درد کدھر ہوتا ہے
پورا جسم سرتاپا دکھ رہا ہے۔ سر میں درد ہے، آنکھیں دکھ رہی ہیں، کان بہہ رہے ہیں، شدید درد ہے
پورا جسم سرتاپا دکھ رہا ہے۔ سر میں درد ہے، آنکھیں دکھ رہی ہیں، کان بہہ رہے ہیں، شدید درد ہے۔ دانت، مسوڑھوں میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں، پتے میں انتہا درجے کا درد ہے، الٹرا ساؤنڈ کرایا ہے۔ ایک بڑا سا کنچے کی گولی جتنا پتھر پتے میں بیٹھا ہوا ہے، ساتھ ہی ساتھ انفیکشن کا بھی پتا چل گیا ہے، فوری آپریشن ضروری ہے ورنہ انفیکشن جگر کو خراب کرسکتا ہے، مگر آپریشن سے پہلے سارے جہاں کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ دیکھا جا رہا ہے کہ خرابیاں کہاں کہاں ہیں۔
MRI ایک بڑا تفصیلی ٹیسٹ ہوتا ہے۔ ایک سرنگ نما مشین میں مریض کو باندھ کر ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر مختلف میوزک ردھم کی آوازیں سنائی جاتی ہیں، لمبی سانس لے کر سانس بند کروائی جاتی ہے۔ تین مرتبہ لمبی سانس اور پھر بند کا عمل کیا جاتا ہے۔ پھر دل والے ڈاکٹر کے پاس مریض کو بھیجا جاتا ہے۔
ECG دیکھ کر بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر کہتا ہے ECG میں کچھ گڑبڑ ہے۔ میں آپریشن (پتے کا) سے پہلے مریض کو بے ہوش کرنے کا خطرہ مول نہیں لوں گا۔ مریض کا ECKO ٹیسٹ کروایا جائے۔ مریض ECKO کے لیے چلا جاتا ہے۔ آدھ گھنٹے تک ٹیسٹ جاری پھر اسپیشلسٹ دل کا ڈاکٹر ہے۔ مریض کی ریڑھ کی ہڈی میں بھی درد ہے۔ ہاتھ پیر بھی دکھ رہے ہیں، نہ لیٹا جاتا ہے، نہ بیٹھا جاتا ہے، نہ چلا جاتا ہے ۔ پیروں کے تلوے جل رہے ہیں، معدہ خراب ہے، کھانا صحیح سے ہضم نہیں ہوتا، ہاتھوں کی پوروں میں چیونٹیاں سی سرسراتی محسوس ہوتی ہیں، رات میں سوتے سوتے پاؤں کی نس کھنچ جاتی ہے۔ مریض سراپا درد بن کر رہ گیا ہے۔
میرے وطن کا حال بھی اسی مریض جیسا ہے۔ مریض کا سر خیبرپختونخوا، سینہ، پیٹ، بازو، گردن، ریڑھ کی ہڈی، پتّا، جگر، پھیپھڑے، دل، آنکھیں، کان، ناک، منہ، دانت یہ سب پنجاب۔ چھوٹی آنت، بڑی آنت، ٹانگیں، پاؤں یہ سندھ اور بلوچستان۔
خیبرپختونخوا سے لے کر پنجاب، سندھ، بلوچستان کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ 68 سال پہلے جو بیماریاں لگی تھیں ان کو نہ دیکھا گیا اور مزید بیماریاں لگتی رہیں اور آج بھی نئی نئی بیماریاں مریض کو لاحق ہو رہی ہیں۔ یہ تو مریض ہی بڑا سخت جان ہے کہ ادھ موا ہوکر بھی سانس لیے جا رہا ہے۔
بس سانس ہی لے رہا ہے۔ باقی تو درد ہی درد ہے۔ روز ایک نیا روگ اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ کوئی باہر سے بیماریاں لیے آجاتا ہے اور اپنے ہی راگ الاپنے شروع کردیتا ہے۔ پہلے ہی اس وطن کو بیماریاں لگانے والے کچھ لوگ باہر بیٹھے ہیں۔ وہ باہر بیٹھے بیٹھے بیمار مریض کو اور کچوکے لگاتے رہتے ہیں۔ اپنے اندر بھی مریض وطن کو نئی نئی بیماریاں لگانے والے کم نہیں ہیں۔ ایسے ظالم، بے درد پوری دنیا میں چند ہی ملکوں میں پائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ ہمارے ملک پاکستان میں یہ ''ناپاک'' بہت زیادہ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
یہ بے درد، سنگدل لوگ پورے ملک کو کھا گئے، ان کا پیٹ ہے کہ پھر بھی بھرتا نہیں، وطن کی بوٹیاں نوچ ڈالیں، خون چوس لیا، پھر بھی انھیں ''ادھ موئے'' پر رحم نہیں آتا۔ بیرون ملک ان کے خزانے اندرون ملک ان کی تجوریاں، اللہ کی زمین پر یہ قابض، اقتدار کے ایوانوں میں یہ کالے بگے چور لٹیرے بیٹھے ہیں۔ پہلے ان کے باپ دادے ایوانوں میں بیٹھتے تھے اب انھی کے پوتے بیٹے بیٹھے ہیں۔ ان کالے بگے لوگوں نے اس ادھ موئے ملک کو اپنے لیے زندہ رکھا ہوا ہے اور یہ جب چاہیں گے اسے مار ڈالیں گے۔
اس وطن کا ECKO, MRI ، ایکسرے، ECG، الٹراساؤنڈ، بلڈ ٹیسٹ، یورین ٹیسٹ، اسٹول ٹیسٹ، انجیوگرافی سب کچھ ہوچکا۔ سب جانتے ہیں۔ وطن کا بڑا نازک حال ہے۔ مگر پھر جھوٹ بولے جا رہے ہیں، بحث برائے بحث کرے جا رہے ہیں۔ ذو معنی فقرے بولے جا رہے ہیں۔ جھوٹی اناؤں، فریب، دغا بازی... ارے چھوڑو! یہ تو کچھ بھی نہیں۔ یہ تو بندے مار دیتے ہیں، بوری بند، صندوق بند لاشیں۔ جالب کا شعر:
یہ کون سی بستی ہے جہاں چاند نہ سورج
کس درجہ بری رات ہے کس درجہ برا دن
وہ جمشید دستی ایک ممبر اسمبلی ہے، وہ کمال آدمی ہے۔ مشتاق گورمانی کھروں، اور بھی ہوں گے ایسے بڑے بڑے جاگیرداروں میں گھرا ہوا یہ دستی کیسے جیت جاتا ہے۔ سنا یہی ہے کہ یہ عام غریب سا آدمی ہے اور اس نے جاگیرداروں کے علاقوں میں غریب انقلاب برپا کردیا ہے۔ ایسا ہی انقلاب ضروری ہے ورنہ اس نظام میں حالات نہیں بدلیں گے یہی جانے پہچانے داڑھی والے یا داڑھی منے، آتے رہیں گے اور سرتاپا درد میں مبتلا وطن یوں ہی سسکتا رہے گا۔ اور معالج اس سے پوچھتے رہیں گے اور یہ بیمار وطن کہتا رہے گا:
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں درد کدھر ہوتا ہے
ایک جا ہو تو بتاؤں کہ اِدھر ہوتا ہے
اس بہت اچھے شعر کے شاعر کا نام میرے علم میں نہیں، کوئی پتا لگائے تو مجھے بھی بتائے۔
MRI ایک بڑا تفصیلی ٹیسٹ ہوتا ہے۔ ایک سرنگ نما مشین میں مریض کو باندھ کر ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر مختلف میوزک ردھم کی آوازیں سنائی جاتی ہیں، لمبی سانس لے کر سانس بند کروائی جاتی ہے۔ تین مرتبہ لمبی سانس اور پھر بند کا عمل کیا جاتا ہے۔ پھر دل والے ڈاکٹر کے پاس مریض کو بھیجا جاتا ہے۔
ECG دیکھ کر بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر کہتا ہے ECG میں کچھ گڑبڑ ہے۔ میں آپریشن (پتے کا) سے پہلے مریض کو بے ہوش کرنے کا خطرہ مول نہیں لوں گا۔ مریض کا ECKO ٹیسٹ کروایا جائے۔ مریض ECKO کے لیے چلا جاتا ہے۔ آدھ گھنٹے تک ٹیسٹ جاری پھر اسپیشلسٹ دل کا ڈاکٹر ہے۔ مریض کی ریڑھ کی ہڈی میں بھی درد ہے۔ ہاتھ پیر بھی دکھ رہے ہیں، نہ لیٹا جاتا ہے، نہ بیٹھا جاتا ہے، نہ چلا جاتا ہے ۔ پیروں کے تلوے جل رہے ہیں، معدہ خراب ہے، کھانا صحیح سے ہضم نہیں ہوتا، ہاتھوں کی پوروں میں چیونٹیاں سی سرسراتی محسوس ہوتی ہیں، رات میں سوتے سوتے پاؤں کی نس کھنچ جاتی ہے۔ مریض سراپا درد بن کر رہ گیا ہے۔
میرے وطن کا حال بھی اسی مریض جیسا ہے۔ مریض کا سر خیبرپختونخوا، سینہ، پیٹ، بازو، گردن، ریڑھ کی ہڈی، پتّا، جگر، پھیپھڑے، دل، آنکھیں، کان، ناک، منہ، دانت یہ سب پنجاب۔ چھوٹی آنت، بڑی آنت، ٹانگیں، پاؤں یہ سندھ اور بلوچستان۔
خیبرپختونخوا سے لے کر پنجاب، سندھ، بلوچستان کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ 68 سال پہلے جو بیماریاں لگی تھیں ان کو نہ دیکھا گیا اور مزید بیماریاں لگتی رہیں اور آج بھی نئی نئی بیماریاں مریض کو لاحق ہو رہی ہیں۔ یہ تو مریض ہی بڑا سخت جان ہے کہ ادھ موا ہوکر بھی سانس لیے جا رہا ہے۔
بس سانس ہی لے رہا ہے۔ باقی تو درد ہی درد ہے۔ روز ایک نیا روگ اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ کوئی باہر سے بیماریاں لیے آجاتا ہے اور اپنے ہی راگ الاپنے شروع کردیتا ہے۔ پہلے ہی اس وطن کو بیماریاں لگانے والے کچھ لوگ باہر بیٹھے ہیں۔ وہ باہر بیٹھے بیٹھے بیمار مریض کو اور کچوکے لگاتے رہتے ہیں۔ اپنے اندر بھی مریض وطن کو نئی نئی بیماریاں لگانے والے کم نہیں ہیں۔ ایسے ظالم، بے درد پوری دنیا میں چند ہی ملکوں میں پائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ ہمارے ملک پاکستان میں یہ ''ناپاک'' بہت زیادہ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
یہ بے درد، سنگدل لوگ پورے ملک کو کھا گئے، ان کا پیٹ ہے کہ پھر بھی بھرتا نہیں، وطن کی بوٹیاں نوچ ڈالیں، خون چوس لیا، پھر بھی انھیں ''ادھ موئے'' پر رحم نہیں آتا۔ بیرون ملک ان کے خزانے اندرون ملک ان کی تجوریاں، اللہ کی زمین پر یہ قابض، اقتدار کے ایوانوں میں یہ کالے بگے چور لٹیرے بیٹھے ہیں۔ پہلے ان کے باپ دادے ایوانوں میں بیٹھتے تھے اب انھی کے پوتے بیٹے بیٹھے ہیں۔ ان کالے بگے لوگوں نے اس ادھ موئے ملک کو اپنے لیے زندہ رکھا ہوا ہے اور یہ جب چاہیں گے اسے مار ڈالیں گے۔
اس وطن کا ECKO, MRI ، ایکسرے، ECG، الٹراساؤنڈ، بلڈ ٹیسٹ، یورین ٹیسٹ، اسٹول ٹیسٹ، انجیوگرافی سب کچھ ہوچکا۔ سب جانتے ہیں۔ وطن کا بڑا نازک حال ہے۔ مگر پھر جھوٹ بولے جا رہے ہیں، بحث برائے بحث کرے جا رہے ہیں۔ ذو معنی فقرے بولے جا رہے ہیں۔ جھوٹی اناؤں، فریب، دغا بازی... ارے چھوڑو! یہ تو کچھ بھی نہیں۔ یہ تو بندے مار دیتے ہیں، بوری بند، صندوق بند لاشیں۔ جالب کا شعر:
یہ کون سی بستی ہے جہاں چاند نہ سورج
کس درجہ بری رات ہے کس درجہ برا دن
وہ جمشید دستی ایک ممبر اسمبلی ہے، وہ کمال آدمی ہے۔ مشتاق گورمانی کھروں، اور بھی ہوں گے ایسے بڑے بڑے جاگیرداروں میں گھرا ہوا یہ دستی کیسے جیت جاتا ہے۔ سنا یہی ہے کہ یہ عام غریب سا آدمی ہے اور اس نے جاگیرداروں کے علاقوں میں غریب انقلاب برپا کردیا ہے۔ ایسا ہی انقلاب ضروری ہے ورنہ اس نظام میں حالات نہیں بدلیں گے یہی جانے پہچانے داڑھی والے یا داڑھی منے، آتے رہیں گے اور سرتاپا درد میں مبتلا وطن یوں ہی سسکتا رہے گا۔ اور معالج اس سے پوچھتے رہیں گے اور یہ بیمار وطن کہتا رہے گا:
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں درد کدھر ہوتا ہے
ایک جا ہو تو بتاؤں کہ اِدھر ہوتا ہے
اس بہت اچھے شعر کے شاعر کا نام میرے علم میں نہیں، کوئی پتا لگائے تو مجھے بھی بتائے۔