مصطفیٰ کمال کی واپسی
(2) وہ اب واپس کیوں آئے ہیں اور (3) اب وہ کیا کرنا چاہتے ہیں
14 اگست 2013ء کو خود اختیار کردہ جلاوطنی سے (جسے علامتی طور پر الطاف حسین سے شخصی آزادی کا دن قراردیا تھا) کراچی کے سابق میئر سید مصطفے کمال 3 مارچ 2016ء کو اچانک کراچی میں واپس آ گئے اور اپنی واپسی پر وضاحت کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں کہا کہ (1) پہلی بات یہ کہ وہ ملک چھوڑ کر کیوں گئے تھے۔
(2) وہ اب واپس کیوں آئے ہیں اور (3) اب وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ جب کہ ایم کیو ایم نے جواب میں الزام عائد کیا کہ مصطفے کمال کی واپسی کی ٹائمنگ اور جس انداز سے وہ واپس آئے ہیں اس نے اسٹیبلشمنٹ کی ''مائنس الطاف حسین ایم کیو ایم کی سوچ'' کو ثابت کر دیا ہے۔ مصطفے کمال الطاف حسین کے بہت پسندیدہ نوجوان تھے جنہوں نے کراچی کا میئر نامزد ہونے پر بہت کامیابی سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اپنی دیانتداری اور اچھی کارکردگی کے باعث وہ بہت مقبول ہو گئے اور ساری نظریں ایم کیو ایم کے سربراہ کے بجائے ان پر مرکوز ہونے لگیں بلکہ انھیں الطاف حسین کا ممکنہ جانشین سمجھا جانے لگا حالانکہ یہ بات ان کے لیے بہت خطرناک تھی۔ مہاجر کمیونٹی کے خلاف بہت برا امتیازی سلوک ہوتا تھا مگر الطاف حسین کی یہ کامیابی تھی کہ ایم کیو ایم کو حقیقی معنوں میں ایک مقبول عالم پارٹی بنا دیا۔ جس کی توجہ مہاجروں، غریب غربا اور پسماندہ لوگوں کی سماجی اور معاشی بہتری پر مرکوز تھی لیکن رفتہ رفتہ اس پارٹی کا ایک سخت گیر عسکری نوعیت کا ڈھانچہ وجود میں آ گیا اور چونکہ کوئی متبادل موجود نہ تھا لہٰذا گزشتہ انتخابات میں اسے بھر پور کامیابی حاصل ہوئی۔
1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے بعد کراچی بلکہ پورے پاکستان میں عسکریت پسندی میں نمایاں اضافہ ہوا جس نے ایم کیو ایم کی کامیابی میں مزید اضافہ کر دیا اور سیاست میں مہاجر فیکٹر کو اور زیادہ اہمیت ملی۔ پارٹی لیڈر لندن سے ریموٹ کنٹرول پر پارٹی کے معاملات چلاتے تھے اور کئی سیاسی فیصلے وہ پلک چھپکنے پر کرتے تھے جن کا ایم کیو ایم کے بنیادی نظریے سے کوئی تعلق محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی ان فیصلوں میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ مصطفی کمال نے الزام لگایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے ان کی پارٹی کو بلیک میل کرنے کے لیے چھڑی اور گاجر کی روایتی پالیسی کا استعمال کیا اور اس میں ایم کیو ایم کے ''را'' کے ساتھ تعلق کو بھی اچھالا گیا تا کہ پیپلزپارٹی وفاقی سطح پر بدستور اقتدار میں رہے۔
ذوالفقار مرزا نے بھی زرداری سے الگ ہو کر ان پر اقرباء پروری، کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات عائد کیے اور اس بات کی تصدیق کی کہ رحمان ملک نے ایم کیو ایم کے را کے ساتھ روابط کا جو الزام لگایا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایم کیو ایم اور اس کی اعلیٰ قیادت کے را کے ساتھ تعلقات کا انکشاف گزشتہ جون میں لندن میں ایم کیو ایم کے سینئر لیڈر طارق میر نے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کی تحقیقات کے دوران جو منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تفتیش کر رہی تھی۔
الطاف حسین پرالزامات نئے نہیں۔ لیکن جب ان کا ایک سابقہ قریبی ساتھی ایم کیو ایم کے لیڈر پر اسی قسم کا الزام عائد کرتا ہے تو اس الزام میں زیادہ تقویت پیدا ہو جاتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو چونکہ ایم کیو ایم کی حمایت سیاسی وجوہ کی بنا پر درکار تھی اس لیے انھوں نے اس قسم کے الزامات کو نظر انداز کر دیا جس کی ذمے داری نہ صرف ان پر بلکہ ان کے نائبین پر بھی عائد ہوتی ہے بالخصوص جب کراچی میں اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کثرت سے ہونے لگیں۔ اس حوالے سے 12 مئی کا واقعہ بطور خاص قابل ذکر ہے جس میں درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
مصطفیٰ کمال گزشتہ 29 سال تک الطاف حسین کو ''بھائی'' کہتے رہے لیکن اس پریس کانفرنس میں انھوں نے الطاف حسین کو ''صاحب'' کہہ کر پکارا۔ ایک سوال پر مصطفی کمال نے کہا کہ اب میں نے انھیں الطاف بھائی کہنا بند کر دیا ہے کیونکہ اب ہمارے ان کے ساتھ ''بھائی والے'' تعلقات باقی نہیں رہے۔ میں ان کا وفادار تھا، میں ان کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن ان سے اختلاف کا کوئی ایک ایشو نہیں بلکہ بہت سے ایشو ہیں جن کی وجہ سے مجھے پارٹی چھوڑنا پڑی۔ لوگ بغیر کسی وجہ کے مارے جا رہے تھے۔
میں نے اس پر بھروسہ کیا اور اعتماد کیا لیکن میرا بھروسہ اور اعتماد بار بار ٹوٹا۔ اس کے باوجود بھی اگر میں ایم کیو ایم میں رہتا تو میں گناہگار ہوتا۔ البتہ مصطفی کمال نے پارٹی کے دیگر لیڈروں کے خلاف کوئی بات نہیں کہی۔ اس بات کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اب نوجوانوں کی طرف سے پرانے لیڈر کو چیلنج کرنا کوئی حیرت کی بات نہیں رہی۔
ہمارے میڈیا کے اینکروں اور تجزیہ نگاروں کو چونکہ مصطفی کمال کے خلاف کوئی مواد نہیں مل سکا لہٰذا وہ انیس قائم خانی اور حماد صدیقی کے پیچھے پڑ گئے۔ مصطفی کمال کی واپسی پر اسٹیبلشمنٹ حالات کا جائزہ لے رہی ہے کیونکہ بینظیر اور میاں نواز شریف نے اپنی واپسی کے لیے اس قسم کا کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ انیس قائم خانی اور حماد صدیقی جیسے لوگوں کی موجودگی طاقت کے اظہار کا ایک نمونہ تھا تا کہ مصطفی کمال کا انجام ویسا نہ ہو جس طرح کا فلپائن کے سینیٹر بینگنو اکوینو جونیئر کا ہوا ۔
جس نے 1983ء میں صدر فرڈیننڈ مارکوس کو چیلنج کیا تھا اور جب وہ اپنی خود اختیار کردہ جلاوطنی سے واپس آیا تو منیلا ایئرپورٹ پر اس کو ہلاک کر دیا گیا۔ ایک ممتاز اینکر پرسن نے مصطفی کمال کی تمام کمیونٹیوں کی طرف سے عوامی پذیرائی کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا انتخابی سیاست میں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان میں جس انداز سے انتخابات ہوتے ہیں اس میں کسی مقبول عام شخص کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق چونکہ نسل پرستی کے عجیب و غریب رنگ اور خصوصیات ہیں لیکن کراچی کی سیاست میں درج ذیل تین پہلو زیادہ اہمیت رکھتے ہیں (1) سیاست کا جرائم سے تعلق (2) بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را (3) ایم کیو ایم کا وقتاً فوقتاً لسانیت کا کارڈ استعمال کرنا۔ جب کہ اقتدار کے حصول کے لیے کچھ وقت درکار ہے (تاآنکہ الطاف حسین کی صحت کے بگڑنے کا واضح ثبوت حاصل نہیں ہو جاتا)۔ دوسری طرف کراچی میں مصطفی کمال کے حق میں وال چاکنگ یہ ثابت کرتی ہے کہ انھیں ایم کیو ایم کے سرگرم کارکنوں کی منظم حمایت حاصل ہے۔
چیف جسٹس نے پاکستان میں حکمرانی کو یرغمال بنانے کے بارے میں کیا کہا ہے؟ مصطفی کمال نے اپنی پارٹی کو کوئی نام نہیں دیا جب کہ علامتی طور پر قومی پرچم لہرا کر مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی یعنی تینوں جماعتوں کو ایک ممکنہ متبادل کی تصویر پیش کی ہے۔ الطاف حسین کے برعکس مصطفی کمال کو کراچی میں بلکہ پورے ملک میں پسند کیا جاتا ہے۔ جب کہ کراچی جو کہ ملکی معیشت کا گڑھ ہے جہاں امن و امان کا مطلب پورے ملک کی ترقی کی ضمانت ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ملک کی خاموش اکثریت الطاف حسین اور مصطفے کمال میں سے کس کا انتخاب کر کے کراچی کا امن بحال کرتی ہے تا کہ ملک اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
(2) وہ اب واپس کیوں آئے ہیں اور (3) اب وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ جب کہ ایم کیو ایم نے جواب میں الزام عائد کیا کہ مصطفے کمال کی واپسی کی ٹائمنگ اور جس انداز سے وہ واپس آئے ہیں اس نے اسٹیبلشمنٹ کی ''مائنس الطاف حسین ایم کیو ایم کی سوچ'' کو ثابت کر دیا ہے۔ مصطفے کمال الطاف حسین کے بہت پسندیدہ نوجوان تھے جنہوں نے کراچی کا میئر نامزد ہونے پر بہت کامیابی سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اپنی دیانتداری اور اچھی کارکردگی کے باعث وہ بہت مقبول ہو گئے اور ساری نظریں ایم کیو ایم کے سربراہ کے بجائے ان پر مرکوز ہونے لگیں بلکہ انھیں الطاف حسین کا ممکنہ جانشین سمجھا جانے لگا حالانکہ یہ بات ان کے لیے بہت خطرناک تھی۔ مہاجر کمیونٹی کے خلاف بہت برا امتیازی سلوک ہوتا تھا مگر الطاف حسین کی یہ کامیابی تھی کہ ایم کیو ایم کو حقیقی معنوں میں ایک مقبول عالم پارٹی بنا دیا۔ جس کی توجہ مہاجروں، غریب غربا اور پسماندہ لوگوں کی سماجی اور معاشی بہتری پر مرکوز تھی لیکن رفتہ رفتہ اس پارٹی کا ایک سخت گیر عسکری نوعیت کا ڈھانچہ وجود میں آ گیا اور چونکہ کوئی متبادل موجود نہ تھا لہٰذا گزشتہ انتخابات میں اسے بھر پور کامیابی حاصل ہوئی۔
1980ء کی دہائی میں افغان جنگ کے بعد کراچی بلکہ پورے پاکستان میں عسکریت پسندی میں نمایاں اضافہ ہوا جس نے ایم کیو ایم کی کامیابی میں مزید اضافہ کر دیا اور سیاست میں مہاجر فیکٹر کو اور زیادہ اہمیت ملی۔ پارٹی لیڈر لندن سے ریموٹ کنٹرول پر پارٹی کے معاملات چلاتے تھے اور کئی سیاسی فیصلے وہ پلک چھپکنے پر کرتے تھے جن کا ایم کیو ایم کے بنیادی نظریے سے کوئی تعلق محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی ان فیصلوں میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ مصطفی کمال نے الزام لگایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے ان کی پارٹی کو بلیک میل کرنے کے لیے چھڑی اور گاجر کی روایتی پالیسی کا استعمال کیا اور اس میں ایم کیو ایم کے ''را'' کے ساتھ تعلق کو بھی اچھالا گیا تا کہ پیپلزپارٹی وفاقی سطح پر بدستور اقتدار میں رہے۔
ذوالفقار مرزا نے بھی زرداری سے الگ ہو کر ان پر اقرباء پروری، کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات عائد کیے اور اس بات کی تصدیق کی کہ رحمان ملک نے ایم کیو ایم کے را کے ساتھ روابط کا جو الزام لگایا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایم کیو ایم اور اس کی اعلیٰ قیادت کے را کے ساتھ تعلقات کا انکشاف گزشتہ جون میں لندن میں ایم کیو ایم کے سینئر لیڈر طارق میر نے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کی تحقیقات کے دوران جو منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تفتیش کر رہی تھی۔
الطاف حسین پرالزامات نئے نہیں۔ لیکن جب ان کا ایک سابقہ قریبی ساتھی ایم کیو ایم کے لیڈر پر اسی قسم کا الزام عائد کرتا ہے تو اس الزام میں زیادہ تقویت پیدا ہو جاتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو چونکہ ایم کیو ایم کی حمایت سیاسی وجوہ کی بنا پر درکار تھی اس لیے انھوں نے اس قسم کے الزامات کو نظر انداز کر دیا جس کی ذمے داری نہ صرف ان پر بلکہ ان کے نائبین پر بھی عائد ہوتی ہے بالخصوص جب کراچی میں اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کثرت سے ہونے لگیں۔ اس حوالے سے 12 مئی کا واقعہ بطور خاص قابل ذکر ہے جس میں درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
مصطفیٰ کمال گزشتہ 29 سال تک الطاف حسین کو ''بھائی'' کہتے رہے لیکن اس پریس کانفرنس میں انھوں نے الطاف حسین کو ''صاحب'' کہہ کر پکارا۔ ایک سوال پر مصطفی کمال نے کہا کہ اب میں نے انھیں الطاف بھائی کہنا بند کر دیا ہے کیونکہ اب ہمارے ان کے ساتھ ''بھائی والے'' تعلقات باقی نہیں رہے۔ میں ان کا وفادار تھا، میں ان کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن ان سے اختلاف کا کوئی ایک ایشو نہیں بلکہ بہت سے ایشو ہیں جن کی وجہ سے مجھے پارٹی چھوڑنا پڑی۔ لوگ بغیر کسی وجہ کے مارے جا رہے تھے۔
میں نے اس پر بھروسہ کیا اور اعتماد کیا لیکن میرا بھروسہ اور اعتماد بار بار ٹوٹا۔ اس کے باوجود بھی اگر میں ایم کیو ایم میں رہتا تو میں گناہگار ہوتا۔ البتہ مصطفی کمال نے پارٹی کے دیگر لیڈروں کے خلاف کوئی بات نہیں کہی۔ اس بات کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اب نوجوانوں کی طرف سے پرانے لیڈر کو چیلنج کرنا کوئی حیرت کی بات نہیں رہی۔
ہمارے میڈیا کے اینکروں اور تجزیہ نگاروں کو چونکہ مصطفی کمال کے خلاف کوئی مواد نہیں مل سکا لہٰذا وہ انیس قائم خانی اور حماد صدیقی کے پیچھے پڑ گئے۔ مصطفی کمال کی واپسی پر اسٹیبلشمنٹ حالات کا جائزہ لے رہی ہے کیونکہ بینظیر اور میاں نواز شریف نے اپنی واپسی کے لیے اس قسم کا کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ انیس قائم خانی اور حماد صدیقی جیسے لوگوں کی موجودگی طاقت کے اظہار کا ایک نمونہ تھا تا کہ مصطفی کمال کا انجام ویسا نہ ہو جس طرح کا فلپائن کے سینیٹر بینگنو اکوینو جونیئر کا ہوا ۔
جس نے 1983ء میں صدر فرڈیننڈ مارکوس کو چیلنج کیا تھا اور جب وہ اپنی خود اختیار کردہ جلاوطنی سے واپس آیا تو منیلا ایئرپورٹ پر اس کو ہلاک کر دیا گیا۔ ایک ممتاز اینکر پرسن نے مصطفی کمال کی تمام کمیونٹیوں کی طرف سے عوامی پذیرائی کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا انتخابی سیاست میں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان میں جس انداز سے انتخابات ہوتے ہیں اس میں کسی مقبول عام شخص کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق چونکہ نسل پرستی کے عجیب و غریب رنگ اور خصوصیات ہیں لیکن کراچی کی سیاست میں درج ذیل تین پہلو زیادہ اہمیت رکھتے ہیں (1) سیاست کا جرائم سے تعلق (2) بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را (3) ایم کیو ایم کا وقتاً فوقتاً لسانیت کا کارڈ استعمال کرنا۔ جب کہ اقتدار کے حصول کے لیے کچھ وقت درکار ہے (تاآنکہ الطاف حسین کی صحت کے بگڑنے کا واضح ثبوت حاصل نہیں ہو جاتا)۔ دوسری طرف کراچی میں مصطفی کمال کے حق میں وال چاکنگ یہ ثابت کرتی ہے کہ انھیں ایم کیو ایم کے سرگرم کارکنوں کی منظم حمایت حاصل ہے۔
چیف جسٹس نے پاکستان میں حکمرانی کو یرغمال بنانے کے بارے میں کیا کہا ہے؟ مصطفی کمال نے اپنی پارٹی کو کوئی نام نہیں دیا جب کہ علامتی طور پر قومی پرچم لہرا کر مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی یعنی تینوں جماعتوں کو ایک ممکنہ متبادل کی تصویر پیش کی ہے۔ الطاف حسین کے برعکس مصطفی کمال کو کراچی میں بلکہ پورے ملک میں پسند کیا جاتا ہے۔ جب کہ کراچی جو کہ ملکی معیشت کا گڑھ ہے جہاں امن و امان کا مطلب پورے ملک کی ترقی کی ضمانت ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ملک کی خاموش اکثریت الطاف حسین اور مصطفے کمال میں سے کس کا انتخاب کر کے کراچی کا امن بحال کرتی ہے تا کہ ملک اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔