لکشمی مینشن۔۔۔۔۔۔۔ نامور شخصیات کامسکن
عظیم افسانہ نگارمنٹو کے سال میں نئی یادگار تو کیا قائم کی جاتی، پہلی بھی مٹائی جا رہی ہے.
صحیح تو یا د نہیں غالباً 95ء یا 96ء کی بات ہے ہم اپنے ایک دوست کے ساتھ ہال روڈ پر انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں ہچکولے کھار رہے تھے ۔
ایک تو گرمی سے بولائے ہوئے تھے اوپر سے ٹریفک کے رش،دھوئیں اور شورو غل نے ذہن کو مائوف کر کے رکھ دیا تھا ۔ ہال روڈ پر خریداری کرنے آئے تو بڑے شوق سے تھے مگر اس مارا ماری سے صرف آدھ پون گھنٹے میں ہی اعصاب شل ہو کر رہ گئے۔اس صورتحال سے گھبرا کر ہم اپنے دوست کے ساتھ ہال روڈ کی ایک گلی میں مڑ گئے تاکہ چند لمحے سکون کی سانس لے سکیں ،اس بیس ،تیس فٹ چوڑی گلی میں مڑتے ہی سامنے آہنی گیٹ نظر آیا ۔ آہنی سلاخوں کی دوسری طرف کا نظارہ آنکھوں کو بھلا لگا اس لئے چھوٹے دروازے سے پار آ گئے ۔
وہاں پہنچتے ہی ہمارے محسوسات اس بطخ کی طرح تھے جو بپھرے دریا سے نکل کر کسی پرسکون ندی میں پہنچ گئی ہو ۔گیٹ کی دائیں طرف دیوار کے ساتھ بنے چھوٹے سے تھڑے پر تنور بنا ہواتھا ، نان بائی کام نہ ہونے کی وجہ سے آرام سے ایک طرف بیٹھا تھا ۔ ہم بھی چھائوں میں رکھے بنچ پر بیٹھ گئے اور ارد گرد کا جائزہ لینے لگے۔ بلند و بالا درختوں سے گِھرے چھوٹے سے پارک کے چاروں طرف تین ،چار منزلہ عمارتیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بنائی گئی تھیں۔ فرحت کے ساتھ ساتھ ہمیں حیرانگی بھی تھی کہ اتنے گنجان آباد علاقے میں اتنی پرسکون جگہ آخر کیسے ہو سکتی ہے ۔تب ہمارے علم میں نہیں تھا کہ یہ کنج عافیت نامور شخصیات کا مسکن لکشمی مینشن ہے۔ ہم وہاں سکون کے چند لمحات گزار کر اپنی راہ ہو لئے۔
اب دوبارہ وہاں پر قدم رکھا تویقین نہ آیا کہ یہ وہی لکشمی مینشن ہے جس کو ہم اس گنجان آبا د علاقے میں کنج عافیت قرار دیتے تھے۔ لکشمی مینشن کا ایک حصہ گرا دیا گیاہے جبکہ باقی حصے اس خیال سے ہی لرزہ بر اندام نظر آ رہے ہیں ، مینشن کے ارد گر د بنے ہوئے کمر شل پلازوں کی بھرمار اور پھر مینشن کی طرف کھلنے والے ان کے راستوں اور دکانوں نے گویا یہاں کا سکھ چین چھین لیا ہے ، ہال روڈ پر خریداری کے لئے آنے والوں کا رش رہتا ہے ، ہال روڈ والا گیٹ ختم کر دیا گیا ہے، صرف نشان باقی ہیں، اس کے ساتھ بنے تنور کے قریب اب سموسے اورچپس والے نے بھی اڈہ جمالیا ہے، یوں وہاں اژدہام کی کیفیت رہتی ہے، اور تو اورگیٹ کھلا ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل بے دھڑک اندر آ تی ہے اور پارکنگ کے لئے چھوٹا لان استعمال کیا جا رہا ہے گو یا یہ ان کا پیدائشی حق ہو۔
مینشن کے وسط میں موجود پارک کو صرف درختوں یا تھوڑی بہت گھاس کی وجہ سے پارک کہا جا سکتا ہے ورنہ وہاں بھی ٹوٹے پھوٹے سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں،گویا یہ کباڑ خانے کا کام دے رہا ہے ۔ منہدم کئے گئے حصے کی ''رکھوالی '' کے لئے پہلوان نما افراد تعینات کئے گئے ہیں جو لکشمی مینشن میں داخل ہونے والے کو گھور کر دیکھتے ہیںحالانکہ ان کا حق صرف دیکھنے کا ہے گھورنے کا نہیں۔
لکشمی مینشن ریگل چوک، ہال روڈ اور بیڈن روڈ جیسے کاروباری علاقے سے گھری ہوئی ایسی جگہ ہے جسے نامور شخصیات کے مسکن اور خوبصورتی کی وجہ سے مال روڈ کا ماڈل ٹائون کہا جاتا تھا۔ پاکستان بننے سے قبل اس رہائشی علاقے کو لکشمی انشورنس کمپنی نے تعمیر کرایاتھا۔بر صغیر کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو 1948ء میں یہاں آ کر آباد ہوئے ، یہ جگہ نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد ،پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ، مستنصر حسین تارڑ،اداکارہ خورشید شاہد،اداکار سلمان شاہد، پروفیسر عائشہ جلال،پروفیسر جی ایم اثر،نامور صحافی طارق فاروق، مولانا محمد حسین آزاد کے پوتے محمد باقر،علامہ تاجور نجیب آبادی اور سینیٹر احسان الحق پراچہ جیسی نامور شخصیات کی بھی جائے رہائش رہی، اسی طرح بھارت کے وزیر پٹرولیم منی شنکر اور پدم شری ایوارڈ حاصل کرنے والی سونیتا بھی لکشمی مینشن میں پیدا ہوئیں۔
سعادت حسن منٹو کی بیٹی نگہت پٹیل ، نامور صحافی طارق فاروق کے بیٹے وقاص طارق اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر محمود ملک اب بھی یہاں رہائش پذیر ہیں ، یوں لکشمی مینشن کو فن و ادب اور ثقافت کا ایک چھوٹا سا گلستان بھی کہا جا سکتا ہے جو اس گنجان آباد علاقے میں ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
عظیم افسانہ نگارمنٹو نے اپنے ادبی شہہ پارے ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو اور ٹھنڈا گوشت لکشمی مینشن کی فضائوں میں تخلیق کئے۔وہ درودیواراوردرخت آج بھی موجود ہیں جنہوں نے اس عظیم افسانہ نگار کو دیکھا اورمحسوس کیا،وہ انھیں آج بھی یا د کرتے ہوں گے ۔ درختوں کی قدامت سے عیاں ہے کہ انھوں نے کم و بیش ایک صدی کا زمانہ تو ضرور دیکھا ہے، تب وہ ضرور جوان رہے ہوں گے اورمنٹو صاحب بھی جوان تھے، یوں ان کی آپس میں خوب نبھی ہو گی۔ کہتے ہیں منٹو صاحب بڑے دبنگ آدمی تھے جو دل میں آتا تھا پھٹاک سے کہہ دیتے تھے اور یہی خوبی ان کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے، یقینا ان کا وہ دبنگ لب و لہجہ لکشمی مینشن کے سایہ دار جھکے ہوئے درختوں کو آج بھی یا د ہوگا۔مگر جب یہ درودیوار جن سے منٹوصاحب کی یادیں جھلکتی ہیں نہ رہے تو منٹو کی گزری زندگی کا ایک اہم باب بند ہو جائے اور ان کے چاہنے والے ان کی زندگی کے بہت سے پہلوئوں سے ناآشنا رہیں گے۔ منٹو کی صاحبزادی محترمہ نگہت پٹیل نے بتایاکہ بھارت میں ان کے آبائی گائوں سمرالہ میں ان کے والد منٹو کے نام پر سڑک ، لائبریری اور میوزیم بنا یا گیا ہے۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک طرف تو ادبی حلقے منٹو کی سالگرہ کے سو سال مکمل ہونے پر رواں سال کو منٹو کے سال کے طور پر منا رہے ہیں تو دوسری طرف مادیت پرستانہ کاروباری سوچ فن و ثقافت کے اس چھوٹے سے چمنستان کو اجاڑنے کے انتظامات مکمل کئے بیٹھی ہے اور ایک حصہ منہدم کیا جا چکا ہے جبکہ باقی کی تیاریاں ہیں جس کا ایک اور ثبوت ملک معراج خالد کے فلیٹ کی فروخت ہے، یہ فلیٹ بھی اسی مافیا نے خریدا ہے جنہوں نے پہلے فلیٹ خرید کر گرائے ہیں اور رہائشی جگہ کو کمرشل بنانے کے لئے ایک پلاٹ کی شکل دے دی ہے،ارد گرد فٹ پاتھ پر بھی قبضہ کر لیا ہے، یوں دکھائی دیتا ہے کہ مینشن کا پارک بھی بالآخر اسی طرح ان کے قبضے میں چلا جائے گا۔
تاجر برادری کی طرف سے لکشمی مینشن میں تجاوزات اور بے جا مداخلت نے وہاں کے مکینوں کا جینا دوبھر کر دیاہے جس کی وجہ سے وہ اپنی جائیداد نہ چاہتے ہوئے بھی فروخت کرنے پر مجبور ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ لکشمی مینشن کو قومی ورثہ قرار دے کراصل شکل میں بحال کر ے اور جو جگہ فروخت ہو چکی ہے اسے فروخت کی گئی قیمت پر واپس حاصل کرکے لکشمی مینشن میںزندگی گزارنے والے مشاہیر کی یاد میں میوزیم یا لائبریری قائم کرے۔ یہ آنے والی نسلوں پر ان کا بہت بڑا احسان ہو گا۔
وزیراعلیٰ لکشمی مینشن کو قومی و ثقافتی ورثہ قرار دیں:مستنصر حسین تارڑ
جن گھروں یا علاقوں میں منٹو جیسے عظیم افراد رہائش پذیر رہے ہوں انھیں تو یاد گار کے طور پر محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ بیرون مما لک میں اس سلسلے میں بہت کام کیا گیا ہے،امریکی شاعر والٹ وٹمین ایک علاقے میں چند مہینے ہی ٹھہرا تھا کہ وہاں کے لوگوں نے اس کی رہائش گاہ کو یادگار کے طور محفوظ کر لیا۔ اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں۔ اور یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔اب ہمارے یہاں جو حکومت ہے اس کے بارے میں کیا کہوں ،افلاطون نے کہا ہے کہ اگر تاجر کو حکمرانی دے دی جائے تو وہ پورے ملک کو تجارت گاہ بنا دے گا کیونکہ اس کی سوچ ہی ویسی ہوتی ہے ،اسی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو منٹو کا سال منایا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس کی رہائش گاہ لکشمی مینشن کا وجود خطرے میں ہے اور کچھ حصہ گرایا بھی جا چکا ہے ۔ ایک مرتبہ مجھے ایک ٹی وی پروگرام کے سلسلے میں لکشمی مینشن جانے کا اتفاق ہوا ،80ء کے بعد چونکہ ہم لوگ وہاں سے شفٹ ہو گئے تھے تو عرصہ دراز تک ادھر جانے کا موقع نہ ملا ، اب جو وہاں گیا تو میں اپنا فلیٹ ڈھونڈتا ہی رہ گیا کیونکہ میرے فلیٹ کے با ہر 17نمبر کی جو پلیٹ تھی وہ بھی غائب تھی اور دروازہ بھی۔
جن لوگوں نے فلیٹ خرید ا تھا انھوں نے اسے رہا ئشی کی بجائے کمرشل جگہ میں تبدیل کر دیا تھا اور دروازہ دوسری طرف بنا لیا تھا،مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزرا تھا ۔ میری شادی اور بچوں کی پیدا ئش بھی وہیں کی ہے۔اس لئے دکھ ہونا فطری امر ہے۔خدارا حکومت اس کا نوٹس لے۔ وزیر اعلیٰ صاحب وہاں آئیں ، اسے قومی و ثقافتی ورثہ قرار دیں تاکہ عمارتوں کو گرانے کا جو سلسلہ شروع ہو چکا ہے وہ رک سکے اور جن افراد نے رہائشی علاقے کو کمرشل میں تبدیل کیا ہے ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں ۔
ایک تو گرمی سے بولائے ہوئے تھے اوپر سے ٹریفک کے رش،دھوئیں اور شورو غل نے ذہن کو مائوف کر کے رکھ دیا تھا ۔ ہال روڈ پر خریداری کرنے آئے تو بڑے شوق سے تھے مگر اس مارا ماری سے صرف آدھ پون گھنٹے میں ہی اعصاب شل ہو کر رہ گئے۔اس صورتحال سے گھبرا کر ہم اپنے دوست کے ساتھ ہال روڈ کی ایک گلی میں مڑ گئے تاکہ چند لمحے سکون کی سانس لے سکیں ،اس بیس ،تیس فٹ چوڑی گلی میں مڑتے ہی سامنے آہنی گیٹ نظر آیا ۔ آہنی سلاخوں کی دوسری طرف کا نظارہ آنکھوں کو بھلا لگا اس لئے چھوٹے دروازے سے پار آ گئے ۔
وہاں پہنچتے ہی ہمارے محسوسات اس بطخ کی طرح تھے جو بپھرے دریا سے نکل کر کسی پرسکون ندی میں پہنچ گئی ہو ۔گیٹ کی دائیں طرف دیوار کے ساتھ بنے چھوٹے سے تھڑے پر تنور بنا ہواتھا ، نان بائی کام نہ ہونے کی وجہ سے آرام سے ایک طرف بیٹھا تھا ۔ ہم بھی چھائوں میں رکھے بنچ پر بیٹھ گئے اور ارد گرد کا جائزہ لینے لگے۔ بلند و بالا درختوں سے گِھرے چھوٹے سے پارک کے چاروں طرف تین ،چار منزلہ عمارتیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بنائی گئی تھیں۔ فرحت کے ساتھ ساتھ ہمیں حیرانگی بھی تھی کہ اتنے گنجان آباد علاقے میں اتنی پرسکون جگہ آخر کیسے ہو سکتی ہے ۔تب ہمارے علم میں نہیں تھا کہ یہ کنج عافیت نامور شخصیات کا مسکن لکشمی مینشن ہے۔ ہم وہاں سکون کے چند لمحات گزار کر اپنی راہ ہو لئے۔
اب دوبارہ وہاں پر قدم رکھا تویقین نہ آیا کہ یہ وہی لکشمی مینشن ہے جس کو ہم اس گنجان آبا د علاقے میں کنج عافیت قرار دیتے تھے۔ لکشمی مینشن کا ایک حصہ گرا دیا گیاہے جبکہ باقی حصے اس خیال سے ہی لرزہ بر اندام نظر آ رہے ہیں ، مینشن کے ارد گر د بنے ہوئے کمر شل پلازوں کی بھرمار اور پھر مینشن کی طرف کھلنے والے ان کے راستوں اور دکانوں نے گویا یہاں کا سکھ چین چھین لیا ہے ، ہال روڈ پر خریداری کے لئے آنے والوں کا رش رہتا ہے ، ہال روڈ والا گیٹ ختم کر دیا گیا ہے، صرف نشان باقی ہیں، اس کے ساتھ بنے تنور کے قریب اب سموسے اورچپس والے نے بھی اڈہ جمالیا ہے، یوں وہاں اژدہام کی کیفیت رہتی ہے، اور تو اورگیٹ کھلا ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل بے دھڑک اندر آ تی ہے اور پارکنگ کے لئے چھوٹا لان استعمال کیا جا رہا ہے گو یا یہ ان کا پیدائشی حق ہو۔
مینشن کے وسط میں موجود پارک کو صرف درختوں یا تھوڑی بہت گھاس کی وجہ سے پارک کہا جا سکتا ہے ورنہ وہاں بھی ٹوٹے پھوٹے سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں،گویا یہ کباڑ خانے کا کام دے رہا ہے ۔ منہدم کئے گئے حصے کی ''رکھوالی '' کے لئے پہلوان نما افراد تعینات کئے گئے ہیں جو لکشمی مینشن میں داخل ہونے والے کو گھور کر دیکھتے ہیںحالانکہ ان کا حق صرف دیکھنے کا ہے گھورنے کا نہیں۔
لکشمی مینشن ریگل چوک، ہال روڈ اور بیڈن روڈ جیسے کاروباری علاقے سے گھری ہوئی ایسی جگہ ہے جسے نامور شخصیات کے مسکن اور خوبصورتی کی وجہ سے مال روڈ کا ماڈل ٹائون کہا جاتا تھا۔ پاکستان بننے سے قبل اس رہائشی علاقے کو لکشمی انشورنس کمپنی نے تعمیر کرایاتھا۔بر صغیر کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو 1948ء میں یہاں آ کر آباد ہوئے ، یہ جگہ نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد ،پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ، مستنصر حسین تارڑ،اداکارہ خورشید شاہد،اداکار سلمان شاہد، پروفیسر عائشہ جلال،پروفیسر جی ایم اثر،نامور صحافی طارق فاروق، مولانا محمد حسین آزاد کے پوتے محمد باقر،علامہ تاجور نجیب آبادی اور سینیٹر احسان الحق پراچہ جیسی نامور شخصیات کی بھی جائے رہائش رہی، اسی طرح بھارت کے وزیر پٹرولیم منی شنکر اور پدم شری ایوارڈ حاصل کرنے والی سونیتا بھی لکشمی مینشن میں پیدا ہوئیں۔
سعادت حسن منٹو کی بیٹی نگہت پٹیل ، نامور صحافی طارق فاروق کے بیٹے وقاص طارق اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر محمود ملک اب بھی یہاں رہائش پذیر ہیں ، یوں لکشمی مینشن کو فن و ادب اور ثقافت کا ایک چھوٹا سا گلستان بھی کہا جا سکتا ہے جو اس گنجان آباد علاقے میں ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
عظیم افسانہ نگارمنٹو نے اپنے ادبی شہہ پارے ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو اور ٹھنڈا گوشت لکشمی مینشن کی فضائوں میں تخلیق کئے۔وہ درودیواراوردرخت آج بھی موجود ہیں جنہوں نے اس عظیم افسانہ نگار کو دیکھا اورمحسوس کیا،وہ انھیں آج بھی یا د کرتے ہوں گے ۔ درختوں کی قدامت سے عیاں ہے کہ انھوں نے کم و بیش ایک صدی کا زمانہ تو ضرور دیکھا ہے، تب وہ ضرور جوان رہے ہوں گے اورمنٹو صاحب بھی جوان تھے، یوں ان کی آپس میں خوب نبھی ہو گی۔ کہتے ہیں منٹو صاحب بڑے دبنگ آدمی تھے جو دل میں آتا تھا پھٹاک سے کہہ دیتے تھے اور یہی خوبی ان کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے، یقینا ان کا وہ دبنگ لب و لہجہ لکشمی مینشن کے سایہ دار جھکے ہوئے درختوں کو آج بھی یا د ہوگا۔مگر جب یہ درودیوار جن سے منٹوصاحب کی یادیں جھلکتی ہیں نہ رہے تو منٹو کی گزری زندگی کا ایک اہم باب بند ہو جائے اور ان کے چاہنے والے ان کی زندگی کے بہت سے پہلوئوں سے ناآشنا رہیں گے۔ منٹو کی صاحبزادی محترمہ نگہت پٹیل نے بتایاکہ بھارت میں ان کے آبائی گائوں سمرالہ میں ان کے والد منٹو کے نام پر سڑک ، لائبریری اور میوزیم بنا یا گیا ہے۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک طرف تو ادبی حلقے منٹو کی سالگرہ کے سو سال مکمل ہونے پر رواں سال کو منٹو کے سال کے طور پر منا رہے ہیں تو دوسری طرف مادیت پرستانہ کاروباری سوچ فن و ثقافت کے اس چھوٹے سے چمنستان کو اجاڑنے کے انتظامات مکمل کئے بیٹھی ہے اور ایک حصہ منہدم کیا جا چکا ہے جبکہ باقی کی تیاریاں ہیں جس کا ایک اور ثبوت ملک معراج خالد کے فلیٹ کی فروخت ہے، یہ فلیٹ بھی اسی مافیا نے خریدا ہے جنہوں نے پہلے فلیٹ خرید کر گرائے ہیں اور رہائشی جگہ کو کمرشل بنانے کے لئے ایک پلاٹ کی شکل دے دی ہے،ارد گرد فٹ پاتھ پر بھی قبضہ کر لیا ہے، یوں دکھائی دیتا ہے کہ مینشن کا پارک بھی بالآخر اسی طرح ان کے قبضے میں چلا جائے گا۔
تاجر برادری کی طرف سے لکشمی مینشن میں تجاوزات اور بے جا مداخلت نے وہاں کے مکینوں کا جینا دوبھر کر دیاہے جس کی وجہ سے وہ اپنی جائیداد نہ چاہتے ہوئے بھی فروخت کرنے پر مجبور ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ لکشمی مینشن کو قومی ورثہ قرار دے کراصل شکل میں بحال کر ے اور جو جگہ فروخت ہو چکی ہے اسے فروخت کی گئی قیمت پر واپس حاصل کرکے لکشمی مینشن میںزندگی گزارنے والے مشاہیر کی یاد میں میوزیم یا لائبریری قائم کرے۔ یہ آنے والی نسلوں پر ان کا بہت بڑا احسان ہو گا۔
وزیراعلیٰ لکشمی مینشن کو قومی و ثقافتی ورثہ قرار دیں:مستنصر حسین تارڑ
جن گھروں یا علاقوں میں منٹو جیسے عظیم افراد رہائش پذیر رہے ہوں انھیں تو یاد گار کے طور پر محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ بیرون مما لک میں اس سلسلے میں بہت کام کیا گیا ہے،امریکی شاعر والٹ وٹمین ایک علاقے میں چند مہینے ہی ٹھہرا تھا کہ وہاں کے لوگوں نے اس کی رہائش گاہ کو یادگار کے طور محفوظ کر لیا۔ اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں۔ اور یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔اب ہمارے یہاں جو حکومت ہے اس کے بارے میں کیا کہوں ،افلاطون نے کہا ہے کہ اگر تاجر کو حکمرانی دے دی جائے تو وہ پورے ملک کو تجارت گاہ بنا دے گا کیونکہ اس کی سوچ ہی ویسی ہوتی ہے ،اسی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو منٹو کا سال منایا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس کی رہائش گاہ لکشمی مینشن کا وجود خطرے میں ہے اور کچھ حصہ گرایا بھی جا چکا ہے ۔ ایک مرتبہ مجھے ایک ٹی وی پروگرام کے سلسلے میں لکشمی مینشن جانے کا اتفاق ہوا ،80ء کے بعد چونکہ ہم لوگ وہاں سے شفٹ ہو گئے تھے تو عرصہ دراز تک ادھر جانے کا موقع نہ ملا ، اب جو وہاں گیا تو میں اپنا فلیٹ ڈھونڈتا ہی رہ گیا کیونکہ میرے فلیٹ کے با ہر 17نمبر کی جو پلیٹ تھی وہ بھی غائب تھی اور دروازہ بھی۔
جن لوگوں نے فلیٹ خرید ا تھا انھوں نے اسے رہا ئشی کی بجائے کمرشل جگہ میں تبدیل کر دیا تھا اور دروازہ دوسری طرف بنا لیا تھا،مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزرا تھا ۔ میری شادی اور بچوں کی پیدا ئش بھی وہیں کی ہے۔اس لئے دکھ ہونا فطری امر ہے۔خدارا حکومت اس کا نوٹس لے۔ وزیر اعلیٰ صاحب وہاں آئیں ، اسے قومی و ثقافتی ورثہ قرار دیں تاکہ عمارتوں کو گرانے کا جو سلسلہ شروع ہو چکا ہے وہ رک سکے اور جن افراد نے رہائشی علاقے کو کمرشل میں تبدیل کیا ہے ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں ۔