہزاروں اشتہاری اور مفرور ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں۔

شہر میں امن کیسے ہوسکتا ہے۔ اس سے بڑی فرد جرم اور کیا ہوسکتی ہے؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ لیاری میں خاص پوائنٹ پر ہی دستی بم پھینکے جاتے ہیں، یہ کیا مسئلہ ہے؟ بنچ نے چیف سیکریٹری کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ لوگوں سے کام نہیں ہوتا تو گھر چلے جائیں جائیں، رینجرز کی درخواست پر پراسکیوٹر کیوں تعینات نہیں کرتے؟ ایسا منظر پیش نہ کریں کہ دو ادارے ایک دوسرے کے دشمن نظرآئیں ۔ جب آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں 11584اشتہاری،37 مفرور ملزمان ہیں تو عدالت نے کہا کہ 451اشتہاری ملزمان گرفتار ہوئے، اگر 4 ہزار اشتہاری ملزمان بھی دندناتے پھر رہے ہیں تو شہر کا کیا ہو گا۔

ان استفسارات میں روح کراچی ہی نہیں پورے ملک کی سماجی نبض دھڑکتی ہے، سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے بڑے شہر میں بدامنی اور جرائم کے طوفان کا سوموٹو نوٹس لے کر حکام بالا کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، سندھ حکومت اپنا قبلہ درست کرے، اور مقامی انتظامی مشینری اپنی اصلاح کے لیے جنگی بنیادوں پر امن قائم کرنے کی اسٹرٹیجی ترتیب دے اور ایسا ایکشن لیا جائے کہ داخلی سیکیورٹی ، پبلک سیفٹی، ماحولیات ، روزگار ، ٹرانسپورٹ، صحت اور انصاف کے شعبوں میں تبدیلی سب کو نظر آجائے۔
Load Next Story