کب کے بچھڑے ہوئے۔۔۔ وہ گم شدہ رشتے دار جو آخرکار پھر مل گئے

مضمون میں ان لوگوں کے قصے شامل ہیں جو ایک روز اچانک کہیں غائب ہوگئے تھے،گم شدگی نے انکے عزیزوں کوتوڑ کر رکھ دیا تھا

مضمون میں ان لوگوں کے قصے شامل ہیں جو ایک روز اچانک کہیں غائب ہوگئے تھے،گم شدگی نے انکے عزیزوں کوتوڑ کر رکھ دیا تھا:فوٹو : فائل

ہم سب اپنے پیاروں کو اتنا زیادہ چاہتے ہیں کہ ان کی گم شدگی کسی صورت برداشت نہیں کرپاتے۔ جب وہ کسی دن یکایک ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں تو ہم پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ اس کا زیادہ اثر ہماری روح پر ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پیارے کیا گئے، ہماری روح کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ایسے لوگوں کے بغیر زندگی ادھوری اور بے کار ہوجاتی ہے، لیکن اگر کسی دن اچانک وہ لوگ پھر سے دکھائی دے جائیں تو ہم ایک بار پھر جی اٹھتے ہیں۔

اس مضمون میں ان لوگوں کے قصے شامل ہیں جو ایک روز اچانک کہیں غائب ہوگئے تھے، ان کی اس گم شدگی نے ان کے عزیزوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ تاہم انہیں امید تھی کی ایک نہ ایک دن وہ ان بچھڑوں سے ضرور ملیں گے، ان کی یہ امید کبھی نہ ٹوٹی اور پھر واقعی وہ انہیں دوبارہ مل گئے، بالکل ایسے ہی جیسے سمندر میں ڈوبی ہوئی کوئی چیز اچانک سطح پر نمودار ہوجائے۔

1 ۔سارو نے اپنی ماں کو ڈھونڈ لیا

یہ واقعہ انڈیا کا ہے۔ سارو اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ رہتا تھا کہ وہ گم ہوگیا۔ سارو کی ماں کا اس کی یاد میں رو رو کر برا حال ہوگیا۔ ایک بار ایک نجومی نے سارو کی ماں کو بتایا تھا کہ وہ اپنے گم شدہ بیٹے سے اپنی زندگی میں ضرور ملے گی۔ چناں چہ وہ بے چاری اس سے ملنے کی آس پر زندہ رہی۔ سارو پانچ سال کی عمر میں اس وقت گم ہوگیا تھا جب وہ ٹرین کے سفر کے دوران اپنی ماں کی گود میں سورہا تھا کہ اس کی ماں کی آنکھ لگ گئی۔

اسی دوران ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی تو سارو اٹھا اور ٹرین سے اتر گیا۔ ٹرین ایک بار پھر چل پڑی۔ اس سفر میں اس کا بڑا بھائی بھی اس کے ساتھ تھا۔ جب ان لوگوں کی منزل آئی تو سارو کی ماں اور بڑا بیٹا سارو کو ساتھ نہ پاکر پریشان ہوگئے۔ انہوں نے اس کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ کہیں نظر نہ آیا۔ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی تلاش میں دور نکل گیا اور ماں سے بچھڑ گیا۔ ایک ماہ بعد اس کے بھائی کی لاش ٹرین کی پٹریوں کے درمیان پڑی ہوئی مل گئی۔

پانچ سال کا بچہ کیا ہوتا ہے، کچھ بھی نہیں، سارو نے اس اسٹیشن پر جو پہلی ٹرین دیکھی، وہ اس میں سوار ہوگیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ سیدھی اسے اس کی ماں کے پاس پہنچادے گی۔ مگر وہ ٹرین اسے کلکتہ لے گئی جس کا موجودہ نام کولکلتہ ہے۔ کلکتہ سارو کے آبائی علاقے کھنڈوا (انڈیا) سے 1200کلومیٹر دور ہے۔

ایک تو کم عمر، پھر لکھنے پڑھنے سے محروم سارو ایک فقیر کی حیثیت سے کلکتہ کی خطرناک گلیوں اور سڑکوں پر پلنے لگا۔ اس کم عمری میں اس نے انسانیت کی بدصورتی بھی دیکھ لی تھی۔ وہ بچوں کے شکاریوں کو پہچان لیتا تھا جو ایسے بچوں کو اغوا کرکے ان سے بھیک منگواتے تھے۔

پھر ایک روز وہ یتیم خانے پہنچ گیا۔ وہاں اس کی ملاقات تسمانیہ کی ایک فیملی سے ہوئی جو اسے گود لینا چاہتے تھے۔ سارو جو اپنی ماں اور بھائی سے ملنے کے خیال سے بالکل ہی مایوس ہوچکا تھا، وہ ان کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوگیا اور آسٹریلیا چلا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ آسٹریلیا کے عیش و آرام نے اسے اتنا سکون دیا کہ سارو کلکتہ میں گزرے مشکل شب و روز بھول گیا، مگر پھر بھی ماں کی یاد اس کے دل کو تڑپاتی رہتی تھی۔ وہ اس شفیق ہستی کو کبھی نہ بھول سکا جس نے اسے اپنی بانہوں میں جھلایا تھا۔

جب وہ بالغ ہوگیا تو اس نے اپنی زندگی کا مقصد اپنی ماں کی تلاش کو بنالیا۔ اسے گزری زندگی کی کچھ باتیں یاد تھیں، ان کی مدد سے اس نے گوگل ارتھ پر اپنا گھر تلاش کرنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی وہ انڈیا کی ٹرینوں کی بابت معلومات بھی جمع کرتا رہا۔ کچھ عرصے کی محنت کے بعد آخر اس نے اپنا آبائی وطن کھنڈوا تلاش کر ہی لیا۔

اپنی گم شدگی کے کم و بیش 26سال بعد یعنی 2012میں سارو اپنی ماں کی تلاش میں انڈیا کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس نے اپنا گھر تو ڈھونڈ لیا، مگر اس کی ماں وہ گھر چھوڑ چکی تھی۔ سارو نے ہمت نہ ہاری، وہ مسلسل کوشش کرتا رہا اور پھر اسے ایک ایسا فرد مل گیا جو سارو کو اس کی ماں کے پاس لے گیا۔ اس طرح چوتھائی صدی کے بعد سارو کے بقول:''میں کسی بھوت کی طرح دوبارہ نمودار ہوگیا۔'' اس کی بوڑھی اور حیران و پریشان ماں نے اسے اپنی بانہوں میں اس قدر سختی سے جکڑ لیا کہ کہیں وہ دوبارہ گم نہ ہوجائے۔

2 ۔ وہ چلا تو گیا، مگر بُھلایا نہ جاسکا
اسے کچھ یاد نہیں تھا کہ اس نے کہاں، کب اور کیسے آنکھ کھولی، اس نے تو خود کو شکاگو کی سڑکوں پر بے گھری کی حالت میں پایا تھا۔ اس کے پاس شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔ اپنی شناخت کے حوالے سے اسے صرف ایک نام یاد تھا: جے ٹاور، یہ نام اس کے دماغ پر اکثر دستک دیتا رہتا تھا۔ اسے پیسیفک گارڈن مشن میں پناہ ملی تھی، جہاں اس نے ادارے کے ایک ملازم کے کندھے پر سر رکھ کر سسکتے ہوئے اسے اپنے مشکل حالات سے آگاہ کیا تھا۔

پھر اسی گارڈن مشن میں جے کے ایک دوست نے اس کی تھوڑی بہت مدد کی اور اسے ''جے ٹاور'' کے بارے میں بتایا۔ ''جے ٹاور'' اصل میں نیویارک کا ریمنڈ پاور تھا جو لگ بھگ سات ماہ پہلے گم ہوگیا تھا۔ لیکن پاور اسے نہ سمجھ سکا۔ اس کی بیوی بھی تھی، بچے بھی اور ایک بہن بھی، وہ سب اس کی واپسی کے منتظر تھے۔

اصل کہانی یہ تھی کہ یکم اگست 2005کو 58سالہ قانون داں بہ ظاہر اپنے کام سے واپسی پر یوں غائب ہوگیا تھا جیسے سایوں میں گم ہوگیا ہو۔ اس کے کریڈٹ کارڈ کی ایکٹیوٹی بتارہی تھی کہ اس نے اپنا وقت پنسلوانیا اور اوہایو میں گزارا تھا۔ لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ اس کی گم شدگی کے بارے میں لوگوں کے صرف قیاس ہی تھے، لیکن عملی طور پر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کب اور کیسے کہاں چلا گیا۔ ریمنڈ پاور ویت نام کی جنگ میں حصہ لے چکا تھا اور سابق پولیس سارجنٹ تھا، جو زندگی کے بدترین دور سے گزرا تھا۔

2001میں وہ9/11کے سانحے میں بال بال بچا تھا۔ اس روز وہ اپنے کام سے جلد واپس آگیا تھا۔ برسوں وہ اس خیال میں گم رہا اور خود سے یہ پوچھتا رہا کہ وہ اس عمارت سے باہر کیوں نکل آیا تھا جہاں بہت سے دوسرے لوگ موجود تھے اور وہ سب اپنی جانوں سے گئے۔ اس دکھ نے پاور کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور وہ ایک نفسیاتی الجھاؤ میں مبتلا ہوگیا۔ اس کیفیت میں اس کا سر ہر وقت گھومتا رہتا تھا، اسے چکر آتے رہتے تھے۔ چناں چہ اسے اس کے گھر تو پہنچادیا گیا، مگر پھر بھی اس کی یادداشت واپس نہ آسکی۔ لیکن اس موقع پر پاور کی بہن سوسن نے اعلان کیا:''کسی اور کو خوشی ہو یا نہ ہو، مگر ہم سب اس کی واپسی سے بہت خوش ہیں اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔''

3 ۔جُڑواں اور ہم شکل
کولمبیا میں ہم شکل جڑواں بھائیوں کے دو سیٹ یعنی چار بھائی رہتے تھے۔ ان میں سے ہر جوڑے میں ایک بھائی حادثاتی طور پر پیدائش کے وقت بدل گیا تھا۔ بدلے جانے والے بچوں میں سے ایک بچہ کارلوس البرٹو برنل کاسٹرو اسکول میں بہت کام یاب رہا، اس نے تعلیم میں نمایاں کام یابی حاصل کی۔ اسے ایک بہت اچھی ملازمت بھی مل گئی، مگر دوسرا ولیم کینس اس شعبے میں ناکام رہا، اس نے گزر بسر کے لیے اپنا خاندانی فیلڈ ورک اپنایا جو بہت کٹھن تھا۔ بعد میں وہ ایک فوڈ مارکیٹ میں قسائی کا کام کرنے لگا۔

اب صورت حال یہ ہوئی کہ بعد میں پتا چلا کہ جس بھائی یعنی ولبر کینس ویلاسکو کو ولیم اپنا جڑواں بھائی سمجھتا تھا، وہ اس کا بھائی نہیں تھا بل کہ اس کا جڑواں بھائی تو جارج برنل کاسٹرو تھا، جو بگوٹا میں لارا ویگا گارزن نامی خاتون کے ساتھ کام کرتا تھا۔ ایک روز اس کی دوست لارا اس کے اسٹور میں یکایک ولیم کے سامنے آگئی، وہ شہر کے دوسرے حصے میں واقع اسٹور میں اپنی ایک دوست جینٹ سے ملنے گئی تھی۔ لارا کو اسے وہاں دیکھ کر غصہ آگیا اور وہ سوچنے لگی کہ ولیم اس کے ساتھ ڈبل کراس کر رہا ہے۔ یہ سوچ کر وہ ناراض اور مشتعل ہوگئی۔

اس حادثاتی ملاقات کے بعد جینٹ کو لارا کی اسی بلڈنگ میں ملازمت مل گئی جہاں اس نے جارج کو دیکھا تھا۔ جینٹ سمجھ گئی کہ یہ سب لارا کی غلط فہمی ہے۔ اس کے چہرے کے نقوش، بولنے اور بات چیت کا طریقہ، چلنے کا انداز سب کچھ الجھانے والا ہی تو تھا۔ ولیم اور جارج اس قدر مشابہت رکھتے تھے کہ انہیں دیکھتے ہی ہر انسان پریشان ہوسکتا تھا۔

پھر جینٹ اور لارا نے پروگرام بنایا کہ وہ ولیم اور جارج کو ان کی تصویریں دکھائیں گی، تاکہ وہ خود بھی سمجھ سکیں کہ وہ دونوں کس حد تک ایک ہیں۔ اس کے بعد تاریخ کا گُم شدہ باب کُھلنے لگا۔ جلد ہی ولیم اور جارج ایک دوسرے کے بارے میں جاننے لگے اور ایک دوسرے کی ابتدائی زندگیوں کا کھوج لگانے لگے، جس کے نتیجے میں ان پر جو کچھ انکشافات ہوئے، انہوں نے دونوں ہی کو ہلاکر رکھ دیا۔

ولیم کا بھائی ولبر جارج کے بھائی کارلوس سے سو فی صد ملتا تھا۔ یہ چاروں لگ بھگ ایک ہی اسپتال میں ایک ہی وقت پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے مزید چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ وہ واقعی بچھڑ گئے تھے۔ اس کے بعد ان چاروں نے اس نئی حقیقت کو بڑی مشکل سے قبول کرلیا، مگر اس کے لیے انہیں اپنے آپ سے بہت لڑنا پڑا اور خاصی ذہنی مشقت بھی کرنی پڑی۔

ڈی این اے ٹیسٹ سے ان حقائق کی توثیق ہوتی چلی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے مزید جاننے کے لیے ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ کھوج لگائی اور ماہرین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ وقت گزرتا رہا اور پھر وہ چاروں ایک دوسرے کے بہت قریب آتے چلے گئے تب یہ پتا چلا کہ وہ ایک نہیں بل کہ دو جڑواں بھائی تھے۔

4 ۔میوزک نے ملادیا
یہ 2015کے موسم گرما کی بات ہے، فلوریڈا کے شہر ساراسوٹا میں ایک کم زور، بوڑھے اور برسوں سے سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے والے شخص نے پیانو بجاکر اپنے گم شدہ بیٹے کو ڈھونڈ لیا۔ اس بوڑھے شخص کا نام تھا: ڈونلڈ گولڈ، جو بے گھر تھا، مگر راتوں رات اسٹار بن گیا۔ ہر وقت بھوک سے نڈھال دکھائی دینے والا، دبلا پتلا اور سڑک پر پڑا رہنے والا ڈونلڈ گولڈ ایسا پیانو بجاسکتا ہے، یہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا، وہ سب ہی اس کی اس صلاحیت کے بارے میں جان کر حیران رہ گئے۔

اس نے اپنے پیانو پر ''کم سیل اوے'' نامی گیت کا ایسا میوزیکل نوٹ پیش کیا کہ لوگوں کا ہجوم اس کے گرد جمع ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گولڈ کو 68,000افراد کے سامنے لیوی اسٹیڈیم میں ''دی اسٹار اسپینگلڈ بینر'' پر پرفارم کرنے کا موقع ملا۔ یہ وہ موقع تھا جس کی وجہ سے ڈونلڈ گولڈ کو اپنے بیٹے تک پہنچنے کا راستہ مل گیا۔

ڈونلڈ گولڈ نے پندرہ سال سے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا تھا۔ ڈونلڈ گولڈ ایک سابق جہازراں تھا جو 1998 میں اپنی محبوب بیوی کی موت کے بعد سے سخت مشکلات میں گِھر گیا تھا۔ اپنے غموں سے نجات پانے کے لیے وہ منشیات کی لعنت میں بھی مبتلا ہوگیا۔ پھر برسوں پہلے اس کا واحد نوجوان بیٹا بھی کہیں کھوگیا تھا۔ یہ دونوں صدمے ڈونلڈگولڈ کے لیے ناقابل برداشت تھے، چناں چہ وہ سب کچھ چھوڑ کر سڑکوں پر آگیا اور بے گھری کی زندگی بسر کرنے لگا۔

ویسے تو ڈونلڈ گولڈ ہر چیز سے محروم ہوچکا تھا، مگر وہ اپنی اس صلاحیت سے محروم نہ ہوا جو خدا نے اسے قدرتی طور پر عطا کی تھی۔ پیانو پر اس کی دست رس پہلے کی طرح برقرار رہی۔ وہ بہت اچھا پیانو نواز تھا۔ اس سے پہلے وہ میوزک اسکول اور بحریہ میں بھی اس مہارت کا بارہا اظہار کرچکا تھا۔

چناں چہ اس نے اپنی پیانو بجاتی ہوئی وڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی۔ اسے امید تھی کہ شاید اس کا بیٹا کسی نہ کسی طرح اس کے بارے میں جان لے اور اسے تلاش کرلے۔ ڈونلڈ گولڈ کے 18سالہ بیٹے ڈونی نے اپنے باپ کی یہ وڈیو دیکھ لی اور وڈیو چیٹ کے ذریعے اس سے بات بھی کرلی۔ ڈونی صرف تین سال کا تھا جب وہ اپنے باپ سے جدا ہوا تھا، مگر اب وہ ان سے ملنا چاہتا تھا۔ برسوں سے وہ اپنے ماں باپ کو یاد بھی کرتا تھا اور ان سے ملنا بھی چاہتا تھا، مگر اسے کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ ویسے تو ڈونلڈ گولڈ بھی اپنے بیٹے کو تلاش کرنا چاہتا تھا، مگر جب یہ رابطہ ہوا تو اسے کچھ زیادہ خوشی نہیں ہوئی، کیوں کہ اس وقت تک مایوسی نے اسے اس حد تک اپنی گرفت میں لے لیا
تھا کہ اب یہ خوشی بھی اسے خوشی نہ دے سکی۔ جب اس کی اپنے بیٹے سے ملاقات ہوئی تو اس نے سرسری انداز سے کہا:''مجھے اسی میوزک نے دنیا بھر کے لوگوں سے متعارف کرایا، میں نے 21سال کی عمر سے پہلے ہی شہرت حاؒصل کرلی تھی اور آج اسی میوزک نے مجھے میرے بیٹے سے بھی ملادیا۔''

5 ۔دو بھائیوں کا ملن
جب فرینک ہالینڈ کی عمر 83سال ہوئی تو وہ بالکل اکیلا ہوچکا تھا۔ اس کے پاس نہ دوست رہے تھے اور نہ عزیز رشتے دار، اس کی بیوی بھی کوئی آٹھ سال پہلے مرچکی تھی، اس کے بیش تر دوست بھی دنیا سے جاچکے تھے۔ اب ہر طرف یادوں کا ایک طوفان تھا جنہوں نے فرینک کے ذہن کو مفلوج کردیا تھا۔ پھر وہ جِلد کے کینسر میں بھی مبتلا ہوگیا جس کا علاج بھی جاری تھا۔ اس موقع پر میرین اسمتھ نامی نرس فرینک کی واحد بہی خواہ تھی جو فرینک سے باتیں کرتی تھی اور اس کی باتیں سنتی تھی۔ فرینک کو میرین پر بہت بھروسا تھا، اس نے نرس کو بتایا تھا کہ کس طرح اس کے دوست اور عزیز اس کی زندگی سے نکلتے چلے گئے۔


میرین یہ جان کر حیران رہ گئی کہ فرینک نے 70سال سے اپنے کسی بہن بھائی (خونی رشتے داروں) کو نہیں دیکھا ہے۔ ان میں فرینک کا بڑا بھائی جان ہالینڈ جونیر بھی شامل تھا، یہ دونوں بھائی شدید ڈپریشن کا شکار رہے اور ان کی زندگیاں مشکل حالات میں گزر رہی تھیں۔ ان کے باپ نے بھی پوری زندگی سخت تکلیف میں گزاری، ان کی ماں بھی زندگی بھر مالی پریشانیوں میں ہی گِھری رہی، آخر تنگ آکر اس نے فرینک کو چھوڑ دیا جسے ایک بے بی سٹر نے پالا پوسا اور بعد میں ایک یتیم خانے میں داخل کرادیا۔

بعد میں فرینک کے باپ نے اپنے بیٹے کو دوبارہ حاصل کرلیا۔ ہوا یوں کہ وہ بچوں کے ایک گھر (ادارے) میں پہنچا جہاں اس کا بھائی بھی رہتا تھا۔ اس طرح دونوں بھائی مل گئے اور انہوں نے سات سال وہاں اکٹھے گزارے، لیکن پھر حالات بدل گئے۔ فرینک کی آنٹی منظر نامے میں نمودار ہوئیں اور فرینک کو اپنے ساتھ لے گئیں۔

جب وہ بالغ ہوا تو فوج میں چلا گیا۔ جان اور فرینک ہمیشہ ہی اس امید پر زندہ رہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو ضرور تلاش کرلیں گے، مگر وقت گزرتا رہا، عشرے پر عشرے گزر گئے، مگر وہ نہ مل سکے۔ وہ شاید ایک دوسرے سے کبھی نہ مل پاتے، اگر فرینک نے اس نرس کو اپنا رازدار نہ بنایا ہوتا۔ وہ گبریل البرٹ نام کے ایک لیب اسسٹنٹ کو جانتی تھی جو کسی زمانے میں ایک نجی سراغ رساں تھا۔ وہ فرینک کے بھائی کو تلاش کرنے پر تیار ہوگیا۔

اس نے گوگل کی معاونت اور اپنے تجربے کو کام میں لاتے ہوئے تیزی سے کام شروع کیا اور جلد ہی اس نے جان کو تلاش کرلیا اور دونوں بھائیوں کی فون پر بات کرادی۔ 1940 کی دہائی کے بعد انہوں نے پہلی بار بات کی تھی۔ بعد میں بھی انہوں نے کئی بار فون پر بات کی اور آخر کار وہ دونوں ایک دوسرے سے مل گئے۔ جب وہ ملے تو بہت خوش تھے، وہ رو بھی رہے تھے اور قہقہے بھی لگارہے تھے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنے طویل عرصے بعد وہ ایک دوسرے سے مل چکے ہیں۔

6 ۔ناقابل یقین اتفاق
ہولی ہوئیل او برائن کو اس کے امریکی رضاعی ماں باپ نے جنوبی کوریا کے ایک یتیم خانے سے گود لیا تھا۔ وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی کہ ایک روز بڑی عجیب بات ہوئی۔ ہولی سوتے سوتے اٹھی اور روتے ہوئے کہنے لگی:میری ایک بہن بھی ہے، مجھے اس کو تلاش کرنا ہے۔''

اس کے ماں باپ اس انکشاف پر حیران رہ گئے۔ انہوں نے پہلے تو اسے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن جب وہ نہ مانی تو انہوں نے جنوبی کوریا کے اس یتیم خانے سے رابطہ کیا جہاں سے اسے گود لیا تھا۔ یتیم خانے والوں نے پوری جانچ پڑتال کے بعد بتایا کہ انہیں اس کی کسی بہن کا کوئی علم نہیں اور یہ کہ ہولی ہی اس سلسلے میں کچھ بتاسکتی ہے۔

ہولی کا پیدائشی نام شن تھا۔ وہ اپنے باپ اور سوتیلی بہن آیون کے ساتھ جنوبی کوریا میں رہتی تھی۔ لیکن یہ دونوں بہنیں بہت کم وقت ساتھ رہیں، کیوں کہ ان کا باپ بلا کا شراب نوش تھا، اسی لیے آیون کی ماں نے اپنی بیٹی کو اس ماحول سے نکال لیا، اب ہولی اپنے شرابی باپ کے ساتھ اکیلی رہ گئی، مگر کچھ ہی عرصے بعد اس کا باپ ٹرین کے حادثے میں مارا گیا تو ہولی کو یتیم خانے میں داخل کرنا پڑا جہاں اسے ایک امریکی جوڑے نے گود لے لیا۔

اب ہولی اپنی سوتیلی بہن آیون کو تلاش کرنا چاہتی تھی، مگر کسی بھی ٹھوس ثبوت یا دستاویز کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا۔ ہولی کو فلوریڈا کے شہر ساراسوٹا کے ایک اسپتال میں بہ طور سرجیکل نرس کام کرنے کا موقع ملا تو اس نے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہاں میگان سے اس کی دوستی ہوگئی۔ میگان کا تعلق بھی ہولی کی طرح جنوبی کوریا سے تھا۔ وہ فزیکل تھراپی اسسٹنٹ تھی، دونوں کے مزاجوں میں یکسانیت تھی، اس لیے جلد دوست بھی بن گئیں۔

آپس کی ملاقاتوں سے پتا چلا کہ دونوں ہی جنوبی کوریا کے یتیم خانے میں رہی تھیں اور ایک ہی شہر میں رہتی تھیں۔ میگان نے بتایا کہ پہلے وہ بھی جنوبی کوریا میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی جس نے بعد میں اسے یتیم خانے میں داخل کرادیا تھا اور اسے بھی ہولی کی طرح امریکی جوڑے نے گود لیا تھا۔ایک دن جب ہولی نے میگان سے اس کا پیدائشی نام پوچھا تو اس نے جواب دیا: آیون۔ یہ سن کر ہولی خوشی سے اچھل پڑی۔ جس بہن کو وہ تلاش کررہی تھی، وہ اسی کے اسپتال میں، اسی کے ڈپارٹمنٹ میں اس کے ساتھ کام کر رہی تھی اور اسے پتا نہیں تھا۔ اس روز اس نے کہا:''مجھے پتا نہیں تھا کہ خدا اپنے بندوں پر اس طرح بھی مہربان ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں پوشیدہ خواہشات کو سنتا ہے اور پھر ان کی دعائیں قبول کرلیتا ہے۔ میں خوش ہوں کہ اپنی بہن سے مل گئی ہوں۔''

7 ۔وہ یتیم نہیں تھا
برطانیہ اور آسٹریلیا کی حکومتوں کے درمیان1920 کے عشرے سے لے کر 1950 کے عشرے تک ایک عجیب و غریب معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت اچھی نسل کے سفید فام بچوں کو آسٹریلیا بھیجنا تھا، جہاں چرچ میں ان کی تربیت کی جانی تھی۔ چناں چہ آئرلینڈ کے یتیم خانوں سے کم و بیش 130سفید فام بچوں کو آسٹریلوی گرجا گھروں کو بھجوایا گیا۔ بچے بے چارے تو کیا کہتے، وہ مجبور اور لاچار تھے، اس لیے ان کے ساتھ غیرملکی کیتھولک عہدے داروں نے جی بھر کے بدسلوکی کی۔ بعض بچے تو واقعی یتیم تھے، مگر ان میں پیڈی جیسے بچے بھی تھے جو یتیم نہیں تھا، مگر اس سے کئی دہائیوں تک مسلسل یہ جھوٹ بولا گیا کہ وہ یتیم ہے، اس دنیا میں اس کا کوئی نہیں ہے۔

1940کی دہائی میں پیڈی آسٹریلیا گیا، اس وقت اس کی عمر دس برس تھی۔ پیڈی کی ماں نے جب اسے راہباؤں کی نگرانی میں دیا تھا، اس وقت وہ صرف دو ہفتے کا تھا اور ایک پادری نے اسے مائیگریشن پروگرام کے لیے منتخب کیا تھا۔ دیگر بچوں کی طرح پیڈی کو بھی Australia's Sisters of Nazareth کی سرپرستی میں دے دیا گیا جنہوں نے اسے تربیت دے کر ایک اچھا کیتھولک بنانے کی کوشش کی۔لیکن نہ جانے کیوں بعد میں ان راہباؤں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس بچے کو اس کے بارے میں سب کچھ سچ بتانے کے بجائے شروع سے ہی جھوٹ بولا جائے اور یہی ہوا۔ یہ راہبائیں بار بار پیڈی سے یہ کہتی رہیں:''تمہارا پورا خاندان مرچکا ہے۔''

دوسری جانب پیڈی کا دل کہتا تھا کہ یہ سچ نہیں ہے اور یہ کہ تمام راہبائیں اس سے جھوٹ بول رہی ہیں، لیکن چوں کہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے وہ انہیں جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکا۔ پیڈی کو یہ سچ جاننے میں پورے 46 برس لگ گئے۔ یہ 2009کی بات ہے جب پیڈی کے ہاتھ وہ خط لگ گیا جو اس کی ماں نے ان راہباؤں کو لکھا تھا جس میں ان سے پیڈی کی پرورش کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

مگر ان راہباؤں نے اسے یتیم بنادیا۔ پھر کئی عشروں بعد یعنی 1997میں جب پیڈی نے ان سے اس ضمن میں بات کی تو وہ راہبائیں خط کے بارے میں بالکل انجان بن گئیں۔ انہوں نے یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ اس کی ماں نے انہیں کوئی خط لکھا تھا۔ اگر وہ راہبائیں سچ مان لیتیں تو شاید پیڈی اپنی ماں کو اس کی موت سے پہلے دیکھ لیتا جو 1999 میں مرگئی تھی۔

بہ ظاہر تو ماں کی موت کے بعد یہ باب بند ہوگیا، مگر بعد میں اس نے ان راہباؤں کو ایک خط لکھا جس میں انہیں خوب بددعائیں دیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ اپنی ماں کو زندہ نہ دیکھ سکا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اسی شہر میں پیڈی کو اپنے متعدد رشتے دار مل گئے جن میں سے بعض نے اس نئے رشتے دار کو خوش آمدید کہا اور بعض نے واجبی خوشی ظاہر کی، مگر پیڈی بہرحال سچ تک پہنچ گیا تھا کہ وہ یتیم نہیں تھا، بل کہ اسے زبردستی یتیم بنایا گیا تھا۔

8 ۔تین چڑیلیں
ان تینوں لڑکیوں کے نام انجلا، بیٹی اور کیرل تھے جو بڑی ہوکر سوسن، ڈیبی اور جینا بن گئیں، مگر اپنے بڑے بھائی اورلینڈو کے نزدیک وہ ''تین چڑیلیں'' تھیں۔ پانچ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے تک وہ اورلینڈو سے رابطے میں نہ رہیں۔ اس دوری کی وجہ ان کا سوتیلا باپ کیلون تھا جو ایک آوارہ گرد تھا اور متعدد بینک ڈکیتیوں میں پولیس کو مطلوب تھا۔

اپنے آٹھ بچوں اور بیوی کا پیٹ بھرنے کے لیے کیلون غلط کام کرتا تھا، مگر اتنا ہوشیار تھا کہ خود کو پولیس سے بچانے کے لیے وہ بیوی اور بچوں کو مختلف ریاستوں میں ساتھ لیے پھرتا تھا۔ لیکن جب حالات زیادہ خراب ہوئے وہ تو سب کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس کی بیوی ذہنی مریضہ بن گئی اور بچے دربدر ہوگئے۔ پہلے تو اورلینڈو (بڑے بھائی) نے تین چڑیلوں کی نگہ داشت کی، مگر بعد میں پولیس نے بچوں کو یتیم خانے میں داخل کرادیا۔ پولیس انہیں مختلف شہروں میں آباد ان کے رشتے داروں کے پاس بھیجنا چاہتی تھی، مگر کان کی بیماری کی وجہ سے نہ بھیج سکی اور وہ تین چڑیلیں کان کی اس بیماری سے کبھی نجات نہ پاسکیں۔

اورلینڈو نے اپنی زندگی کے لگ بھگ 52سال دنیا کا سفر کرتے ہوئے گزار دیے، وہ اپنی بہنوں کو بھی ڈھونڈتا رہا اور اپنے لیے اچھی زندگی گزارنے کے مواقع بھی تلاش کرتا رہا، مگر ناکام اور خالی ہاتھ ہی رہا۔ یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ تین چڑیلیں اپنے بھائی کو تو نہ بھول سکیں، لیکن اس کا نام بھول گئیں۔ اسی دوران ان کی سابقہ رضاعی ماں کی پوتی ان تک پہنچ گئی۔ اس نے اورلینڈو کا لکھا ہوا وہ خط دیکھ لیا جو اس نے ایک مقامی اخبار میں اپنی تین چڑیلوں کے نام لکھا تھا۔

اب ان تینوں کو اپنے بھائی کا نام معلوم ہوگیا تھا جس کے بعد انہوں نے اسے تلاش کرلیا، گویا پچاس سالہ خلیج پر آخر کار ایک پل تعمیر ہوگیا۔ اورلینڈو اپنی تینوں بہنوں کو ایک ساتھ پاکر بہت خوش تھا۔ چاروں مل کر خوب روئے، مگر یہ خوشی کے آنسو تھے۔ یہ خوشی بھی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی، کیوں کہ صرف چھے ماہ بعد اورلینڈو مرگیا اور اس طرح تین چڑیلیں اپنے بچھڑے ہوئے بھائی سے مستقل طور پر بچھڑ گئیں۔

9 ۔ ہوان کی کہانی
تھائی لینڈ کا ہوان شروع سے ہی بدقسمت رہا، جب وہ ننھا منا سا بچہ تھا تو اس نے لوہے کی ایک تیز گرم راڈ پکڑ لی جس سے اس کے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا اور چھنگلی بری طرح جھلس گئی اور ان کی شکل ہی بگڑ گئی۔ پھر 1975 کے خمر روج فسادات میں اس کے والدین ایسے گم ہوئے کہ پھر کبھی نہ مل سکے۔ اس کے بعد ہوان اور اس کے دو بھائی اپنے انکل کی سرپرستی میں آگئے، مگر بعد میں انکل بھی یکایک غائب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ انہیں بھی فسادیوں نے مار ڈالا۔ انکل کی گم شدگی کے بعد ہوان کی بدبختی کے دن شروع ہوگئے۔ وہ مسلسل آزمائشوں میں مبتلا رہا۔

کئی سال تک وہ خمر روج کے حراستی کیمپ میں قید رہا۔ اس نے وہاں جو خوف ناک مناظر دیکھے، انہیں کبھی فراموش نہ کرسکا۔ پھر اچانک ہی وہ مشرقی تھائی لینڈ کے ایک رفیوجی کیمپ میں نمودار ہوا۔ ہوان کو چار یا پانچ سال کی عمر کی واحد چیز جو یاد تھی، وہ اس کے بھائی تھے۔ لیکن وہ ان تک پہنچنے سے معذور تھا۔ اس کے بھائی واحد زندہ بچے ہوئے انکل ہانیو گاؤ کی نگرانی میں رہ رہے تھے کہ وہ یکایک انہیں لے کر امریکا چلے گئے۔

ہوان کی فیملی میں سے کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں تھا، اتفاق ایسا ہوا کہ وہ اس کے ایک رشتے دار کا کسی کام سے رفیوجی کیمپ جانا ہوا جہاں اس کی نظر ہوان کی جلی ہوئی چھنگلی اور انگوٹھے پر پڑی تو اس نے ہوان کو فوراً ہی پہچان لیا۔ مذکورہ رشتے دار نے ہانیو گاؤ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بچے سے مراسلت شروع کردی۔ ہانیو گاؤ نے کیلی فورنیا کے ایک امریکی سینیٹر سے رابطہ کیا اور حراستی کیمپ میں قید ہوان کے سلسلے میں مدد مانگی۔ اس کام میں پورے دو سال لگے، لیکن بہرحال مذکورہ امریکی سینیٹر نے ہوان کے لیے امریکا جانے کا خصوصی اجازت نامہ حاصل کرلیا۔ اس طرح ہوان اپنے خاندان اور اپنے گھر والوں سے مل گیا۔

10۔ وہ گم شدہ لڑکا
بچپن میں لوگ پیٹر کچ کو بایو کک کہتے تھے۔ اس نے اپنی زندگی کے ابتدائی سات سال سوڈان کے ایک سادہ سے گاؤں ایٹر میں گزارے تھے جہاں پیٹر کچ اسکول بھی جاتا تھا اور اپنے باپ کے ساتھ مویشیوں اور بکریوں کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا۔ جب وہ آٹھ سال کا ہوا تو شمالی اور جنوبی سوڈان میں جھگڑے شروع ہوگئے۔

ایک رات وہ سورہا تھا کہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے پورا گاؤں گونج اٹھا اور ہر طرح سے زخمی عورتوں اور بچوں کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ پیٹر کچ اٹھا اور لاشوں پر سے پھلانگتا ہوا گاؤں سے نکل بھاگا۔ اب وہ سوڈان کے ان گم شدہ بچوں میں شامل تھا جو ظلم و تشدد سے اپنی جانیں بچانے کے لیے انجانی منزل کی طرف پیدل سفر کررہے تھے۔ اس نے جنگلی پھل کھاکر پیٹ بھرا، اس کی نظروں کے سامنے بہت سے لوگ بھوک پیاس سے مرگئے۔

آخر پیٹر کچھ دوسرے بچوں کے ساتھ ایتھوپیا پہنچا جہاں وہ گولیوں کے خطرے سے تو محفوظ تھے، مگر بھوک نے یہاں بھی انہیں نہ چھوڑا۔ پیٹر کچ نے ایک جگہ لکھا ہے:''اگر ہم زمین پر اناج کا ایک دانہ بھی گرا ہوا دیکھ لیتے تو سب ایک ساتھ اس پر جھپٹ پڑتے اور اس کے حصول کے لیے خوب لڑتے تھے۔''

اقوام متحدہ نے ان لوگوں کے لیے خوراک کا بندوبست تو کردیا تھا، پھر یہ لوگ اپنی خانہ جنگی میں پھنس گئے۔ پیٹر کچ واپس سوڈان پہنچا جہاں خوں ریزی اور بھوک اس کی منتظر تھی۔ پناہ گزینوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا تھا۔ بھوکے پیاسے لوگ جب پانی پینے کے لیے تالابوں اور دریاؤں میں چھلانگیں لگاتے تو مگرمچھوں کے پیٹ میں پہنچ جاتے۔ پیٹر کچ کا وہ حال ہوا کہ اسے پیٹ بھرنے کے لیے اپنا لباس تک بیچنا پڑگیا۔ بعد میں ریڈ کراس اور اقوام متحدہ کی وجہ سے اسے مشکلات سے نجات ملی۔

2001 میں پیٹرکچ امریکا چلا گیا، اس سے پہلے انگریزی فلمیں دیکھ دیکھ کر اس نے انگریزی بھی سیکھ لی تھی۔ بعد میں اس نے ڈگری بھی حاصل کرلی، کام بھی تلاش کرلیا اور شادی بھی کرلی۔ آخر میں اس نے امریکی فوج میں شمولیت اختیار کرلی، وہ اس ملک کی خدمت بھی کرنا چاہتا تھا جس نے اس کے لیے اتنا کچھ کیا تھا۔ ان ساری کام یابیوں کے باوجود پیٹر کچ آج بھی اپنی گم شدہ فیملی کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ 2003 میں اسے پتا چلا کہ اس کے والدین اور بہن بھائی زندہ ہیں، وہ لوگ ایٹر میں ہونے والی خوں ریزی میں بچ گئے تھے۔ وہ انہیں تلاش کرنے کے بارے میں سوچتا رہا۔

ایک روز ایک ریٹائرڈ فوجی جیمس یوریٹ نے پیٹر کچ کی کہانی سنی تو اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سوڈان کے سفر کے لیے فنڈز جمع کرنے شروع کیے، مگر جب اس میں کام یاب نہ ہوسکا تو اس نے سارا انتظام خود کیا۔ 28 سال کے طویل انتظار، اجنبیوں کی مہربانیوں سے آخر کار پیٹر کچ اپنی گم شدہ فیملی سے ملنے میں کام یاب ہوگیا۔ اس طرح اس کی زندگی کا سب سے بڑا خلاء پر ہوگیا اور وہ خود کو مکمل محسوس کرنے لگا۔
Load Next Story