تحفظ حقوق نسواں اور اسلامی نظریاتی کونسل
سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ ہے اس کے حقوق کا بل منظور ہونے پر اتنا واویلا کیوں ہے
سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ ہے اس کے حقوق کا بل منظور ہونے پر اتنا واویلا کیوں ہے؟ عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں اﷲ کا عظیم عطیہ اور نعمت خداوندی ہے اور اس کا ہر روپ اپنی ذات میں اہمیت کا حامل ہے، اسلام تو بہت بڑی بات ہے دنیا کے کسی بھی مذہب اور مہذب معاشرے میں عورتوں پر تشدد اور ان پر جبرواستبداد کی اجازت نظر نہیں آئی۔
اگر کسی مذہب و معاشرے میں کبھی جاہلانہ رسومات کا رواج رہا تو انھوں نے بھی وقت کے ساتھ خود کو ڈھالا اور آج کے جدید دور کے تقاضوں کیمطابق خود کو سنوارا، رسول اﷲؐ نے مردوں کو عورتوں کے حقوق، ان کی عزت و احترام کا درس دیا اور خصوصی تاکید فرمائی، اگر ساتویں صدی عیسوی میں دنیا کے سب سے عظیم انسان نے زنجیروں میں جکڑی مظلوم عورت کو رہائی نہ دلائی ہوتی اور عورتوں کے حقوق کو مردوں کے مساوی قرار نہ دیا ہوتا تو حوا کی بیٹی ظلم کی چکی میں پس رہی ہوتی۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ آپؐ نے واضح انداز میں عورت کو کھیتوں اور جائیداد میں حصہ لینے کا مستحق قرار دیا، اسلام کی وجہ سے عورت وراثت میں حصے دار ٹھہری اور عہد جاہلیت کی تمام مظالم سے بھرپور رسومات کا خاتمہ ہوا، خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر بھی آپؐ نے عورتوں کے حقوق کی یاد دہانی فرماتے ہوئے بیویوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی، خود آپؐ کی ازدواجی زندگی نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام عالم کے لیے مشعل راہ ہے۔ دنیا کے سب سے عظیم انسان نے اپنی ازدواج کی ایسی مثال دل جوئی فرمائی جو ڈھونڈے سے نظر نہیں آتی، سیرت کی کتب میں تفصیل سے سب مذکورہ ہے۔
بہر حال خبر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے تحفظ حقوق نسواں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور سفارش کی ہے کہ گورنر پنجاب آئین کے آرٹیکل 229 کے تحت صوبائی اسمبلی سے منظور کیے جانے والے متنازعہ بل کو جائزے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوائیں، نظریاتی کونسل قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لے کر اپنی رائے دے گی۔
چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکہ جب بھی مسلم لیگ کی حکومت آتی ہے تو اسلامی قانون سازی میں مشکلات پیش آتی ہیں، ہماری صوبائی حکومتوں کو تجویز ہے کہ آئین کے آرٹیکل 31 اور 35 کی روشنی میں قرآن و سنت کی روشنی میں قوانین بنائے جائیں، خاندانی نظام سے متعلق اسلامی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تا کہ بچپن سے ہی ذہن بن جائے انھوں نے پنجاب اور KPK اسمبلی کے دونوں قوانین کو خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف قرار دیا۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے تحفظ نسواں بل کا مذاق اڑاتے ہوئے پنجاب کے مردوں کو مظلوم اور زن مرید قرار دے دیا ہے اور انھیں پنجاب کے مردوں کے مخدوش مستقبل پر رونا آ رہا ہے لہٰذا انھوں نے خوب طنزیہ قہقہے لگاتے ہوئے انجمن تحفظ شوہراں کی تشکیل کے ساتھ مردوں کے حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا ہے، مولانا صاحب سے مودبانہ صرف اتنا عرض ہے کہ عورت صرف بیوی ہی نہیں ہے وہ ماں بھی ہے، بہن بھی ہے اور بیٹی بھی۔
لہٰذا براہِ کرم تحفظ نسواں بل کو ان تمام رشتوں کے تناظر میں ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اظہار خیال فرمایئے۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل ایک عام بات ہے لہٰذا عورتوں کی تذلیل میں کمی مردوں کی شان بڑھانے کا سبب بنے گی نہ کہ کمی کا، بہر حال آج بھی دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کو جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہے، مختلف ممالک کے اعداد و شمار سے معلوم چلتا ہے کہ 40 فی صد خواتین تشدد کے باوجود کسی قسم کی مدد نہیں لیتیں، پاکستان میں گھریلو تشدد کے خوفناک اعداد و شمار کو جھٹلایا جاتا ہے۔
پاکستان میں 5 برسوں میں 15 ہزار خواتین تشدد کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، گزشتہ برس دس ہزار سے زائد خواتین ظلم و تشدد کا شکار ہوئیں، 481 کیسز گھریلو تشدد، 860 کاروکاری، 344 زیادتی، 268 جنسی طور پر ہراساں کرنے اور 90 کیسز تیزاب سے جلانے کے رپورٹ کیے گئے جب کہ 1998ء سے 2004ء تک 2800 خواتین غیرت کے نام پر لقمہ اجل بنا دی گئیں، غیرت کے نام پر 2008ء میں 475، 2009ء 604، 2010ء میں 557، 2011ء میں 705 اور 2012ء میں 432 خواتین کو قتل کر دیا گیا صنفی عدم مساوات کے زمرے میں 140 ممالک میں پاکستان 115 ویں نمبر پر ہے۔
خواتین دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف ہیں اس کے باوجود خواتین کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں شرکت کے تناسب میں بدستور نمایاں فرق ہے۔ 2013ء کے اعداد و شمار کیمطابق آبادی کے اعتبار سے مردوں کی شرح ملازمت 72.2 فی صد اور خواتین کی 47.1 فی صد تھی آج کی عورت ناقص العقل ہے اور نہ ہی چار پائی توڑنیوالی یا خاندان پر بوجھ وہ مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے میں اپنا فعال اور موثر کردار ادا کر رہی ہیں، اسلامی ممالک کی عورت باپردہ ہو کر شرعی حدود میں رہتے ہوئے ملازمت کر سکتی ہے، آج کے جدید دور میں خواتین اپنی قوت کو مناسب انداز میں استعمال کر کے خود کو منوا سکتی ہیں۔
ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں خواتین کے کام کے مواقعے کی محدود رسائی کے سبب ہر سال 42 ارب ڈالر سے 47 ارب ڈالر ضایع ہو جاتے ہیں، بہرحال خواتین کے میدان عمل میں اترنے سے خاندانوں کی زندگیوں میں مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں، صنفی تربیت کے نتیجے میں باہمی فیصلہ سازی میں اضافہ اور شوہروں کے دلوں میں ان بیویوں کے احترام کا جذبہ بڑھتا ہے، صنفی مسائل کے حوالے سے شوہروں کی سوچ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، ناکافی آمدنی اکثر گھریلو جھگڑوں کا بڑا سبب ہوتا ہے۔
ایک آسودہ حال خاندان کی تکمیل میں آج کی عورت کا کردار اہم ہے، پاکستان میں خواتین کی صلاحیتیں مناسب انداز سے استعمال کر کے معاشرے اور خاندانی زندگی کی تعمیر و ترقی اور بہتری میں اہم پیشرفت ممکن ہے، ملالہ یوسف زئی اور شرمین عبید چنائے بھی پاکستانی خواتین ہیں جو قابل فخر انداز میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر دنیا بھر سے داد و تحسین کی حق دار ٹھہری ہیں۔
ایک سروے کیمطابق پاکستان میں 92 فی صد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں، کسی مظلوم کو طلاق حاصل کرنا ہو تو طویل عدالتی کارروائی کا سہارا لیا جاتا ہے اور سیدھا سادھا رشتہ بھی پر خطر اور پر تشدد بنا دیا جاتا ہے تا کہ وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں، ملازمت پیشہ خواتین کا خیال ہے کہ کمائی کے باوجود ایثار و قربانی صرف وہ ہی کیوں دیں؟ اﷲ نے اختلاف کی صورت میں طلاق یا خلع کا حق دیا ہے لیکن بیوی کو زد و کوب کرنے، ظلم و جبر یا قتل کا حق نہیں دیا ہے۔
صنفی مساوات پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا محرک بنے گا، حقوق نسواں قانون میں اگر کوئی سقم ہے تو اسے باہمی مشاورت سے دور کیا جا سکتا ہے، مرد ہمیشہ روز اول سے عورت کی زلف کا اسیر رہا ہے اور زن مرید ہونا تو قابل فخر عمل ہے شاعری کا نوے فی صد حصہ عورت کی شان اور قصیدہ گوئی پر محیط ہے، کسی نے عورت کی خاطر تاج و تخت کو ٹھکرا دیا تو کسی نے جان قربان کر دی، عورت ہر زمانے میں مرد کا محبوب موضوع رہی ہے گویا ہر زمانے کا مرد زن مرید رہا ہے جو لوگ عورتوں کو زد و کوب کرتے ہیں وہ در حقیقت نامرد ہوتے ہیں ورنہ مرد کی شان تو یہ ہے کہ اس کی بیوی کی آنکھ میں کبھی آنسو تک نہ آئے، ہمارے باوا آدمؑ نے تو اماں حوا کے لیے جنت تک چھوڑ دی۔
بہرحال اسلامی نظریاتی کونسل جب حقوق نسواں بل کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لے تو مندرجہ بالا جبر و استبداد و استحصال پر مبنی ہوشربا اعداد و شمار کو بھی سامنے رکھے، غیرت کے نام پر بے غیرتوں کے ہاتھوں بیویوں کے قتل کے اعداد و شمار بھی سامنے رکھیے، یہ حقیقت بھی سامنے رکھیے کہ عورت صرف بیوی ہی نہیں بلکہ ماں، بہن، بیٹی اور دیگر رشتوں سے بھی اپنی پہچان رکھتی ہے اور مظالم کے تناظر میں ہر رشتہ اپنا درد خوب محسوس کر سکتا ہے۔
لہٰذا اسلامی نظریاتی کونسل شریعت کے ساتھ ساتھ احکام شرعیہ میں حالات و زمانے کی رعایت کو بھی پیش نظر رکھے، اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کٹنا ہے لیکن جب عہد فاروقی میں قحط کے زمانے میں ایک شخص روٹی چوری کرتے پکڑا گیا تو حضرت عمرؓ نے حالات کی رعایت کو مد نظر رکھتے ہوئے نہ صرف ہاتھ نہیں کٹوائے بلکہ معاف بھی کر دیا۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کی حالت زار لمحہ فکریہ فراہم کرتی ہے نہ صرف عام آدمی کو بلکہ نظریاتی کونسل کے لیے بھی جب کہ اسلام خود عورت کے حقوق و تحفظ کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔
اگر کسی مذہب و معاشرے میں کبھی جاہلانہ رسومات کا رواج رہا تو انھوں نے بھی وقت کے ساتھ خود کو ڈھالا اور آج کے جدید دور کے تقاضوں کیمطابق خود کو سنوارا، رسول اﷲؐ نے مردوں کو عورتوں کے حقوق، ان کی عزت و احترام کا درس دیا اور خصوصی تاکید فرمائی، اگر ساتویں صدی عیسوی میں دنیا کے سب سے عظیم انسان نے زنجیروں میں جکڑی مظلوم عورت کو رہائی نہ دلائی ہوتی اور عورتوں کے حقوق کو مردوں کے مساوی قرار نہ دیا ہوتا تو حوا کی بیٹی ظلم کی چکی میں پس رہی ہوتی۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ آپؐ نے واضح انداز میں عورت کو کھیتوں اور جائیداد میں حصہ لینے کا مستحق قرار دیا، اسلام کی وجہ سے عورت وراثت میں حصے دار ٹھہری اور عہد جاہلیت کی تمام مظالم سے بھرپور رسومات کا خاتمہ ہوا، خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر بھی آپؐ نے عورتوں کے حقوق کی یاد دہانی فرماتے ہوئے بیویوں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی، خود آپؐ کی ازدواجی زندگی نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام عالم کے لیے مشعل راہ ہے۔ دنیا کے سب سے عظیم انسان نے اپنی ازدواج کی ایسی مثال دل جوئی فرمائی جو ڈھونڈے سے نظر نہیں آتی، سیرت کی کتب میں تفصیل سے سب مذکورہ ہے۔
بہر حال خبر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے تحفظ حقوق نسواں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور سفارش کی ہے کہ گورنر پنجاب آئین کے آرٹیکل 229 کے تحت صوبائی اسمبلی سے منظور کیے جانے والے متنازعہ بل کو جائزے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوائیں، نظریاتی کونسل قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لے کر اپنی رائے دے گی۔
چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکہ جب بھی مسلم لیگ کی حکومت آتی ہے تو اسلامی قانون سازی میں مشکلات پیش آتی ہیں، ہماری صوبائی حکومتوں کو تجویز ہے کہ آئین کے آرٹیکل 31 اور 35 کی روشنی میں قرآن و سنت کی روشنی میں قوانین بنائے جائیں، خاندانی نظام سے متعلق اسلامی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تا کہ بچپن سے ہی ذہن بن جائے انھوں نے پنجاب اور KPK اسمبلی کے دونوں قوانین کو خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے مترادف قرار دیا۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے تحفظ نسواں بل کا مذاق اڑاتے ہوئے پنجاب کے مردوں کو مظلوم اور زن مرید قرار دے دیا ہے اور انھیں پنجاب کے مردوں کے مخدوش مستقبل پر رونا آ رہا ہے لہٰذا انھوں نے خوب طنزیہ قہقہے لگاتے ہوئے انجمن تحفظ شوہراں کی تشکیل کے ساتھ مردوں کے حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا ہے، مولانا صاحب سے مودبانہ صرف اتنا عرض ہے کہ عورت صرف بیوی ہی نہیں ہے وہ ماں بھی ہے، بہن بھی ہے اور بیٹی بھی۔
لہٰذا براہِ کرم تحفظ نسواں بل کو ان تمام رشتوں کے تناظر میں ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اظہار خیال فرمایئے۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل ایک عام بات ہے لہٰذا عورتوں کی تذلیل میں کمی مردوں کی شان بڑھانے کا سبب بنے گی نہ کہ کمی کا، بہر حال آج بھی دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کو جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہے، مختلف ممالک کے اعداد و شمار سے معلوم چلتا ہے کہ 40 فی صد خواتین تشدد کے باوجود کسی قسم کی مدد نہیں لیتیں، پاکستان میں گھریلو تشدد کے خوفناک اعداد و شمار کو جھٹلایا جاتا ہے۔
پاکستان میں 5 برسوں میں 15 ہزار خواتین تشدد کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، گزشتہ برس دس ہزار سے زائد خواتین ظلم و تشدد کا شکار ہوئیں، 481 کیسز گھریلو تشدد، 860 کاروکاری، 344 زیادتی، 268 جنسی طور پر ہراساں کرنے اور 90 کیسز تیزاب سے جلانے کے رپورٹ کیے گئے جب کہ 1998ء سے 2004ء تک 2800 خواتین غیرت کے نام پر لقمہ اجل بنا دی گئیں، غیرت کے نام پر 2008ء میں 475، 2009ء 604، 2010ء میں 557، 2011ء میں 705 اور 2012ء میں 432 خواتین کو قتل کر دیا گیا صنفی عدم مساوات کے زمرے میں 140 ممالک میں پاکستان 115 ویں نمبر پر ہے۔
خواتین دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف ہیں اس کے باوجود خواتین کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں شرکت کے تناسب میں بدستور نمایاں فرق ہے۔ 2013ء کے اعداد و شمار کیمطابق آبادی کے اعتبار سے مردوں کی شرح ملازمت 72.2 فی صد اور خواتین کی 47.1 فی صد تھی آج کی عورت ناقص العقل ہے اور نہ ہی چار پائی توڑنیوالی یا خاندان پر بوجھ وہ مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے میں اپنا فعال اور موثر کردار ادا کر رہی ہیں، اسلامی ممالک کی عورت باپردہ ہو کر شرعی حدود میں رہتے ہوئے ملازمت کر سکتی ہے، آج کے جدید دور میں خواتین اپنی قوت کو مناسب انداز میں استعمال کر کے خود کو منوا سکتی ہیں۔
ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں خواتین کے کام کے مواقعے کی محدود رسائی کے سبب ہر سال 42 ارب ڈالر سے 47 ارب ڈالر ضایع ہو جاتے ہیں، بہرحال خواتین کے میدان عمل میں اترنے سے خاندانوں کی زندگیوں میں مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں، صنفی تربیت کے نتیجے میں باہمی فیصلہ سازی میں اضافہ اور شوہروں کے دلوں میں ان بیویوں کے احترام کا جذبہ بڑھتا ہے، صنفی مسائل کے حوالے سے شوہروں کی سوچ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، ناکافی آمدنی اکثر گھریلو جھگڑوں کا بڑا سبب ہوتا ہے۔
ایک آسودہ حال خاندان کی تکمیل میں آج کی عورت کا کردار اہم ہے، پاکستان میں خواتین کی صلاحیتیں مناسب انداز سے استعمال کر کے معاشرے اور خاندانی زندگی کی تعمیر و ترقی اور بہتری میں اہم پیشرفت ممکن ہے، ملالہ یوسف زئی اور شرمین عبید چنائے بھی پاکستانی خواتین ہیں جو قابل فخر انداز میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر دنیا بھر سے داد و تحسین کی حق دار ٹھہری ہیں۔
ایک سروے کیمطابق پاکستان میں 92 فی صد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں، کسی مظلوم کو طلاق حاصل کرنا ہو تو طویل عدالتی کارروائی کا سہارا لیا جاتا ہے اور سیدھا سادھا رشتہ بھی پر خطر اور پر تشدد بنا دیا جاتا ہے تا کہ وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں، ملازمت پیشہ خواتین کا خیال ہے کہ کمائی کے باوجود ایثار و قربانی صرف وہ ہی کیوں دیں؟ اﷲ نے اختلاف کی صورت میں طلاق یا خلع کا حق دیا ہے لیکن بیوی کو زد و کوب کرنے، ظلم و جبر یا قتل کا حق نہیں دیا ہے۔
صنفی مساوات پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا محرک بنے گا، حقوق نسواں قانون میں اگر کوئی سقم ہے تو اسے باہمی مشاورت سے دور کیا جا سکتا ہے، مرد ہمیشہ روز اول سے عورت کی زلف کا اسیر رہا ہے اور زن مرید ہونا تو قابل فخر عمل ہے شاعری کا نوے فی صد حصہ عورت کی شان اور قصیدہ گوئی پر محیط ہے، کسی نے عورت کی خاطر تاج و تخت کو ٹھکرا دیا تو کسی نے جان قربان کر دی، عورت ہر زمانے میں مرد کا محبوب موضوع رہی ہے گویا ہر زمانے کا مرد زن مرید رہا ہے جو لوگ عورتوں کو زد و کوب کرتے ہیں وہ در حقیقت نامرد ہوتے ہیں ورنہ مرد کی شان تو یہ ہے کہ اس کی بیوی کی آنکھ میں کبھی آنسو تک نہ آئے، ہمارے باوا آدمؑ نے تو اماں حوا کے لیے جنت تک چھوڑ دی۔
بہرحال اسلامی نظریاتی کونسل جب حقوق نسواں بل کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لے تو مندرجہ بالا جبر و استبداد و استحصال پر مبنی ہوشربا اعداد و شمار کو بھی سامنے رکھے، غیرت کے نام پر بے غیرتوں کے ہاتھوں بیویوں کے قتل کے اعداد و شمار بھی سامنے رکھیے، یہ حقیقت بھی سامنے رکھیے کہ عورت صرف بیوی ہی نہیں بلکہ ماں، بہن، بیٹی اور دیگر رشتوں سے بھی اپنی پہچان رکھتی ہے اور مظالم کے تناظر میں ہر رشتہ اپنا درد خوب محسوس کر سکتا ہے۔
لہٰذا اسلامی نظریاتی کونسل شریعت کے ساتھ ساتھ احکام شرعیہ میں حالات و زمانے کی رعایت کو بھی پیش نظر رکھے، اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کٹنا ہے لیکن جب عہد فاروقی میں قحط کے زمانے میں ایک شخص روٹی چوری کرتے پکڑا گیا تو حضرت عمرؓ نے حالات کی رعایت کو مد نظر رکھتے ہوئے نہ صرف ہاتھ نہیں کٹوائے بلکہ معاف بھی کر دیا۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کی حالت زار لمحہ فکریہ فراہم کرتی ہے نہ صرف عام آدمی کو بلکہ نظریاتی کونسل کے لیے بھی جب کہ اسلام خود عورت کے حقوق و تحفظ کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔