عزت و شرف

’’تم اس شخص کو دیکھو جو مرتبے میں تم سے کم تر ہے۔‘‘

’’تم اس شخص کو دیکھو جو مرتبے میں تم سے کم تر ہے۔‘‘ فوٹو ایکسپریس

خودکو دوسروں سے برتر اور انہیں اپنے سے کمتر سمجھنا ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو اندر ہی اندر گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انسان کو اس بیماری کے لاحق ہونے کا پتا ہی نہیں چلتا، پتا تو اس وقت چلتا ہے جب بہت بڑا خسارہ سامنے آجاتا ہے، ورنہ اس سے پہلے تو انسان اپنی خود پسندی کے غرور اور گھمنڈ میں یہ سمجھتا رہتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں دوسروں سے افضل اور بالا ہے اور دوسرے اس کے سامنے حقیر اور معمولی ہیں۔

پھر یہ احساس اسے ساری زندگی غلط راستے پر ڈالے رکھتا ہے۔ اس کے اندر کی انا اور اس کا غرور اسے اپنی اصلیت کو سمجھنے ہی نہیں دیتا۔ اگر وہ اپنے آپ کو اور اپنی حقیقت کو پہچان لے تو کوئی مسئلہ ہی کھڑا نہ ہو۔ سب کچھ ٹھیک رہے اور ایسا انسان اچھی اور کامیاب زندگی گزارنے کے بعد دنیا سے اس طرح رخصت ہو کہ اس کے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو کہ اس نے اپنی پوری زندگی اپنے خالق اور مالک کے حکم اور اس کے رسول حضور کی تعلیمات کے مطابق گزاری ہے۔ چناں چہ وہ دنیا سے ہلکا پھلکا اور مطمئن ہوکر جائے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بہت سے نادان دوست
اپنے سے زیادہ دولت مند اور اپنے زیادہ با حیثیت انسان کو دیکھ کر نہ جانے کیوں تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان سے یہ برداشت ہی نہیں ہوتا کہ انہی جیسے ان کے دوسرے ساتھی کے پاس زیادہ وسائل ہوں اور زیادہ دولت ہو۔ کچھ حد سے زیادہ مغرور لوگ تو یہ برداشت ہی نہیں کرسکتے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص ان سے زیادہ حیثیت یا مرتبے والا ہو۔ وہ تو ہر لمحہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ بہرصورت ان سے ہر لحاظ سے کم حیثیت کے مالک ہوں۔

یہ دل کی ایک ایسی بیماری ہے جو آگے چل کر انسان کے لیے سرطان بن جاتی ہے اور اس سے انسان شب و روز روحانی اور جسمانی اذیت کا شکار رہتا ہے۔ اس کا دل و دماغ ہمہ وقت یہ منصوبے بناتا رہتا ہے کہ اس کا بھائی، دوست، عزیز یا رشتے دار کسی طرح پستی کے گڑھے میں گر جائے اور اس کے اچھے دن کبھی نہ آئیں۔

دوست اور بزرگ غور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ اپنے بندے کو دولت دینے، اس سے دولت واپس لینے یا چھیننے، اسے شہرت، عزت اور مرتبہ دینے اور واپس لینے کا سارا نظام پروردگار عالم نے اپنے اختیار میں رکھا ہے۔ مذکورہ بالا اوصاف انسان خود یا اپنی مہارت یا خوبی سے حاصل نہیں کرتا، بلکہ یہ تو اﷲ رب العزت کی عطا ہے، وہ جب اور جسے چاہتا ہے، اپنی نعمتوں سے نواز سکتا ہے اور جب چاہے انہیں واپس لے سکتا ہے۔ جب یہ معاملہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو کسی باحیثیت سے جلنے، حسد کرنے یا کڑھنے کا کیا جواز بنتا ہے؟

یہ انسان کی ایک ایسی غلطی ہے جو اسے دنیا میں تو ہمیشہ بے چین و بے قرار رکھتی ہے، آخرت میں بھی اس منفی سوچ کا جواب دینا ہوگا۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ سرور عالم نے ارشاد فرمایا:''تم میں سے جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو اس سے زیادہ مال دار اور اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو (اور اسے دیکھ کر اپنی حالت پر رنج و حسرت کا احساس ہو اور اس سے رشک و حسد پیدا ہوتے ہوں) تو اسے چاہیے کہ وہ اس آدمی پر نظر ڈالے جو اس سے کم تر درجے کا ہے۔'' (تاکہ اسے دیکھ کر اپنی حالت پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور نعمت عطا کرنے والے پروردگار سے خوش ہو)

ہمارے معاشرے کا عام رویہ یہ ہے کہ ہم جب کبھی کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جو ہم سے زیادہ حسین، زیادہ باحیثیت، زیادہ دولت مند، زیادہ اثر رسوخ والا ہو تو ہم اس سے جلنے لگتے ہیں۔ وہ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ یہ ایک المیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ اس بے چارے میں جو بھی خواص ہیں، ان میں اس کا اپنا کیا کمال ہے؟ یہ خصوصیات تو اسے اﷲ رب العزت نے عطا فرمائی ہیں۔ وہ جسے جو بھی دینا چاہے، دیدے اور نہ چاہے تو نہ دے یا اسے ان خصوصیات سے محروم کرنا چاہے تو کردے،


اس سے کون جواب طلب کرسکتا ہے؟ کس کی مجال ہے کہ اس کے سامنے سر اٹھا سکے۔ وہ نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے۔ اس کی مرضی جسے جو نعمت دینا چاہے دے دے۔ جب یہ بات طے ہوگئی تو پھر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ چاہے حسن ہو یا خوب صورتی، دولت ہو یا محلات، مقبولیت ہو یا شہرت سب اﷲ کی دین ہیں۔

ہم کسی سے محض اس لیے جلنے یا حسد کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ اﷲ نے اسے فلاں فلاں چیزیں کیوں دی ہیں اور ہمیں کیوں نہیں دیں یا یہ کہ ہمارے پاس فلاں فلاں چیزیں ہیں تو یہی اور ایسی ہی نعمتیں اﷲ پاک نے دوسرے کو کیوں دے دیں؟ یہ سراسر اﷲ کی نافرمانی اور گمراہی ہے۔ ہم یہ سب کچھ جانتے بھی ہیںکہ تمام عنایات اور نعمتیں اﷲ کی عطا ہیں، کسی بھی فرد سے جلنے یا حسد کرنے کا حق نہیں رکھتے۔

اہل ایمان مذکورہ بالا حدیث مبارکہ پر غور فرمائیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ معاشرے کے تمام افراد کو دنیاوی مال و متاع اور جاہ و حشمت کے باعث آپس میں بغض و حسد، رشک و حسرت اور بددلی و مایوسی سے بچانے کے لیے خاتم الانبیاءﷺنے بڑا نفسیاتی طریقہ تجویز فرمایا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو اپنے سے زیادہ مال دار اور اپنے سے زیادہ اچھی حیثیت، حالت اور مرتبے میں دیکھتا ہے تو اس کے اندر اس طرح کے جذبات پیدا ہوتے ہیں

جو اس کو بددل، مایوس، رنج خوردہ، حسرت زدہ اور تقدیر الٰہی کا شاکی بنادیتے ہیں۔ وہ بات بے بات اﷲ سے شکوہ شکایت کرنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس اس کے اندر حسد، جلن اور دوسروں سے آگے بڑھنے کا منفی جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، جس کے بعد وہ ایک دم بے لگام ہوجاتا ہے اور ہر طرح کی جائز و ناجائز کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں۔ اس موقع پر انسان اتنا بے صبرا ہوجاتا ہے کہ وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو اوپر لے جانے کی کوشش کرتا ہے

جس کا ایک تکلیف دہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں ایک افراتفری سی مچ جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے جلنے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگتے ہیں جس سے ایک شدید قسم کی مضر سماجی و معاشی دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔
اﷲ کے حبیب نے اس صورت حال سے بچنے کے لیے ہی مذکورہ بالا ہدایات ارشاد فرمائیں کہ اپنے سے بہتر کو دیکھ کر تم میں حسد کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے سے کم تر کو دیکھو! یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو اس سے زیادہ مال دار ہو اور اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا مالک ہو، اس سے زیادہ بلند مرتبہ رکھتا ہو اور اس سے زیادہ اچھے لباس اور زیادہ اچھے مکان میں رہتا ہو،

ساتھ ہی وہ شخص اس حقیقت سے بھی بے خبر ہو کہ اس آدمی کو حاصل شدہ یہ تمام دنیاوی خوبیاں دراصل آخرت کے اعتبار سے اس کے حق میں وبال کا درجہ رکھتی ہیں، کیوں کہ وہ انہی باتوں کی وجہ سے اگر ان کا استعمال جائز طور پر نہیں کرے گا تو آخرت میں اس کے لیے جواب دہ بھی ہوگا اور عذاب کا مستحق بھی قرار پائے گا۔ ایسے شخص کو ایسے انسان کو بھی دیکھنا چاہیے جو مال و متاع، شکل و صورت اور دنیا وی حیثیت میں اس سے کم درجے کا مالک ہے۔

ایک اور حدیث میں رسول مکرم کا فرمان ہے:''تم اس شخص کو دیکھو جو مرتبے میں تم سے کم تر ہے، اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو مرتبے میں تم سے برتر ہے۔ ایسا کرنا تمہارے لیے اس لیے بہتر ہے، تاکہ تم اس نعمت کو جو اﷲ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہے ، حقیر نہ جانو۔'' (مسلم)

یہ حدیث کس قدر فکر انگیز ہے۔ اگر انسان اﷲ تعالیٰ کی عطا اور اس کی عنایت پر راضی اور خوش ہوجائے تو اس میں صبر اور شکر کے جذبات پروان چڑھیں گے۔ ایسا انسان جب اپنے سے بہتر اور برتر انسان کو دیکھے گا تو وہ حکم الٰہی کے مطابق اس پر صبر کرے گا اور جب وہ اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے گا تو خوش ہوگا، اس میں شکر کا احساس پیدا ہوگا اور وہ بے اختیار اپنے رب کی عنایات پر اس کے حضور سجدۂ شکر ادا کرے گا۔

اہل ایمان کو چاہیے کہ ہمہ وقت اﷲ کی بخشی ہوئی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور معاشرے کے کمزور و محروم لوگوں کے لیے دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان پر بھی اپنی عنایات کی بارش کردے۔
Load Next Story