کیا بدلتے ماحول کی پالیسی گرم ہوتے موسموں سے نمٹ پائے گی

عالمی منظرنامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

عالمی منظرنامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ فوٹو : فائل

KARACHI:
اس سال کا موسم سرما دنیا بھر کے لوگوں اور خصوصا ہمیں یہ سمجھا گیا کہ موسموں کے تغیرات اب کوئی ڈھکی چھپی یا سائنسی بات نہیں رہی، ہم لاکھ اسے ماننے سے انکار کریں مگر اب یہ تغیرات روزروشن کی طرح عیاں ہوچکے ہیں۔ بدلتے موسم بہت کچھ بدلیں گے، آئیے! جائزہ لیتے ہیں کہ یہ دنیا بھر میں کس طرح کے اثرات مرتب کریں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں کے تغیر سے بارشوں کی مقدار اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی بلاشبہہ لاکھوں لوگوں پر اثر انداز ہوگی اور پانی کی کمی ہی کی وجہ سے ایشیا کے کچھ ایسے حصوں میں جو خاص طور پر کم پانی والے یا خشک علاقے ہیں، کشیدگی پیدا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔

سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ آبی وسائل کی بدانتظامی یقیناً خشک سالی اور موجودہ کشیدگی میں اضافہ کرے گی۔ بدلتے موسموں کے اثرات یا کلائمٹ چینج کچھ علاقوں جیسے بھارتی پنجاب، راجستھان اور ہریانہ میں آب پاشی اور دیگر ضروریات کے لیے زیرزمین پانی کے ناپائے دار یا غیردانش مندانہ استعمال کو مزید پیچیدہ کرسکتا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیا میں پانی کے فراہمی کے نظام کے لیے بھی ایک چیلینج ثابت ہوں گی اور زراعت اور لائیو اسٹاک پر ان کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت سے علاقے اشیائے خورونوش یا غذائی قلت کا سامنا کرسکتے ہیں، جب کہ جنوبی ایشیا میں پہلے ہی غذائی قلت کا شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت چاول کی پیداوار میں کمی کرسکتا ہے کیوںکہ گرم موسم میں چاول کی فصل کو پکنے کے لیے کم وقت ملے گا۔

سطح سمندر میں اضافہ بھی کئی ایشیائی ساحلی علاقوں کے لیے خطرہ ہے اور نشیبی علاقوں کے زیرآب آنے کی صورت میں چاولوں کے پیداواری علاقوں میں بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کئی ممالک کا ایک بڑا ذریعۂ روزگار اور غذا میں پروٹین کے حصول کا بڑا ذریعہ ماہی گیری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے منفی طور پر متاثر ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں اس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

بھارت کے دریائے گنگا سے سیراب ہونے والے زرخیز میدان(Indo-Gangetic Plains) بھی جو گندم کی عالمی فصل کا 14-15 فی صد حصہ پیدا کرتے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس فصل میں کمی کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمی کی بڑھتی ہوئی لہر سے تقریباً 200 ملین لوگ متاثر ہوں گے۔ یہ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت چاول اور دیگر فصلوں والے ایسے علاقوں پر شدید طور پر اثرانداز ہوگا جو گرمی کو ایک حد تک ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان اور شمالی بھارت (اکتوبر )، جنوبی بھارت (اپریل۔ اگست)، مشرقی بھارت اور بنگلادیش (مارچ۔ جون) اور چین (جولائی۔ اگست) کے دوران متاثر ہوسکتے ہیں۔

سطح سمندر میں اضافے سے ایشیا میں چاول کے پیداواری ساحلی اور ڈیلٹائی علاقوں کو بھی بدلتے موسموں سے خطرات کا سامنا ہے جیسے بنگلادیش، میانمار، اور دریائے میکونگ کے ڈیلٹا۔ اس کے علاوہ ویتنام کی تقریباً 7 فی صد زرعی اراضی سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے زیرآب آ سکتی ہے۔

موسموں کی تبدیلی ماہی گیری کے شعبے کے لیے بھی خطرات پیدا کرسکتی ہے، جیسے حد سے زیادہ ماہی گیری، سمندری آلودگی، ڈیموں کی تعمیر، بڑھتا ہوا درجۂ حرارت، بارشوں کی کمی اور خشک سالی میں اضافہ وہ عوامل ہیں جو ایشیا کے کچھ حصوں میں دریاؤں کے بہاؤ میں کمی لائیں گے ، جس کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے ساتھ بارشوں اور سیلابوں میں اضافے کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی مقدار میں بھی اضافہ ہوگا اور یہ بھی مچھلیوں کی افزائش پر برے اثرات مرتب کرے گا۔

میٹھے پانی کی مچھلیوں کو بھی خطرہ لاحق ہوگا، کیوںکہ پانی کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت ان کے مساکن کو ان کی نشوونما اور افزائش کے لیے ناموزوں بنادے گا۔ ایسے علاقے جو موسمی سیلابوں پر انحصار کرتے ہیں جیسے سیلابی چراہ گاہیں اور میٹھے پانی کے دلدلی جنگلات بھی بارشوں کی کمی اور خشک سالی سے بری طرح متاثر ہوں گے۔

خشک موسم میں کمی اور سطح سمندر میں اضافہ کئی ایشیائی ڈیلٹاؤں میں نمکین پانی کی آمیزش میں اضافہ کرے گا، جس سے نہ صرف موسمیاتی خطرات بڑھیں گے، بل کہ ماہی گیری کی صنعت اور دوسری آبی افزائش پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔

سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافہ سمندری تیزابیت اور ساحلی مونگوں میں کمی مچھلیوں کی افزائش پر گہرے منفی اثرات مرتب کرے گی۔ اس سب سے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک متاثر ہوں گے۔

یہ تو تھے عالمی اثرات۔ یقیناً یہ اثرات ہم پر بھی مرتب ہوں گے۔ لیکن یہ ایک خوف ناک حقیقت ہے کہ پاکستان بدلتے موسموں کی زد میں آئے ہوئے ممالک میں سرفہرست آچکا ہے اور قدرتی آفات کے مقابلے میں جانی اور مالی نقصان کی صورت ایک بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قیمت پاکستان میں سالانہ 6 سے 14 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ اگر صرف 2010 کے سیلابِ بلاخیز کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی معیشت 2010 میں 10ارب ڈالر کا نقصان اٹھاچکی ہے۔


اب جب کہ ہم نے ''نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی'' تیار اور کابینہ سے منظور کرواہی لی ہے تو یقیناً پہلی ترجیح اس نقصان کو روکنا یعنی قدرتی آفات سے نمٹنے کی پیش بندی ہے۔ یہ پالیسی بدلتے موسموں کے مضر اثرات کا مقابلہ (Mitigation)اور ان اثرات سے ہم آہنگی یا مطابقت (Adaptation) دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔ بدلتے موسموں سے مطابقت (Adaptation) کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم لیکن ان کے نقصانات بھگتنے والوں میں اس کا نمبر سرفہرست ہے۔ مالی وسائل اور جدید تیکنیک کی عدم دست یابی اور کم تر صلاحیتوں کے باعث ہم اس بلا کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں، جس کا نام کلائمٹ چینج ہے۔

پلاننگ کمیشن کی دستاویز ''وژن2030'' میں متعین کیے گئے اہداف حاصل کرنے اور پاکستان کے ترقیاتی راہ پر گام زن رہنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس نئے چیلینج کا سامنا کرنے کے لیے میدان تیار کرے۔ مطابقت پیدا کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے۔ ان کے نفاذ کے ذریعے ہی ملک کے لیے آبی، غذائی اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانا ممکن ہوسکے گا۔ نیز اس طرح انسانی زندگی، صحت اور املاک پر قدرتی سانحات کے اثر کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے، جب کہ بدلتے موسموں کے مضر اثرات سے بچاؤ(Mitigation) کے ضمن میں پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بین الاقوامی معیارات سے خاصا کم ہے۔

2008 میں پاکستان کا کُل اخراج 310 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر تھا۔ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ 54 فی صد، میتھین36 فی صد، نائٹرس آکسائیڈ9 فی صد، کاربن مونو آکسائیڈ 0.7 فی صد وغیرہ شامل تھا۔ پاکستان میں توانائی کا شعبہ ملک میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سو سے بڑا ذریعہ ہے جو تقریباً 51 فی صد اخراج کا سبب ہے اور اس کے بعد زرعی شعبہ 39 فی صد ، صنعتی عمل 6 فی صد، اراضی کا استعمال، اراضی کے استعمال میں تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی 3 فی صد اور ایک فی صد فضلہ شامل ہے۔ لہٰذا اگر دیکھا جائے تو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے بنیادی اہداف توانائی اور زراعت کے شعبے ہیں۔

نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ دستاویز یقیناً بدلتے موسموں کے حوالے سے بیشتر موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور تفصیلی طور پر ہر موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی میں پاکستان میں جاری بھیانک لوڈشیڈنگ، پانی کی کمی کے پیش نظر خصوصی توجہ کے شعبے میں پانی، خوراک اور توانائی کا تحفظ شامل ہے۔ بدلتے موسم جس طرح آب وہوا تبدیل کر رہے ہیں ان میں گلیشیئروں کا پگھلاؤ بھی ایک اہم مظہر ہے، اس حوالے سے اس پالیسی میں تھرڈ پول یعنی ہندوکش، قراقرم کے علاقے کے گلیشئرز کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشئرز دریائے سندھ کے طاس کے کل بہاؤ کے 50 فی صد کا سبب ہیں، جو پاکستان کے کسانوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔

ذرائع کے مطابق زراعت جی ڈی پی کے 23 فی صد اور کل روزگار کے 44 فی صد کی حامل ہے۔ گلیشئرز کے پگھلاؤ اور آبی وسائل پر بدلتے موسموں کے منفی اثرات کو کم کرنا اور ان سے مطابقت پیدا کرنا اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ہم اس حوالے سے سائنسی انداز کی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کریں۔

بدلتے موسموں کی شدت بدترین قدرتی آفات کی صورت میں ہمارے خطے میں رونما ہورہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا2010 کا سیلاب بلاخیز جنوبی ایشیا میں ایک بدترین مثال بن چکا ہے۔ نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی اس2010 کے سیلاب کے بعد رونما ہونے والے متاثرین پر بدترین اثرات اور اس قسم کی قدرتی آفات میں کمی پر بھی بحث کرتی ہے۔ اس طرح کی تباہی سے معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف ماحولیاتی، انسانی، معاشی اور سماجی دباؤ پیدا کرتے ہیں بل کہ یہ ملک کو ترقیاتی اہدف کے حصول میں بھی ناکامی سے دوچار کردیتے ہیں۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ جنوبی ایشیائی خطے میں واقع تمام مالک کے لیے جس کا پاکستان بھی ایک حصہ ہے ایک اور خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے،''جنوبی ایشیائی خطے میں فی سال آنے والی تباہیوں کی تعداد چار عشروں کے دوران چار گنا ہوچکی ہے۔ پچھلے صرف پانچ سالوں میں مجموعی نقصانات 25 ارب امریکی ڈالر ہوا۔

جنوبی ایشیائی خطے میں تباہی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باوجود افراد اور حکومتوں کے درمیان اس خطرے کی آگاہی اور سمجھ بہت کم ہے۔ ایک ابھرتے ہوئے موضوع کے طور پر قدرتی آفات کا سامنا او ر اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ابھی تک ترقیاتی ایجنڈوں میں سرفہرست نہیں۔ تو پھر یہ سوال بنتا ہے کہ آخر نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی میں ایسی کیا بات ہے جو یہ صورت حال کو تبدیل کرپائے گی؟

بہرحال، موجودہ صورت حال میں اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ صوبے کلائمٹ چینج پالیسی کا نفاذ کس طرح کریں گے، کیوںکہ تمام متعلقہ شعبہ جات مثلا زراعت، خوراک، پانی، جنگل بانی، ہوا کے معیار پر منفی اثر ڈالنے والی ٹرانسپورٹ اور ڈیزاسٹر مینیجمنٹ وغیرہ کے شعبے بھی صوبوں کو منتقل کردیے گئے ہیں۔ اب یہ سب وفاق کی مشترکہ چھتری کے نیچے نہیں آتے۔ مثلاً اس نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی میں گلیشئرز کے تحفظ کا موضوع قابل تعریف ہے، لیکن یہ سرحدوں سے ماورا ہے۔ یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے۔ ایسی پالیسی کو صوبے کس طرح نافذ کرسکتے ہیں جس کا تعلق علاقائی مسئلے سے ہو؟

ڈاکٹر پرویز امیر ماہر ماحولیات، زراعت اور آب پاشی ہیں، وہ گذشتہ حکومت میں بنائی گئی وزیر اعظم کی کلائمٹ چینج ٹاسک فورس میں شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی دراصل ان ہی سفارشات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جو ان کی ٹیم نے مرتب کی تھیں۔ یہ ٹاسک فورس 2008 میں تشکیل دی گئی تھی اور اس ٹاسک فورس کے قیام کا مقصد ملک کے تمام مکتبۂ فکر کے لوگوں مثلاً سائنسی شعبے کے لوگوں، دانش وروں، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرکے پالسی تیار کرنا تھا۔

ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ پالیسی کے موضوعات اگرچہ مسائل کا احاطہ تو کرتے ہیں لیکن عمل درآمد کے حوالے سے اس پالیسی میں کوئی راہ نمائی موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی ہے کہ عمل درآمد کے لیے فنڈ کیسے اور کہاں سے حاصل کیا جائے گا۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ایسی بہت سی پالیسیوں کی طرح جو نفاذ کے اہداف سمیت واضح روڈ میپ کے بغیر وژن بیان کرتی ہیں، یہ متروک دستاویز بن جائے گی۔
Load Next Story