وہ ایک ’لکی ڈکار‘ اور ہم
اصل میں جو کوئی بھی ایسا بُرا فعل کررہا ہے یہ صرف اُس کی کرامت نہیں ہے بلکہ اُس کے پیچھے والدین کا بھی ہاتھ شامل ہے۔
JAMRUD:
دادا ابو آپ مجھے روزانہ کسی نہ کسی بات پر ٹوکتے ہیں، آج بتا ہی دیجئے کہ آپ کے زمانے میں نشست و برخاست کے کیا آداب تھے؟ آپ کے بزرگ آپ سے کس انداز میں پیش آتے تھے اور آپ کے روز و شب کیا تھے؟ اور کیا آپ کے زمانے میں کمپیوٹر نہیں تھا تو آپ لوگوں کا سوشل نیٹ ورک کیا تھا؟ کمپیوٹر کے نام پر دادا ابو نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگے بیٹا کمپیوٹر ہی نے تمہارا دماغ خراب کیا ہے۔ ہمارے زمانے میں کمپیوٹر تو نہیں تھا لیکن اس جیسا دماغ رکھنے والے لوگ تھے، محفل کے آداب ایسے تھے کہ جو شخص جس پہلو بیٹھ جاتا تا دمِ آخر بیٹھا رہتا، پتہ نہیں تمہاری نسل میں یہ بے چینی کہاں سے آگئی ہے۔
جوتوں سمیت ڈرائنگ روم میں گھسے آتے ہو، چپڑ چپڑ کھاتے ہو اور سچ پوچھو تو آج کے لوگوں کو کھانا پکانا بھی نہیں آتا۔ ریستوران اور ہوٹلوں پر چل رہے ہو۔ میاں ہمارے زمانے میں خالص چیزیں ملتی تھیں، میں اپنے بچپن میں بالٹی منہ سے لگا کر 5 لیٹر دودھ پی جاتا تھا۔ کل ہی تمہاری ماں سے میں نے اچار گوشت بنوایا تھا، میاں وہ گھر کا اچار مسالہ تو تھا نہیں، بازار کا ڈبے والا مسالہ استعمال کیا تھا، تمہاری ماں تو نہ دیکھ پائی لیکن میں نے کیڑے چلتے ہوئے دیکھ لئے تھے۔
بیٹا یہ بے چینی تمہارے اندر ملاوٹ والے کھانے سے ہورہی ہے۔ ہم سالوں میں کبھی بیمار ہوتے تھے اور تمہیں دیکھو تو شکل سے بیمار معلوم ہوتے ہو۔ یقیناً برگر ورگر کھا رہے ہوگے اور بھئی تم آسٹریا جانے کا خیال تو اب ذہن میں بھی نہیں لانا کیونکہ وہاں برگر کھانے کے بعد اگر زور سے ڈکار بھی لے لی تو تم پر جرمانہ عائد ہوجائے گا اور وہ بھی ڈالرز میں۔
کیا مطلب دادا ابو میں سمجھا نہیں؟ ارے تم نے وہ خبر نہیں سنی؟ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایک شخص نے جب کباب کھا کہا کر زوردار ڈکار لی تو اس پر پولیس نے 77 امریکی ڈالر جرمانہ عائد کردیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ محفل کے آداب کے خلاف تھا لیکن شاید یہ ڈکار لینا اس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا، کیونکہ اس کے بعد ڈونر کباب بنانے والی ایک کمپنی نے شاید اس ڈر سے کہ لوگ ان کے کباب کھانے سے اجتناب نہ کریں ڈکار لینے والے شخص کا بھرپور ساتھ دیا اور ساتھ ہی اس کو دو روز کے لئے ترکی بھی بھیج دیا جہاں اس کے ہوٹل، گھومنے، پھرنے کے تمام اخراجات اس کمپنی نے برداشت کئے، میرے خیال سے اس کمپنی کا کباب کھا کر اُس شخص کے پیٹ میں ہونے والی گرمی کو انہوں نے ترکی کی سیر کروا کر ٹھنڈک میں بدل دیا۔
لیکن میاں تمہارے ہاں چوہے، بلی، کتے اور گدھے کا گوشت کھلایا جاتا ہے، اس پر شرمندگی تو کجا اگر کوئی معصوم بچی برگر کھانے کے بعد مر بھی جائے تو کسی قسم کی کوئی معافی یا افسوس کرنے کے بجائے الٹا اسی کے خاندان کو دھونس اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ظلم تو یہ ہے اگر قانون ان کو دھر بھی لے تو کہتے ہیں گدھا اور کتا بھی تو جانور ہی ہیں ان کا گوشت کھانے سے کیسا نقصان؟ کیا تمہیں یاد نہیں ہے کہ جب اسی شہرِ کراچی میں ایک شخص نے اپنے خاندان کے ہمراہ میٹرک بورڈ آفس کے قریب مشہور و معروف ریستوران سے برگر لیا اور گھر جا کر کھایا تو پوری فیملی کی حالت غیر ہوگئی، نہ صرف یہ بلکہ اُن کی بیٹی اِس خراب برگر کے زہر کو برداشت نہ کر سکی اور دنیائے فانی سے کوچ کرگئی۔ اس کے بعد حق تو یہ تھا کہ وہ ہوٹل ہمیشہ کے لئے بند کردیا جاتا تاکہ وہ سب کے لئے نشانِ عبرت بن جائے، لیکن افسوس کے کچھ روز کے لئے تو حکومتی فوڈ انسپیکٹر نے دکان پر سیِل لگائی اور پھر اس کے اوپر یعنی نامعلوم مقام سے آنے والا دباؤ کہو یا پیسے کا کرشمہ جس نے کام دکھایا اور وہ دکان کچھ ہی دن بعد کھل گئی۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیسے قانون نافذ کرنے والے ہیں جو انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں، حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ بیمار، لاغر اور مردہ جانوروں کا گوشت کہاں کہاں بنتا ہے اور کس طرح یہ کھانے کے ہوٹلوں پر سپلائی ہوتا ہے لیکن یہ اپنا منہ بند رکھتے ہیں کیونکہ ان کو تو وہ سب نہیں کھانا ہوتا، کھاتے تو تمہارے جیسے نادان بچے اور ان کے والدین ہیں۔
پر دادا ابو ہمارے ملک میں تو پوری ایک فوڈ منسٹری ہے، وزیر صحت ہیں تو کیا وہ یہ سب نہیں دیکھتے؟ میرے بچے دیکھے تو وہ نہ جس کو کسی کی پروا ہو، ووٹ لینے کے وقت تو ان کو عوامی مسائل کا بہت خیال ہوتا ہے لیکن جب جیت جاتے ہیں تو سب کچھ بھول کر صرف ان کو کمانا یاد رہتا ہے اور شاید اس عدم توجہ کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صحت کی اتنی اہم وزارت ملنے کے بعد وزارت کی شان و شوکت دیکھ کر ان کے ضمیر سکون سے سو رہے ہوتے ہیں، اور یہ پھر اُسی وقت جاگتے ہیں جب اُن کے ہاتھ سے وزارت نکل جاتی ہے۔
اصل میں جو کوئی بھی ایسا بُرا فعل کررہا ہے یہ صرف اُس کی کرامت نہیں ہے بلکہ اُس کے پیچھے والدین کا بھی ہاتھ شامل ہے، ورنہ یہ کیسی اولادیں ہیں جو ملاوٹ کر رہی ہیں، صرف چند پیسوں کی خاطر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں اور اُن کے والدین اُن کا ہاتھ تک نہ روک سکیں؟ اِس لیے والدین کی درست تربیت انسان کو فرشتہ بھی بناسکتی ہے اور غلط تربیت شیطان بنانے سے بھی نہیں روک سکتی۔ پھر جن کو ان افراد سے باز پرس کرنی چاہئیے وہ یوں بے فکر ہیں کہ ان کے اپنے بچے تو امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں پلتے بڑھتے ہیں تو ان کو دوسروں کی کیا پروا؟ اللہ تمہاری نسل پر رحم کرے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دادا ابو آپ مجھے روزانہ کسی نہ کسی بات پر ٹوکتے ہیں، آج بتا ہی دیجئے کہ آپ کے زمانے میں نشست و برخاست کے کیا آداب تھے؟ آپ کے بزرگ آپ سے کس انداز میں پیش آتے تھے اور آپ کے روز و شب کیا تھے؟ اور کیا آپ کے زمانے میں کمپیوٹر نہیں تھا تو آپ لوگوں کا سوشل نیٹ ورک کیا تھا؟ کمپیوٹر کے نام پر دادا ابو نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگے بیٹا کمپیوٹر ہی نے تمہارا دماغ خراب کیا ہے۔ ہمارے زمانے میں کمپیوٹر تو نہیں تھا لیکن اس جیسا دماغ رکھنے والے لوگ تھے، محفل کے آداب ایسے تھے کہ جو شخص جس پہلو بیٹھ جاتا تا دمِ آخر بیٹھا رہتا، پتہ نہیں تمہاری نسل میں یہ بے چینی کہاں سے آگئی ہے۔
جوتوں سمیت ڈرائنگ روم میں گھسے آتے ہو، چپڑ چپڑ کھاتے ہو اور سچ پوچھو تو آج کے لوگوں کو کھانا پکانا بھی نہیں آتا۔ ریستوران اور ہوٹلوں پر چل رہے ہو۔ میاں ہمارے زمانے میں خالص چیزیں ملتی تھیں، میں اپنے بچپن میں بالٹی منہ سے لگا کر 5 لیٹر دودھ پی جاتا تھا۔ کل ہی تمہاری ماں سے میں نے اچار گوشت بنوایا تھا، میاں وہ گھر کا اچار مسالہ تو تھا نہیں، بازار کا ڈبے والا مسالہ استعمال کیا تھا، تمہاری ماں تو نہ دیکھ پائی لیکن میں نے کیڑے چلتے ہوئے دیکھ لئے تھے۔
بیٹا یہ بے چینی تمہارے اندر ملاوٹ والے کھانے سے ہورہی ہے۔ ہم سالوں میں کبھی بیمار ہوتے تھے اور تمہیں دیکھو تو شکل سے بیمار معلوم ہوتے ہو۔ یقیناً برگر ورگر کھا رہے ہوگے اور بھئی تم آسٹریا جانے کا خیال تو اب ذہن میں بھی نہیں لانا کیونکہ وہاں برگر کھانے کے بعد اگر زور سے ڈکار بھی لے لی تو تم پر جرمانہ عائد ہوجائے گا اور وہ بھی ڈالرز میں۔
کیا مطلب دادا ابو میں سمجھا نہیں؟ ارے تم نے وہ خبر نہیں سنی؟ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایک شخص نے جب کباب کھا کہا کر زوردار ڈکار لی تو اس پر پولیس نے 77 امریکی ڈالر جرمانہ عائد کردیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ محفل کے آداب کے خلاف تھا لیکن شاید یہ ڈکار لینا اس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا، کیونکہ اس کے بعد ڈونر کباب بنانے والی ایک کمپنی نے شاید اس ڈر سے کہ لوگ ان کے کباب کھانے سے اجتناب نہ کریں ڈکار لینے والے شخص کا بھرپور ساتھ دیا اور ساتھ ہی اس کو دو روز کے لئے ترکی بھی بھیج دیا جہاں اس کے ہوٹل، گھومنے، پھرنے کے تمام اخراجات اس کمپنی نے برداشت کئے، میرے خیال سے اس کمپنی کا کباب کھا کر اُس شخص کے پیٹ میں ہونے والی گرمی کو انہوں نے ترکی کی سیر کروا کر ٹھنڈک میں بدل دیا۔
لیکن میاں تمہارے ہاں چوہے، بلی، کتے اور گدھے کا گوشت کھلایا جاتا ہے، اس پر شرمندگی تو کجا اگر کوئی معصوم بچی برگر کھانے کے بعد مر بھی جائے تو کسی قسم کی کوئی معافی یا افسوس کرنے کے بجائے الٹا اسی کے خاندان کو دھونس اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ظلم تو یہ ہے اگر قانون ان کو دھر بھی لے تو کہتے ہیں گدھا اور کتا بھی تو جانور ہی ہیں ان کا گوشت کھانے سے کیسا نقصان؟ کیا تمہیں یاد نہیں ہے کہ جب اسی شہرِ کراچی میں ایک شخص نے اپنے خاندان کے ہمراہ میٹرک بورڈ آفس کے قریب مشہور و معروف ریستوران سے برگر لیا اور گھر جا کر کھایا تو پوری فیملی کی حالت غیر ہوگئی، نہ صرف یہ بلکہ اُن کی بیٹی اِس خراب برگر کے زہر کو برداشت نہ کر سکی اور دنیائے فانی سے کوچ کرگئی۔ اس کے بعد حق تو یہ تھا کہ وہ ہوٹل ہمیشہ کے لئے بند کردیا جاتا تاکہ وہ سب کے لئے نشانِ عبرت بن جائے، لیکن افسوس کے کچھ روز کے لئے تو حکومتی فوڈ انسپیکٹر نے دکان پر سیِل لگائی اور پھر اس کے اوپر یعنی نامعلوم مقام سے آنے والا دباؤ کہو یا پیسے کا کرشمہ جس نے کام دکھایا اور وہ دکان کچھ ہی دن بعد کھل گئی۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیسے قانون نافذ کرنے والے ہیں جو انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں، حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ بیمار، لاغر اور مردہ جانوروں کا گوشت کہاں کہاں بنتا ہے اور کس طرح یہ کھانے کے ہوٹلوں پر سپلائی ہوتا ہے لیکن یہ اپنا منہ بند رکھتے ہیں کیونکہ ان کو تو وہ سب نہیں کھانا ہوتا، کھاتے تو تمہارے جیسے نادان بچے اور ان کے والدین ہیں۔
پر دادا ابو ہمارے ملک میں تو پوری ایک فوڈ منسٹری ہے، وزیر صحت ہیں تو کیا وہ یہ سب نہیں دیکھتے؟ میرے بچے دیکھے تو وہ نہ جس کو کسی کی پروا ہو، ووٹ لینے کے وقت تو ان کو عوامی مسائل کا بہت خیال ہوتا ہے لیکن جب جیت جاتے ہیں تو سب کچھ بھول کر صرف ان کو کمانا یاد رہتا ہے اور شاید اس عدم توجہ کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صحت کی اتنی اہم وزارت ملنے کے بعد وزارت کی شان و شوکت دیکھ کر ان کے ضمیر سکون سے سو رہے ہوتے ہیں، اور یہ پھر اُسی وقت جاگتے ہیں جب اُن کے ہاتھ سے وزارت نکل جاتی ہے۔
اصل میں جو کوئی بھی ایسا بُرا فعل کررہا ہے یہ صرف اُس کی کرامت نہیں ہے بلکہ اُس کے پیچھے والدین کا بھی ہاتھ شامل ہے، ورنہ یہ کیسی اولادیں ہیں جو ملاوٹ کر رہی ہیں، صرف چند پیسوں کی خاطر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں اور اُن کے والدین اُن کا ہاتھ تک نہ روک سکیں؟ اِس لیے والدین کی درست تربیت انسان کو فرشتہ بھی بناسکتی ہے اور غلط تربیت شیطان بنانے سے بھی نہیں روک سکتی۔ پھر جن کو ان افراد سے باز پرس کرنی چاہئیے وہ یوں بے فکر ہیں کہ ان کے اپنے بچے تو امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں پلتے بڑھتے ہیں تو ان کو دوسروں کی کیا پروا؟ اللہ تمہاری نسل پر رحم کرے۔
''آمین''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔