عوام کو ٹہلاتے رہو
نان ایشوز کو تو عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ابھارنا ان کی ناگزیر ضرورت ہے
نان ایشوز کو تو عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ابھارنا ان کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس لیے بھی کہ ایسا نہ کریں تو عوام اپنے حقیقی مسائل کو ابھاریں گے اور انقلاب کی جانب پیش رفت کریں گے۔
امریکا کے سوشلسٹ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز اگر عوام کے حقیقی مسائل کو اٹھا رہے ہیں تو سرمایہ دار، ڈونلڈ ٹرمپ کو اس طرح سے پیش کررہے ہیں کہ عوام اس سے نفرت کرتے ہوئے ہلیری کو غنیمت جان کر ووٹ دیں اور عوام کے حقیقی مسائل پر بات کرنے والے برنی کو لوگ بھول جائیں۔ مگر ایسا ہر جگہ ہو نہیں پاتا۔ امریکا میں اب تک ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں سے ہلیری 11 اور برنی 7 ریاستوں میں جیتے ہیں۔
برطانیہ میں سوشلسٹ جیمری کوربن لیبر پارٹی کے لیڈر منتخب ہوگئے۔ اسی طرح پاکستان میں مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی، بیماری اور غربت کے مسائل پر بات نہ ہوپائے اس لیے تمام ریاستی آلہ کاروں کو نان ایشوز پر لگادیا گیا ہے، جیسا کہ ایک سیاسی مذہبی جماعت کے سربراہ کی جانب سے خواتین پر تشدد کے خلاف پنجاب صوبائی اسمبلی میں منظور کیے جانے والے قانون کو خاندان کی تباہی سے منسوب کیا گیا ہے۔
جب کہ ہم محنت کشوں کے پاس خاندان ہے کہاں؟ ہمارے خاندان رہتے ہوئے بھی ہم بے خاندان ہیں۔ مثال کے طور پر کشمیر، گلگت، پختونخوا اور جنوبی پنجاب سے مزدوری کرنے کے لیے کراچی آنے والے مزدور اپنے خاندان کو وہیں چھوڑ آنے پر مجبور ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک سے لاکھوں لوگ اپنے بچوں، بیویوں اور سارے خاندان کو چھوڑ کر مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا جاکر مزدوری کرتے ہیں۔
ان کے خاندان تو ہیں لیکن روزی کی خاطر خاندان ہوتے ہوئے بھی بے خاندان ہیں۔ اس طبقاتی سماج کو اکھاڑ پھینکے بغیر نہ خاندان میسر ہوسکتا ہے اور نہ ہی خوشحالی۔ ہمارے ملک میں دس میں سے ایک کا خاندان اپنے پورے وجود کے ساتھ شاید ہی ہو، جب خاندان ہے ہی نہیں تو پھر ہم غریبوں کا خاندان کہاں سے تباہ ہوگا، ہم تو پہلے سے ہی تباہ حال ہیں۔ اشتراکی انقلاب کے بعد ہی ہمیں خاندان میسر ہوگا اور وہ خاندان کسی ملک کا محتاج نہیں ہوگا۔ پوری دنیا ایک ہوجائے گی، ساری دنیا کے لوگ ایک خاندان کے ہوں گے۔
اسی طرح ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کہتے ہیں کہ ما ضی میں بھی ہمارے خلاف ایسی ہی سازشیں کی جاتی رہیں مگر ناکام ہوگئیں۔ مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ ہم استعمال ہوئے اور را کے ایجنٹ بن گئے تھے۔ ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ ہم نے خاموشی سے خون کا گھونٹ پی کر وقت گزارا، اب خاموش نہیں رہیں گے۔ عمران خان بول پڑے کہ مصطفیٰ کمال نے ہماری دل کی بات کی ہے۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ مصطفیٰ کمال نے سنگین الزامات لگائے ہیں۔
مسلم لیگ ن تو اورنج ٹرین، میٹرو بس اور راہ داری میں ہی اپنا وقت لگارہی ہے۔ بلوچستان کی حکومت ترقیاتی منصوبوں کی فہرست بناتی رہتی ہے لیکن سب سے زیادہ بے روزگار آبادی کے لحاظ سے بلوچستان میں ہیں۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے خلاف عمران خان نے صرف ایک بار بیان دیا، پھر نہ جانے کہاں سے گھنٹی بجی تو وہ خاموش ہوگئے۔ جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق خواتین کے بل پر چیخ اٹھے لیکن گزشتہ برس چھ ہزار خواتین کے قتل پر خاموش رہے۔
پی پی پی کی عوامی جماعت بننے کا دعویٰ کرنے والی جماعت آٹا، دال، دودھ، گوشت، انڈے اور چاول کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی ہڑتال کرتی ہے اور نہ قابل ذکر احتجاج کرتی ہے۔ اسی طرح قوم پرست پارٹیاں قومی حقوق کی بات تو کرتی ہیں لیکن قوم کے غریب لوگوں کے مسائل پر نہ لڑتی ہیں اور نہ بھڑتی ہیں، ہاں مگر اپنے جاگیرداروں کے خلاف لڑنے کے بجائے صرف پنجاب پر سارا نزلہ گراتے ہیں۔
دائیں بازو کی جماعتوں سے تو یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سماج کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں لیکن بائیں بازو کی جماعتیں جو حقیقتاً عوام کے مسائل کی بات کرتی ہیں، ان کے پاس منشور ہے اور لوگ ان کی بات سنتے بھی ہیں لیکن وہ بھی مسائل کے لیے سڑکوں پر آنے کے بجائے سیمینار، مباحثے اور بیانات پر گزارا کرتے ہیں۔
وہ ورکرز پارٹی ہو، کمیونسٹ پارٹی ہو، مزدور کسان پارٹی ہو، طبقاتی جدوجہد ہو، کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی ہو، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن ہو یا کوئی اور، یہ بھی عوام کے مسائل خاص کر بجلی کے بڑھتے نرخوں، اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافے، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بچوں اور خواتین پر تشدد کے مسائل پر کوئی بھی بائیں بازو کی جماعت سڑکوں پر نہیں آتی، نہ پولیس سے بھڑتی اور نہ قید ہوتی ہے، جب کہ عوام ان کی باتیں سننے کو نہ صرف تیار ہیں بلکہ سنتے بھی ہیں۔
ابھی حال ہی میں پنجاب میں بھٹہ مزدور، ملک بھر میں ڈاکٹروں، پی آئی اے کے ملازمین، اسٹیل مل کے ملازمین، واپڈا کے مزدوروں کی جدوجہد میں کوئی بائیں بازو کے رہنما مار کھاتے، نہ گرفتار ہوتے نظر آتے ہیں۔ عابد حسین منٹو ہوں، قاضی امداد ہوں، ڈاکٹر لال خان ہوں، افضل خموش ہوں، فاروق طارق ہوں، صوفی عبدالخالق بلوچ ہوں یا یوسف مستی خان، ان میں سے کوئی بھی عوام کے ساتھ کھڑے ہوئے پٹتے، مرتے اور گرفتار ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی کایا پلٹنے، نظاموں کو بدلنے، فرنچ ریوولیوشن، پیرس کمیون، انقلاب روس اور چین میں طلسماتی تبدیلی، شکاگو میں عظیم قربانیوں سے دنیا بھر میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کروانے میں عظیم کارنامے انجام دیے۔ آج بھی جنوبی امریکا کی پینتیس ریاستوں میں سے تینتیس میں کمیونسٹوں، سوشلسٹوں، سوشل ڈیموکریٹوں کی حکومتیں ہیں۔ شمالی کوریا، کیوبا، وینزویلا، زمبابوے، بیلاروس، نیپال کی سوشلسٹ حکومتیں قائم ہیں۔
آج بھی وسطی ایشیائی ممالک میں شرح تعلیم اٹھانوے فیصد ہے، ہندوستان میں بانوے ہزار مربع میل جنگلات پر اور ہندوستان کی ایک تہائی رقبے پر ماؤ نواز کمیونسٹوں کا قبضہ ہے۔ برطانیہ کی حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کا قائد سوشلسٹ ہے، امریکا کا سوشلسٹ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز عوام میں بے حد مقبول ہے۔ میں تو صرف پاکستان کی بات کر رہا ہوں۔ یہاں بھی پاکستان بننے کے بعد 1951 میں ہونے والے انتخابات میں سابق مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ امیدوار اکثریت میں کامیاب ہوئے تھے۔
اس وقت پاکستان میں ایک خلاء موجود ہے۔ اگر بایاں بازو عوام کے مسائل پر عملی جدوجہد میں لڑتے ہوئے عوام کے ساتھ جڑجائے تو عوام ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل صرف بائیں بازو کے پاس ہے اور یہ تبدیلی بھی چند سال میں عوام خود لائیں گے اور اپنا رہنما بھی خود پیدا کرلیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں طبقات ختم ہوجائیں گے، ملکیت اور جائیداد کا وجود بھی ختم ہوجائے گا۔ جنگ، اسلحہ، طبقات اور سرحدیں ختم ہوجائیں گی، سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کھائیں گے۔