دمشق میں نیشنل سیکیورٹی ہیڈکوارٹرز پر خودکش حملہ
دہشتگردی کی وجہ سے عالمی معاشرہ بتدریج متشدد بن چکا ہے
شام کے دارلحکومت دمشق میں نیشنل سیکیورٹی ہیڈکوارٹرز میں وزرا اور سیکیورٹی اہلکاروں کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران خودکش حملے کے نتیجے میں شامی حکومت کے وزیر دفاع جنرل دائود راجحہ اور ان کے نائب آصف شوکت ہلاک جب کہ وزیر داخلہ سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے، آصف شوکت شام کے صدر بشارالاسد کے برادر نسبتی تھے۔
شامی حکومت کی مخالف فری سیریئن آرمی نے اس خودکش حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے تاہم ایک جہادی تنظیم شہدا بریگیڈ نے بھی اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ ذمے دار کوئی بھی تنظیم ہو یہ حملہ واضح طور پر دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کی ایک ایسی واردات ہے جس کی مذمت کی جانی چاہیے ۔
اس واقع سے جہاں یہ ثابت ہوا ہے کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ محض پاکستان یا افغانستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی اس کا وجود ہے وہاں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ نسل انسانی کے اس دور جدید میں بھی بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کا عمل ختم ہوتا جا رہا ہے اور طاقت کے ذریعے بات منوانے کا چلن عام ہو چکا ہے' اسی وجہ سے عالمی معاشرہ بتدریج متشدد بن چکا ہے۔
جہاں تک شام میں حکومت اور اس کے مخالفین کے اقدامات اور ردعمل کا تعلق ہے تو ان کو کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صدر بشارالاسد کے خلاف برسرپیکار انقلابیوں نے کرنل معمر قذافی کی باغیوں کے ہاتھوں قتل کی نئی ویڈیو فوٹیج انٹرنیٹ پر جاری کی ہے جس کا مقصد بشارالاسد کو متنبہ کرنا ہے کہ ان کا بھی یہی انجام ہو سکتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے شام میں امن قائم کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ اپنایا جائے' اس سلسلے میں عرب لیگ کچھ کردار ادا کر سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم کو بھی چُپ کا روزہ توڑتے ہوئے شام میں متحارب دھڑوں میں ثالثی کرانی چاہیے تاکہ شام کو مصر اور لیبیا بننے سے بچایا جا سکے۔
اقوام متحدہ اور عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت والے ممالک کو بھی غیر جانب داری کے ساتھ شام کا تنازع طے کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ' اب تک جن کا کردار شامی قیادت کو دھمکانے تک محدود ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ شام میں تشدد بند کرانے کے لیے متحد ہو کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر امریکا نے خبردار کیا ہے کہ شامی حکومت باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کر سکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ فرانس نے بھی شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی نامعلوم مقامات کی طرف منتقلی کی اطلاعات پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شام کی قیادت حالات پر قابو پانے کے لیے تمام ممکن اقدامات عمل میں لائے اور مخالفین پر تشدد بند کر دے کیونکہ اس طرح بعض عالمی قوتوں کو شام پر حملہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
شامی حکومت کی مخالف فری سیریئن آرمی نے اس خودکش حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے تاہم ایک جہادی تنظیم شہدا بریگیڈ نے بھی اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ ذمے دار کوئی بھی تنظیم ہو یہ حملہ واضح طور پر دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کی ایک ایسی واردات ہے جس کی مذمت کی جانی چاہیے ۔
اس واقع سے جہاں یہ ثابت ہوا ہے کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ محض پاکستان یا افغانستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی اس کا وجود ہے وہاں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ نسل انسانی کے اس دور جدید میں بھی بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کا عمل ختم ہوتا جا رہا ہے اور طاقت کے ذریعے بات منوانے کا چلن عام ہو چکا ہے' اسی وجہ سے عالمی معاشرہ بتدریج متشدد بن چکا ہے۔
جہاں تک شام میں حکومت اور اس کے مخالفین کے اقدامات اور ردعمل کا تعلق ہے تو ان کو کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صدر بشارالاسد کے خلاف برسرپیکار انقلابیوں نے کرنل معمر قذافی کی باغیوں کے ہاتھوں قتل کی نئی ویڈیو فوٹیج انٹرنیٹ پر جاری کی ہے جس کا مقصد بشارالاسد کو متنبہ کرنا ہے کہ ان کا بھی یہی انجام ہو سکتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے شام میں امن قائم کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ اپنایا جائے' اس سلسلے میں عرب لیگ کچھ کردار ادا کر سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم کو بھی چُپ کا روزہ توڑتے ہوئے شام میں متحارب دھڑوں میں ثالثی کرانی چاہیے تاکہ شام کو مصر اور لیبیا بننے سے بچایا جا سکے۔
اقوام متحدہ اور عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت والے ممالک کو بھی غیر جانب داری کے ساتھ شام کا تنازع طے کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ' اب تک جن کا کردار شامی قیادت کو دھمکانے تک محدود ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ شام میں تشدد بند کرانے کے لیے متحد ہو کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر امریکا نے خبردار کیا ہے کہ شامی حکومت باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کر سکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ فرانس نے بھی شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی نامعلوم مقامات کی طرف منتقلی کی اطلاعات پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شام کی قیادت حالات پر قابو پانے کے لیے تمام ممکن اقدامات عمل میں لائے اور مخالفین پر تشدد بند کر دے کیونکہ اس طرح بعض عالمی قوتوں کو شام پر حملہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔