ایک اور نُورا کُشتی
اسے نورا کشتی کہیں گے کہ کتاب کو بالآخر اپنے قارئین میسر آئے
ہمارے معزز نقاد ڈاکٹر انوار احمد نے، جو آج کل مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین ہیں، ہمارے ایک کالم کے جواب میں ہمیں ایک خط لکھا ہے جس میں ایک خوش خبری سنائی ہے۔ وہ خوش خبری آپ بھی سن لیجیے ۔
''آج ایکسپریس میں آپ کے کالم کے نتائج سے میں بہت لطف اندوز ہوا کہ تین گھنٹے میں ہمارے اسٹاک میں موجود غازی علم دین کی ڈھائی سو کتابیں فوراً بک گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ انتظار حسین اور انوار احمد کی
اسے نورا کشتی کہیں گے کہ کتاب کو بالآخر اپنے قارئین میسر آئے۔ آپ کا کالم اپنے ماہانہ جریدے اخبار اردو کے آیند ہ شمارے میں شامل کر رہے ہیں۔''
اگر قارئین کو یاد نہ ہو تو ہم یاد دلادیں کہ متذکرہ بالا کتاب کا ذکر ہم نے اپنے کالم میں کس تقریب سے کیا تھا۔ اس کے مصنف غازی علم دین نے اس کتاب 'لسانی مطالعے' میں اردو اور فارسی شاعری پر اس حساب سے اعتراض کیا کہ اس میں خلاف اسلام باتیں بہت کی گئی ہیں۔ تین شاعروں کا خاص طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔ غالب، حافظ اور مولانا جلال الدین رومی لکھتے ہیں کہ ''شریعت اسلامیہ میں شراب نوشی حرام اور ممنوع ہے'' اس کے بعد انھوں نے حافظ اور غالب کے کچھ ایسے شعر نقل کیے ہیں جن میں بادۂ و ساغر کا ذکر آتا ہے اور اس بنیاد پر ان شاعروں کو رد کیا۔ یہ غیر شرعی فعل کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی اور باقی سارے صوفی شعرا کو یہ کہہ کر رد کیا کہ ان کی شاعری شطحیات سے بھری پڑی ہے۔ شطحیات مُعرب اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے لغویات اور خلاف شرع باتیں۔
ہم نے مصنف کے اس مؤقف کا ذکر کر کے اس پر اظہار تعجب کیا تھا کہ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر انوار احمد نے لکھا ہے۔ یہ کہہ کر چپ ہوگئے۔ یہ سوچ کر کہ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔
اب ہم مزید تعجب کر رہے ہیں کہ یہ ہمارا نقاد تو سچ مچ غازی علم دین کا ہم خیال نکلا۔ یعنی یہ دیباچہ رسمی نہیں تھا۔ دیباچے بالعموم رسمی ہوا کرتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر انوار تو بہت خوش ہیں کہ ہمارے کالم سے غازی علم دین کے نقطۂ نظر کی تشہیر ہوگئی اور کتاب دھڑا دھڑ بکنے لگی۔ ہاں اس واقع پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو خالی بادہ و ساغر ہی کے تشبیہ و استعارے کے حوالے سے نہیں بلکہ شاعری ہی کو بے دین لوگوں کا مشغلہ گردانتے ہیں۔
ڈاکٹر انوار کتاب کی فروخت پر خوش ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم ان کی خوشی کے لیے ایک اور تجویز پیش کرتے اگر وہ نورا کشتی تھی تو اس سے بڑھ کر ایک اور نورا کشتی کی تجویز پیش خدمت ہے۔
غازی علم دین نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ سوچ لیا کہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ غالب کی شاعری سے کفر برآمد کر لیا تو سمجھ لیجیے کہ پوری اردو غزل کو کفر کا کاروبار ثابت کر دیا۔ فارسی شاعری کے سلسلے میں حافظ کی حیثیت بھی ہاتھی کے پائوں والی ہے۔ مگر حافظ کے سلسلے میں تو اک دقت اور بھی ہے۔ مولوی ملائوں نے بیشک اس غزل کو سونگھا اور اس قسم کے بیانات دیکھ کر کہ بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید پڑھ کر اور کفر کفر کہہ کر اس طرف سے منہ موڑ لیا۔ مگر وہ علما بھی تو ہیں جنھیں اسی بادۂ و ساغر کے بیان میں مشاہدۂ حق کی گفتگو نظرآئی۔
انھوں نے اس شاعری کو اور طرح سے پڑھا ہے۔ مگر انوار نے غازی علم دین کی تفسیر غالب و حافظ پڑھ کر جو بصیرت حاصل کی ہے اسے حرف آخر سمجھیں اور اس روشنی میں پوری اردو شاعری و نیز فارسی شاعری کا جائزہ لے ڈالیں۔ غازی علم دین والی تعبیر کو آگے بڑھائیں اور ہماری شاعری میں جو کفر بھرا ہو آپ اسے آشکار کریں۔ جب یہ کتاب منظر عام پر آئے گی تو ہم اپنے حساب سے اس پر کالم کہیں گے۔ اور پھر انشاء اللہ ان کی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بکے گی۔ اب تک ان کی جو تنقیدی کتابیں چھپی ہیں وہ کتنی بکی ہوں گی۔ اس کتاب کے بعد تو وہ بیسٹ سیلر بن جائیں گے۔ بلکہ سمجھ لیجیے کہ دوسرے غازی علم دین بن جائیں گے۔
فی زمانہ مقبولیت کا اس سے بہتر اور کوئی نسخہ نہیں ہے۔ جب ڈاکٹر انوار کے ہاتھ یہ نسخہ آ ہی گیا ہے تو اسے استعمال کیوں نہ کیا جائے۔
حافظ کا معاملہ بھی عجب رہا ہے۔ اس کی شاعری پر انگلیاں بھی بہت اٹھی ہیں اور وہ جو اس کے یہاں بادہ و ساغر کا مضمون بہت نظر آتا ہے اسے ہدف بھی بہت بنایا گیا ہے۔ شاید ایسی ہی مخلوق کے لیے اس نے یہ کہا تھا کہ
سخن شناس نۂ دلبرا خطا این جاست
مگر اسے سخن شناس بھی ایسے میسر آتے رہے جنہوں نے اسی بادہ و ساغر کے مضمون میں نئے عرفان کو جھلکتے دیکھا۔
تحسین فراقی ہمیں بتا رہے تھے کہ حافظ کی ایک شرح حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی لکھی ہے۔
ہم نے ٹکڑا لگایا ''اور ایک شرح سجاد ظہیر نے بھی لکھی ہے۔''
لیجیے سجاد ظہیر کی شرح کا احوال سن لیجیے ۔ اس زمانے میں جب غزل کے خلاف ہنگامہ گرم تھا۔ جدیدیت والے معترض تھے کہ عہد جدید کے مسائل و معاملات کی ادائیگی سے یہ صنف قاصر ہے۔ اور ترقی پسند نقاد اسے زندگی کے حقائق سے فرار کا طعنہ دے رہے تھے۔ اسی رو میں ظ انصاری نے حافظ کے خلاف ایک مقالہ لکھ ڈالا۔ حافظ کی بادہ و ساغر والی غزل شرعی ہے یا غیر شرعی اس سے تو انھیں کوئی غرض نہیں تھی۔
انھوں نے وہاں سے فراریت کا مضمون برآمد کیا۔
سجاد ظہیر اس زمانے میں جیل میں تھے۔ انھوں نے جیل میں بیٹھ کر یہ مضمون پڑھا اور انھوں نے اپنے کامریڈ کی اس طرح گوشمالی کی کہ ایک پوری کتاب لکھ ڈالی جو 'ذکر حافظ' کے عنوان سے شائع ہوئی۔ انھوں نے اس عزیز کی سرزنش کی کہ شاعری بھلا اس طریقہ سے پڑھی اور سمجھی جاتی ہے اور جب شاعر حافظ ایسا جید شاعر ہو۔ اور پھر انھوں نے اپنی انقلابی فہم کے حساب سے حافظ کے شعروں کی توضیح و تعبیر کی۔
اصل میں شاعری کا معاملہ بھی کچھ اس طرح کا ہے کہ
فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست
اور خاص طور پر بڑی شاعری کا معاملہ۔ شاعر نے تو ایک استعارہ استعمال کیا اور آگے بڑھ گیا۔ ادھر پڑھنے والوں کی سمجھ اور ہمت پر موقوف ہے کہ انھوں نے اسے کس طرح سمجھا۔ اسی بادہ و ساغر کے استعمال کا معاملہ یہ ہے کہ بعض پڑھنے والے شراب و کباب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ ان کی فکر کی پہنچ بس اسی حد تک ہے۔ دوسرے پڑھنے والے اس سے مئے عرفان کے مضمون تک پہنچ جاتے ہیں۔ نئے مضمون نکالنے والوں نے اسی استعارے سے انقلاب کے مضمون نکالے۔
''آج ایکسپریس میں آپ کے کالم کے نتائج سے میں بہت لطف اندوز ہوا کہ تین گھنٹے میں ہمارے اسٹاک میں موجود غازی علم دین کی ڈھائی سو کتابیں فوراً بک گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ انتظار حسین اور انوار احمد کی
اسے نورا کشتی کہیں گے کہ کتاب کو بالآخر اپنے قارئین میسر آئے۔ آپ کا کالم اپنے ماہانہ جریدے اخبار اردو کے آیند ہ شمارے میں شامل کر رہے ہیں۔''
اگر قارئین کو یاد نہ ہو تو ہم یاد دلادیں کہ متذکرہ بالا کتاب کا ذکر ہم نے اپنے کالم میں کس تقریب سے کیا تھا۔ اس کے مصنف غازی علم دین نے اس کتاب 'لسانی مطالعے' میں اردو اور فارسی شاعری پر اس حساب سے اعتراض کیا کہ اس میں خلاف اسلام باتیں بہت کی گئی ہیں۔ تین شاعروں کا خاص طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔ غالب، حافظ اور مولانا جلال الدین رومی لکھتے ہیں کہ ''شریعت اسلامیہ میں شراب نوشی حرام اور ممنوع ہے'' اس کے بعد انھوں نے حافظ اور غالب کے کچھ ایسے شعر نقل کیے ہیں جن میں بادۂ و ساغر کا ذکر آتا ہے اور اس بنیاد پر ان شاعروں کو رد کیا۔ یہ غیر شرعی فعل کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی اور باقی سارے صوفی شعرا کو یہ کہہ کر رد کیا کہ ان کی شاعری شطحیات سے بھری پڑی ہے۔ شطحیات مُعرب اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے لغویات اور خلاف شرع باتیں۔
ہم نے مصنف کے اس مؤقف کا ذکر کر کے اس پر اظہار تعجب کیا تھا کہ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر انوار احمد نے لکھا ہے۔ یہ کہہ کر چپ ہوگئے۔ یہ سوچ کر کہ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔
اب ہم مزید تعجب کر رہے ہیں کہ یہ ہمارا نقاد تو سچ مچ غازی علم دین کا ہم خیال نکلا۔ یعنی یہ دیباچہ رسمی نہیں تھا۔ دیباچے بالعموم رسمی ہوا کرتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر انوار تو بہت خوش ہیں کہ ہمارے کالم سے غازی علم دین کے نقطۂ نظر کی تشہیر ہوگئی اور کتاب دھڑا دھڑ بکنے لگی۔ ہاں اس واقع پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو خالی بادہ و ساغر ہی کے تشبیہ و استعارے کے حوالے سے نہیں بلکہ شاعری ہی کو بے دین لوگوں کا مشغلہ گردانتے ہیں۔
ڈاکٹر انوار کتاب کی فروخت پر خوش ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم ان کی خوشی کے لیے ایک اور تجویز پیش کرتے اگر وہ نورا کشتی تھی تو اس سے بڑھ کر ایک اور نورا کشتی کی تجویز پیش خدمت ہے۔
غازی علم دین نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ سوچ لیا کہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ غالب کی شاعری سے کفر برآمد کر لیا تو سمجھ لیجیے کہ پوری اردو غزل کو کفر کا کاروبار ثابت کر دیا۔ فارسی شاعری کے سلسلے میں حافظ کی حیثیت بھی ہاتھی کے پائوں والی ہے۔ مگر حافظ کے سلسلے میں تو اک دقت اور بھی ہے۔ مولوی ملائوں نے بیشک اس غزل کو سونگھا اور اس قسم کے بیانات دیکھ کر کہ بمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید پڑھ کر اور کفر کفر کہہ کر اس طرف سے منہ موڑ لیا۔ مگر وہ علما بھی تو ہیں جنھیں اسی بادۂ و ساغر کے بیان میں مشاہدۂ حق کی گفتگو نظرآئی۔
انھوں نے اس شاعری کو اور طرح سے پڑھا ہے۔ مگر انوار نے غازی علم دین کی تفسیر غالب و حافظ پڑھ کر جو بصیرت حاصل کی ہے اسے حرف آخر سمجھیں اور اس روشنی میں پوری اردو شاعری و نیز فارسی شاعری کا جائزہ لے ڈالیں۔ غازی علم دین والی تعبیر کو آگے بڑھائیں اور ہماری شاعری میں جو کفر بھرا ہو آپ اسے آشکار کریں۔ جب یہ کتاب منظر عام پر آئے گی تو ہم اپنے حساب سے اس پر کالم کہیں گے۔ اور پھر انشاء اللہ ان کی یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بکے گی۔ اب تک ان کی جو تنقیدی کتابیں چھپی ہیں وہ کتنی بکی ہوں گی۔ اس کتاب کے بعد تو وہ بیسٹ سیلر بن جائیں گے۔ بلکہ سمجھ لیجیے کہ دوسرے غازی علم دین بن جائیں گے۔
فی زمانہ مقبولیت کا اس سے بہتر اور کوئی نسخہ نہیں ہے۔ جب ڈاکٹر انوار کے ہاتھ یہ نسخہ آ ہی گیا ہے تو اسے استعمال کیوں نہ کیا جائے۔
حافظ کا معاملہ بھی عجب رہا ہے۔ اس کی شاعری پر انگلیاں بھی بہت اٹھی ہیں اور وہ جو اس کے یہاں بادہ و ساغر کا مضمون بہت نظر آتا ہے اسے ہدف بھی بہت بنایا گیا ہے۔ شاید ایسی ہی مخلوق کے لیے اس نے یہ کہا تھا کہ
سخن شناس نۂ دلبرا خطا این جاست
مگر اسے سخن شناس بھی ایسے میسر آتے رہے جنہوں نے اسی بادہ و ساغر کے مضمون میں نئے عرفان کو جھلکتے دیکھا۔
تحسین فراقی ہمیں بتا رہے تھے کہ حافظ کی ایک شرح حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی لکھی ہے۔
ہم نے ٹکڑا لگایا ''اور ایک شرح سجاد ظہیر نے بھی لکھی ہے۔''
لیجیے سجاد ظہیر کی شرح کا احوال سن لیجیے ۔ اس زمانے میں جب غزل کے خلاف ہنگامہ گرم تھا۔ جدیدیت والے معترض تھے کہ عہد جدید کے مسائل و معاملات کی ادائیگی سے یہ صنف قاصر ہے۔ اور ترقی پسند نقاد اسے زندگی کے حقائق سے فرار کا طعنہ دے رہے تھے۔ اسی رو میں ظ انصاری نے حافظ کے خلاف ایک مقالہ لکھ ڈالا۔ حافظ کی بادہ و ساغر والی غزل شرعی ہے یا غیر شرعی اس سے تو انھیں کوئی غرض نہیں تھی۔
انھوں نے وہاں سے فراریت کا مضمون برآمد کیا۔
سجاد ظہیر اس زمانے میں جیل میں تھے۔ انھوں نے جیل میں بیٹھ کر یہ مضمون پڑھا اور انھوں نے اپنے کامریڈ کی اس طرح گوشمالی کی کہ ایک پوری کتاب لکھ ڈالی جو 'ذکر حافظ' کے عنوان سے شائع ہوئی۔ انھوں نے اس عزیز کی سرزنش کی کہ شاعری بھلا اس طریقہ سے پڑھی اور سمجھی جاتی ہے اور جب شاعر حافظ ایسا جید شاعر ہو۔ اور پھر انھوں نے اپنی انقلابی فہم کے حساب سے حافظ کے شعروں کی توضیح و تعبیر کی۔
اصل میں شاعری کا معاملہ بھی کچھ اس طرح کا ہے کہ
فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست
اور خاص طور پر بڑی شاعری کا معاملہ۔ شاعر نے تو ایک استعارہ استعمال کیا اور آگے بڑھ گیا۔ ادھر پڑھنے والوں کی سمجھ اور ہمت پر موقوف ہے کہ انھوں نے اسے کس طرح سمجھا۔ اسی بادہ و ساغر کے استعمال کا معاملہ یہ ہے کہ بعض پڑھنے والے شراب و کباب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ ان کی فکر کی پہنچ بس اسی حد تک ہے۔ دوسرے پڑھنے والے اس سے مئے عرفان کے مضمون تک پہنچ جاتے ہیں۔ نئے مضمون نکالنے والوں نے اسی استعارے سے انقلاب کے مضمون نکالے۔