10ارب ڈالرکے گیس منصوبوں پرکام ہورہاہے شاہدخاقان
آرایل این جی کی بدولت ملک کے گیس سسٹم کی سپلائی میں40 فیصد اضافہ ہوا ہے، شاہدخاقان
وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ سی این جی سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ اور ایل پی جی سیکٹر کو ریگولیٹ کر رہے ہیں۔
ہفتہ کو ایوان صنعت و تجارت ملتان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تاپی گیس پائپ لائن اور پاک ایران گیس پائپ لائن پر تیزی سے کام ہو رہاہے، گیس سپلائی کیلیے انفرااسٹرکچر بنانے پر بھرپورتوجہ مرکوز کردی گئی ہے، اسی طرح 2 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک اوربڑی پائپ لائن پر کام ہورہاہے جس سے تاپی اور ایرانی گیس ملکی سسٹم میں شامل ہو کر استعمال ہوگی، گیس بحران کے خاتمے کیلیے10 ارب ڈالر کی لاگت سے مختلف منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام ہورہاہے، ہم نے گیس انتہائی سستی لی ہے۔
اب قطر سے ہر ماہ3 جہاز آیا کریں گے اور اس آرایل این جی کی بدولت ملک کے گیس سسٹم کی سپلائی میں40 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان کی ماضی کی 3 حکومتیں10 سال تک بھی آرایل این جی کے معاہدے کرنے میں کامیاب نہیںہوسکیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کوچارٹر آف اکانومی پردستخط کرنا چاہئیں۔
حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن معاشی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے، پنجاب میں آرایل این جی کی بنیاد پر 3 پاورپلانٹس لگ رہے ہیں جن سے 2017 میں ہی 3600 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی، اس سے لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ انھوں نے بتایاکہ اب کوئی بھی شخص آر ایل این جی درآمد اوراستعمال کرسکتاہے۔
سوئی گیس پائپ لائنز کو چارجز ادا کرنا پڑیں گے۔انہوں نے کہاکہ سی پیک منصوبہ سے انرجی کے مسائل حل اورتجارتی شعبہ ترقی کرے گا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان میں بہت ہی کم ہیں، اسی لیے بجلی کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی آچکی ہے، ملک میں تیل کی 1لاکھ بیرل پیداواراور تقریباً 8لاکھ بیرل روزانہ کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہاکہ کمرشل اورانڈسٹریل کنکشن پر پابندی اٹھانے کی اب حکومت اوراوگرا کو درخواست کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب گیس کی کمی نہیں بلکہ سپلائی سسٹم کی بدولت لائن کے آخر میں موجود کنزیومر کوگیس کی کمی ہے تاہم رواں سال دسمبرتک 1200 ملین کیوبک فٹ گیس کی سپلائی کی نئی پائپ لائن ڈال دی جائے گی، ڈیزل میں ملاوٹ کا پتا چلانے اور اس کے تدارک کے لیے انٹری ٹرمینل پر ہی اس میں ایک کیمیکل ملا دیا جائے گا جو''ڈی این اے'' ٹیسٹ جیسا کام کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ ملکی یوریا مہنگی اور درآمدی سستی ہونے کی شکایت کاحل یہی ہے کہ درآمدی کوزیادہ استعمال کریں پھرلوکل کمپنیاں خود ہی قیمت کم کردیں گی۔
ہفتہ کو ایوان صنعت و تجارت ملتان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تاپی گیس پائپ لائن اور پاک ایران گیس پائپ لائن پر تیزی سے کام ہو رہاہے، گیس سپلائی کیلیے انفرااسٹرکچر بنانے پر بھرپورتوجہ مرکوز کردی گئی ہے، اسی طرح 2 ارب ڈالر کی لاگت سے ایک اوربڑی پائپ لائن پر کام ہورہاہے جس سے تاپی اور ایرانی گیس ملکی سسٹم میں شامل ہو کر استعمال ہوگی، گیس بحران کے خاتمے کیلیے10 ارب ڈالر کی لاگت سے مختلف منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام ہورہاہے، ہم نے گیس انتہائی سستی لی ہے۔
اب قطر سے ہر ماہ3 جہاز آیا کریں گے اور اس آرایل این جی کی بدولت ملک کے گیس سسٹم کی سپلائی میں40 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان کی ماضی کی 3 حکومتیں10 سال تک بھی آرایل این جی کے معاہدے کرنے میں کامیاب نہیںہوسکیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کوچارٹر آف اکانومی پردستخط کرنا چاہئیں۔
حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن معاشی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے، پنجاب میں آرایل این جی کی بنیاد پر 3 پاورپلانٹس لگ رہے ہیں جن سے 2017 میں ہی 3600 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی، اس سے لوڈشیڈنگ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ انھوں نے بتایاکہ اب کوئی بھی شخص آر ایل این جی درآمد اوراستعمال کرسکتاہے۔
سوئی گیس پائپ لائنز کو چارجز ادا کرنا پڑیں گے۔انہوں نے کہاکہ سی پیک منصوبہ سے انرجی کے مسائل حل اورتجارتی شعبہ ترقی کرے گا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان میں بہت ہی کم ہیں، اسی لیے بجلی کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی آچکی ہے، ملک میں تیل کی 1لاکھ بیرل پیداواراور تقریباً 8لاکھ بیرل روزانہ کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہاکہ کمرشل اورانڈسٹریل کنکشن پر پابندی اٹھانے کی اب حکومت اوراوگرا کو درخواست کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب گیس کی کمی نہیں بلکہ سپلائی سسٹم کی بدولت لائن کے آخر میں موجود کنزیومر کوگیس کی کمی ہے تاہم رواں سال دسمبرتک 1200 ملین کیوبک فٹ گیس کی سپلائی کی نئی پائپ لائن ڈال دی جائے گی، ڈیزل میں ملاوٹ کا پتا چلانے اور اس کے تدارک کے لیے انٹری ٹرمینل پر ہی اس میں ایک کیمیکل ملا دیا جائے گا جو''ڈی این اے'' ٹیسٹ جیسا کام کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ ملکی یوریا مہنگی اور درآمدی سستی ہونے کی شکایت کاحل یہی ہے کہ درآمدی کوزیادہ استعمال کریں پھرلوکل کمپنیاں خود ہی قیمت کم کردیں گی۔