جب نیلی فراک والی بچّی گُم ہو گئی تھی
’’سائیکل چاہیے‘‘ اور بہنوں نے اپنے عید کے جوڑے بیچ کر ننھے مُنے بھائی کی فرمائش پوری کردی.
حلقۂ اربابِ ذوق بلاشبہہ ادب کا پرچم تھامے ہوئے ادب کی بے لوث خدمت کررہا ہے۔
اسلام آباد کو بیوروکریسی کا شہر کہا جاتا ہے، ایسے شہر میں حلقۂ ارباب ذوق کا یوں سرگرم رہنا اور اس کے اجلاسوں کا بھرپور ہونا حیرت انگیز ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ دراصل مرحوم منشاء یاد صاحب کو جاتا ہے۔ منشاء صاحب جہاں بہت بڑے لکھاری تھے وہاں وہ ایک بہترین پارکھ بھی تھے، وہ اپنی معاونت کے لیے ہمیشہ دُر دانے ہی چنتے رہے۔ عابدہ تقی بھی ان کا انتخاب تھیں اور وہ حلقے کو جس طرح چلا رہی ہیں، وہ ان کے حُسنِ اسلوب کا نمونہ ہے۔ عابدہ نے شاعری اور افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تخلیقات و تصانیف اہل ادب سے داد وصول کرچکی ہیں۔ ان کے پہلے مجموعۂ کلام ''فصیلِ خواب سے آگے'' اور افسانوں کا مجموعہ ''دوسرافرشتہ'' قارئین سے تحسین پاچکا ہے، ''منبرسلونی کی اذان'' ان کے سلام ومنقبت کا مجموعہ ہے۔
آئیے! عابدہ تقی کی یادوں کے سفر میں ان کے ساتھ چلیں۔
نیلی فراک سفید پاجامہ اور بالوں میں سرخ ہیئر بینڈ لگائے وہ بچی غالباً کلاس ٹُو میں پڑھتی تھی، جسے اس روز اسکول بس ڈرائیور نے اسی کی کالونی کے اس گیٹ پر ڈراپ کردیا، جسے وہ بیک گیٹ کہہ رہا تھا اور جس کے اطراف کی اس بچی کو بالکل پہچان نہیں تھی۔ اس روز اس کی بڑی بہن بیماری کے سبب چھٹی پر تھی، جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر تک لے آتی تھی۔ بچی ان اجنبی اطراف کو بالکل نہیں پہچانتی تھی اور عجب مخمصے میں گھری ہوئی تھی۔ اس نے اس جگہ کو دیکھا جو کالونی کی بیک سائیڈ بتائی گئی تھی۔ بستہ گلے میں ڈالے، پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑے، اس بچی نے سامنے دیکھا، جہاں سے دو راستے اپنی اپنی سمتوں کو جا رہے تھے۔
حیران و ہراساں اس کے ننھے ذہن نے ایک راستے کا انتخاب کر کے اس پر چلنا شروع کر دیا۔ کافی دور تک چلنے کے بعد بھی آگے ایک کچی پگڈنڈی اور دور دور اکا دُکا گھروں کے نشان اور ویران دوپہر۔ بچی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ امی بار بار یاد آنے لگیں، جو کہتی تھیں 'اچھے بچے اسکول سے سیدھے گھر آتے ہیں۔' اس سوچ کے دوران ہی سامنے سے دو سائے نمودار ہوئے جو اسی طرف آ رہے تھے۔ وہ قریب آئے ۔۔۔رکے اور بچی کی طرف غور سے دیکھا۔ ان میں سے ایک مہربان چہرے والا شخص بولا ''ارے یہ تو تقی شاہ صاحب کی بیٹی ہے، پھر پوچھا ''بیٹا تمھارا نام یہی ہے ناں؟ بچی نے سر ہلایا 'تو اس طرف کہاں جا رہی ہو؟' انہوں نے حیرت سے پوچھا ''گھر ڈھونڈ رہی ہوں'' بچی نے جواب دیا۔ ان انکل نے بچی کو گود میں اٹھا لیا اور دوسرے انکل نے بستہ اور بوتل تھام لی۔
'' گھر اس طرف نہیں ہے گڑیا، دوسری طرف ہے۔'' پھر وہ آپس میں باتیں کرتے اور اسکول کی انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور ڈرائیورز کی بے پرواہی پر بحث کرتے، کسی شارٹ کٹ سے آفیسرز کالونی کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو گئے۔ بچی نے اب اطراف کو پہچان لیا تھا۔ وہ گود سے اتر کر بھاگ پڑی۔ ''وہ ہے میرا گھر'' اس نے خوشی سے بھاگنا شروع کر دیا۔ وہ دونوں گھر آئے اور امی جان کو سار واقعہ سنایا اور زور دیا کہ وہ ابو کو بتائیں کہ آج کتنا بڑا سانحہ ہو جاتا اگر وہ اتفاق سے ان کی بچی کو نہ ملتے۔ انہوں نے کہا کہ تقی شاہ صاحب کو اسکول انتظامیہ اور بس ڈرائیور کی شکایت کرنی چاہیے ۔ امی اسے گلے لگا کر رونے لگیں اور کچھ دیر بعد جب ابو گھر آئے تو امی کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا، تو امی سے پہلے بچی بولی،''ابو میں آج گم ہو گئی تھی، لیکن پھر مل گئی''۔ جی ہاں وہ بچی عابدہ تقی تھی جو آج بطورِ شاعرہ و افسانہ نگار یہ واقعہ سنا رہی ہیں، جو ان کے بچپن کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد وہ گویا ہوئیں۔
''ان دنوں میں گورنمنٹ کالج فار ویمن سیٹیلائٹ ٹائون میں تھرڈ ائیر میں پڑھتی تھی، جب ہمیں ایک بہت لائق فائق استاد انگلش کمپلسری پڑھانے کے لیے منتخب ہوئیں۔ یہ بیگم شفیق الرحمٰن تھیں، 'دجلہ'، 'حماقتیں' اور 'شگوفے 'والے شفیق الرحمان کی بیگم۔ وہ بہت سی زبانوں اور لٹریچرز سے واقف اور انگلش، اردو شاعری کی دل دادہ خاتون تھیں۔ ایک روز لارڈ بائرن کا ''اوڈ ٹُو اے گریشئین ارن'' پڑھاتے ہوئے انہیں نہ جانے کیا سوجھی، بولیں ''کلاس کی اسائنمینٹ یہ ہے کہ کل سب لڑکیاں اپنی اپنی ایک نظم لکھ کر لائیں' یہ کہتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھا، جہاں پھولوں سے لدا ہوا ایک درخت تھا۔ بولیں موضوع بھی میں ہی دے دیتی ہوں ''فلورل ٹری'' کے عنوان پر نظم لکھنی ہے۔ میں ان دنوں اردو شاعری کی مشق کرنے کی طرف مائل تھی اور کچھ نہ کچھ کر ہی لیتی تھی، لیکن اتنی بڑی ہستی کے سامنے انگریزی میں نظم! سوچ کر ہی روح کانپنے لگی۔
میں دو لائینیں لکھتی اور پھر انہیں کاٹ دیتی، نہیں یہ کم از کم معیاری شاعری نہیں ہے۔ میں سوچتی، ایسا کیسے لکھتے ہیں کہ جو واقعتاً کوئی تحریر کہلائے، میں مسلسل سوچ رہی تھی۔ پھر میں نے ''فلورل ٹری'' پر صرف اپنے تاثرات کو شاعرانہ لب و لہجہ دے دیا، لیکن وہ کوئی تجربے کی کیفیت سے گزرنے والی ایک طے شدہ ساعت تھی، جس نے تخلیق کے ذائقے سے آشنا کر دیا۔ اگلے روز میرے زرد چہرے پر اس وقت مسکراہٹ کے رنگ بکھر گئے جب انہوں نے کہا، عابدہ آپ کی پوئم کو میں ''دی بیسٹ پوئم آف دی ڈے'' کا ٹائیٹل دیتی ہوں۔ اپنی میڈم کا یہ اعلان مجھے ایک اعزاز سے کم نہیں لگتا اور نا قابل ِفراموش بھی، کہ اس نے مجھے سنجیدگی سے لکھنے کی طرف مائل کر دیا۔''
''وہ چھوٹا سا تھا گول گپے کی طرح اور پیارا سا، اس کی عمر پانچ سال تھی اور اس کا چہرہ بخار سے تپ رہا تھا۔ وہ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور سب کی توجہ کا مرکز۔ بخار کے عالم میں اس نے اپنی بڑی بہنوں سے ایک فرمائش کر دی۔ مجھے ماڈرن والی ''ٹرائی سائیکل'' چاہیے۔ اس کی بڑی بہنیں اس وقت اسکول میں آٹھویں اور ساتویں جماعت کی طالبات تھیں۔ ان دونوں نے اپنی پاکٹ منی ملائی، جو ایک سو روپے اور کچھ ریزگاری بنتی تھی اور وہ ٹرائی سائیکل ذرا منہگی تھی۔ انہیں یاد آیا ابھی کچھ دن پہلے ہی ان کے عید کے ڈریس سل کر آئے تھے، جو بہت دل کش تھے۔
ان کے سامنے والی پڑوسن آنٹی نے اپنی بچیوں کے لیے ان کی امی سے شاید ازراہِ مذاق کہ دیا تھا ''آپا یہ مجھے بیچ دیں۔ میری بچیوں کے لیے، میں ایسے نہیں بنا سکتی ہوں اور آپ ان کے لیے اور بنالیجے۔ وہ دونوں بھاگ کر آنٹی کے گھر گئیں اور انہیں منایا کہ وہ امی سے وہ ڈریسز لے لیں۔ پھر گھر آ کر امی سے کہا کہ وہ ڈریسسزآنٹی کو دے دیں اور پیسے ان دونوں کو دے دیں، ہم خود اپنی مرضی کے لباس لائیں گی۔ انہوں نے امی سے بہت ڈانٹ کھائی، لیکن آخر آنٹی وہ لباس لے گئیں اور امی کو پیسے دے گئیں۔
جن میں سے کچھ ان دونوں بہنوں نے امی سے لے لیے اور اگلے روز آنٹی کے ساتھ بازار چلی گئیں، واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز کی بجائے وہ منہگی سی ٹرائی سائیکل تھی، جو انہوں نے بھائی کو دکھائی تو وہ خوشی سے اچھل پڑا اور پھر رفتہ رفتہ وہ ٹھیک ہو گیا۔ انہوں نے عید پر بہت عام سے لباس پہنے، لیکن چھوٹا بھائی عید پر وہ سائیکل چلا کر بہت خوش ہوا۔ وہ بہنیں میں اور میر ی بڑی بہن نزہت ہیں اور وہ بچہ ہمارا چھوٹا بھائی فواذ تھا۔ امی فون پر ابا سے، جو ان دنوں شہر سے باہر تھے، شکایت کر رہی تھیں ''یہ کرنے کی انہیں کیا ضرورت تھی، آپ آتے تو خود بچے کو لا دیتے سائیکل۔'' ابو نے کہا ''لیکن بہن بھائیوں کی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیسے ہوتا، یہ تو ان کے لیے بھی ناقابلِ فراموش ہو گا، اور ابھی تک ہے۔''
اسلام آباد کو بیوروکریسی کا شہر کہا جاتا ہے، ایسے شہر میں حلقۂ ارباب ذوق کا یوں سرگرم رہنا اور اس کے اجلاسوں کا بھرپور ہونا حیرت انگیز ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ دراصل مرحوم منشاء یاد صاحب کو جاتا ہے۔ منشاء صاحب جہاں بہت بڑے لکھاری تھے وہاں وہ ایک بہترین پارکھ بھی تھے، وہ اپنی معاونت کے لیے ہمیشہ دُر دانے ہی چنتے رہے۔ عابدہ تقی بھی ان کا انتخاب تھیں اور وہ حلقے کو جس طرح چلا رہی ہیں، وہ ان کے حُسنِ اسلوب کا نمونہ ہے۔ عابدہ نے شاعری اور افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی تخلیقات و تصانیف اہل ادب سے داد وصول کرچکی ہیں۔ ان کے پہلے مجموعۂ کلام ''فصیلِ خواب سے آگے'' اور افسانوں کا مجموعہ ''دوسرافرشتہ'' قارئین سے تحسین پاچکا ہے، ''منبرسلونی کی اذان'' ان کے سلام ومنقبت کا مجموعہ ہے۔
آئیے! عابدہ تقی کی یادوں کے سفر میں ان کے ساتھ چلیں۔
نیلی فراک سفید پاجامہ اور بالوں میں سرخ ہیئر بینڈ لگائے وہ بچی غالباً کلاس ٹُو میں پڑھتی تھی، جسے اس روز اسکول بس ڈرائیور نے اسی کی کالونی کے اس گیٹ پر ڈراپ کردیا، جسے وہ بیک گیٹ کہہ رہا تھا اور جس کے اطراف کی اس بچی کو بالکل پہچان نہیں تھی۔ اس روز اس کی بڑی بہن بیماری کے سبب چھٹی پر تھی، جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر تک لے آتی تھی۔ بچی ان اجنبی اطراف کو بالکل نہیں پہچانتی تھی اور عجب مخمصے میں گھری ہوئی تھی۔ اس نے اس جگہ کو دیکھا جو کالونی کی بیک سائیڈ بتائی گئی تھی۔ بستہ گلے میں ڈالے، پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑے، اس بچی نے سامنے دیکھا، جہاں سے دو راستے اپنی اپنی سمتوں کو جا رہے تھے۔
حیران و ہراساں اس کے ننھے ذہن نے ایک راستے کا انتخاب کر کے اس پر چلنا شروع کر دیا۔ کافی دور تک چلنے کے بعد بھی آگے ایک کچی پگڈنڈی اور دور دور اکا دُکا گھروں کے نشان اور ویران دوپہر۔ بچی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ امی بار بار یاد آنے لگیں، جو کہتی تھیں 'اچھے بچے اسکول سے سیدھے گھر آتے ہیں۔' اس سوچ کے دوران ہی سامنے سے دو سائے نمودار ہوئے جو اسی طرف آ رہے تھے۔ وہ قریب آئے ۔۔۔رکے اور بچی کی طرف غور سے دیکھا۔ ان میں سے ایک مہربان چہرے والا شخص بولا ''ارے یہ تو تقی شاہ صاحب کی بیٹی ہے، پھر پوچھا ''بیٹا تمھارا نام یہی ہے ناں؟ بچی نے سر ہلایا 'تو اس طرف کہاں جا رہی ہو؟' انہوں نے حیرت سے پوچھا ''گھر ڈھونڈ رہی ہوں'' بچی نے جواب دیا۔ ان انکل نے بچی کو گود میں اٹھا لیا اور دوسرے انکل نے بستہ اور بوتل تھام لی۔
'' گھر اس طرف نہیں ہے گڑیا، دوسری طرف ہے۔'' پھر وہ آپس میں باتیں کرتے اور اسکول کی انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور ڈرائیورز کی بے پرواہی پر بحث کرتے، کسی شارٹ کٹ سے آفیسرز کالونی کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو گئے۔ بچی نے اب اطراف کو پہچان لیا تھا۔ وہ گود سے اتر کر بھاگ پڑی۔ ''وہ ہے میرا گھر'' اس نے خوشی سے بھاگنا شروع کر دیا۔ وہ دونوں گھر آئے اور امی جان کو سار واقعہ سنایا اور زور دیا کہ وہ ابو کو بتائیں کہ آج کتنا بڑا سانحہ ہو جاتا اگر وہ اتفاق سے ان کی بچی کو نہ ملتے۔ انہوں نے کہا کہ تقی شاہ صاحب کو اسکول انتظامیہ اور بس ڈرائیور کی شکایت کرنی چاہیے ۔ امی اسے گلے لگا کر رونے لگیں اور کچھ دیر بعد جب ابو گھر آئے تو امی کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا، تو امی سے پہلے بچی بولی،''ابو میں آج گم ہو گئی تھی، لیکن پھر مل گئی''۔ جی ہاں وہ بچی عابدہ تقی تھی جو آج بطورِ شاعرہ و افسانہ نگار یہ واقعہ سنا رہی ہیں، جو ان کے بچپن کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد وہ گویا ہوئیں۔
''ان دنوں میں گورنمنٹ کالج فار ویمن سیٹیلائٹ ٹائون میں تھرڈ ائیر میں پڑھتی تھی، جب ہمیں ایک بہت لائق فائق استاد انگلش کمپلسری پڑھانے کے لیے منتخب ہوئیں۔ یہ بیگم شفیق الرحمٰن تھیں، 'دجلہ'، 'حماقتیں' اور 'شگوفے 'والے شفیق الرحمان کی بیگم۔ وہ بہت سی زبانوں اور لٹریچرز سے واقف اور انگلش، اردو شاعری کی دل دادہ خاتون تھیں۔ ایک روز لارڈ بائرن کا ''اوڈ ٹُو اے گریشئین ارن'' پڑھاتے ہوئے انہیں نہ جانے کیا سوجھی، بولیں ''کلاس کی اسائنمینٹ یہ ہے کہ کل سب لڑکیاں اپنی اپنی ایک نظم لکھ کر لائیں' یہ کہتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھا، جہاں پھولوں سے لدا ہوا ایک درخت تھا۔ بولیں موضوع بھی میں ہی دے دیتی ہوں ''فلورل ٹری'' کے عنوان پر نظم لکھنی ہے۔ میں ان دنوں اردو شاعری کی مشق کرنے کی طرف مائل تھی اور کچھ نہ کچھ کر ہی لیتی تھی، لیکن اتنی بڑی ہستی کے سامنے انگریزی میں نظم! سوچ کر ہی روح کانپنے لگی۔
میں دو لائینیں لکھتی اور پھر انہیں کاٹ دیتی، نہیں یہ کم از کم معیاری شاعری نہیں ہے۔ میں سوچتی، ایسا کیسے لکھتے ہیں کہ جو واقعتاً کوئی تحریر کہلائے، میں مسلسل سوچ رہی تھی۔ پھر میں نے ''فلورل ٹری'' پر صرف اپنے تاثرات کو شاعرانہ لب و لہجہ دے دیا، لیکن وہ کوئی تجربے کی کیفیت سے گزرنے والی ایک طے شدہ ساعت تھی، جس نے تخلیق کے ذائقے سے آشنا کر دیا۔ اگلے روز میرے زرد چہرے پر اس وقت مسکراہٹ کے رنگ بکھر گئے جب انہوں نے کہا، عابدہ آپ کی پوئم کو میں ''دی بیسٹ پوئم آف دی ڈے'' کا ٹائیٹل دیتی ہوں۔ اپنی میڈم کا یہ اعلان مجھے ایک اعزاز سے کم نہیں لگتا اور نا قابل ِفراموش بھی، کہ اس نے مجھے سنجیدگی سے لکھنے کی طرف مائل کر دیا۔''
''وہ چھوٹا سا تھا گول گپے کی طرح اور پیارا سا، اس کی عمر پانچ سال تھی اور اس کا چہرہ بخار سے تپ رہا تھا۔ وہ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور سب کی توجہ کا مرکز۔ بخار کے عالم میں اس نے اپنی بڑی بہنوں سے ایک فرمائش کر دی۔ مجھے ماڈرن والی ''ٹرائی سائیکل'' چاہیے۔ اس کی بڑی بہنیں اس وقت اسکول میں آٹھویں اور ساتویں جماعت کی طالبات تھیں۔ ان دونوں نے اپنی پاکٹ منی ملائی، جو ایک سو روپے اور کچھ ریزگاری بنتی تھی اور وہ ٹرائی سائیکل ذرا منہگی تھی۔ انہیں یاد آیا ابھی کچھ دن پہلے ہی ان کے عید کے ڈریس سل کر آئے تھے، جو بہت دل کش تھے۔
ان کے سامنے والی پڑوسن آنٹی نے اپنی بچیوں کے لیے ان کی امی سے شاید ازراہِ مذاق کہ دیا تھا ''آپا یہ مجھے بیچ دیں۔ میری بچیوں کے لیے، میں ایسے نہیں بنا سکتی ہوں اور آپ ان کے لیے اور بنالیجے۔ وہ دونوں بھاگ کر آنٹی کے گھر گئیں اور انہیں منایا کہ وہ امی سے وہ ڈریسز لے لیں۔ پھر گھر آ کر امی سے کہا کہ وہ ڈریسسزآنٹی کو دے دیں اور پیسے ان دونوں کو دے دیں، ہم خود اپنی مرضی کے لباس لائیں گی۔ انہوں نے امی سے بہت ڈانٹ کھائی، لیکن آخر آنٹی وہ لباس لے گئیں اور امی کو پیسے دے گئیں۔
جن میں سے کچھ ان دونوں بہنوں نے امی سے لے لیے اور اگلے روز آنٹی کے ساتھ بازار چلی گئیں، واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں شاپنگ بیگز کی بجائے وہ منہگی سی ٹرائی سائیکل تھی، جو انہوں نے بھائی کو دکھائی تو وہ خوشی سے اچھل پڑا اور پھر رفتہ رفتہ وہ ٹھیک ہو گیا۔ انہوں نے عید پر بہت عام سے لباس پہنے، لیکن چھوٹا بھائی عید پر وہ سائیکل چلا کر بہت خوش ہوا۔ وہ بہنیں میں اور میر ی بڑی بہن نزہت ہیں اور وہ بچہ ہمارا چھوٹا بھائی فواذ تھا۔ امی فون پر ابا سے، جو ان دنوں شہر سے باہر تھے، شکایت کر رہی تھیں ''یہ کرنے کی انہیں کیا ضرورت تھی، آپ آتے تو خود بچے کو لا دیتے سائیکل۔'' ابو نے کہا ''لیکن بہن بھائیوں کی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیسے ہوتا، یہ تو ان کے لیے بھی ناقابلِ فراموش ہو گا، اور ابھی تک ہے۔''