پرناب مکھرجی کی خود نوشت سوانح
میرا یقین ہے کہ ایک سربراہ مملکت کو اس وقت اپنی یادداشتیں شایع نہیں کرنی چاہئیں جب وہ اپنے منصب پر فائز ہو۔
میرا یقین ہے کہ ایک سربراہ مملکت کو اس وقت اپنی یادداشتیں شایع نہیں کرنی چاہئیں جب وہ اپنے منصب پر فائز ہو۔ سیاسی جماعتیں اس پر تنقید کرنے سے ہچکچاتی ہیں کیونکہ وہ ریاست کا آئینی سربراہ ہوتا ہے یہی کیفیت ان کی ہوتی ہے جنہوں نے اسے منتخب کیا ہوتا ہے۔ پرناب مکھرجی نے اپنی یادداشتیں شایع کر کے اپنے منصب کے تقاضے کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ وہ ابھی تک بھارت کے صدر مملکت ہیں۔
ان کی خودنوشت سوانح حیات پڑھنے سے قبل میں سوچ رہا تھا کہ وہ اس بات کی کس طرح وضاحت کریں گے کہ ان کا سنجے گاندھی کا مطیع و فرمانبردار بننا کتنا غلط اقدام تھا۔ وزیراعظم اندرا گاندھی کے صاحبزادے سنجے گاندھی فی الواقعی حکومت چلا رہے تھے۔لیکن کتاب پڑھتے ہوئے مجھے یہ جان کر بہت دھچکہ لگا کہ مکھرجی نے اس کی تعریف کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''سنجے کی سوچ بڑی واضح اور انداز بیان میں سچائی تھی''۔
صدر کو علم ہونا چاہیے کہ سنجے نے اداروں کو تباہ کر دیا اور جمہوری سیاست کے ہوتے ہوئے اپنی ذاتی حکمرانی کو نافذ کر دیا حالانکہ اس نے کبھی کوئی میونسپل انتخاب تک نہیں جیتا تھا لیکن وہ سارے ملک پر حکومت کر رہا تھا جب کہ حکومت کا اختیار اندرا گاندھی کو دیا گیا تھا جب وہ دوبارہ اقتدار میں واپس آئیں۔
مکھرجی تھے تو اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر تجارت لیکن اندر کھاتے وہ ہمہ وقت سنجے کے اشاروں پر چلتے تھے۔ مکھرجی کو اپنی یادداشتوں میں وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ آخر وہ سنجے کا ہر فون سننے کے لیے کیسے بے قرار ہوتے تھے۔ کیا وہ اس کی طاقت سے اس قدر مرعوب تھے یا انھیں ڈر تھا کہ انھیں بھی بغیر مقدمہ چلائے گرفتار کرلیا جائے گا؟
میں نے کتاب کی فہرست سے ایمرجنسی کا باب تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے یہ دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگا لیے کہ فہرست میں (E) کا حرف ہی نہیں لکھا تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید ایمرجنسی کا معاملہ کسی اور باب میں زیر بحث آیا ہو گا لیکن مجھے مایوسی ہوئی کہ مکھرجی نے اس اذیت ناک تجربے کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا جس میں پوری قوم تقریباً 22 مہینے تک مبتلا رہی تھی۔
اپنی سوانح حیات میں ''تکلیف دہ سالوں'' کے عنوان سے انھوں نے کئی چھوٹے چھوٹے واقعات کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان میں ایمرجنسی شامل نہیں۔ آج لوگ یا تو خاموش ہو چکے ہیں یا اس کا ذکر کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ویسے تو پرناب مکھرجی کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنی سوانح حیات کی دوسری جلد میں اس موضوع پر کوئی تفصیلات بیان کر دیں کیونکہ ان کا خاموش رہنا خود ان کے لیے ذہنی طور پر تکلیف کا باعث ہو گا۔
جہاں تک بابری مسجد کے انہدام کا تعلق ہے تو انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسیمہا راؤ کو بس یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ یہ ان کی غلطی تھی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نرسیمہا راؤ بابری مسجد کے انہدام میں ملوث تھے۔ جب مسجد کو منہدم کیا جا رہا تھا تو نرسیمہا راؤ اپنے گھر پر پوجا میں بیٹھ گئے۔ انھوں نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور وہ اس وقت کھلیں جب انہدام مکمل ہو چکا تھا اور اس کی آخری اینٹ تک اکھاڑ لی گئی تھی۔
مدھو لیمائی جو کہ ایک سوشلسٹ لیڈر تھا اس نے خود مجھے بتایا کہ نرسیمہا راؤ کو اس ''سازش'' کا پہلے سے ہی مکمل علم تھا لیکن انھوں نے اسے رکوانے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا۔ نرسیمہا راؤ نے ہم سینئر صحافیوں کو بتایا تھا کہ بابری مسجد کے مقام پر راتوں رات جو چھوٹا سا مندر بنا دیا گیا تھا وہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہے گا اور یقیناً اس بات کا مکھرجی کو بھی علم تھا لیکن وہ مندر ابھی تک وہیں ہے۔ مکھرجی کو اس بارے میںاتنا ہی افسوس ہوا تھا تو انھیں اس کا ذکر ضرور کرنا چاہیے تھا۔
اس سے ممکن ہے کہ بھارت کے بارے میں تاثر کچھ بہتر ہو سکتا۔ بھارت اپنے آپ کو متحمل ملک کہلاتا تھا لیکن اس پر بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے غیر متحمل ملک کا لیبل لگ چکا ہے جو گزشتہ 24 سال سے بھی مٹایا نہیں جا سکا۔ کانگریس کے لیڈر کملا پتی تریپاتھی کی بہو نے جب مکھرجی کو بتایا کہ انھیں پارٹی کے خلاف کارروائیاں کرنے کے الزام میں چھ سال کے لیے پارٹی سے خارج کر دیا گیا ہے تو ان کا رنگ فق ہو گیا۔ جب راجیو گاندھی نے مکھرجی کو حکومت سے نکال دیا تو انھوں نے اپنی ایک علیحدہ پارٹی شروع کر دی تھی لیکن جب انھوں نے اپنی غلطی پر اظہار ندامت کیا تو انھیں مغربی بنگال کی کانگریس کمیٹی کا صدر بنا دیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ راجیو گاندھی نے اشوک سین کی مکھرجی کے خلاف ملامتی تقریر کی تعریف کی۔ سین کا تعلق بھی مغربی بنگال سے تھا۔ مکھرجی نے آر کے دھاون کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے تھا جو کہ اندرا گاندھی کے 22 سال تک نہایت قابل اعتماد پرائیویٹ سیکریٹری رہے اور جنھیں کہ بعدازاں عارضی طور پر برخاست کردیا گیا جس پر انھوں نے پبلک لائف سے کنارہ کشی کر لی لیکن مکھرجی بدستور سیاست میں شامل رہے۔مکھرجی کی اس بات سے مجھے صدر گیانی ذیل سنگھ یاد آتے ہیں وہ بھی اندرا گاندھی کی نظروں سے گر گئے تھے لیکن اندرا گاندھی بے بس ہو گئی تھیں کیونکہ ایک سوشلسٹ لیڈر جارج فرنینڈس نے صدر سے اپیل کی تھی کہ وہ اندرا گاندھی پر ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں مقدمہ چلائیں۔
ذیل سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ یقیناً ایسا کر دیتے لیکن چونکہ وہ سکھ تھے اس لیے اس کا یہ مطلب لیا جاتا کہ انھوں نے سکھوں کے دربار صاحب کے خلاف ''آپریشن بلیو اسٹار'' کی وجہ سے اندرا کے خلاف انتقامی کارروائی کی ہے۔ گیانی ذیل سنگھ نے سکھ ہونے کے باوجود کانگریس سے وفاداری نبھائی حتیٰ کہ آپریشن بلیو اسٹار پر حکومت کی حمایت میں ریڈیو پر نشری تقریر بھی کی۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ اگر وہ حکومت کی مخالفت کرتے تو وہ ایک دوسرے مہاراجہ رنجیت سنگھ بن سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے حکومت کی مخالفت پر ساری سکھ کمیونٹی ان کے پیچھے کھڑی ہوتی لیکن انھوں نے ایسا کرنا اس وجہ سے مناسب خیال نہیں کیا کیونکہ اس کا ملک پر بہت برا اثر مرتب ہوتا۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ راجیو گاندھی نے صدر ذیل سنگھ کو جنوبی افریقہ کا سرکاری دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
اس موقع پر پرناب مکھرجی وزیراعظم راجیو گاندھی کے اس قدر قریب آ چکے تھے کہ راجیو گاندھی ہر معاملے میں ان کی رائے لیتے تھے اور جب مکھرجی نے راجیو کے فیصلے کی تائید کی تو راجیو نے اسے بہت محسوس کیا۔لیکن جہاں تک مکھرجی کی خود نوشت میں ان باتوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا تو کتاب میں بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کو بہت سی باتوں کا علم تھا لیکن انھوں نے اپنی کتاب میں بہت کم باتیں لکھی ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
ان کی خودنوشت سوانح حیات پڑھنے سے قبل میں سوچ رہا تھا کہ وہ اس بات کی کس طرح وضاحت کریں گے کہ ان کا سنجے گاندھی کا مطیع و فرمانبردار بننا کتنا غلط اقدام تھا۔ وزیراعظم اندرا گاندھی کے صاحبزادے سنجے گاندھی فی الواقعی حکومت چلا رہے تھے۔لیکن کتاب پڑھتے ہوئے مجھے یہ جان کر بہت دھچکہ لگا کہ مکھرجی نے اس کی تعریف کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''سنجے کی سوچ بڑی واضح اور انداز بیان میں سچائی تھی''۔
صدر کو علم ہونا چاہیے کہ سنجے نے اداروں کو تباہ کر دیا اور جمہوری سیاست کے ہوتے ہوئے اپنی ذاتی حکمرانی کو نافذ کر دیا حالانکہ اس نے کبھی کوئی میونسپل انتخاب تک نہیں جیتا تھا لیکن وہ سارے ملک پر حکومت کر رہا تھا جب کہ حکومت کا اختیار اندرا گاندھی کو دیا گیا تھا جب وہ دوبارہ اقتدار میں واپس آئیں۔
مکھرجی تھے تو اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر تجارت لیکن اندر کھاتے وہ ہمہ وقت سنجے کے اشاروں پر چلتے تھے۔ مکھرجی کو اپنی یادداشتوں میں وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ آخر وہ سنجے کا ہر فون سننے کے لیے کیسے بے قرار ہوتے تھے۔ کیا وہ اس کی طاقت سے اس قدر مرعوب تھے یا انھیں ڈر تھا کہ انھیں بھی بغیر مقدمہ چلائے گرفتار کرلیا جائے گا؟
میں نے کتاب کی فہرست سے ایمرجنسی کا باب تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے یہ دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگا لیے کہ فہرست میں (E) کا حرف ہی نہیں لکھا تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید ایمرجنسی کا معاملہ کسی اور باب میں زیر بحث آیا ہو گا لیکن مجھے مایوسی ہوئی کہ مکھرجی نے اس اذیت ناک تجربے کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا جس میں پوری قوم تقریباً 22 مہینے تک مبتلا رہی تھی۔
اپنی سوانح حیات میں ''تکلیف دہ سالوں'' کے عنوان سے انھوں نے کئی چھوٹے چھوٹے واقعات کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان میں ایمرجنسی شامل نہیں۔ آج لوگ یا تو خاموش ہو چکے ہیں یا اس کا ذکر کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ویسے تو پرناب مکھرجی کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنی سوانح حیات کی دوسری جلد میں اس موضوع پر کوئی تفصیلات بیان کر دیں کیونکہ ان کا خاموش رہنا خود ان کے لیے ذہنی طور پر تکلیف کا باعث ہو گا۔
جہاں تک بابری مسجد کے انہدام کا تعلق ہے تو انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسیمہا راؤ کو بس یہ کہہ کر معاف کر دیا کہ یہ ان کی غلطی تھی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نرسیمہا راؤ بابری مسجد کے انہدام میں ملوث تھے۔ جب مسجد کو منہدم کیا جا رہا تھا تو نرسیمہا راؤ اپنے گھر پر پوجا میں بیٹھ گئے۔ انھوں نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور وہ اس وقت کھلیں جب انہدام مکمل ہو چکا تھا اور اس کی آخری اینٹ تک اکھاڑ لی گئی تھی۔
مدھو لیمائی جو کہ ایک سوشلسٹ لیڈر تھا اس نے خود مجھے بتایا کہ نرسیمہا راؤ کو اس ''سازش'' کا پہلے سے ہی مکمل علم تھا لیکن انھوں نے اسے رکوانے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا۔ نرسیمہا راؤ نے ہم سینئر صحافیوں کو بتایا تھا کہ بابری مسجد کے مقام پر راتوں رات جو چھوٹا سا مندر بنا دیا گیا تھا وہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہے گا اور یقیناً اس بات کا مکھرجی کو بھی علم تھا لیکن وہ مندر ابھی تک وہیں ہے۔ مکھرجی کو اس بارے میںاتنا ہی افسوس ہوا تھا تو انھیں اس کا ذکر ضرور کرنا چاہیے تھا۔
اس سے ممکن ہے کہ بھارت کے بارے میں تاثر کچھ بہتر ہو سکتا۔ بھارت اپنے آپ کو متحمل ملک کہلاتا تھا لیکن اس پر بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے غیر متحمل ملک کا لیبل لگ چکا ہے جو گزشتہ 24 سال سے بھی مٹایا نہیں جا سکا۔ کانگریس کے لیڈر کملا پتی تریپاتھی کی بہو نے جب مکھرجی کو بتایا کہ انھیں پارٹی کے خلاف کارروائیاں کرنے کے الزام میں چھ سال کے لیے پارٹی سے خارج کر دیا گیا ہے تو ان کا رنگ فق ہو گیا۔ جب راجیو گاندھی نے مکھرجی کو حکومت سے نکال دیا تو انھوں نے اپنی ایک علیحدہ پارٹی شروع کر دی تھی لیکن جب انھوں نے اپنی غلطی پر اظہار ندامت کیا تو انھیں مغربی بنگال کی کانگریس کمیٹی کا صدر بنا دیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ راجیو گاندھی نے اشوک سین کی مکھرجی کے خلاف ملامتی تقریر کی تعریف کی۔ سین کا تعلق بھی مغربی بنگال سے تھا۔ مکھرجی نے آر کے دھاون کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے تھا جو کہ اندرا گاندھی کے 22 سال تک نہایت قابل اعتماد پرائیویٹ سیکریٹری رہے اور جنھیں کہ بعدازاں عارضی طور پر برخاست کردیا گیا جس پر انھوں نے پبلک لائف سے کنارہ کشی کر لی لیکن مکھرجی بدستور سیاست میں شامل رہے۔مکھرجی کی اس بات سے مجھے صدر گیانی ذیل سنگھ یاد آتے ہیں وہ بھی اندرا گاندھی کی نظروں سے گر گئے تھے لیکن اندرا گاندھی بے بس ہو گئی تھیں کیونکہ ایک سوشلسٹ لیڈر جارج فرنینڈس نے صدر سے اپیل کی تھی کہ وہ اندرا گاندھی پر ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں مقدمہ چلائیں۔
ذیل سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ یقیناً ایسا کر دیتے لیکن چونکہ وہ سکھ تھے اس لیے اس کا یہ مطلب لیا جاتا کہ انھوں نے سکھوں کے دربار صاحب کے خلاف ''آپریشن بلیو اسٹار'' کی وجہ سے اندرا کے خلاف انتقامی کارروائی کی ہے۔ گیانی ذیل سنگھ نے سکھ ہونے کے باوجود کانگریس سے وفاداری نبھائی حتیٰ کہ آپریشن بلیو اسٹار پر حکومت کی حمایت میں ریڈیو پر نشری تقریر بھی کی۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ اگر وہ حکومت کی مخالفت کرتے تو وہ ایک دوسرے مہاراجہ رنجیت سنگھ بن سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے حکومت کی مخالفت پر ساری سکھ کمیونٹی ان کے پیچھے کھڑی ہوتی لیکن انھوں نے ایسا کرنا اس وجہ سے مناسب خیال نہیں کیا کیونکہ اس کا ملک پر بہت برا اثر مرتب ہوتا۔حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ راجیو گاندھی نے صدر ذیل سنگھ کو جنوبی افریقہ کا سرکاری دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
اس موقع پر پرناب مکھرجی وزیراعظم راجیو گاندھی کے اس قدر قریب آ چکے تھے کہ راجیو گاندھی ہر معاملے میں ان کی رائے لیتے تھے اور جب مکھرجی نے راجیو کے فیصلے کی تائید کی تو راجیو نے اسے بہت محسوس کیا۔لیکن جہاں تک مکھرجی کی خود نوشت میں ان باتوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا تو کتاب میں بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کو بہت سی باتوں کا علم تھا لیکن انھوں نے اپنی کتاب میں بہت کم باتیں لکھی ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)