مذاہب کو ایک OR چاہیے…

پوپ فرانس نے اس سال کے آخر میں دورۂ پاکستان کی دعوت قبول کر لی ہے۔


سید معظم حئی March 10, 2016

پوپ فرانس نے اس سال کے آخر میں دورۂ پاکستان کی دعوت قبول کر لی ہے۔ اس سے پہلے 16 فروری 1981ء کو پوپ جان پال دوئم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پوپ فرانس اپنے پیشرو پوپ بینی ڈکٹ کے برعکس نہ صرف متوازن مذہبی شخصیت کے مالک ہیں بلکہ بین المذہبی رواداری کے معاملے میں جرأت مندی سے اپنے موقف پہ قائم رہتے ہیں۔

گستاخانہ خاکے شایع کرنے والے فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو پہ دہشت گردوں کے حملے کے بعد مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز رویوں کا ایک طوفان سا کھڑا ہو گیا، ماحول ایسا بن گیا کہ نہ کوئی معقولیت کی بات کرنے کو تیار تھا نہ سننے کو۔ ایسے مشکل وقت میں پوپ فرانس نے جہاں اس دہشت گرد حملے کی مذمت کی وہیں 15 جنوری 2015ء کو اپنے فلپائن کے دورے میں انھوں نے اس موقف کا اظہار کیا کہ آزادی اظہار کی بھی کچھ حدود ہیں اور دوسرے لوگوں کے مذہب کی بے عزتی کی جا سکتی ہے نہ ہی تمسخر اڑایا جا سکتا ہے۔

دنیا میں بین المذہبی رواداری کی ضرورت کا اب پہلے سے کہیں بڑھ کر احساس کیا جا رہا ہے تاہم بدقسمتی سے میڈیا، خصوصاً ترقی پذیر ممالک کا میڈیا جیسے کہ پاکستانی میڈیا، میں اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی جانے والی کوششوں کو کم ہی پذیرائی اور نمایاں جگہ ملتی ہے کیونکہ منفی خبریں ریٹنگ کے لیے مثبت ہوتی ہیں نہ کہ مثبت خبریں۔ میڈیا کی بے اعتنائی اپنی جگہ مگر بین المذہبی رواداری کے لیے مختلف مذاہب کے لوگ اپنی اپنی جگہ سرگرم عمل ہیں۔

مثلاً آپ پوپ فرانس کی ہی مثال لے لیں جن کی سربراہی میں ویٹیکن نے اسرائیلی صدر شمعون پیریز اور فلسطینی لیڈر محمود عباس کے دورے کے موقعے پر 8 جون 2014ء کو ویٹیکن گارڈنز میں مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک دوسرے کی موجودگی میں عالمی امن کے لیے عبادت اور غور و فکر کا پروگرام منعقد کیا۔ ادھر امریکا کی مغربی ریاست کیلیفورنیا میں New Ground نامی ایک Inter Faith (بین المذہبی) تنظیم کے Two Faiths One Prayers پروگرام کے تحت لاس اینجلس کے ساحل پر مسلمانوں اور یہودیوں نے مئی 2015ء میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی رواداری اور یکجہتی کے طور پر اپنی عبادت کی۔

اس ایونٹ سے دونوں طرف کے لوگوں کو ایک دوسرے کے مذہب اور خیالات کو سمجھنے کا موقعہ حاصل ہوا۔جرمنی کے شہر برلن کے وسط میں واقع 13 ویں صدی عیسوی کے ایک چرچ کو جو کہ دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہو گیا تھا اب دوبارہ تعمیر کرنے کا منصوبہ روبہ عمل ہے مگر صرف بحیثیت چرچ کے نہیں بلکہ دنیا کے پہلے مشترکہ چرچ۔ مسجد اور سائنا گاگ کے طور پر جسے House of One کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس عمارت کے ڈیزائن کے مطابق تمام لوگوں کے داخلے کے لیے ایک مرکزی دروازہ ہو گا اور پھر ایک مرکزی مشترکہ لابی جب کہ تین ایک ہی سائز مگر اپنے متعلقہ مذہب سے وابستہ فن تعمیر کے حساب سے مختلف ڈیزائن کے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت کے لیے مخصوص حصے ہوں گے۔

ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے اور عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں ایک دوسرے کے مذہب کی حقیقی روح اور تعلیمات کو سمجھنے کی بھی علمی و تحقیقی کاوشیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں رابی ڈیوڈ مے ار، امام سوہیب بن شیخ اور ریورنڈ واؤز سیمونز ایس جے کے کام کا حوالہ نہ دینا اس موضوع کے ساتھ ناانصافی ہو گی جنھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے اپنے مذہب کے مقدس کلام کے ایسے حساس ترین حصوں کو جنھیں دوسرے مذہب کے لوگ اپنے متعلق معاندانہ تصور کرتے ہیں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد کی۔ ان کی اس محنت کا نتیجہ جون 2008ء میں Les Versets Douloureux کی شکل میں نکلا جو بین المذہبی مکالمے پر ایک غیر معمولی کتاب ہے۔

یہ تمام کاوشیں اپنی اپنی جگہ نہایت اہم اور قابل قدر ہیں مگر بین المذاہب رواداری کے مقصد کے حصول کے لیے بہرحال کافی نہیں۔ دنیا کو ضرورت ہے ایک ایسے مستقل طور پر قائم شدہ بین الاقوامی بین المذہبی پلیٹ فارم کی جہاں بین المذہبی رواداری کے لیے وسیع تر اور مستقل بنیادوں پر کئی سمتوں میں کام جاری رہے۔ اس سلسلے میں میرا آئیڈیا کئی سالوں سے OR کا رہا ہے یعنی Organization of Religions۔ مذاہب کی ایک ایسی تنظیم جس کے مقاصد کچھ اس طرح سے ہوں۔

(1)۔مختلف مذاہب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور غیر متنازعہ اسکالرز کو مل بیٹھ کر ایک دوسرے کی مذہبی تعلیمات اور ان کی تشریحات کو سمجھنے میں مدد دینا۔ (2)۔نتیجتاً ایک دوسرے کے مذاہب کے بارے میں عوامی اور میڈیا کی سطح پر پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اپنے علمی و تحقیقی کام سے عملی کردار ادا کرنا۔ (3)۔بین المذہبی تشدد، کشیدگی اور تنازعات والے علاقوں میں متعلقہ حکومتوں اور NGO's کی علمی، تحقیقی اور سماجی مدد کرنا۔ (4)۔سارا سال مختلف ممالک میں بین المذہبی کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد جہاں متعلقہ معاشرے کی مذہبی شخصیات کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی شخصیات اور میڈیا کے لوگوں کو بھی مدعو کیا جائے۔

(5)۔سوشل میڈیا پر بین المذہبی رواداری کے فروغ کے لیے آگہی Campaigns۔ (6)۔ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کی تعمیر، مرمت اور دیکھ بھال میں ہاتھ بٹانا۔ (7)۔ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا اور خوشیوں میں شامل کرنا۔ (8)۔اکثر لاعلمی یا کم علمی کے باعث دنیا بھر میں میڈیا اور شوبزنس مختلف مذاہب کی بگڑی، غیر واضح یا یک طرفہ تصور کی گئی تصویر پیش کرتے ہیں۔ مختلف ممالک میں میڈیا اور شوبزنس کی علمی اور تحقیقی مدد کرنا تاکہ وہ متوازن مواد اپنے ناظرین کو پیش کر سکیں۔

اس سال پوپ فرانسس کا دورۂ پاکستان ایک آئیڈیل موقعہ ہو گا کہ حکومت پاکستان ان کے ساتھ مل کر OR کا قیام ممکن بنائے تاہم اس کے لیے پہلے سے کافی کام کرنا ہو گا مثلاً۔ (1)۔دنیا بھر کی نمایاں اور غیر متنازعہ مذہبی و بین المذہبی تنظیموں اور اداروں سے مشاورت اور ان کی OR کے قیام و کام میں عملی شرکت کو یقینی بنانا۔ (2)۔دنیا بھر میں مختلف حکومتوں اور سماجی بہبود کے اچھی شہرت والے اداروں کا تعاون حاصل کرنا۔ (3)۔OR کی بنیادی آؤٹ لائن اور فریم ورک کی متفقہ تیاری۔ (4)۔دنیا بھر سے OR کے قیام اور سالانہ بجٹ کے لیے فنڈز کے مسلسل بندوبست کے لیے بنیادی کام کرنا۔ (5)۔OR کے فزیکل انفرااسٹرکچر یعنی عمارات، آفسز، فرنیچر، گاڑیوں اور Equipments وغیرہ کی فراہمی کے طریقہ کار کا طے کرنا۔ (6)۔OR کے لیے افرادی قوت کی فراہمی اور انتخاب کے نمایندہ اصول طے کرنا۔

حکومت پاکستان کی طرف سے OR کے قیام کی تجویز اور اس پہ کام پاکستان اور پاکستان کی حکومت کو کئی طرح سے فائدے پہنچائے گا۔ (1)۔پاکستان جس کا بدقسمتی سے تاثر پچھلے چند عشروں سے مذہبی شدت پسندی کے شکار ملک کا بن گیا ہے اس کا امیج بہتر ہو گا۔ (2)۔حکومت پاکستان کا بھی امیج بطور ایک ماڈرن، روشن خیال، انسان دوست اور ذمے دار حکومت کے دنیا کے سامنے آئے گا۔ (3)۔پاکستان کے مذہبی رہنماؤں اور اسکالرز کی OR میں شمولیت اور نتیجتاً دنیا بھر کے مختلف مذاہب کے رہنماؤں اور اسکالرز سے انٹرایکشن سے پاکستان کے مذہبی حلقوں میں وسعت نظری بڑھے گی اور ملک میں بھی مذہبی رواداری کو فروغ مل سکے گا۔ (4)۔مختلف بین الاقوامی مذہبی تنازعات اور اشتعال انگیزیوں کی صورت میں پاکستان دنیا میں ایک مثبت اور سرگرم کردار ادا کر سکے گا۔

کیا ہی اچھا ہوکہ حکومت پاکستان OR کو بطور ایک میگا پراجیکٹ کے کام کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں