پابندی کے باوجود پرانے کمپیوٹرز درآمد کیے جارہے ہیں نوید سراج
حکومت پرانی گاڑیوں کی طرز پر اسکریپ کمپیوٹرز کی درآمدات کیلیے بھی پالیسی بنائے۔
حکومت کوری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی طرزپر اسکریپ اور پرانے کمپیوٹرز کی درآمدات کیلیے بھی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات انٹیل پاکستان کے کنٹری منیجر نوید سراج نے ''ایکسپریس'' سے بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے بتایاکہ یورپی ممالک میں ای اسکریپ ایک سنگین معاملہ اختیار کرگیا ہے اور یورپ کو ای اسکریپ کواپنے ہاں ٹھکانے لگانا انتہائی مہنگا اورماحولیات کیلیے نقصان کاباعث بن گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک میں پڑے ہوئے ای اسکریپ کی ایک بڑی مقدار پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر یا غریب ممالک میں منتقل کی جا رہی ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر اور پاکستان کے ماحولیاتی قوانین کے تحت ای اسکریپ کی درآمد پر پابندی عائد ہے لیکن کم سے کم اخراجات میں زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کیلیے طویل دورانیے سے پاکستان میں اسکریپ شدہ پرانے کمپیوٹرز کی درآمدات جاری ہیں۔
پاکستان میں لائے جانیوالے ای اسکریپ کا بیشتر حصہ غیر محفوظ طریقے سے تلف کرتے ہوئے ان میں سے سونا چاندی جیسے قیمتی دھات تلاش کیا جاتا ہے لیکن تلفی کے اس عمل کے دوران ای اسکریپ سے ماحول میں پارہ سمیت دیگر زہریلے مادے شامل ہوجاتے ہیں۔ نوید سراج نے بتایا کہ پاکستان میں فی الوقت کمپیوٹرز کی خریدوفروخت پر 16فیصد سیلز ٹیکس نافذ ہے جس کے باعث نئے کمپیوٹرز کی قیمتیں بھی زائد ہیں جس کے سبب عام صارف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے پرانے کمپیوٹرز کی خریداری میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے کیونکہ نئے کمپیوٹرز بلحاظ قیمت مہنگے ہونے کی وجہ سے عام صارف کی دسترس سے دور ہیں۔
پاکستان میں اگر نئے کمپیوٹرز پرسیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے یا اسکی شرح کم کردی جائے تو اس اقدام سے بجلی کابحران کم ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ نئے کمپیوٹرز میں بجلی کے جدید نظام کی وجہ سے پرانے کمپیوٹرز کی نسبت بجلی کااستعمال بھی کم ہوتا ہے۔ انہوں نے واپڈا کے اشتراک سے کی جانے والے ایک ریسرچ رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ پرانے کمپیوٹرز نئے کمپیوٹرز کی نسبت 3گنا زائد بجلی حاصل کرتے ہیں جس سے بجلی کا استعمال بڑھتا جارہا ہے، پرانے کمپیوٹرز کی کارکردگی اور سافٹ ویئر آپریٹ کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہوتی ہے۔
یہ بات انٹیل پاکستان کے کنٹری منیجر نوید سراج نے ''ایکسپریس'' سے بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے بتایاکہ یورپی ممالک میں ای اسکریپ ایک سنگین معاملہ اختیار کرگیا ہے اور یورپ کو ای اسکریپ کواپنے ہاں ٹھکانے لگانا انتہائی مہنگا اورماحولیات کیلیے نقصان کاباعث بن گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک میں پڑے ہوئے ای اسکریپ کی ایک بڑی مقدار پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر یا غریب ممالک میں منتقل کی جا رہی ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر اور پاکستان کے ماحولیاتی قوانین کے تحت ای اسکریپ کی درآمد پر پابندی عائد ہے لیکن کم سے کم اخراجات میں زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کیلیے طویل دورانیے سے پاکستان میں اسکریپ شدہ پرانے کمپیوٹرز کی درآمدات جاری ہیں۔
پاکستان میں لائے جانیوالے ای اسکریپ کا بیشتر حصہ غیر محفوظ طریقے سے تلف کرتے ہوئے ان میں سے سونا چاندی جیسے قیمتی دھات تلاش کیا جاتا ہے لیکن تلفی کے اس عمل کے دوران ای اسکریپ سے ماحول میں پارہ سمیت دیگر زہریلے مادے شامل ہوجاتے ہیں۔ نوید سراج نے بتایا کہ پاکستان میں فی الوقت کمپیوٹرز کی خریدوفروخت پر 16فیصد سیلز ٹیکس نافذ ہے جس کے باعث نئے کمپیوٹرز کی قیمتیں بھی زائد ہیں جس کے سبب عام صارف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے پرانے کمپیوٹرز کی خریداری میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے کیونکہ نئے کمپیوٹرز بلحاظ قیمت مہنگے ہونے کی وجہ سے عام صارف کی دسترس سے دور ہیں۔
پاکستان میں اگر نئے کمپیوٹرز پرسیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے یا اسکی شرح کم کردی جائے تو اس اقدام سے بجلی کابحران کم ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ نئے کمپیوٹرز میں بجلی کے جدید نظام کی وجہ سے پرانے کمپیوٹرز کی نسبت بجلی کااستعمال بھی کم ہوتا ہے۔ انہوں نے واپڈا کے اشتراک سے کی جانے والے ایک ریسرچ رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ پرانے کمپیوٹرز نئے کمپیوٹرز کی نسبت 3گنا زائد بجلی حاصل کرتے ہیں جس سے بجلی کا استعمال بڑھتا جارہا ہے، پرانے کمپیوٹرز کی کارکردگی اور سافٹ ویئر آپریٹ کرنے کی صلاحیت بھی محدود ہوتی ہے۔