تاریخ رو رہی ہے

سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے استحصال کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے من مانی ریاستی مشینری تشکیل دی ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے استحصال کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے من مانی ریاستی مشینری تشکیل دی ہے۔ عدلیہ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت نے اس ادارے کو منصفانہ اور آزادانہ فیصلے کرنے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ کو عدلیہ کے سر پر بٹھا رکھا ہے۔

پارلیمنٹ کی بالادستی پر اعتراض اس وقت بامعنی ہو جاتا ہے جب پارلیمنٹ میں کرپٹ اور بددیانت لوگ بھی پہنچ جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں عدلیہ مجبور اور بے اختیار ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بلٹ پروف گاڑی کی فراہمی کے کیس میں آبزرویشن دیتے ہوئے فرمایا کہ ''بہت سارے کیسز پر تاریخ رو رہی ہے۔'' محترم جسٹس صاحب نے ان کیسز کا ذکر نہیں کیا لیکن ان کے ریمارکس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ بہت سارے کیسز پر منصفانہ اور آزادانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ نے وائس چانسلر بے نظیر بھٹو یونیورسٹی میں تقرری کے کیس کی شنوائی کے دوران کہا کہ وزیر اعلیٰ کا صوابدیدی اختیار پالیسی معاملہ ہے اور عدالت پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، لیکن جس ادارے پر ہاتھ ڈالو وہاں سے ایک نئی داستان نکلتی ہے۔ ہمارے قومی اداروں میں شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جو کسی داستان سے بچا ہوا ہو۔

ملک میں اور میڈیا میں بکھری ہوئی داستانوں میں سب سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز داستان جو آج کل میڈیا میں سرفہرست ہے ڈاکٹر عاصم کی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے 462 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ پھر اخبارات میں ایک تین کالمی خبر لگی، جس میں کہا گیا ہے کہ نیب نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف ایک اور ریفرنس داخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس ریفرنس کے مطابق بعض محکموں کے افسران سے ملی بھگت کر کے قومی خزانے کو 17 ملین کا نقصان پہنچایا گیا۔

یہ ایک داستان ہے جب کہ چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستان اس کی۔ ڈاکٹر عاصم حسین پر کرپشن کے کئی الزامات ہیں جن کے خلاف ڈاکٹر موصوف زیر حراست ہیں اور ہر روز عدالتوں میں طلب کیے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر عاصم نے یہ کرپشن اکیلے ہی کی ہے یا اس میں کچھ پردہ نشین اور بھی شامل ہیں؟ یہ سوال یوں ضروری ہو رہا ہے کہ میڈیا کی خبروں کے مطابق ڈاکٹر عاصم نے دوران تفتیش بعض ایسے لوگوں کے نام بھی لیے ہیں جن کا شمار ملک کے معزز ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم ابھی تک ملزم ہیں مجرم نہیں لیکن بعض حلقوں کی طرف سے ڈاکٹر موصوف کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات کو جھوٹے اور دشمنی پر مبنی مقدمات کہا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ جلد سے جلد اس قسم کے سنگین مقدمات کا انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کیا جائے تا کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔


اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک کیس کی شنوائی کے دوران جسٹس نورالحق قریشی نے اپنے ریمارکس میں ''تاریخ رو رہی ہے'' کا جو ذکر کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں اداروں کا کیا حال ہے۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جب کوئی سیاستدان کسی ''اعلیٰ عہدے'' پر پہنچتا ہے تو وہ اس عہدے سے عوام کو فائدہ پہنچانے کے بجائے خود بھرپور طریقے سے ناقابل یقین فائدہ اٹھانے میں جٹ جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے حاضر سروس کئی حکمرانوں پر سنگین نوعیت کی کرپشن کے الزامات میں برسوں سے مقدمات زیر سماعت ہیں بلکہ اخبارات میں شایع ہونے والی تین چار سطری خبروں میں یہ مژدہ بھی سنایا گیا کہ اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات سے عالی مرتبت حکمرانوں کو باعزت طور پر بری کر دیا گیا۔

اس حوالے سے افسوس کے ساتھ یہ ذکر کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کے دو سابق وزرائے اعظم پر بھی اربوں کی کرپشن کے کیسز زیر سماعت ہیں جن کی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ پچھلے دنوں اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم پر قانون کے غلط استعمال کرپشن اور گواہوں کو دھمکانے کے الزام میں مقدمہ چلا اور جرم ثابت ہونے پر انھیں لمبی سزا دے کر جیل بھجوا دیا گیا۔ اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم اپنی جگہ لیکن اسرائیلی عدلیہ آزاد ہے اور انصاف بلاامتیاز جاری ہے۔

کیا کوئی مسلم ملک اس قسم کے بلاامتیاز انصاف کی مثال پیش کر سکتا ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ ہماری عدلیہ عشروں تک انتظامیہ کے دباؤ میں رہی۔ 2007ء سے وکلا تحریک کے بعد یہ تصور مضبوط ہوا کہ ہماری عدلیہ اب آزاد ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا مطلب صرف بے لاگ انصاف کی فراہمی ہی نہیں بلکہ بلاتاخیر انصاف کی فراہمی بھی ہے لیکن جو کیس باپ کے زمانے میں شروع ہوتا ہے اس کا فیصلہ عموماً بیٹے یا پوتے کے دور میں ہوتا ہے یہ صورتحال صرف پسماندہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی موجود ہے۔

اس حوالے سے بس یہاں دنیائے ادب کے ایک معروف ادیب کافکا کے ایک افسانے کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں کافکا نے ایک انصاف کے متلاشی شخص کی افسوسناک کوشش کا ذکر کیا ہے کہ ایک شخص دور دراز سے انصاف کی تلاش میں طویل سفری مصیبتیں سہتے ہوئے ''انصاف کے محل'' تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ انصاف کے محل کا دربان اسے منصف تک پہنچانے سے روکتا ہے اور وہ انصاف کا متلاشی انصاف کے محل کے دروازے پر بیٹھا انصاف کا انتظار کرتے کرتے ملک عدم روانہ ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں کافکا نے انصاف میں تاخیر کی ایک المناک کہانی سنائی ہے۔

ہماری دیہی زندگی میں وڈیرے سرکش ہاریوں اور کسانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیتے ہیں اور یہ بے چارے ہاری اور کسان نسل در نسل ان مقدمات کی پیروی میں لگے رہتے ہیں۔

ہمارے میڈیا میں آئے دن وڈیروں کی نجی جیلوں سے آزاد کرائے جانے والے سیکڑوں ہاریوں کے بارے میں خبریں چھپتی ہیں جن میں انصاف کے حوالے سے یہ مژدہ سنایا جاتا ہے کہ عدالت نے وڈیروں کی جیلوں سے بازیاب ہونے والے ہاریوں اور ان کے خاندانوں کو ''آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دے دیا'' مجرم وڈیروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ یہی حال سیاسی وڈیروں کا ہے جو اربوں کی کرپشن کے الزامات کے ساتھ کھڑے وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ تو پھر تاریخ روئے گی نہیں تو کیا کرے گی؟
Load Next Story