سیلف میڈ گلوکارہ منی بیگم

موسیقی کی دنیا میں پاکستان کی تین شخصیات ایسی ہیں، جنھیں سیلف میڈ کہا جاتا ہے

hamdam.younus@gmail.com

موسیقی کی دنیا میں پاکستان کی تین شخصیات ایسی ہیں، جنھیں سیلف میڈ کہا جاتا ہے کیونکہ ان شخصیات نے جب اپنے فنی سفرکا آغازکیا تو ابتدا میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اورفلمی دنیا کے لوگوں نے ان کی طرف توجہ ہی نہیں دی اور نہ ہی ان فنکاروں کو آگے بڑھانے میں کوئی مدد کی، بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہے کہ ان کی طرف سے اپنی آنکھیں ہی بند رکھیں، لیکن ان تینوں شخصیات نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی فنی صلاحیتوں کے اظہار کے ساتھ اپنی محنت، لگن کو کسی طور پر بھی کمزور نہ ہونے دیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ لوگوں نے ان کے فن کا اعتراف بھی کیا اور ان کے فن کو دل کھول کر سراہا بھی مگر انھیں یہ شہرت، یہ بلندی بیرونی ممالک سے ملی ان فنکاروں میں استاد نصرت فتح علی خاں، عطا اللہ عیسیٰ خیلوی اور جس تیسری آواز کو بے پناہ شہرت اور پذیرائی ملی وہ منی بیگم کی آواز ہے۔

ابتدا میں موسیقی کے کسی بڑے ادارے نے بھی گلوکارہ منی بیگم کی پذیرائی نہیں کی۔ منی بیگم روز و شب صرف اپنی محنت کے سہارے موسیقی کے محفلوں میں اپنی آواز کا جادو جگاتی رہیں، منی بیگم نے اپنی گائیکی کا آغاز بھی شادی بیاہ کی محفلوں سے کیا، پھر یہ کراچی کی موسیقی کی محفلوں اور فنکشنوں میں بلائی جانے لگی، غزل کی گائیکی کا اس کا اپنا ایک الگ انداز تھا، جوکسی اور گلوکارہ کو نصیب نہیں تھا منی بیگم خود ہارمونیم بجاتے ہوئے غزلیں اورگیت گاتی تھیں اور ہارمونیم پر اس کو بڑی دسترس حاصل ہے۔

غزل کی گائیکی میں ہارمونیم کو شروع ہی سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے، منی بیگم موسیقی کی محفلوں میں نہ صرف اپنی مدھر آواز میں گاتی ہے بلکہ ہارمونیم کے سروں کے ساتھ بھی خوب کھیلتی ہے اور اس گلوکارہ نے کبھی ریڈیو، ٹی وی اور فلموں کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ یہ واحد گلوکارہ ہے جس نے اپنے شوق کی وجہ سے اپنی گائیکی کو بام عروج تک پہنچایا اور نہ صرف پاکستان، ہندوستان بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی اس نے بڑی دھوم مچائی ہے اور اپنی شہرت کے ہر جگہ جھنڈے گاڑ دیے۔

منی بیگم سے میری پہلی ملاقات ہاکی کے بین الاقوامی کھلاڑی اور سینئر فارورڈ عبدالوحید خان کے گھر ایک محفل موسیقی میں ہوئی تھی۔ عبدالوحید خان کا چھوٹا بھائی سعید کاشانی جو خود بھی بین الاقوامی ہاکی ٹیم کا حصہ رہا ہے وہ میرا اسلامیہ کالج کا ساتھی تھا، بلکہ کلاس فیلو تھا۔ سعید کاشانی ہی نے منی بیگم سے میرا پہلا تعارف کرایا تھا اور پھر منی بیگم سے ملاقاتیں بڑھتی چلی گئیں۔ منی بیگم نے کاشانی کے گھر موسیقی کی محفل میں اپنی خوبصورت گائیکی سے ایک سماں باندھ دیا تھا اور میں نے ہارمونیم بجاتے ہوئے منی بیگم کو بڑے اعتماد سے گاتے ہوئے سنا تھا، جب اس محفل میں اس نے اپنا یہ گیت چھیڑا:

اک بار مسکرا دو جلمی
اک بار مسکرا دو

تو ساری محفل میں ایک وجد سا طاری ہوگیا تھا۔ اس گیت کے بعد پھر ایک اور گیت گایا:

جھوم برابر جھوم شرابی

تو محفل کا ہر فرد سروں کے نشے میں جھوم رہا تھا بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ساری فضا ہی جھوم رہی ہے۔ ساری محفل کے دل منی بیگم نے موہ لیے تھے پھر محفل کی طرف سے فرمائشی گیتوں کا آغاز ہوگیا اور بے شمار آوازیں آنے لگیں اور منی بیگم بڑے اطمینان سے اعتماد سے ہر ایک کی فرمائش پوری کرتی رہی اور منی بیگم کی آواز رات بھر سماعتوں کو مہکاتی رہی اور جیسے گیتوں و غزلوں کی آبشار کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ایک سے بڑھ کر ایک گیت اور غزل اہل محفل کے دلوں کو چھوتی رہی۔

٭اے میرے ہم نشیں چل کہیں اور چل
٭مریض محبت انھی کا فسانہ
٭تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے

٭مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے
٭تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

محفل میں گیت رم جھم کی طرح برس رہے تھے۔ یہ ایک منی بیگم کی دلنشیں یادگار محفل موسیقی تھی، پھر بے شمار محفلوں میں منی بیگم کو سننے کا موقع ملا، اور منی بیگم کی گائیکی اپنے آپ کو منواتی رہی اور اس کی گائیکی کے چرچے عام ہوتے گئے۔ جن دنوں میں ریڈیو سے بحیثیت کمرشل پروڈیوسر ''بول بالا'' کے نام سے ایک کمپنی کا پروگرام کرتا تھا۔ کمپنی کے علوی صاحب نے منی بیگم کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر منی بیگم کا جشن تاج پوشی منایا۔

جس کا سارا انتظام میرے ہی سپرد تھا۔ پھر جب میں نے پاکستان میں ''کیسٹ میلوڈی ایوارڈ'' کی بنیاد ڈالی تو پہلے کیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی تقریب میں، مہدی حسن کو موسیقی کی دنیا کے کیسٹ کنگ اور منی بیگم کو کیسٹ کوئین کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس پروگرام کے مہمان خصوصی اس دور کے ڈیفنس منسٹر میر علی احمد تالپور اور اورینٹ ایڈورٹائزنگ کے ایس ایچ ہاشمی تھے۔ مذکورہ تقریب میں غلام علی، عالمگیر، معین اختر اور موسیقار نثار بزمی کو بھی کیسٹ ایوارڈز دیے گئے تھے۔

قربان جیلانی نے اس تقریب کی نظامت کے فرائض انجام دیے تھے اور مذکورہ تقریب اس دور کی نگار ایوارڈ کے بعد دوسری بڑی تقریب تھی۔مذکورہ کیسٹ میلوڈی ایوارڈز دس بارہ سال تک باقاعدگی کے ساتھ دیے جاتے رہے اور ان ایوارڈز کی تقریبات میں کیسٹس کے حوالوں سے عابدہ پروین، سجاد علی، محمد علی شہکی، تحسین جاوید، موسیقارکریم شہاب الدین، کامیڈین عمر شریف اور بیسٹ قوالی کیسٹ کے ایوارڈز نامور قوال غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری کو بھی دیے گئے تھے ۔

منی بیگم کی گائیکی کا سفر پھر آگے ہی بڑھتا رہے۔ منی بیگم نے کبھی پلٹ کر بھی کسی ادارے کی طرف خود نہیں دیکھا بلکہ ٹیلی ویژن والوں نے منی بیگم کے پروگرام پیش کرتے ہوئے منی بیگم کی مرضی کو شامل رکھا اور جب منی بیگم نے چاہا۔ ٹی وی والوں نے منی بیگم کی پذیرائی کی اور اپنی شخصیت کو منی بیگم نے موسیقی کے ہر ادارے سے منوایا۔ پھر فلم والوں نے بھی منی بیگم کو کئی بار دعوت دی مگر منی بیگم نے ہر بار اس دعوت کو ٹھکرادیا۔ ہاں البتہ EMI گرامو فون کمپنی نے منی بیگم کو بڑے اعزاز کے ساتھ بلایا اور اس کے بہت سے غزلوں اور گیتوں کے کیسٹ ریکارڈ کیے اور وہ مارکیٹ میں آتے ہی پسندیدگی کی سند بنتے چلے گئے۔ اسی دوران منی بیگم نے میری کئی غزلیں EMI گراموفون کمپنی کے لیے ریکارڈ کرائیں اور مندرجہ ذیل غزلوں کو بڑی پذیرائی حاصل رہی۔ جن میں ایک کا مطلع تھا:

اتنی تو نظر انجان نہ تھی ایسے نہ کبھی بیگانے تھے
منہ پھیر کے ہم سے جاتے ہیں جو پہلے کبھی دیوانے تھے
اور دوسری غزل کا مطلع تھا:
اپنی چاہت میں تم کمی نہ کرو
میری آنکھوں کو شبنمی نہ کرو

اب میں منی بیگم کی ذاتی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ منی بیگم کا گھریلو نام نادرہ تھا مگر گھر میں سب اسے منی منی کہہ کر پکارتے تھے۔ منی بیگم کو بچپن ہی سے موسیقی اورگیتوں سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ گلوکارہ بیگم اختر سے لے کر لتا منگیشکر اور نور جہاں سے لے کر اقبال بانو تک ہر گلوکارہ کو منی بیگم نے سنا مگر جب یہ گائیکی کے میدان میں اتری تو اس نے اپنا ایک منفرد انداز اپنایا اور منی بیگم کے نام ہی سے اسے موسیقی کی محفلوں میں شہرت ملتی چلی گئی۔

منی بیگم ویسٹ بنگال انڈیا کے علاقے مرشدآباد میں پیدا ہوئی پھر اپنے گھر والوں کے ساتھ یہ تقسیم پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان آگئیں اور پھر مغربی پاکستان آکر کراچی میں جس پہلے علاقے میں سکونت اختیار کی وہ اورنگی ٹاؤن کا علاقہ تھا۔ پھر اورنگی ٹاؤن سے دستگیر عزیز آباد کے علاقے میں رہائش اختیار کی ، بعد میں گلشن اقبال میں اپنا ایک اچھا سا گھر خریدا۔ جن دنوں منی بیگم کراچی کے فنکشنوں میں مقبول ہوتی جا رہی تھی ایک دن ایک میڈیکل کالج کے ایک فنکشن میں منی بیگم کی ملاقات ایک ڈاکٹر سے ہوئی۔

پھر ملاقات دوستی میں بدل گئی اور اس دوستی نے شادی کا روپ اختیار کرلیا اور منی بیگم نے اسی ڈاکٹر سے شادی کرلی اور اپنے فنی سفر کو بھی اپنے شوہر کی اجازت ہی سے جاری رکھا۔ منی بیگم بحیثیت ایک گلوکارہ آج ساری دنیا میں مشہور ہے۔ اور اس کے انداز میں کوئی دوسری گلوکارہ اس کے مدمقابل نہیں آسکی ہے۔ منی بیگم اورگلوکارہ مسرت نذیر میں ایک قدر مشترک یہی ہے کہ دونوں کے شوہر ڈاکٹرز ہیں اور دونوں کی دو دو بیٹیاں ہیں اور مسرت نذیر کے ساتھ منی بیگم دونوں ہی فن موسیقی کے ذریعے بطور مسیحا لوگوں کے دل جیتنے کا ہنر رکھتی ہیں۔
Load Next Story