احتساب کا قصہ
مشرف نے نیب کا ڈھانچہ نوازشریف سے انتقام کے لیے بنایا تھا، نیب پنجاب میں تحقیقات کرے
مشرف نے نیب کا ڈھانچہ نوازشریف سے انتقام کے لیے بنایا تھا، نیب پنجاب میں تحقیقات کرے مگر جرم ثابت ہونے تک پگڑیاں نہ اُچھالے نیب کے ناخن کاٹنے ضروری ہیں۔ پنجاب میں کرپشن نہیں تو نیب کے پنجاب میں میں آنے سے چیخیں کیوں نکل رہی ہیں۔ سب سے پہلے احتساب سیف الرحمٰن نے شروع کیا تھا ن لیگ اور پیپلز پارٹی آزاد احتساب کمیشن کی متحمل نہیں ہو سکیں۔ حکومتی ارکان قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بیانات' نیب کی پنجاب کے مختلف منصوبوں کے بارے میں تحقیقات شروع کرنے کی خبروں کے بعد ذرایع ابلاغ کی زینت بنے۔
سندھ میں حکمران گزشتہ برس سے نیب اور ایف آئی اے کی سرگرمیوں کے خلاف باتیں کر رہے ہیں' اب پنجاب بھی اس میں شامل ہو گیا ہے' اخبارات کے صفحہ اول کے مطالعے سے مزید حقائق سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ سال رینجرز نے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپا مارا جس کے دوران وہ پانچ ہزار فائلیں اپنے ساتھ لے گئے، فشریز کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے کئی افسران گرفتار ہوئے۔
سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے' ان کے مبینہ بیانات الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہوئے۔ ان پر اپنے اسپتال میں ایم کیو ایم اور لیاری گینگ وار کے زخمی ہونے والے ملزموں کا علاج کا الزام لگایاگیا۔ ڈاکٹر عاصم پر بدعنوانی کے بھی الزامات ہیں ، یہ معاملہ ابھی تک چل رہا ہے۔ سابق صدر زرداری اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے نیب ایف آئی اے اور رینجرز پر اختیارات سے تجاوز کے الزامات لگائے۔
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان الزامات کو مستردکر دیا۔ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ گزشتہ ماہ ایک بڑے کاروباری گروپ کے سربراہ کو پوچھ گچھ کے لیے بلائے جانے سے صورتحال تبدیل ہو گئی۔ وزیراعظم نوازشریف نے بہاولپور کے دورے میں منتخب کونسلروں کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے نیب کی کارکردگی کو نشانہ بنایا جس کے بعد ہر وفاقی وزیر نے قومی ادارے کے پنجاب میں کردار پر تنقید شروع کر دی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی وزراء پنجاب کے معاملات کے دفاع پر مامور ہیں۔
پاکستان میں کرپشن کی تاریخ خاصی قدیم ہے، برطانوی حکومت سے ہی سرکاری اداروں میں کرپشن کے عنصر موجود تھے۔ انگریز حکمرانوں نے اپنے حامیوں کو رشوت میں زرعی زمینیں اور ریاستیں دے کر نواب، مہاراجہ اور سردار پیدا کیے تھے، قائداعظم کو کرپشن کے ناسور کا احساس تھا، انھوں نے 11 اگست 1947ء کو کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اپنی تقریر میں پاکستان کو سیکولر طرز کی ریاست بنانے کے علاوہ کرپشن کے خطرناک رجحان کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی۔
پاکستان میں کرپشن کو ہوا پہلے فوجی سربراہ جنرل ایوب خان کے دور میں ملی۔ایوب خان کسی سرمایہ دار فیملی سے تعلق نہیں رکھتے تھے مگر 1958ء میں ان کے صدر بننے کے بعد صورت حال میں تبدیلی آئی۔ ان کے صاحبزادوں گوہر ایوب اور اختر ایوب نے کاروبار میں ترقی کی۔ پھر چند ہی برس میں ایوب خاندان کا شمار ملک کے امیر خاندانوں میں ہونے لگا۔ اس دور میں بائیس امیر خاندانوں کا ذکر ہوتا تھا۔پھر ایوب فیملی بھی خوشحالی کے زمرے میں آئی۔
ملک میں سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے' 50ء کی دہائی میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو سمیت مختلف سیاست دانوں کو بد عنوان قرار دے کر عوامی نمایندگی کے حق سے محروم کیا گیا مگر ایوب کھوڑو نے ون یونٹ کی حمایت کی تو انھیں بد عنوانی کے الزامات سے بری کر دیا گیا' یحییٰ خان کے دور میں پہلی دفعہ 303 بیوروکریٹس کو بد عنوانیوں کے الزامات کے تحت ملازمتوں سے بر طرف کیا گیا' بھٹو حکومت نے ایسے ہی الزامات کی بناء پر 1300 افسران کو نکالا' جنرل ضیاء الحق نے فوجی افسروں اور ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل خصوصی عدالتیں قائم کیں' ان عدالتوں میں پیپلز پارٹی کے وزراء پر مقدمات چلائے گئے مگر کسی وزیر کو سزا نہیں ہوئی۔
1988ء میں جب بینظیر حکومت قائم ہوئی' تو سابق صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزامات لگا کر 16 مہینے بعد حکومت کو ختم کر دیا۔ جب غلام اسحاق خان نے ہی میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیاتو اس وقت بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ بینظیر بھٹو دوسری بار برسراقتدار آئیں تو جب ان کی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت بھی کرپشن کے الزامات عائد ہوئے تھے۔لیکن وہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکے۔
اسی دور میں میاں محمد نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو بھی گرفتار کیا گیا جس پر بینظیر بھٹو اس فیصلے پر افسوس کا اظہار بھی کرتی رہیں۔ بہر حال میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں احتساب بیورو قائم کیا اور اپنے قریبی معاون سیف الرحمن کو احتساب کا فریضہ سونپا' سیف الرحمن نے بہت سے سینئر افسروں کو گرفتار کیا اور آصف زرداری پر مقدمات قائم کیے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے احتساب کا قانون نافذ کیا جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا' اور عدالت نے اس قانون کی بعض شقوں کو آئین سے متصادم قرار دے دیا۔ اس قانون کے تحت نیب کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ نیب کے سربراہ کے لیے وزیر اعظم اور قائد حسب اختلاف کا اتفاق لازمی قرار دیا گیا۔
سندھ کا صوبہ اس وقت ایک مخصوص صورتحال کا شکار ہے۔ رینجرز' ایف آئی اے اور نیب بد عنوانی کے خاتمے کے لیے سر گرم عمل ہے' مگر اخبارات کی فائلوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کو 90 دن تک حراست میں لیا گیا اور میڈیا پر ان کے اقرار جرم کی خبریں چلائی گئیں جب عدالت میں چالان پیش ہوا تو ججوں نے اس چالان کو بہت کمزور اور ناقص تفتیش قرار دیا' اقتصادیات' مینجمنٹ اور جدید اکاؤنٹس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وائٹ کالر کرائم کا پتہ لگانا مشکل ہے' اس شعبے کے ماہرین ہی اس جرم کا پتہ لگا سکتے ہیں'
بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بھارت کے تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کے طرز پراختیارات اور طریقہ کار کی ضرورت ہے' جو ہر قسم کے دباؤ سے پاک ہو' بدعنوانی اور غیر شفافیت ترقی کی دشمن ہے' بدعنوان عناصر کے دفاع کا مطلب ترقی کی رفتار کو روکنا ہے' نیب پر بحث کے دوران یہ نکتہ سب سے اہم ہونا چاہیے۔
سندھ میں حکمران گزشتہ برس سے نیب اور ایف آئی اے کی سرگرمیوں کے خلاف باتیں کر رہے ہیں' اب پنجاب بھی اس میں شامل ہو گیا ہے' اخبارات کے صفحہ اول کے مطالعے سے مزید حقائق سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ سال رینجرز نے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپا مارا جس کے دوران وہ پانچ ہزار فائلیں اپنے ساتھ لے گئے، فشریز کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے کئی افسران گرفتار ہوئے۔
سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے' ان کے مبینہ بیانات الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہوئے۔ ان پر اپنے اسپتال میں ایم کیو ایم اور لیاری گینگ وار کے زخمی ہونے والے ملزموں کا علاج کا الزام لگایاگیا۔ ڈاکٹر عاصم پر بدعنوانی کے بھی الزامات ہیں ، یہ معاملہ ابھی تک چل رہا ہے۔ سابق صدر زرداری اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے نیب ایف آئی اے اور رینجرز پر اختیارات سے تجاوز کے الزامات لگائے۔
وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ان الزامات کو مستردکر دیا۔ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ گزشتہ ماہ ایک بڑے کاروباری گروپ کے سربراہ کو پوچھ گچھ کے لیے بلائے جانے سے صورتحال تبدیل ہو گئی۔ وزیراعظم نوازشریف نے بہاولپور کے دورے میں منتخب کونسلروں کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے نیب کی کارکردگی کو نشانہ بنایا جس کے بعد ہر وفاقی وزیر نے قومی ادارے کے پنجاب میں کردار پر تنقید شروع کر دی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی وزراء پنجاب کے معاملات کے دفاع پر مامور ہیں۔
پاکستان میں کرپشن کی تاریخ خاصی قدیم ہے، برطانوی حکومت سے ہی سرکاری اداروں میں کرپشن کے عنصر موجود تھے۔ انگریز حکمرانوں نے اپنے حامیوں کو رشوت میں زرعی زمینیں اور ریاستیں دے کر نواب، مہاراجہ اور سردار پیدا کیے تھے، قائداعظم کو کرپشن کے ناسور کا احساس تھا، انھوں نے 11 اگست 1947ء کو کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اپنی تقریر میں پاکستان کو سیکولر طرز کی ریاست بنانے کے علاوہ کرپشن کے خطرناک رجحان کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی۔
پاکستان میں کرپشن کو ہوا پہلے فوجی سربراہ جنرل ایوب خان کے دور میں ملی۔ایوب خان کسی سرمایہ دار فیملی سے تعلق نہیں رکھتے تھے مگر 1958ء میں ان کے صدر بننے کے بعد صورت حال میں تبدیلی آئی۔ ان کے صاحبزادوں گوہر ایوب اور اختر ایوب نے کاروبار میں ترقی کی۔ پھر چند ہی برس میں ایوب خاندان کا شمار ملک کے امیر خاندانوں میں ہونے لگا۔ اس دور میں بائیس امیر خاندانوں کا ذکر ہوتا تھا۔پھر ایوب فیملی بھی خوشحالی کے زمرے میں آئی۔
ملک میں سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے' 50ء کی دہائی میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو سمیت مختلف سیاست دانوں کو بد عنوان قرار دے کر عوامی نمایندگی کے حق سے محروم کیا گیا مگر ایوب کھوڑو نے ون یونٹ کی حمایت کی تو انھیں بد عنوانی کے الزامات سے بری کر دیا گیا' یحییٰ خان کے دور میں پہلی دفعہ 303 بیوروکریٹس کو بد عنوانیوں کے الزامات کے تحت ملازمتوں سے بر طرف کیا گیا' بھٹو حکومت نے ایسے ہی الزامات کی بناء پر 1300 افسران کو نکالا' جنرل ضیاء الحق نے فوجی افسروں اور ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل خصوصی عدالتیں قائم کیں' ان عدالتوں میں پیپلز پارٹی کے وزراء پر مقدمات چلائے گئے مگر کسی وزیر کو سزا نہیں ہوئی۔
1988ء میں جب بینظیر حکومت قائم ہوئی' تو سابق صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزامات لگا کر 16 مہینے بعد حکومت کو ختم کر دیا۔ جب غلام اسحاق خان نے ہی میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیاتو اس وقت بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ بینظیر بھٹو دوسری بار برسراقتدار آئیں تو جب ان کی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت بھی کرپشن کے الزامات عائد ہوئے تھے۔لیکن وہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکے۔
اسی دور میں میاں محمد نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو بھی گرفتار کیا گیا جس پر بینظیر بھٹو اس فیصلے پر افسوس کا اظہار بھی کرتی رہیں۔ بہر حال میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں احتساب بیورو قائم کیا اور اپنے قریبی معاون سیف الرحمن کو احتساب کا فریضہ سونپا' سیف الرحمن نے بہت سے سینئر افسروں کو گرفتار کیا اور آصف زرداری پر مقدمات قائم کیے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے احتساب کا قانون نافذ کیا جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا' اور عدالت نے اس قانون کی بعض شقوں کو آئین سے متصادم قرار دے دیا۔ اس قانون کے تحت نیب کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ نیب کے سربراہ کے لیے وزیر اعظم اور قائد حسب اختلاف کا اتفاق لازمی قرار دیا گیا۔
سندھ کا صوبہ اس وقت ایک مخصوص صورتحال کا شکار ہے۔ رینجرز' ایف آئی اے اور نیب بد عنوانی کے خاتمے کے لیے سر گرم عمل ہے' مگر اخبارات کی فائلوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کو 90 دن تک حراست میں لیا گیا اور میڈیا پر ان کے اقرار جرم کی خبریں چلائی گئیں جب عدالت میں چالان پیش ہوا تو ججوں نے اس چالان کو بہت کمزور اور ناقص تفتیش قرار دیا' اقتصادیات' مینجمنٹ اور جدید اکاؤنٹس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وائٹ کالر کرائم کا پتہ لگانا مشکل ہے' اس شعبے کے ماہرین ہی اس جرم کا پتہ لگا سکتے ہیں'
بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بھارت کے تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کے طرز پراختیارات اور طریقہ کار کی ضرورت ہے' جو ہر قسم کے دباؤ سے پاک ہو' بدعنوانی اور غیر شفافیت ترقی کی دشمن ہے' بدعنوان عناصر کے دفاع کا مطلب ترقی کی رفتار کو روکنا ہے' نیب پر بحث کے دوران یہ نکتہ سب سے اہم ہونا چاہیے۔