قائد اعظم کے نام بچوں کے خطوط

وہ لکھتے ہیں ’’ان خطوط کا ایک ایک لفظ محبت اور عقیدت کا سمندر اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔


Rafiuzzaman Zuberi March 10, 2016

ڈاکٹر ندیم شفیق ملک جب اپنی ڈاکٹریٹ کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں ریسرچ کر رہے تھے تو انھیں قائد اعظم کے نام بچوں کے خطوط دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ان سے بہت متاثر ہوئے کیونکہ ان میں قائد اعظم اور مسلم لیگ کے لیے ایسا جذبہ و جوش پایا جاتا تھا جو صرف خلوص سے ظاہر ہوتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ''ان خطوط کا ایک ایک لفظ محبت اور عقیدت کا سمندر اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔ یہ خطوط معصوم جذبوں کے تابندہ جگنوؤں کی طرح کاغذ پر دمک رہے تھے۔ یہی نور بعد میں تخلیق پاکستان کا موجب ہوا۔''ڈاکٹر ندیم نے ان خطوط کی جو سات آٹھ، دس بارہ سال کی عمر کے بچوں اور بچیوں کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں نقول جمع کر لیں اور اب پندرہ سال بعد انھیں ایک خوبصورت کتاب کی شکل میں شایع کر دیا۔ یہ خط بیشتر 1942ء سے 1945ء کے درمیان لکھے گئے جب قائد اعظم نے مسلم لیگ کے لیے فنڈ جمع کرنے کی اپیل کی تھی۔ یہ اردو اور انگریزی دونوں میں ہیں، مگر زیادہ تر اردو میں اور برصغیر کے مختلف گوشوں سے لکھے گئے ہیں۔ ان خطوط کے لکھنے والے کمسن بچے اب اپنی عمر کے بہت سال بتا چکے ہوں گے۔

ان کی یادوں میں وہ دن بھی ہوں گے اور اب یہ دن بھی۔ ان کے جذبات جب بھی قدر کے لائق تھے اور آج بھی۔ ان میں ہمارے آج کے بچوں کے لیے سوچنے اور سمجھنے کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ہندوستان کے صوبہ مدراس میں کڈپہ کے یتیم خانہ اسلامیہ کے بچوں کا ایک خط جس پر 25 جولائی 1942ء کی تاریخ پڑھی ان کے جذبات کی کیا سچی تصویر پیش کرتا ہے۔''ہمارے اچھے قائد اعظم! ہم یتیموں کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت رکھے۔ قائد اعظم! آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں سے مسلم لیگ کے لیے چندے کی درخواست کی ہے۔ یہ ہم کو اخباروں کے ذریعہ معلوم ہوا۔ ہمارا بھی خیال ہوا کہ ہم بھی آپ کی خدمت میں کچھ چندہ پیش کریں۔ آپ کو یہ معلوم ہے کہ ہم یتیم ہیں اور ہمارے کھانے پینے اور کپڑے وغیرہ کا انتظام یتیم خانے سے ہوتا ہے۔

ہمارے ماں باپ نہیں ہیں جو ہم کو روز پیسے دیں پھر بھی ہم نے یہ طے کیا ہے کہ آپ کی خدمت میں ضرور کچھ بھیجیں۔ اس لیے ہم نے ہم کو دھیلہ پیسہ جو کچھ بھی اور جہاں کہیں سے ملا، اس کو جوڑنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ تین روپے دو آنے کی رقم جمع ہو گئی۔ ہم اب اس کو آپ کی خدمت میں روانہ کر رہے ہیں۔ آپ اس کو قبول کیجیے۔ ہم آپ سے اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو زندہ رکھا اور ہم خوب پڑھ کر جوان ہوئے تو مسلم لیگ کی بڑے زور و شور سے خدمت کریں گے اور جب ہم کمانے لگیں گے تو آپ کی درخواست پر بہت سے روپے چندے میں دیں گے۔ آپ ہمارے لیے دعا کیجیے۔''

اس خط کے ایک ایک لفظ سے جس خلوص اور اپنے قائد سے محبت کا اظہار ہوتا ہے کیا اس کی کوئی قیمت ہے؟

پٹنہ سے نویں کلاس کا ایک طالب علم 22 اپریل 1942ء قائد اعظم کے نام اپنے خط میں لکھتا ہے۔ ''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر مہینے سات دن تک بغیر ناشتے کے مدرسے جاؤں گا اور اس طرح جو رقم بچے گی وہ آپ کو بھیجوں گا۔''چشتیہ ہائی اسکول امرتسر کا پانچویں کا طالبعلم عزیز الرحمن اپنے خط میں لکھتا ہے کہ:''میں نے آٹھ آنے جمع کر لیے ہیں جو بھیج دیے ہیں۔ میں اور بھی پیسے جمع کروں گا اور بھیجوں گا۔''

حیدر آباد دکن کی ایک طالبہ شمیم آرا نے قائد اعظم کو پانچ روپے بھیجے اور لکھا کہ یہ پیسے اس کے جیب خرچ کے ہیں جو اس نے خرچ نہیں کیے۔ ایک اور طالبعلم قاضی اظہار معین مظفر نگر سے خط ہے جس میں لکھا ہے کہ انھوں نے اور ان کی بہن نے جو چوتھی کلاس میں ہے آٹھ آنے جمع کیے ہیں اور وہ یہ ڈاک کے ٹکٹ کی صورت میں بھیج رہے ہیں۔

ریاست بہاولپور میں بہاول نگر کے ایک طالبعلم نواب زادہ احمد یار خاں جنباہی نے پانچ روپے کی وہ رقم جو انھیں امتحان میں کامیاب ہونے پر انعام میں ملی تھی قائد اعظم کو بھیج دی۔ اس لڑکے نے اپنے خط میں لکھا۔ ''دعا ہے کہ خداوند کریم آپ کو اپنے اور جملہ مسلمانان ہند کے مقاصد میں کامیاب فرمائے اور ہمارے سروں پر ہمارے قائد اعظم کو تاابد زندہ سلامت رکھے۔'' بمبئی سے محمد علی نے لکھا کہ وہ ایک بہت غریب طالبعلم ہے۔ وہ صرف دو آنے کے ڈاک کے ٹکٹ ہی بھیج سکتا ہے اور اس فقیر کے یہ دو آنے قبول فرما لیجیے۔'' شملہ اسلامیہ کا ایک طالبعلم قائد اعظم کو اپنے خط میں لکھتا ہے۔ ''اسلام کا ایک عاجز بیٹا اپنے تین روپے ماہانہ کے خرچ میں سے ایک روپیہ آٹھ آنے کی معمولی رقم عطیے کے طور پر مسلم نیشنل فنڈ کے لیے پیش کرتا ہے۔

قبول کر لیجیے۔''یہ سب خط کم عمر طالبعلموں کے ہیں اور 1942ء کے دوران لکھے گئے ہیں۔قائد اعظم کی ہدایت تھی کہ ہر خط سے انھیں مطلع کیا جائے۔ بعض خطوط کا انھوں نے جواب بھی دیا ہے جو اس کتاب میں شامل ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ چندے میں آنے والی رقم کی رسید پر قائد اعظم خود دستخط کرتے تھے۔ اس سے مالی معاملات میں ان کی احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے۔ رقم بڑی ہو یا چھوٹی سب کا حساب باقاعدہ رکھا جاتا تھا۔

کتاب میں قائد اعظم کا وہ خط بھی شامل ہے جس میں انھوں نے لاہور کے اقبال ہائی اسکول کے پرنسپل کا سو روپیہ کا چیک ملنے پر شکریہ ادا کیا ہے اور لکھا ہے ''یہ درحقیقت مقام شکر ہے کہ نوجوانان مسلم ہند اپنے شاندار جذبے کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور میں ان کی اس مدد اور حوصلہ افزائی کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جو وہ مجھے اور جس مقصد کے لیے ہم لڑ رہے ہیں کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی مرتب کردہ کتاب میں ایک خط ایک بچی، صدیقہ بشریٰ کا ہے۔ قائد کے نام اس کا یہ خط معصوم جذبات کا مظہر ہے۔ خط یوں ہے:''میرے بہت ہی پیارے قائد اعظم صاحب سلامت باشد۔

آداب عرض۔

میری عمر پانچ سال ہے۔ میں ابھی خط نہیں لکھ سکتی۔ جب لکھنے لگی تو سب سے پہلے آپ کو خط لکھوں گی۔ یہ خط اپنی آپا سے لکھوا کر ڈال رہی ہوں۔ میں بہت اچھی لڑکی ہوں۔ شرارتیں نہیں کرتی، کیوں کہ آپا جان فرماتی ہیں کہ شرارتیں کرنے والے کو مسلم لیگ میں داخل نہیں کرتے اور میں آپ سے اقرار کرتی ہوں کہ آیندہ بھی کبھی شرارتیں نہیں کیا کروں گی۔ میں بڑی ہو کر بھی اپنی قوم کی خدمت کیا کروں گی۔ میں بہت اچھی لڑکی ہوں۔ آپ مجھے مسلم لیگ میں داخل کر لیں۔

مجھے تمام نماز تو نہیں آتی لیکن جتنی آتی ہے وہ میں روزانہ پانچوں وقت پڑھ کر دعا کیا کرتی ہوں۔ اللہ میاں آپ کی عمر ایک ہزار سال سے بھی زیادہ کرے۔''

آپ کی تابعدار

صدیقہ بشریٰ

کیا پاکستان کے وجود میں آنے میں ان مخلص جذبوں اور معصوم دعاؤں کا کوئی کردار نہیں ہے؟

شاہد اعوان نے اپنے اظہاریے میں لکھا ہے ''یہ کتاب ماضی کی ایسی بازیافت ہے جو قاری کے ذہن سے زیادہ دل کو اپیل کرتی ہے۔ معصومانہ واردات قلبی کا ایسا بیان کہ پڑھنے والے پر گویا بیت جاتا ہے۔ مسلم برصغیر کی خاکستر کی ان ہی چنگاریوں سے وہ شعلہ فروزاں ہوا جو آج پوری امت کو روشنی دکھا رہا ہے۔

ہماری آج کی نسل بھی اگر ان ہی ''خطوط'' پر چل سکے تو واللہ بلند اقبالی مقدر ٹھیرے گی۔''اس کتاب کے ہر صفحے پر ترتیب وار دو تصویریں ہیں۔ ایک میں قائد اعظم کے ساتھ طلبا ہیں اور دوسری میں طالبات۔ میرے لیے یہ باعث انبساط ہے کہ طلبا کی تصویر میں قائد اعظم کے پیچھے کھڑے مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ کے طلبا میں، میں بھی شامل ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔