قومی کرکٹ ٹیم کی پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ
باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے جس کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے
GAZA CITY:
باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے جس کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے قومی کرکٹ ٹیم کو نجی ملکیت میں دینے کا فیصلہ کیا ہے اور بعض لوگ تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے یہ فیصلہ اس کمیٹی کے مشورے پر کیا ہے جو قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کی غرض سے سفارشات پیش کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی اور جس میں جھوٹی سچی اطلاعات کے مطابق محمد برادران کے علاوہ سلیم ملک، انضمام الحق، میانداد، وسیم اکرم، مصباح الحق اور یونس خان شامل تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے پاکستانی ٹیم ایشیا کپ میں بنگلہ دیش سے ہاری ہے خود کرکٹرز تو اپنی جگہ رہے کرکٹ کی انتظامیہ اور حکومت کو جب کہ اس کا ذرا سا بھی قصور نہیں ہے خاصی صلواتیں سننی پڑ رہی ہیں حالانکہ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ پاکستانی کرکٹرز کی کارکردگی زوال کا شکار ہوئی ہے اور وہ اس مرض کا شکار ہوئے ہیں کہ وہ ذرا سا پریشر برداشت نہیں کر پاتے اور ہاتھ پاؤں ڈال دیتے ہیں بلکہ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے اپنی کارکردگی کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔
اب یہ بنگلہ دیش کی ٹیم وہ نہیں رہی جسے ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے کے لیے پاکستانی ٹیم کو اس سے جان بوجھ کر ہارنا پڑا تھا اور لندن میں بنگلہ دیش پر پیسے لگا کر پاکستانی کرکٹرز نے کچھ رقم بھی کما لی تھی۔ یہ اب قومی جذبے سے سرشار ٹیم ہے جو اپنے پاڑے میں اور شیر ہو جاتی ہے بلاشبہ اس نے پاکستان سے ہی سیکھ کر اپنی بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کو خاصا بہتر بنایا ہے حالانکہ یہ وہی علاقہ ہے جو کرکٹ کے معاملے میں اتنا بنجر ہوتا تھا کہ مشترکہ پاکستان میں اس کا کوئی ایک کھلاڑی بھی ٹیم میں نہیں آ پاتا تھا۔
شکست کے حوالے سے ایک کرکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم کافی عرصے سے ہار رہے ہیں پتہ نہیں قوم کیوں اچانک جاگ گئی ہے اور اس نے ہماری شکست کو دل پر لے لیا ہے ہم تو زبردست اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ کھیلتے ہیں اور ہمارا نعرہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ اگر ہمارا سب سے تجربہ کار بولر ہی سب سے کروشل اوور کی سب سے اہم گیند نو بال کر دے تو پھر وہی نتیجہ نکلے گا جو بنگلہ دیش کے خلاف نکلا۔
کھلاڑیوں میں ایسا لگتا ہے جیسے کوآرڈینیشن اور کمیونیکیشن کا فقدان تھا جیسا کہ ایک بیٹس مین نے کہا کہ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ یہ میچ ہمیں جیتنا ہے۔ یہ اہم بات ہم سے آخر تک چھپائی گئی اور ہم ہارنے کے لیے کھیلتے رہے۔
بہرحال بہت سے لوگوں نے قومی کرکٹ ٹیم کی نجکاری کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے صحیح سمت میں ایک اچھا قدم قرار دیا ہے تاہم قومی کرکٹرز میں جیسا کہ توقع تھی خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ اپنے غیر یقینی مستقبل کے بارے میں خاصے خدشات میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
حکومت کے ایک ترجمان نے قومی کرکٹرز کو یقین دلایا ہے کہ وہ ٹیم کی نجکاری کے بعد بھی اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کرکٹرز کی ملازمتیں محفوظ رہیں اور بغیر کسی معقول وجہ کے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے کیونکہ زیادہ تر بیٹسمین یہ چاہتے ہیں کہ وہ جس پوزیشن پر اب کھیل رہے ہیں اسی پر کھیلتے رہیں اور انھیں بلاوجہ ''ون ڈاؤن'' نہ بھیج دیا جائے۔
نجکاری کی خبر کے ساتھ ساتھ یہ تشویشناک خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ بعض سینئر کھلاڑیوں کو جن میں مصباح الحق، شاہد آفریدی، شعیب ملک اور محمد سمیع شامل ہیں، گولڈن ہینڈ شیک دے کر رخصت کر دیا جائے گا۔ جیسا کہ حکومت کے ایک ترجمان نے یقین دلایا کہ نجکاری کے بعد بھی قومی کرکٹرز کی حیثیت پہلے جیسی برقرار رہے گی صرف اتنی تبدیلی آئے گی کہ وہ حکومت کی طرف سے سرکاری خرچے پر نہیں بلکہ اپنے اپنے اداروں سے چھٹیاں لے کر (یو اے ای) کی ٹیم کی طرح غیر ملکی دورے پر جایا کریں گے اور وہ جتنے رنز بنائیں گے اور جتنی وکٹیں لیں گے اسی شرح سے انھیں پے منٹ ہوا کرے گی۔
فی الحال ایک رن کی قیمت ایک ہزار اور ایک وکٹ کی قیمت ایک لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے جس میں مخالف ٹیم کی طاقت کو دیکھتے ہوئے کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ کرکٹرز کے ساتھ سانپ اور سیڑھی کا کھیل بھی کھیلا جا سکتا ہے ایک کیچ چھوڑنے پر وہ ساری رقم واپس ہو سکتی ہے جو رن بنانے یا وکٹ لینے پر انھوں نے کمائی ہو گی۔ قومی کرکٹرز کو سب سے زیادہ اعتراض نجکاری کے بعد لاگو ہونے والی اس شرط پر ہے کہ انھیں اسی صورت میں پے منٹ کی جائے گی جب وہ کوئی میچ جیت لیں گے ورنہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق ہارنے پر ان سے اگلی پچھلی ساری رقم وصول کر لی جائے گی۔
ہاں زیادہ رنز بنانے اور وکٹیں لینے پر جن کرکٹرز کے حصے میں زیادہ رقم آئے وہ اپنی خوشی سے اس رقم کا کچھ حصہ ان کرکٹرز میں تقسیم کر سکتے ہیں جو صفر پر آؤٹ ہوں گے یا کوئی وکٹ نہیں لے سکیں گے۔ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کرکٹرز کو دیے جانے والے معاوضے کا انحصار میچ کے نتیجے پر ہو گا اگر کرکٹ ٹیم کوئی میچ جیتے گی تو رنز اور وکٹوں کی قیمت اسی حساب سے تقریباً دس گنا بڑھ جائے گی اور شکست فاش کی صورت میں کرکٹرز کو الٹا کچھ رقم کرکٹ انتظامیہ کو ادا کرنا پڑے گی۔
حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی نجکاری کا فیصلہ وسیع تر قومی مفاد میں اس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد قومی ٹیم کی وجہ سے سرکاری خزانے پر پڑنے والے مالی بوجھ کو کم بلکہ ختم کرنا اور اس بدنامی کا تدارک کرنا ہے جو قومی ٹیم کے ہارنے کی وجہ سے حکومت وقت کو اٹھانی پڑتی ہے۔ اس سے قومی ٹیم بھی سرکاری پابندیوں سے آزاد ہو جائے گی اور سلیکشن سمیت تمام فیصلے آزادانہ طور پر کر سکے گی اور اس دباؤ سے نکلنے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس بہتر ہو جائے گی۔
تاہم قومی کرکٹ ٹیم کے ایک ترجمان نے حکومت کے اس دعوے کو جھٹلایا ہے کہ ٹیم کسی طور پر بھی قومی خزانے پر کوئی بوجھ بنی ہوئی تھی بلکہ ان کے بقول قومی ٹیم مسلسل ہارنے کے باوجود سرکار کو اچھی خاصی رقم کما کر دیتی تھی۔ ترجمان نے اس خوف سے اپنا نام نہیں بتایا کہ وہ ٹیم سے باہر ہو جائیں گے۔ تاہم ایک بار پھر یہ الزام دہرایا کہ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ میں ملک کے تمام منافع بخش ادارے اونے پونے داموں اپنے من پسند افراد کو فروخت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
جس میں قومی کرکٹ ٹیم بھی شامل ہو گئی ہے۔ انھوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ پرائیویٹ ہوتے ہی قومی کرکٹ ٹیم میں چھانٹی شروع ہو جائے گی اور بہت سے ایسے محب وطن کرکٹرز کو فارغ کر دیا جائے گا جن کا صرف اتنا سا قصور ہے کہ وہ وطن سے سچی محبت کرنے والے آل راؤنڈرز ہیں نہ رن بناتے ہیں، نہ وکٹ لیتے ہیں، کیچ چھوڑ دیتے ہیں مگر ان کی حب الوطنی میں ذرا سا بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔
کرکٹرز کے ترجمان نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر حکومت نے قومی کرکٹ ٹیم کی نجکاری کا فیصلہ واپس نہیں لیا تو وہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کریں گے اور کم از کم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک اسٹے آرڈر لے لیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہمارے قومی کرکٹرز نے اپنے چاہنے والوں کو لطف اور تفریح کے انگنت لمحات فراہم کیے ہیں ان کا ہر میچ ایک اچھی جذبات سے بھرپور اردو فلم کی مانند ہوتا ہے جس میں ہیرو بھی ہوتے ہیں اور ولن بھی۔ کریکٹر، ایکٹرز بھی۔ اور جو ہر عمر اور ہر وزن کے حامل کرداروں سے آراستہ ہوتی ہے اس میں خوشی کے مناظر بھی ہوتے ہیں اور غم کے بھی۔ یہ فلم ہنساتی بھی ہے اور رُلاتی بھی ہے۔ اس کا سنسنی خیز آغاز بھی ہوتا ہے کلائیمیکس بھی سسپنس بھی اور بالکل غیر متوقع اختتام بھی۔
ہمارے کرکٹ کے شائقین کو تو اپنی اس ٹیم کا شکرگزار ہونا چاہیے جو ورلڈ رینکنگ میں خواہ کتنے ہی نیچے چلی گئی ہو لطف اور تفریح کے انٹرٹینمنٹ سے بھرپور یادگار لمحات فراہم کرنے میں ابھی تک ٹاپ پر ہے اور اس کے بیشتر کھلاڑی اپنی اسی باکس آفس ویلیو کی وجہ سے سروائیو کر رہے ہیں۔