بہار آئی توکھل گئے ہیں نئے سرے سے حساب سارے
مگر کیا ایک آدھ الیکشن یا کٹی پھٹی مدت کی حکومتیں عوام کی امنگوں پر پورا اُتر سکتی ہیں؟
بگڑے ہوئے کام مُشکل سے بنتے ہیں۔جب دستور سے ہٹ کر بندوبست کیے جاتے ہیں توایسی ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جو قانونی موشگافیوںسے نہیں بلکہ خالص سیاسی اور جمہوری عمل کے تسلسل اور عوام کے منتخب نمایندوں کے وژن سے حل ہوتی ہیں۔
جب بات بگڑ جاتی ہے تو پھر سے بال عوام کی کورٹ میں پھینک دی جاتی ہے ۔ مگر کیا ایک آدھ الیکشن یا کٹی پھٹی مدت کی حکومتیں عوام کی امنگوں پر پورا اُتر سکتی ہیں؟ یقیناً انتخاب کا مطلب مکمل اختیار اور آزادی عمل ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کم ہی ہوا کہ عوام کے منتخب نمایندوں کو مکمل آزادی عمل دی گئی ہو۔ تاہم قدآور تھے وہ لوگ جنہوں نے اس کے بیچ میں سے راستے بناتے ہوئے عوام کی خدمت کی اور آج اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کے عوام نے جب ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام کی خدمت کی کال دی توصدر آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان کے گوشے گوشے سے سیاست اور قیادت کا تجربہ رکھنے والے، جیل اورجلا وطنی کاٹنے والے اور عدالت سے اخبار تک ہر تعزیر و تکذیب کا سامنا کرنے والے کئی جیالے عوام کی خدمت کو آگے بڑھے۔ قیادت کا وژن مشکل حالات میں مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے وسیع تر قومی اتفاقِ رائے سے معاملات کو سدھارنے کی مشکل مگردانشمندانہ راہ اپنائی۔
اٹھارویں ترمیم نے ایک نہیں دو آمروں کے دستوری بگاڑ کو درست کیا اور آئین کے ایک ایک لفظ کی تطہیر کرتے ہوئے دوبارہ عوامی امنگوں کے مطابق وفاقی اکائیوں کو مضبوط کرنے کی طرف فیصلہ کُن پیش رفت کی۔ الیکشن کمیشن کو آزاد کیا گیا اور ججوں کی تعیناتی شفاف بنانے کے لیے ابتدائی اقدامات اٹھائے گئے۔آئین دو تہائی اکثریت سے بھی بن جاتا ہے لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹو کے راستے پر چلتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے تمام پارٹیوں کو ساتھ لے کر یہ تاریخی کارنامہ انجام دیا۔دنیا بھر کی جمہوری تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی پارٹی ہو جس نے کسی بھی ایوان میں اکیلے سادہ اکثریت نہ رکھنے کے باوجود اتنی دور رس آئینی تبدیلیاں کی ہوں۔ ایسا فقط سچی خیر خواہی اور اعلیٰ سیاسی وژن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کی حکمرانی کی بات کی ہے۔ہمارا قدیمی نعرہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔بھٹو شہید ،شہید بی بی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے عوام کے حقِ حکمرانی کے لیے جانیں دیں ، جیلیں کاٹیں اورصعوبتیں برداشت کیں۔اگر آج کوئی اس حقِ حکمرانی کو کسی خود ساختہ منطق کے ذریعے عوام سے اُٹھا کر کسی ایک یا دوسرے فرد کو دینا چاہے تو پاکستان کے عوام اس کی مزاحمت کریں گے ۔ کچھ روز قبل صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری نے جمہوریت کے سفر میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار پھر برداشت، بردباری اور باہمی احترام کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ جمہوریت کے سفر میں اگلا قدم شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کی منتخب کردہ نئی حکومت کو اقتدار کی منتقلی ہے اور پاکستانی قوم اس منزل کی طرف کافی آگے بڑھ چکی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگوں کے خیال میں اب بھی پارلیمان پر حملے ہو رہے ہیں۔لیکن غیرمنتخب اداروں سے عوام کے منتخب اداروں کو اقتدار منتقل کرنے میں تھوڑی بہت کسک تو ہو گی۔صدرِ مملکت نے کہا کہ ایک مرتے ہوئے نظام کی یہ آخری کسمساہٹ ہے۔
اس پس منظر میںچھ نومبر کو کچھ بیانات آئے جن کو میڈیا بہت اہمیت دے رہا ہے۔ فوج کے سربراہ نے افسروں سے خطاب میں اداروںکو جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے کا پیغام دیا اور تسلیم کیا کہ ہر کسی سے ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں اور سب اُن کے ازالے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ چونکہ ماضی میں جمہوری تجربے میں رکاوٹ ڈالنے والوں میں کچھ سپہ سالاروں کا عمل دخل رہا ہے، اس لیے جنرل کا یہ بیان ایک خوشگوار نیا موڑ ہے کیونکہ ماضی سے سبق حاصل کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہاکہ کسی فرد یا ادارے کو کوئی حق حاصل نہیں کہ بجائے وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے اپنے طور پر ملکی مفاد کا تعین کر لے۔اصولی بات یہ ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔
عوام ہی حرفِ آخر ہیں۔ عوام اور اُن کے منتخب نمایندے سب سے بڑی اتھارٹی ہیں۔ کڑے آئینی معیارکے مطابق سب کے کردار متعین ہیں۔ قومی مفاد کا تعین قوم کرتی ہے۔ قوم فیصلہ کرتی ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا۔ اور اس کے لیے قوم اپنے نمائیندے پارلیمان میں بھیجتی ہے جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کاروبارِ مملکت کون چلائے گا۔عدالت کا اپنا علیحدہ سے ایک کام ہے۔ رموزِ مملکت سے اُس کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اسی طرح سول اور ملٹری عملہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے ماتحت کام کرتا ہے۔ تمام متعلقہ عملہ اپنی اپنی جگہ فرائض سرانجام دیتا ہے اور ایسا کرنے میںعوام کی منتخب کی ہوئی حکومت کی وضع کردہ ترجیحات کے مطابق کام کرتا ہے اور حکومت کو جوابدہ ہوتا ہے۔جب کہ حکومت عوام کے آگے جوابدہ ہے۔
اس کے باوجودعدالت سے مختلف محکموں کے سربراہان مقرر کرنے سے لے کرافسران کے تبادلوں تک کے بارے میں ہدایات جاری کی گئیں۔ہمیں اب سمجھ لینا چاہیے کہ کسی کی اپنی کوئی اتھارٹی نہیں ہوتی۔ سب عوام کو جوابدہ ہیں۔ عوام ہی سب پر حکمران ہیں۔ اپنے ووٹ سے منتخب کی ہوئی حکومت کے ذریعے ۔جسے وہ نکال بھی سکتے ہیں اور پھر سے منتخب بھی کر سکتے ہیں۔آخری فیصلہ عوام کرتے ہیں۔
افراد اور اداروں کے اقدامات کو الگ کرکے دیکھنے ، اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالا دستی اور سب اداروں کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے کی بات بھی ہوئی ۔ کچھ عرصہ قبل صدر زرداری نے کہا تھاکہ پاکستان پیپلز پارٹی افراد اور اداروں کا فرق جانتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین کو ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے شہید کر دیاگیا مگر ہم نے کسی سے انتقام نہیں لیا جب کہ عدالت کا دم بھرنے والوں نے عدالت کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ہمیں وزیرِ اعظم گیلانی کی برطرفی پر شدید تحفطات تھے مگر ہم نے فیصلے پر عمل کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے بارہا تینوں اداروں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اپنے دائرہ کار میں رہ کر آئین کے مطابق کام کرنے پر زور دیا ہے۔ لیکن کہیں کہیں کچھ لوگ اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے بھی نظر آ ئے ۔
ہم پر اِدھر اُدھر سے تنقید کی گئی۔ اُن لوگوں نے بھی بیانات جاری کیے جن کو میڈیا میں جانے سے منع کیا جاتا ہے۔ مگر ہم نے سب برداشت کیا۔اِن برسوں میںآئین اور پارلیمان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی بہت سی کوششیں ہوئیں مگر مرتے ہوئے نظام کی یہ آخری کسمساہٹ پارلیمان اور سیاسی قیادت کی دانشمندی سے تلملاہٹ تک محدود ہوکر رہ گئی۔
بعض اخبارات نے سپریم کورٹ میں ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر دھمکی آمیز سرخیاں جمائیں اور یہ تصور پھیلانے کی کوشش کی کہ سپریم کورٹ فیصلے کرنے کا حتمی ادارہ ہے۔ یہ نہایت سادہ لوحی کی بات ہے۔سیاسی علوم، فلسفۂ قانون اور پاکستان کا آئین اس سے متفق نہیں۔ آئین اور فلسفۂ قانون کی زبان میں سپریم کورٹ کوئی ادارہ نہیں بلکہ ایک ادارے کا حصہ ہے جس کا نام عدلیہ ہے اور جس میں اس کے علاوہ بھی بہت سی عدالتیں ہیں جو سپریم کورٹ کے ماتحت کام نہیں کرتیں۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں آزاد ہیں اور ہر ادارے کی اپنی اپنی الگ حتمی اتھارٹی ہوتی ہے۔
اِن سب کے اوپر صدرِ مملکت ہیں جن کے نام پر تمام امور انجام دئیے جاتے ہیں اور جو بڑے بڑوں کی تقرری کرتے ہیں۔ صدرِ مملکت ملک کی کسی بھی عدالت کی سزا میں تخفیف کرنے کے لیے بھی آخری اور حتمی اتھارٹی ہیں۔ آئین کے مطابق یہ صدر کا صوابدیدی اختیار ہے جس کے بعد کوئی عدالت مزید کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ یوں معاملہ صدر ِمملکت پر ختم ہوتا ہے سپریم کورٹ پر نہیں۔یاد رہے پارلیمانی جمہوریت میں صدر اپنا اختیار وزیرِ اعظم کے مشورے سے استعمال کرتا ہے۔ یوں وزیرِ اعظم جو انتظامیہ کے ادارے کا سربراہ اور مقننہ میں قائد ِایوان ہوتا ہے حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔مگر وزیرِ اعظم پارلیمان کی پیداوار ہوتا ہے اور پارلیمانی اکثریت سے ہی وزیرِ اعظم رہ سکتا ہے کیونکہ حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے اور عوام ہی پارلیمان بناتے ہیں۔ باقی ادارے پارلیمان بناتے ہیں۔یوں پارلیمان یا مققنہ سب اداروں پر حاوی ہے۔ آخری فیصلہ وہیں سے آتا ہے۔
کوئی عدالت سب اداروں سے سپریم نہیں ہو سکتی کیونکہ عدالت عوام کو جوابدہ نہیں۔ جو عوام کو جوابدہ ہے وہی سپریم ہے۔ اور یہ حیثیت فقط پارلیمان کو حاصل ہے۔ عدلیہ کے ادارے میں مختلف عدالتیں آتی ہیں جن میںسے بڑی عدالت سپریم کورٹ ہے۔ مگر یہ کہنا کسی طرح درست نہیںکہ سب حتمی فیصلے سپریم کورٹ ہی کرتی ہے۔ ملکی قوانین کے مطابق ہر فیصلے کے لیے عدالت کا تعین کیا جاتا ہے اور ہر عدالت کا دائرہ کار متعین ہوتا ہے۔ کوئی عدالت کسی دوسری عدالت کے قانونی دائرۂ اختیار میں مداخلت کی مجاز نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات کے حتمی فیصلے سپریم کورٹ سے اِدھر اِدھر ہی ہو جاتے ہیں۔ ہم ان سب عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔اسی طرح پٹواری سے سیکریٹری تک چھوٹے بڑے فیصلوں کے لیے بہت سی حتمی اتھارٹیز ہیں۔قانون کی حکمرانی تب قائم ہو گی جب چوک میں کھڑے سپاہی سے لے کر وزیرِ اعظم تک سب کی اتھارٹی کا احترام کیا جائے۔ کوئی بھی ذاتی انا قومی انا سے بڑی نہیں ہوتی۔
آئین اور قانون کے مطابق کوئی عدالت سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں ۔نہ ہی کسی عدالت کے جج صاحبان کسی اور جج صاحب یا چیف جسٹس صاحب کے ماتحت ہوتے ہیں۔ یوںعدلیہ کے ادارے میں chain of command کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں ایک سیاسی قسم کی محفل میں پنجاب ہائیکورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس صاحب کا بیان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ سب جج اپنے اپنے judicial functionsمیں آزاد ہوتے ہیں۔جب کہ تمام سول اور فوجی اتھارٹیز سیاسی اتھارٹی کے ماتحت کام کرتی ہیں جس کا سربراہ وزیرِ اعظم ہوتا ہے۔ درست بات یہ ہے کہ(1) آئین کو سب قوانین پر فوقیت حاصل ہے ، (2) عدالتوں میں سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ ہے اور (3) تینوں اداروں (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) میں سے مقننہ یعنی پارلیمان سب سے سپریم ہے کیونکہ وہ عوام کی نمایندہ ہے اورعوام کو ہی جوابدہ ہے۔
سب ادارے پارلیمان سے ہی قوت لیتے ہیں جب کہ انتظامیہ پارلیمان سے ہی جنم لیتی ہے۔ آئین پارلیمان بناتی ہے اوراُس میں ترمیم بھی پارلیمان ہی کر سکتی ہے۔ کوئی عدالت چاہے کچھ بھی کر لے وہ آئین میں ایک نقطے کا بھی اضافہ نہیں کر سکتی اور برسوں گذر جاتے ہیں مگر بلوچستان کے u کو o سے نہیں بدل سکتی۔ عدالتیں بنانا، اُن کے اختیارات مقرر کرنا، بجٹ بنانا ، ججوں کی تنخواہیں مقرر کرنا، پنشن میں اضافہ کرنا اور روزمرہ اخراجات کے لیے رقم مختص کرنا وغیرہ صرف اور صرف پارلیمان کا اختیار ہے۔پارلیمان ہی ان رقوم کے استعمال کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتی آئی ہے۔یہ الگ بات کہ گزشتہ چھ برسوں میں پارلیمان کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو ان اخراجات کا حساب پیش نہیں کیا گیا۔ مگر کب تک۔ آخر سب کو جمہوری اداروں کے احتسابی عمل سے گزرنا ہو گا۔ آج نہیں تو کل۔''تبدیلیوں کے دن ہیں زمانے میںاے منیر''۔ دفاعی بجٹ اسمبلی میں پیش ہونے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے حسابات بھی پبلک اکاونٹس کمیٹی میں آ ہی جائیں گے۔
آئین کی حفاظت کی باتیں بھی ہوئی ہیںمگر آئین تو عوام بناتے ہیں۔ اپنے نمائیندوں کے ذریعے۔اس لیے اس کی حفاظت بھی وہی کر سکتے ہیں۔ عدلیہ کا کام قانون اور آئین بنانا نہیں نہ ہی وہ آئین کی حفاظت کرتی ہے۔ عدالت فقط آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہے۔ وہ بھی اُس وقت جب کوئی معاملہ اُس کے سامنے ثالثی کے لیے پیش کیا جائے۔ ایک ثالث کے لیے غیر جانبدار رہنا اہمیت کا حامل ہے۔عالمی کمیشن برائے قانون کی ستمبر 2011کی سفارشات میں قرار دیا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان خود سے مقدمے درج کرنے کے معاملے میں اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے جس کی بنا پرانصاف کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وفد کے ایک اہم رکن جج گراہم لیونگ نے کہا کہ آخری چارہ جوئی کی عدالت کی طرف سے خود ہی مقدمے درج کرتے چلے جانے اور خود ہی اُن کی شنوائی کرنے سے سائلین کا اپیل کا حق متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان کے مستند قانونی ماہرین بھی اپیل کا حق تسلیم کرتے ہیں۔
کمیشن نے عدالتوں کے اندر پائی جانے والی بدعنوانی پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بنا پر لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات پر عدالت کا نوٹس لینا مفید ہو سکتا ہے تاہم عدالت کو ہر معاملے میں دخل دینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے انصاف کا بول بالا ہونے کی بجائے اُلٹا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے عدالت کو اس سلسلے میں احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ وکلاء کی ایک تنظیم نے عالمی کمیشن کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے عدالتِ عالیہ کو آیندہ احتیاط برتنے کا کہا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی کمیشن نے بجا طور پر سپریم کورٹ کو انتظامی معاملات سے الگ رہنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ملک کسی نظام کے تحت چلتے ہیں جس میں ہر کسی کی حد مقرر ہے۔ انھوں نے ماتحت عدالتوں میں سپریم کورٹ کی دخل اندازی کو نا پسند کرتے ہوئے اس سے اجتناب برتنے کا مطالبہ بھی کیا ۔
آئین کی تشریح کا اختیار absoluteنہیں ہوتا۔ کوئی عدالت آئین کے واضح احکام سے باہر نہیں جا سکتی۔اسی طرح برسوں سے چلا آ رہا case law بھی حدود متعین کرتا ہے۔ آئین کی تشریح عدالت کی نصابی یا غیر نصابی سرگرمی نہیںکہ آئین کی کتاب پکڑ کر اُس کی تشریح کرنے بیٹھ جائیں اور اُس کی اصل کو ہی تبدیل کر دیں۔ عدالت کو یہ اختیار کسی نے نہیں دیا۔عدالت کا اختیار یہ ہے کہ اگر کسی آئینی ادارے یا شخصیت کو آئین پر تشریح کی ضرورت ہو اور وہ اسے عدالت میں لے جائے تو عدالت اُس پر فیصلہ کر سکتی ہے وگرنہ جیسا کہ لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے، عدالت خود سے کچھ نہیں دیکھتی، جو اسے دکھایا جاتا ہے وہی دیکھتی ہے۔گزشتہ برس ایک مغربی ملک میں جیوری کے ایک رکن کو اس لیے کیس سے الگ کر دیا گیا کہ وہ انٹر نیٹ سے اُس کے بارے میں ریسرچ کر کے آیا تھا۔
یوں یہ سمجھا گیا کہ اُس نے پہلے سے ذہن بنا لیا ہے اور اُس کا دماغ تازہ حقائق کے لیے بند ہو چکا ہے لیکن جب جج اخبار پڑھنا، کالم نگاروں سے ملنا جلنا، ٹاک شوز دیکھنا اور اس طرح کے دیگر کام کرینگے تویقینا وہ غیرجانبدار نہیں رہ سکیں گے کیونکہ میڈیا میں جہاں خبریں ملتی ہیں وہاں کچھ لوگ انفارمیشن انجینئرنگ کے ذریعے حقائق کا منظر نامہ اپنے عقائد کے حق میں بدلنے کا کام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی جج اُن کی بات سنے گا تو اُن کی رائے سے متاثر بھی ہو سکتا ہے جس سے اُن کی غیر جانبداری متاثر ہونے کا امکان ہے۔اگر کسی حال ہی میں ملا بننے والے بابؤں کے خبرنگار سے پوچھیں گے کہ فحاشی کیا ہے تو ملا کی دوڑ مسجد تک ہی ہو گی۔پالیسی کے لیے آراء کے درمیان توازن پیدا کرنا عدالت کا نہیںسیاسی ادارے کا کام ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام کی سننی ہے یا چند لوگوں کی، یہ فیصلہ اُس اتھارٹی کا ہے جس نے واپس عوام کے پاس جانا ہے۔ عدالت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔
افواہ سازی کی صنعت بند کرنے کی بات بھی ہوئی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ صحافی اور چند اینکرز اپنے دماغ کی اختراع کو خبر قرار دے کر اگلے روز اُس پر اداریہ چھاپتے اور شام کو ٹاک شو کرتے ہیں۔ خصوصاً ایک روزنامے کے امریکا میں بیٹھے ہوئے مدیر اکثر اپنی خواہشات کو خبروں میں ڈھال کر پھر اُن فرضی خبروں کا تجزیہ فرماتے رہتے ہیں۔اس روئیے کو ختم ہونا چاہیے۔اسی طرح سیاسی شخصیات کا ڈرامائی تشکیل کے ذریعے مضحکہ اڑایا جاتا ہے اور کھلی الزام تراشی کی جاتی ہے۔ ہر چند ازالہ حیثیتِ عرفی کے قوانین موجود ہیںلیکن اگرکوئی شخص غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ یا بے بنیاد الزام تراشی کے خلاف مقدمہ درج کرواتا ہے تو برسوں اس پر فیصلہ نہیں آتاجس کی بنا پر قانون کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔
ہیومن رائیٹس واچ کی 2011کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنے اوپر ہونے والی تنقید خندہ پیشانی سے برداشت کرتی ہے اور میڈیا کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ البتہ اُس رپورٹ کے مطابق عدالت میڈیا کا منہ بند کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہے۔عدالتی فیصلے کے ذریعے اب عدالت نے اپنی حیثیتِ عرفی کافی محفوظ کر لی ہے۔ مگر عدالتوں میں سیاسی شخصیات پر فرمائے جانے والے تبصروں اور ان تبصروں پر اینکروں اور اخباروں کے چٹخارے دار حاشیوں سے عوام کے منتخب نمایندوں، عوام کے نمایندہ اداروں اور قومی سلامتی کے اداروںکی حیثیتِ عرفی کو درپیش خطرات کا کوئی سدِ باب نہیں۔ عوام کو بھی یہ سہولت حاصل نہیںکیونکہ فیصلے ہوتے نہیں اور حیثیتِ عرفی لٹکی رہتی ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سب ادارے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں مگر تیزی اچھے اور برے نتائج لا سکتی ہے۔یہ نہایت محتاط الفاظ ہیں وگرنہ سچ تو یہ ہے کہ بلا وجہ کی تیزی سے کام خراب ہوتے ہیں۔ ریاستوں کے معاملات جلد بازی سے نہیں بلکہ ٹھنڈے سوچ بچار سے حل ہوتے ہیں۔ کسی کے بیٹھے بیٹھے شام تک مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس لیے بلا وجہ کی پھرتیاں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم اپنی محدود سوچ سے ملک کا نقصان تو نہیں کر رہے۔ قانون کی حکمرانی کا مطلب توڑ پھوڑ نہیں ہونا چاہیے۔
ایک وزیرِ اعظم گھر بھیج دیا جاتا ہے، دوسرے کے گھرـ'' اُڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا'' کی مانند الیکشن کی صبح وارنٹ آ جاتے ہیں اور تیسرے پر دشنام ہے۔ ایک دن اخباروں میںچنگھاڑتی ہوئی سُرخیاںلگتی ہیںکہ صوبائی حکومت حق ِحکمرانی کھو چکی۔اگلی پیشی پر فرمایاجاتا ہے کہ وفاقی حکومت بھی ناکام ہو گئی۔ مگر اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کب سے کرنے لگی۔ یہ تو عوام کے کرنے کا کام ہے۔ اور وہ جو لوک دانش میں کہا جاتا ہے کہ گھوڑا بھی تیار ہے اور میدان بھی۔تو میدان سج رہا ہے۔الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔صدر زرداری نے ایک ایسے با وقار شخص کو پوری قوم کے اتفاقِ رائے سے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا ہے جس نے کبھی کسی پی سی او پر حلف نہیں اٹھایا، کسی آمر کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر نہیں رہا اور کسی غیر منتخب کو آئین میں ترمیم کی اجازت نہیں دی۔ تو ذرا دھیرج مرے حضور۔یہ فیصلے ہونے کا وقت مقرر ہے۔ الیکشن ہوں گے اور لوگ بتائیں گے کہ کون اچھی حکومت چلا رہا تھا اور کس کی گڈ گورننس فقط ایک ڈراما تھی۔
لوگ بہتر جانتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کی رائے کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہ عدالت کا کام نہیں کہ وہ گورننس کا فیصلہ کرے۔ یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ ہر ادارے کا اپنا کام ہے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ہر کام عدالت نہیں کرے گی۔وہ دن گئے جب جمہوری حکومتیں گڈ گورننس کا بہانہ بنا کر توڑ دی جاتی تھیں اور چھ سات جج مل کر فیصلہ کر لیتے تھے کہ عوام کے لیے کیا اچھا ہے۔ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور بہت سا خون بھی۔ اب عوام کسی کو آئین سے چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دیں گے۔
منتخب ایوانوں، حکومتوں اور اداروں کو موردِ الزام ٹھہرائے چلے جانا مناسب نہیں۔کبھی تجویز آئی FCواپس بھیج دوکبھی کہا گیا پولیس کو فارغ کر دو۔ لیکن اگر اِن سب کی چھٹی کر دی گئی تو پھر یہ کام کون کرے گا میرے بھائی؟ ایک صبح اخباری خبر کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ طالبان آ گئے ہیں گرفتار کر لیں۔ مگر کیا طالبان کل آئے ہیںاورکیا آپ جائیں گے تو وہ آپ کا استقبال فرمائیں گے؟ اس کے لیے اتفاقِ رائے پیدا ہوتا ہے، منصوبہ بندی ہوتی ہے اور پھر دہشت گرد پکڑے بھی جاتے ہیں مگر پھر چھوٹ بھی جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ پراسیکیوشن کمزور تھی کیس ثابت نہ کر سکی۔ اُس سید زادے کے لیے تو پراسیکیوشن نے بھی التجا کی تھی کہ اُس کا کوئی قصور نہ تھا مگر اُسے جرم بتائے بغیر چلتا کر دیا گیا۔ اگر عدالت پراسیکیوشن کی مرضی کے خلاف ایک وزیرِ اعظم کی چھٹی کروا سکتی ہے تو دہشت گرد کون سا مَکّے سے آئے ہیں؟
آئین میں سب کے کردار متعین ہیں۔کون کس جگہ پر کام کرے گا، پولیس کیسے چلے گی ، روزمرہ جرم کیسے کنٹرول ہو گا چینی کتنے روپے کلو بکے گی اورٹریفک کا بہاؤ کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے...تمام مہذب ممالک کی طرح اِن کاموں کے لیے پاکستان کے لوگ وفاقی اور صوبائی انتظامیہ مقرر کرتے ہیں جو اگر اچھا کام نہیں کرتی تو عوام کی طرف سے مسترد کر دی جاتی ہے۔اگر عدلیہ یہ فیصلے کرنے لگے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔اس سے عوام کا فائدہ نہیں اُلٹا نقصان ہوتا ہے۔ اور عدلیہ کی عزت میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ متنازعہ ہو جاتی ہے۔انتظامی احکامات کے خلاف شنوائی کے فورم کے طور پرعدلیہ کو انتظامیہ سے الگ رکھنا بہت ضروری ہے۔
جمہوری ریاستیں اپنی تثلیث ِاختیار کی بنا پر ہی کامیاب ہوتی ہیں ۔ انسانیت کی اجتماعی دانش کے مطابق عدلیہ کو انتظامی امور سے باہر رکھنے کی منشا یہ بھی ہے کہ فریقین کے مابین فیصلہ کرنے والے کوسب کے لیے قابلِ قبول ہونا چاہیے جب کہ روز مرہ کے انتظامی امور میں ایسے معاملات ہوتے ہیں جن میں ایک آپشن کی بجائے دوسرا اپنانا پڑتا ہے۔ یہ فیصلے غلط بھی ہو سکتے ہیں اور فیصلہ کرنے والوں پر تنقید بھی ہو گی، اس لیے عدلیہ کو اس سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ انتظامیہ لوگ منتخب کرتے ہیں اور پھر اُسے فارغ بھی کر دیتے ہیں۔ کسی جج کو فارغ کرنے کے لیے عوام کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں۔
حقِ حکمرانی عوام کو حاصل ہے اور وہی اس سلسلے میں آخری اتھارٹی ہیں یا پھر پارلیمان جسے عوام منتخب کرتے ہیں۔ حکومت کام کرسکتی ہے یا نہیں، اِس کا فیصلہ عدالت نہیں بلکہ عوام کرتے ہیں۔ اس کے لیے آئین ایک مخصوص مدت مقرر کرتا ہے جس کے بعد عوام کی رائے لی جاتی ہے۔عدالت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ کسی جج کو ہو سکتا ہے کسی پالیسی فیصلے سے اختلاف ہو۔ اور یقیناً اسکو حق حاصل ہے کہ وہ اس پر اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا اظہار کرے مگر ایسا کرنے کے لیے اسے اگلے انتخابات کا انتظار کرنا ہو گا۔ اور ہاں انتخابات میں ایک آدمی کا ایک ہی ووٹ ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی رتبے پر بیٹھا ہو۔ حکومت کیسی تھی اس کا فیصلہ عوام کرتے ہیں جج نہیں۔اور آخر میں ایک اصولی بات۔جج صاحبان کو کم بولنا چاہیے تا کہ اُن کے بارے میں کم سے کم بات ہو۔ زبان کے چٹخارے کے لیے اور بہت سے پیشے ہیں۔ جج بننے کا فیصلہ کرنے والوں کو اتنی سی قربانی ضرور دینا پڑتی ہے۔
It is good for judges not to speak much; if they do, they will [have to] hear much as well