سہواگ نے جو کہا کیا غلط کہا

یہ یادرکھیے کہ بھارت جسے پاکستان کی اکثریت دشمن سمجھتی ہے وہ کبھی بھی حب الوطن پاکستانی کواپنے یہاں نوکری نہیں دے سکتا


ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں دور بیٹھ کر اپنوں پر تنقید کرنی آتی ہے اور پھر اپنے گندے کپڑے دوسروں کے گھر جا کر دھونے کا تو مزہ ہی الگ ہے۔

گزرے ہوئے زمانے کی بات ہے کہ شاعر نے آسمان کو مخاطب کرکے کہا تھا، بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے، شاعر اگر آج اِسی شعر کو لکھتا تو کچھ یوں ہونا تھا کہ،
بدلتے ہیں پاکستانی رنگ کیسے کیسے
کبھی بارڈر کے اِس پار کبھی بارڈر کے اْس پار

جی بالکل یہ صورتحال کسی ایک مخصوص شخص یا جماعت کی نہیں بلکہ رویہ بدلنے کا ایک ایسا مشترکہ عمل ہے جو متعدد دفعہ بارڈر کے اُس پار سے اِس پار نظر آجاتا ہے۔ ایسے ہی چند کردار ہماری کرکٹ ٹیم کے سابق سپر اسٹار بھی کہلاتے ہیں جن کے بارے میں بھارتی ٹیم کے جارحانہ بلے باز ویرندرا سہواگ نے ایک سچ اگلا ہے۔

یوں تو اِس بات سے انکار نہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن اگر یہ دشمن کے منہ سے نکلے تو اس کڑواہٹ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب جبکہ یہ معاملہ میڈیا کی زینت بن ہی گیا ہے تو کیوں نہ اس کو جانچ لیا جائے کہ یہ اصل میں ہے کیا؟

تو جناب قصّہ شروع ہوتا ہے کرکٹ سے اور ختم ہوتا ہے کرکٹرز پر، بھارتی کھلاڑی وریندر سہواگ کے مطابق سابق پاکستانی کھلاڑی اس لئے بھارتی ٹیم کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں کیونکہ اِنکو بھارت میں بزنس، پیسہ یا پھر ٹی وی پر جگہ چاہیئے ہوتی ہے اور اس معاملے میں جس کھلاڑی کا نام لیا ہے وہ کوئی اور نہیں ''راولپنڈی ایکسپریس'' کے ٹائٹل سے مشہور سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر ہیں، لیکن مزے کی بات یہ کہ وہ شعیب اختر پر نہیں رکے بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ جن کو موقع نہیں ملا وہ بھی بھارت آنے کے لیے بے تاب ہورہے ہیں جن میں سرِفہرست محمد یوسف، ثقلین مشتاق اور رانا نوید الحسن ہیں۔ مزید یہ کہ اُن کی زبان اب بھی چل رہی تھی اور وہ یہاں تک کہہ گئے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو اگر بھارت میں ایک لاکھ روپے بھی ملیں تو یہ رقم اُن کے ملک میں دو لاکھ بن جاتی ہے، اور اِس سے بڑھ کر کسی بھی کھلاڑی کو کیا چاہیے۔

اگر آپ کے اندر تھوڑی بہت بھی حب الوطنی ہے تو آپ کا دل کررہا ہوگا کہ سہواگ کا منہ توڑ دیا جائے، لیکن میرا پُرخلوص مشورہ ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے ذرا اپنے کھلاڑیوں کی حرکتوں کا جائزہ لے لیجیے جو وہ بھارت میں بیٹھ کر کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سرحدی حدود کی قید سے آزاد دنیا میں چیزیں، بیانات اور اسکینڈل چُھپے نہیں رہتے۔ منظرِعام پر آنے والی چیزوں میں بھارتی میڈیا کے درجنوں پروگرامز ایسے ہیں جن میں شعیب اختر وہاں کے اینکرز اور فنکاروں کے ساتھ مل کر پاکستانی کھلاڑیوں کا مذاق اڑاتے اور بےعزتی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جی ہاں، وہی شعیب اختر جن کاغصّہ اور پارہ بھارت کے خلاف دیکھنے والا ہوتا تھا، اور سچن جیسے کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنا اور بھارت میں جا کر پاکستان کا نام روشن کرنا جن کا مقصد ہوتا تھا، وہی کھلاڑی آج سرحد پار بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ سننے والے کو یقین نہیں آتا۔



ایک پروگرام میں موصوف یہ کہتے پائے گئے کہ پاکستان کا ہرکپتان ''پینڈو'' ہوتا ہے اور اسے سمجھ نہیں ہوتی کہ کس طرح ٹیم کو ہینڈل کرنا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اُس وقت کے سرپراہ اعجاز بٹ کے سربراہ کی ہرزہ سرائی کی گئی اور کپتان کی عمر کو لے کر جس انداز میں مذاق اڑایا گیا وہ سرحد کے اِس پار نا قابلِ برداشت تھا، مگر چند ایک میڈیا رپورٹس کے سوا اس پر کوئی ردِ عمل نہ ہوا۔



معاملہ صرف شعیب اختر تک محدود نہیں بلکہ ماضی میں دوسرے سینئر کھلاڑی بھی اسی طرح کے بیانات دیتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ کمال ہے کہ اپنے ملک میں درجنوں نیوز چینلز کے ہوتے ہوئے بھی ان کو اپنی ٹیم کی کوتاہیاں اور غلطیاں سرحد کے اس پار سے واضح نظر آتی ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں دور بیٹھ کر اپنوں پر تنقید کرنی آتی ہے اور اس سے بھی اچھا کام جو ہم کرسکتے ہیں وہ یہ کہ اپنے گندے کپڑے دوسروں کے گھر جا کر دھونے میں بہت مزہ آتا ہے۔ وہی شعیب اختر جو اپنے پورے کیریئر میں محض 46 ٹیسٹ میچ کھیل سکے اور ہر وقت کسی نہ کسی وجہ سے بورڈ سے حالتِ جنگ میں رہے، آج ٹیم کو ڈسپلن کے لمبے لمبے لیکچر دیتے نہیں تھکتے۔

بھارت نے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل) میں جو سلوک روا رکھا اس کے باوجود ہم نے اپنے سابقہ کھلاڑیوں کو بھارت جانے سے روکا نہ وہاں کی ٹیموں کے ساتھ کام کرنے سے۔ یہ درست ہے کہ کھلاڑی کو ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی گزارنے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور رزقِ حلال کمانا ہر شخص کا بنیادی حق بھی ہے۔ مگر جب اِس کے عوض آپ اپنے وطن اور ہم وطنوں سے متعلق ہرزہ سرائی شروع کردیں تو پھر اُن کو تکلیف ہوتی ہے جن کے لئے یہ ملک سب کچھ ہے اور جس کے نام پر وہ بھارت کو ٹکر دیتے ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہورہی اور پھر یہاں جو ایک آدھ اسپورٹس چینل ہیں وہ ان کھلاڑیوں کی مانگ پوری نہیں کرسکتے، لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر بھارت جسے پاکستان کی اکثریت اپنا دشمن سمجھتی ہے وہ کبھی بھی ایک حب الوطن پاکستانی کو اپنے یہاں نوکری نہیں دے سکتا۔ اگر وہاں کوئی پاکستانی ٹی وی پر بیٹھ کر تجزیے کررہا ہے تو یقیناً یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بھارت اور اُن کھلاڑی کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا ہو کہ وہ بھارتی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یہ بھول جائے کہ اُن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ پھر ایسی صورت میں اگر پاکستان کے خلاف بات بھی کرنی پڑے تو کرنی ہوگی، بلکہ ایسی صورت میں ترقی کے امکان بھی شاید زیادہ ہوں۔

ہمارے ان نام نہاد بھلا چاہنے والوں کا حال یہ ہے کہ آج تک مڑ کر کبھی ٹیم کا حال نہیں پوچھا، کبھی اپنی خدمات تک پیش نہیں کیں بس کیا ہے تو اِتنا کہ سرحد پار بیٹھ کر تنقید برائے تنقید کے تیر چلائے ہیں۔ لہذا ایسے تمام کھلاڑیوں سے گزارش ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد آدھے ہندوستانی بن گئے ہیں کہ براہِ کرم اگر کچھ عزت اور تکریم باقی ہے تو براہ کرم واپس پاکستان آجائیے، اگرچہ یہ پیسہ کم ہے، لیکن یقین کریں بہت عزت والا ہے۔

[poll id="1002"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگرجامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں