دو چہرے

ہم ایک ایسی منفرد قوم ہیں جو سیاہ کو سیاہ کہنے کے خلاف ہے

fatimaqazi7@gmail.com

KARACHI:
ہم ایک ایسی منفرد قوم ہیں جو سیاہ کو سیاہ کہنے کے خلاف ہے۔ ہمارے دو چہرے ہیں۔ ایک وہ جہاں عورتوں پر تشدد ہوتا ہے، ان کے چہروں پہ تیزاب پھینک کر مردانگی کی تسکین کی جاتی ہے۔ غیرت کے نام پر کوئی بھی رشتہ دار کسی بھی عورت کو قتل کر سکتا ہے۔ عورتوں کو گلیوں، کوچہ و بازاروں میں برہنہ گھمایا جاتا ہے۔

غریب عورتوں کو زمیندار اور جاگیردار زبردستی غلام بنا کر رکھتے ہیں۔ ان سے بیگار لی جاتی ہے۔ جائیداد ہتھیانے کے لیے ایک دوسرے کا خون بہا دیا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی بیگار لی جاتی ہے۔ پڑھی لکھی ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ عموماً سینئرز اور باس کا رویہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ غلط باتوں پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ جو آقا کی مرضی کے آگے اپنی خاندانی مجبوریوں کی وجہ سے گھٹنے ٹیک دے وہ خوشحال اور جو عزت بچانا چاہے وہ بے روزگار۔

سرکاری دفتروں میں بلاجھجک ہر کام کے عِوض رشوت طلب کی جاتی ہے۔ جائز کام بغیر کچھ دیے ہونا بالکل ممکن نہیں۔ فائلوں میں پیسے لگانے پڑتے ہیں۔ کمزور پیسوں والی فائلیں چھ چھ ماہ تک سڑتی رہتی ہیں۔ بغیر پیسوں کا تو وجود ہی مٹا دیا جاتا ہے۔

اسلام کے نام پر بننے والے اس منفرد ملک میں اقربا پروری، میرٹ کا قتل عام، جعلی ڈگریوں کا کاروبار بام عروج پر۔ سیاست دانوں کے بیرونی دوروں کی عیاشیاں، ان کی شاہ خرچیاں، ان کے اللے تللے خاندانوں اور کاسہ لیسوں کے ساتھ دنیا کے خود ساختہ دورے۔ وہ بھی مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام و طعام کے ساتھ۔ جمہوریت کے نام پر عوام پر ظلم کا بازار گرم۔ اسپتالوں میں دوائیں نایاب۔ آکسیجن کی سہولتیں ناپید۔ وینٹی لیٹر غائب۔ جعلی دواؤں کی بھرمار، دوائیں بنانے والی کمپنیوں پہ کوئی روک ٹوک یا کوئی قانون لاگو نہیں۔ ''انڈر دی ٹیبل'' تمام معاملات پہلے ہی طے کر لیے جاتے ہیں اور اپنی جان وزیر باتدبیر یہ کہہ کر چھڑا لیتے ہیں کہ ''دوائیں بنانے والی کمپنیاں ہماری بات نہیں مانتیں، انھوں نے دواؤں میں 50 تا 70 فیصد اضافہ اپنی مرضی سے کیا ہے۔

حکومت کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں''۔ تو پھر حکومت ہے کہاں؟ چوروں اور ڈکیتوں کا ٹولہ ہے۔ ہر کسی کے پیچھے کوئی نہ کوئی اسٹیبلشمنٹ موجود، کہیں مذہبی جماعتیں، کہیں سیاسی اکھاڑے۔ کام سب کا صرف مال بنانا۔

اور اب آتے ہیں اس چہرے کی طرف جو کبھی کسی نے دیکھا ہی نہیں، یعنی نیکی، ایمانداری، عوام کی محبت، قیامت کا خوف۔ کچھ نہیں ہر شخص کسی نہ کسی جرم کا شریک کار۔ جس چہرے کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا اس سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا، کیونکہ پاکستان کی سابقہ اور موجودہ صورت حال اس کی عکاس ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس سیاہ اور بدنما تیزاب زدہ چہروں اور رویوں کی عکاسی کسی فلم میں، کسی ڈاکومنٹری میں یا ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں کی جاتی ہے۔


اس سچی منظرکشی اور ان کے سدباب کے لیے جب کوئی جی دار ہمت والا میدان میں اترتا ہے تو ''دانش وروں'' اور کچھ دیگر عوامل کی قومی غیرت فوراً بیدار ہو جاتی ہے اور تیر و تفنگ لے کر فوراً میدان میں اتر آتے ہیں، اسلام خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ ہر چیز میں مغرب کی سازش نظر آنے لگتی ہے کہ یہ چہرے اگر بدنما ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ان کو سامنے نہیں لانا چاہیے۔ اگر عورتوں کو زندہ دفن کرنا کسی قبیلے کی روایت ہے تو کسی کو آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ عورتوں پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے۔

سرکاری دفتروں میں لوگ پنشن اور دیگر جائز کاموں کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی رشوتیں دینے پہ مجبور ہیں تو ہونے دو۔ یہ تو سسٹم کا حصہ ہے۔ سسٹم کو نہ چھیڑو۔ بلکہ یہ کہو کہ برائی کو برائی نہ کہو۔ یہاں سب اچھا ہے۔ اگر کوئی ٹی وی چینل یا اخبار ہمت کر کے بدنما داغوں کو نمایاں کرے تو ان کے دفتروں کو آگ لگا دو، توڑ پھوڑ کرو اور اپنی ہٹ دھرمی کے آگے کسی کو نہ ٹکنے دو۔

اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔ ہمارا مذہب جس کا بظاہر اتنا واویلا دکھائی دیتا ہے۔ وہ تو برائی کو ختم کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عرب کی وحشی وادیوں میں کوئی مسیحا نسخۂ کیمیا لے کر نہ آتا۔ کون سی برائی تھی جو عرب کے بدوؤں میں نہیں تھی۔ لیکن اسلامی تعلیمات پہ عمل اور اسلامی قانون پہ سختی سے عمل پیرا ہونے پر آج وہی باکمال اور لاجواب نظر آتے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے ہر اچھے کام کو جسے بیرونی دنیا بھی سراہتی ہے اور حکومت بھی۔ اسے ایک گروہ نہیں مانتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر گندی اور بدنما چیز پہ پردہ ڈال دو، قالین کے نیچے چھپا دو۔ ارے صاحب! جو جیسا ہو گا ویسا ہی تو نظر آئے گا۔ گندے نالوں سے تعفن ہی اٹھے گا، خواہ لاکھ آپ پرفیوم کا اسپرے کر دیں۔ کوڑے کے ڈھیر پہ مخملیں غلاف ڈال دیں، بدبو پھر بھی پھیلے گی۔

ٹی وی چینلز کی بھی عجب مجبوری ہے۔ حکمرانوں کے ایجنڈے پہ کام کریں تو عوام میں غصہ اور نفرت پھیلتا ہے۔ بدنمائی اور برائی کو واضح طور پر دکھائیں تو حکومت اور کچھ دیگر عوامل کے ماتھوں پہ بل پڑ جاتے ہیں۔ کریں تو کیا کریں؟ زیادہ حساس اور سنجیدہ لوگ دل برداشتہ ہوکر راستہ بدل لیتے ہیں۔ کوئی امریکا جا بستا ہے، کوئی کینیڈا۔ جن کے وسائل نہیں ہوتے کہ ملک چھوڑ سکیں ان کے قلم تڑوا دیے جاتے ہیں۔ لفظوں پہ پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں کہ ''سچ کیوں لکھا؟''۔ قبضہ مافیا کو اجاگر کیوں کیا؟ تجاوزات کی بھرمار کے پیچھے کون کون سی طاقت ور ہستیاں پیر اور سیاستدان ہیں۔ ان کو بے نقاب کیوں کیا۔

زمینوں پہ قبضے کر کے جعلی فائلیں تیار کرنے والوں کی نشاندہی کیوں کی؟ پولیس افسران باقاعدہ منشیات فروشوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اسی لیے جوئے کے اڈے ختم نہیں ہوتے کوئی بڑے سے بڑا جرم بغیر کسی طاقت ور کی سرپرستی کے وجود میں نہیں آ سکتا۔ اگر یہ کہہ دو کہ تمام بھتہ خور، اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیوں اور دیگر جرائم میں حکومت کے بعض سرکردہ نمایندے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل ہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ بات کسی کو بھی ہضم نہیں ہو گی۔

بس سیاہ کو سفید کہتے رہیے اور ہر برائی کو ''اپنی تہذیب و ثقافت'' کا علم بردار بتا کر ان پر لعنت ملامت کیجیے جو پاکستان کے چہرے سے ان بدنما دھبوں کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان سب کو اتنا تنگ کیجیے کہ وہ دل شکستہ ہو کر گھر میں بیٹھ جائیں اور معاشرے کی جڑوں میں لگی دیمک کی طرف سے آنکھیں بند کر کے صرف اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچیں۔ یہی پاکستان کا نیا چہرہ ہے۔ تیزاب زدہ برائیوں سے بھرپور۔
Load Next Story