خوشحالی کیلیے ملازمت فراہمی پرتوجہ دی جائے جم یونگ کم
پوری دنیا میں برسرروزگار 3 ارب افراد میں سے نصف کم آمدن اور وقتی ملازمتیں کر رہے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں ملازمتیں ترقی کی بنیاد ہیں اور ان کا فائدہ صرف آمدنی سے بڑھ کر ہے، یہ غربت میں کمی، شہروں کے امور چلانے اور نوجوانوں کو تشدد کا متبادل فراہم کرنے کے حوالے سے اہم ہیں۔
یہ بات ورلڈ بینک کی جانب سے جمعہ کو جاری کردہ ''دی ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ 2013'' نامی رپورٹ میں کہی گئی۔ رپورٹ میں ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی میں مضبوط نجی شعبے کے کردار پر زور دیتے ہوئے ملازمتوں کی ترقی اور اخلاقیات کے فروغ میں اہمیت پر روشنی ڈالتی گئی ہے۔ ورلڈ بینک گروپ صدر جم یونگ کم نے اس حوالے سے کہاکہ ایک اچھی ملازمت انسان کی زندگی تبدیل کرسکتی ہے اور درست ملازمتیں پورے معاشرے کو تبدیل کرسکتی ہیں، حکومتوں کو غربت سے لڑنے اور خوشحالی کے فروغ کیلیے ملازمتوں کی فراہمی کو اپنی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ بنانے کی ضرورت ہے، حکومتوں کا نجی شعبے کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے جو مجموعی ملازمتوں کا 90 فیصد فراہم کرتا ہے۔
اس لیے چھوٹی کمپنیوں اور فارمز کی ترقی کیلیے ہمیں طریقے ڈھونڈنا ہونگے، ملازمت کا مطلب امید اور امن ہے اور یہ کمزور ممالک کو مستحکم بنا سکتی ہیں۔ 800سروے اور شماریاتی جائزوں کے بعد مرتب کردہ ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اندازاً 3 ارب سے زائد افراد کام کر رہے ہیں مگر ان میں سے نصف زراعت، چھوٹی گھریلو انٹرپرائزز یا حادثاتی و سیزنل یومیہ ملازمتیں کر رہے ہیں جہاں سیفٹی نیٹس بعض اوقات ہوتے ہی نہیں یا کم ہوتے ہیں اور اکثر ان کی آمدنی بھی معمولی ہوتی ہے، کئی ترقی پذیر ممالک میں جہاں کاشت کاری اور خودروزگار کا رجحان ہے اور سیفٹی نیٹس معتدل ہیں وہاں بیروزگاری کی شرح کم ہوسکتی ہے، ان مقامات پر بیشترلوگ زیادہ وقت کام کرتے ہیں مگر اپنی آمدنی سے اپنی ضروریات پوری نہیں کرپاتے اور وہاں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی معمول ہے، اس لیے ملازمتوں کی تعداد نہیں بلکہ معیار بھی اہم ہے۔
رپورٹ میں بہتری کیلیے حکومتوں کو تین مرحلوں پر مبنی تجویز پیش کی گئی ہے جس کے تحت پہلے ٹھوس بنیاد رکھنی ہوگی جس میں میکرواکنامک استحکام، سازگار کاروباری ماحول، انسانی سرمایہ اور قانون کی حکمرانی شامل ہے، دوسرے نمبر پر ایسی لیبر پالیسیاں نافذ کرنا ہونگی جو ملازمتوں کی فراہمی میں رکاوٹ نہ بنیں اور سب سے زیادہ خطرے کے شکار افراد کو آواز اور سماجی تحفظ فراہم کریں اور تیسرے نمبر پر حکومتوں کو ایسی ملازمتوں کی نشاندہی کرنی چاہیے جو ان کی ترقی کیلیے زیادہ بہترہوںاور نجی شعبے کے ذریعے ایسی ملازمتوں کی فراہمی کیلیے ان کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹانی چاہئیں۔
اس حوالے سے مخصوص چیلنجز کی سمجھ بہت ضروری ہے۔ اس موقع پر ورلڈ بنینک کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان راشد بن مسعود نے کہاکہ پاکستانی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب صرف 28 فیصد ہے اور یہ شہری علاقوں میں اس سے بھی کم ہے، گھریلو ذمے داریاں اور تعلیم کی کمی اس کی دوبڑی وجوہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان اور بھوٹان کے علاوہ پورے جنوبی ایشیا میں مجموعی ملازمتیں سال 2000 میں 47 کروڑ 30 لاکھ سے بڑھ کر سال 2010 میں 56 کروڑ 80 لاکھ ہوگئیں یعنی ماہانہ اوسطاً 8 لاکھ ملازمتوں کا اضاضہ ہوا۔ ورلڈ بینک جنوبی ایشیا ریجن کے ڈائریکٹر انسانی ترقی جیسکو ہنٹ چل کے مطابق پوری دنیا میں 62کروڑ نوجوان ایسے ہیں جو ملازمت کرتے ہیں نہ پڑھتے ہیں، دنیا بھر میں ملازمتوں کی شرح برقرار رکھنے کیلیے 15 سال میں 60 کروڑ نئی ملازمتیں فراہم کرنا ہونگی۔
یہ بات ورلڈ بینک کی جانب سے جمعہ کو جاری کردہ ''دی ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ 2013'' نامی رپورٹ میں کہی گئی۔ رپورٹ میں ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی میں مضبوط نجی شعبے کے کردار پر زور دیتے ہوئے ملازمتوں کی ترقی اور اخلاقیات کے فروغ میں اہمیت پر روشنی ڈالتی گئی ہے۔ ورلڈ بینک گروپ صدر جم یونگ کم نے اس حوالے سے کہاکہ ایک اچھی ملازمت انسان کی زندگی تبدیل کرسکتی ہے اور درست ملازمتیں پورے معاشرے کو تبدیل کرسکتی ہیں، حکومتوں کو غربت سے لڑنے اور خوشحالی کے فروغ کیلیے ملازمتوں کی فراہمی کو اپنی پالیسیوں کا مرکزی نکتہ بنانے کی ضرورت ہے، حکومتوں کا نجی شعبے کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے جو مجموعی ملازمتوں کا 90 فیصد فراہم کرتا ہے۔
اس لیے چھوٹی کمپنیوں اور فارمز کی ترقی کیلیے ہمیں طریقے ڈھونڈنا ہونگے، ملازمت کا مطلب امید اور امن ہے اور یہ کمزور ممالک کو مستحکم بنا سکتی ہیں۔ 800سروے اور شماریاتی جائزوں کے بعد مرتب کردہ ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اندازاً 3 ارب سے زائد افراد کام کر رہے ہیں مگر ان میں سے نصف زراعت، چھوٹی گھریلو انٹرپرائزز یا حادثاتی و سیزنل یومیہ ملازمتیں کر رہے ہیں جہاں سیفٹی نیٹس بعض اوقات ہوتے ہی نہیں یا کم ہوتے ہیں اور اکثر ان کی آمدنی بھی معمولی ہوتی ہے، کئی ترقی پذیر ممالک میں جہاں کاشت کاری اور خودروزگار کا رجحان ہے اور سیفٹی نیٹس معتدل ہیں وہاں بیروزگاری کی شرح کم ہوسکتی ہے، ان مقامات پر بیشترلوگ زیادہ وقت کام کرتے ہیں مگر اپنی آمدنی سے اپنی ضروریات پوری نہیں کرپاتے اور وہاں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی معمول ہے، اس لیے ملازمتوں کی تعداد نہیں بلکہ معیار بھی اہم ہے۔
رپورٹ میں بہتری کیلیے حکومتوں کو تین مرحلوں پر مبنی تجویز پیش کی گئی ہے جس کے تحت پہلے ٹھوس بنیاد رکھنی ہوگی جس میں میکرواکنامک استحکام، سازگار کاروباری ماحول، انسانی سرمایہ اور قانون کی حکمرانی شامل ہے، دوسرے نمبر پر ایسی لیبر پالیسیاں نافذ کرنا ہونگی جو ملازمتوں کی فراہمی میں رکاوٹ نہ بنیں اور سب سے زیادہ خطرے کے شکار افراد کو آواز اور سماجی تحفظ فراہم کریں اور تیسرے نمبر پر حکومتوں کو ایسی ملازمتوں کی نشاندہی کرنی چاہیے جو ان کی ترقی کیلیے زیادہ بہترہوںاور نجی شعبے کے ذریعے ایسی ملازمتوں کی فراہمی کیلیے ان کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹانی چاہئیں۔
اس حوالے سے مخصوص چیلنجز کی سمجھ بہت ضروری ہے۔ اس موقع پر ورلڈ بنینک کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان راشد بن مسعود نے کہاکہ پاکستانی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب صرف 28 فیصد ہے اور یہ شہری علاقوں میں اس سے بھی کم ہے، گھریلو ذمے داریاں اور تعلیم کی کمی اس کی دوبڑی وجوہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان اور بھوٹان کے علاوہ پورے جنوبی ایشیا میں مجموعی ملازمتیں سال 2000 میں 47 کروڑ 30 لاکھ سے بڑھ کر سال 2010 میں 56 کروڑ 80 لاکھ ہوگئیں یعنی ماہانہ اوسطاً 8 لاکھ ملازمتوں کا اضاضہ ہوا۔ ورلڈ بینک جنوبی ایشیا ریجن کے ڈائریکٹر انسانی ترقی جیسکو ہنٹ چل کے مطابق پوری دنیا میں 62کروڑ نوجوان ایسے ہیں جو ملازمت کرتے ہیں نہ پڑھتے ہیں، دنیا بھر میں ملازمتوں کی شرح برقرار رکھنے کیلیے 15 سال میں 60 کروڑ نئی ملازمتیں فراہم کرنا ہونگی۔