ماضی کے پجاری
جون ایلیاکہتے ہیں ’’ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اورکچھ نہیں کررہے
جون ایلیاکہتے ہیں ''ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اورکچھ نہیں کررہے'' ایک ہوتا ہے ماضی کا تجزیہ کرنا اور ایک ہوتا ہے ماضی کو باربار دہرانا اور سب سے المناک ہوتا ہے ماضی کی پوجا کرنا ۔اگرآپ صرف پجاری بن کے رہ جائیں گے تو اس کا نتیجہ صرف اور صرف تعصب کی فضا پیداکرنے کے علاوہ اورکچھ نہیں نکل پائے گا ۔
ہم چونکہ صرف پجاری بن کر رہ گئے ہیں، اس لیے ہم سب تعصبی بن گئے ہیں ۔جس وقت یورپ میں صنعتی، سماجی اور ذہنی انقلاب کے باعث زندگی کا پرانا نظام دم توڑ رہا تھا اور انسان اپنے لیے ایک نیاماحول، نئی دنیا تخلیق کررہاتھا، ادھر برصغیر میں ہمارے مسلمان سلطان و بادشاہ ان تغیرات سے بے خبر اور بے نیازعالیٰ شان عمارتیں بنوانے، رقص وموسیقی کی محفلیں سجانے شعروسخن کی مجلسیں آراستہ کرنے زرق برق لباس پہننے اور عمدہ عمدہ کھانے پکوانے میں مصروف تھے، سلطنت کی آمدنی کا بڑا حصہ دربارکی شان و شوکت اور محلات شاہی کے مصارف پر خرچ ہورہا تھا۔
مصارف کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان علاؤ الدین خلجی کے محل میں غلاموں کی تعداد پچاس ہزار تھی جو فیروزشاہ تغلق کے عہد میں بڑھ کر دو لاکھ ہوگئی۔ ان کے علاوہ نجومی،جوتشی،گویے، سازندے، بھانڈ، مسخرے، لطیفہ گو، شاعر اور مولوی الگ تھے جن کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی ۔ سلطنت کے تمام بڑے بڑے عہدوں پر اہل دولت کی ہی اجارہ داری قائم تھی۔ اہل دولت بڑے ٹھاٹھ باٹ سے رہتے تھے ۔ زنان خانے میں کنیزیں اور خواجہ سرا، ڈیوڑھی پر غلام ، چوبدار، دربان ، دسترخوان پر مہمانوں کا ہجوم، پیادے سوار، ہاتھی،گھوڑے غرض کہ امراسلطنت کو چھوٹے پیمانے پر سہی مگر وہ تمام نعمتیں حاصل تھیں جن سے سلطان لطف اندوز ہوتے تھے ۔
عام رعایا کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنانا محنت کشوں کے ذرایع آمدنی میں اضافہ کرنا یا ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ان کے لیے درس گاہیں اور شفاخانے قائم کرنا یا روزگار فراہم کرنا سلطان یا امرائے سلطنت کے فرائض میں شامل نہ تھا اور ان سب کے لیے سلطنت نے کوئی ذمے دار ی نہ اٹھا رکھی تھی ۔ تب ہی تو امیر خسرو نے کہا تھا کہ '' تاج سلطانی کے ہر موتی میں دہقانوں کی آنکھوں سے بہنے والے خون کے قطروں کی آب وتاب جھلکتی ہے۔'' سلاطین کے بعد مغلوں کا دور آتا ہے لیکن سماجی اورمعاشی حیثیت سے عام مسلمانوں کی صحت پرکوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
عدل جہانگیری اور زنجیر عدل کی کہانیوں سے متاثر ہونے سے پہلے اس دورکے ایک یورپی سیاح پلیسے ٹرٹ کے سفر نامے پر نظر ڈال لیتے ہیں جو اس نے 1626 میں تحریر کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے ''عدالت میں ہر شخص ہاتھ پھیلائے مانگنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے کسی پر اس وقت تک نہ تو رحم کیا جاتا ہے اور نہ ترس کھایا جاتا ہے کہ جب تک وہ شخص رشوت نہ دے دے اس سلسلے میں ججوں اور عہدے داروں کو ہی قصور وار ٹہرانا مناسب نہیں ہے بلکہ یہ وبا طاعون کی طر ح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے ۔
چھوٹے سے لے کر بڑے تک یہاں تک کہ بادشاہ بھی اس میں ملوث ہے ہر شخص دولت کی ہوس میں اس قدر گرفتار ہے کہ اس کی خواہش کبھی پوری ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس لیے اگر کسی شخص کو عامل سے یا سر کار سے کچھ کام ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ رشوت کے لیے پیسوں کا بندوبست کرے بغیر تحفہ تحائف کے اس کی درخواست پر عمل درآمد ہونا ناممکن ہے یہ اس ملک کا رواج ہے۔''
پیلسے ٹرٹ نے اس دور کے امیر اور غریب کا جو فرق بتایا ہے اس میں ہمیں کہیں بھی اسلامی سلطنت نظر نہیں آتی بس ایک استحصال ہے جو طاقتور کا حق اور غریب کا مقدر ہے ۔ جب ہم شاندار ماضی یا سنہر ی دورکا ذکرکررہے ہوتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ جس میں تمام لوگ خوش حال رہے ہوں معاشرے میں مساوات، برداشت ، رواداری کا بول بالا رہا ہو وہ معاشرہ استحصال سے پاک رہاہو جہاں عقل ودانش کی حکمرانی رہی ہو ۔
بدقسمتی سے ہم کبھی بھی سنہری دورکو نہیں پاسکے ہیں اور کسی سنہری دور یا شاندار ماضی کا ہماری تاریخ میں کبھی بھی کوئی وجود نہیں رہا کل بھی عام لوگوں کے نصیب میں جھونپڑی ، افلاس ، بے اختیاری ، ذلت ،انتہاپسندی لکھی ہوئی تھی اور آج بھی یہ ہی سب کچھ مقدر بنا ہوا ہے نہ ہمارا ماضی سنہری دور تھا اور نہ ہمارا حال سنہری دور ہے ۔ کل بھی ہمارے نصیب میں گالیاں سننا لکھی ہوئی تھیں آج بھی گالیاں سننا ہمارا نصیب بنا ہواہے۔
یہاں ایک سیدھا سادا سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہماری فکری خانقائیں صدیوں سے اجڑی پڑی ہیں کیوں عقل دوستوں کا کال پڑا ہوا ہے کیوں عقل دشمن دندناتے پھرتے ہیں ہماری زمین اتنی بانجھ کیوں ہوگئی ہے ۔آج بھی رجعت پسند اور بنیاد پرست گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ جہاں عقل و دانش کا کوئی چراغ جلے تو جھپٹ کر اس پہ حملہ کردیں کیوں آج بھی جہالت کی تاریک کمین گاہیں آباد ہیں اور ان میں اتنی چہل پہل کیوں ہے کیوں آج بھی عقلیت پرستی ، روشن خیالی اور سیکولرازم کو کفر و بدعت سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں عجیب عجیب طریقوں سے سازشوں کے قمار خانے آج بھی چلائے جارہے ہیں کیوں ہم آج بھی عقل کو عقیدے کے زیر اثر رکھنے پر بضد ہیں کیوں ان شخصیتوں کو آج زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جنہوں نے اپنے عہد میں تفکر اور فکر اور عقل ودانش کی ہر طرح مزاحمت کی اور اہل دانش و مفکر ین کو ملزم و مجرم قرار دیا آخر یہ کیوں سب کچھ علم و تحقیق کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
ظاہرہے ہم ماضی میں واپس جاکر اپنی غلطیوں کی تصحیح تو نہیں کرسکتے لیکن ہم اگر سنہری دورکو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہرگز ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا ہوگا۔ اورہمیں ماضی سے چمٹنے کے بجائے حال میں رہنا ہوگا۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا بھرکی تمام قومیں جو آج اپنے سنہر ی دورسے لطف اندوز ہو رہی ہے ان سب نے اپنے ماضی کو خیر با دکہہ کر حال میں جینا سیکھ لیا ہے اور ساتھ ساتھ عقل کو عقیدے کی قید سے آزاد ی دلوا دی ،اس کے بعد انھیں خوشحالی ، آزادی ، ترقی ، مساوات نصیب ہوئی ۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے آئیں مل کر سوچیں لیکن یاد رکھیں کہ ہمارے پاس وقت بہت کم بچا ہے ۔
ہم چونکہ صرف پجاری بن کر رہ گئے ہیں، اس لیے ہم سب تعصبی بن گئے ہیں ۔جس وقت یورپ میں صنعتی، سماجی اور ذہنی انقلاب کے باعث زندگی کا پرانا نظام دم توڑ رہا تھا اور انسان اپنے لیے ایک نیاماحول، نئی دنیا تخلیق کررہاتھا، ادھر برصغیر میں ہمارے مسلمان سلطان و بادشاہ ان تغیرات سے بے خبر اور بے نیازعالیٰ شان عمارتیں بنوانے، رقص وموسیقی کی محفلیں سجانے شعروسخن کی مجلسیں آراستہ کرنے زرق برق لباس پہننے اور عمدہ عمدہ کھانے پکوانے میں مصروف تھے، سلطنت کی آمدنی کا بڑا حصہ دربارکی شان و شوکت اور محلات شاہی کے مصارف پر خرچ ہورہا تھا۔
مصارف کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان علاؤ الدین خلجی کے محل میں غلاموں کی تعداد پچاس ہزار تھی جو فیروزشاہ تغلق کے عہد میں بڑھ کر دو لاکھ ہوگئی۔ ان کے علاوہ نجومی،جوتشی،گویے، سازندے، بھانڈ، مسخرے، لطیفہ گو، شاعر اور مولوی الگ تھے جن کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی ۔ سلطنت کے تمام بڑے بڑے عہدوں پر اہل دولت کی ہی اجارہ داری قائم تھی۔ اہل دولت بڑے ٹھاٹھ باٹ سے رہتے تھے ۔ زنان خانے میں کنیزیں اور خواجہ سرا، ڈیوڑھی پر غلام ، چوبدار، دربان ، دسترخوان پر مہمانوں کا ہجوم، پیادے سوار، ہاتھی،گھوڑے غرض کہ امراسلطنت کو چھوٹے پیمانے پر سہی مگر وہ تمام نعمتیں حاصل تھیں جن سے سلطان لطف اندوز ہوتے تھے ۔
عام رعایا کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنانا محنت کشوں کے ذرایع آمدنی میں اضافہ کرنا یا ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ان کے لیے درس گاہیں اور شفاخانے قائم کرنا یا روزگار فراہم کرنا سلطان یا امرائے سلطنت کے فرائض میں شامل نہ تھا اور ان سب کے لیے سلطنت نے کوئی ذمے دار ی نہ اٹھا رکھی تھی ۔ تب ہی تو امیر خسرو نے کہا تھا کہ '' تاج سلطانی کے ہر موتی میں دہقانوں کی آنکھوں سے بہنے والے خون کے قطروں کی آب وتاب جھلکتی ہے۔'' سلاطین کے بعد مغلوں کا دور آتا ہے لیکن سماجی اورمعاشی حیثیت سے عام مسلمانوں کی صحت پرکوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
عدل جہانگیری اور زنجیر عدل کی کہانیوں سے متاثر ہونے سے پہلے اس دورکے ایک یورپی سیاح پلیسے ٹرٹ کے سفر نامے پر نظر ڈال لیتے ہیں جو اس نے 1626 میں تحریر کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے ''عدالت میں ہر شخص ہاتھ پھیلائے مانگنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے کسی پر اس وقت تک نہ تو رحم کیا جاتا ہے اور نہ ترس کھایا جاتا ہے کہ جب تک وہ شخص رشوت نہ دے دے اس سلسلے میں ججوں اور عہدے داروں کو ہی قصور وار ٹہرانا مناسب نہیں ہے بلکہ یہ وبا طاعون کی طر ح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے ۔
چھوٹے سے لے کر بڑے تک یہاں تک کہ بادشاہ بھی اس میں ملوث ہے ہر شخص دولت کی ہوس میں اس قدر گرفتار ہے کہ اس کی خواہش کبھی پوری ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس لیے اگر کسی شخص کو عامل سے یا سر کار سے کچھ کام ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ رشوت کے لیے پیسوں کا بندوبست کرے بغیر تحفہ تحائف کے اس کی درخواست پر عمل درآمد ہونا ناممکن ہے یہ اس ملک کا رواج ہے۔''
پیلسے ٹرٹ نے اس دور کے امیر اور غریب کا جو فرق بتایا ہے اس میں ہمیں کہیں بھی اسلامی سلطنت نظر نہیں آتی بس ایک استحصال ہے جو طاقتور کا حق اور غریب کا مقدر ہے ۔ جب ہم شاندار ماضی یا سنہر ی دورکا ذکرکررہے ہوتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ جس میں تمام لوگ خوش حال رہے ہوں معاشرے میں مساوات، برداشت ، رواداری کا بول بالا رہا ہو وہ معاشرہ استحصال سے پاک رہاہو جہاں عقل ودانش کی حکمرانی رہی ہو ۔
بدقسمتی سے ہم کبھی بھی سنہری دورکو نہیں پاسکے ہیں اور کسی سنہری دور یا شاندار ماضی کا ہماری تاریخ میں کبھی بھی کوئی وجود نہیں رہا کل بھی عام لوگوں کے نصیب میں جھونپڑی ، افلاس ، بے اختیاری ، ذلت ،انتہاپسندی لکھی ہوئی تھی اور آج بھی یہ ہی سب کچھ مقدر بنا ہوا ہے نہ ہمارا ماضی سنہری دور تھا اور نہ ہمارا حال سنہری دور ہے ۔ کل بھی ہمارے نصیب میں گالیاں سننا لکھی ہوئی تھیں آج بھی گالیاں سننا ہمارا نصیب بنا ہواہے۔
یہاں ایک سیدھا سادا سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہماری فکری خانقائیں صدیوں سے اجڑی پڑی ہیں کیوں عقل دوستوں کا کال پڑا ہوا ہے کیوں عقل دشمن دندناتے پھرتے ہیں ہماری زمین اتنی بانجھ کیوں ہوگئی ہے ۔آج بھی رجعت پسند اور بنیاد پرست گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ جہاں عقل و دانش کا کوئی چراغ جلے تو جھپٹ کر اس پہ حملہ کردیں کیوں آج بھی جہالت کی تاریک کمین گاہیں آباد ہیں اور ان میں اتنی چہل پہل کیوں ہے کیوں آج بھی عقلیت پرستی ، روشن خیالی اور سیکولرازم کو کفر و بدعت سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں عجیب عجیب طریقوں سے سازشوں کے قمار خانے آج بھی چلائے جارہے ہیں کیوں ہم آج بھی عقل کو عقیدے کے زیر اثر رکھنے پر بضد ہیں کیوں ان شخصیتوں کو آج زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جنہوں نے اپنے عہد میں تفکر اور فکر اور عقل ودانش کی ہر طرح مزاحمت کی اور اہل دانش و مفکر ین کو ملزم و مجرم قرار دیا آخر یہ کیوں سب کچھ علم و تحقیق کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
ظاہرہے ہم ماضی میں واپس جاکر اپنی غلطیوں کی تصحیح تو نہیں کرسکتے لیکن ہم اگر سنہری دورکو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہرگز ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا ہوگا۔ اورہمیں ماضی سے چمٹنے کے بجائے حال میں رہنا ہوگا۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا بھرکی تمام قومیں جو آج اپنے سنہر ی دورسے لطف اندوز ہو رہی ہے ان سب نے اپنے ماضی کو خیر با دکہہ کر حال میں جینا سیکھ لیا ہے اور ساتھ ساتھ عقل کو عقیدے کی قید سے آزاد ی دلوا دی ،اس کے بعد انھیں خوشحالی ، آزادی ، ترقی ، مساوات نصیب ہوئی ۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے آئیں مل کر سوچیں لیکن یاد رکھیں کہ ہمارے پاس وقت بہت کم بچا ہے ۔