کراچی کی سیاسی صورتحال
تقسیم ہند کے وقت مہاجر خاندان اپنے ہمراہ علم و فن اور تہذیب و تمدن کا جو سرمایہ لے کر آئے
تقسیم ہند کے وقت مہاجر خاندان اپنے ہمراہ علم و فن اور تہذیب و تمدن کا جو سرمایہ لے کر آئے اس کی بدولت پورے صوبہ سندھ کی رونق اور خوشحالی کو چار چاند لگے۔ سب نے دیکھا کہ پورے پاکستان سے جس کو روزگار کی ضرورت ہوئی وہ کراچی چلا آیا، کراچی کی صنعت و تجارت اور تعمیرات نے پورے پاکستان کو اپنے اندر سمولیا۔
آج دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں کی تعداد میں یہاں آباد ہیں، لیکن کراچی کا دل چھوٹا نہیں ہوا۔ مگر ان مہاجرین کے ساتھ ماضی میں جو ظلم و ستم ہوئے، وہ ملکی تاریخ کے سیاہ دھبے ہیں، دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا، مہاجر افسران کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا، سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا، اب کراچی پر کنٹرول کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے جارہے ہیں۔
مہاجروں سے منسوب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی ان گنی چنی سیاسی پارٹیوں میں شمار ہوتی ہے جو کہ مڈل کلاس کی نمایندگی کرتی ہیں، تاہم جو بات اس کی بہت ہی منفرد ہے وہ ہے اس کا کسی سیکیورٹی ایجنسی کی طرح کا ڈسپلن، جس کی خلاف ورزی ناقابل برداشت ہوتی ہے، رابطہ کمیٹی، سندھ تنظیمی کمیٹی، زونز، یونٹس میں کام کرنے والے عہدیداران و کارکنان کا احتساب ہوتا ہے اور غلطی پر سزا بھی دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ پارٹی آج تک دھڑے بندی کا شکار نہیں ہوئی، بس یہی بات بعض حلقوں کو کھٹکتی ہے کہ یہ پارٹی کیا آسمان سے اتری ہے؟ اس میں دھڑے بندی کیوں نہیں؟
گزشتہ 30 سال سے یہی کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح متحدہ میں دھڑے بندی کی جائے۔ ماضی میں ایم کیو ایم توڑنے کی کوشش کی گئی اور حقیقی کے نام سے آفاق احمد اور ان کے ساتھیوں نے الگ ایم کیو ایم بنائی، ان کے درمیان مسلح تصادم ہوئے، آفاق احمد کو جیل بھی کاٹنی پڑی۔ اب ایک بار پھر دھڑے بندی کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایم کیو ایم کے سابق کراچی ناظم کو دبئی سے راتوں رات کراچی لاکر نئی پارٹی بنانے کا اعلان کس کی شہ پر کرایا گیا، یہ سب جانتے ہیں۔ چند سال سے دل برداشتہ مصطفیٰ کمال نے دل کھول کر کراچی کے عوام کے سامنے رو رو کر اپنی بے بسی کی داستان سنائی۔ مصطفیٰ کمال دبئی میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے اچانک افق سیاست پر اس طرح نمودار ہوئے کہ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں خبروں کی بہار آگئی۔ صحافیوں اور میڈیا پرسن نے ماضی کا حساب چکتا کیا، لمبی چوڑی نشستیں سجائی گئیں، تبصرے ہوئے، ایسا لگ رہا تھا کہ وطن عزیز کے تمام مسائل میں سب سے اہم مسئلہ مصطفیٰ کمال کی نئی پارٹی ہے۔ کئی گھنٹے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے پریس کانفرنس کی، ایم کیو ایم کے قائد پر ''را'' کا ایجنٹ، قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے۔
مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی مشترکہ پریس کانفرنس پر جو فوری ردعمل متحدہ نے نائن زیرو سے اسی شام کو دیا وہ ناقابل یقین حد تک میڈیا، اسٹبلشمنٹ، سیاسی حلقوں اور سول سوسائٹی کو حیرت زدہ کرگیا۔ دونوں منحرف سابق رہنماؤں کے سنگین الزامات کو رابطہ کمیٹی لندن و پاکستان کے کنوینر ندیم نصرت نے مائنس الطاف فارمولے کو عملی جامہ پہنانے سے تعبیر کیا اور الزمات کو رد کردیا۔
جہاں تک الطاف حسین پر الزامات کا تعلق ہے تو اس سے زیادہ سنگین الزام ماضی میں لگائے جاچکے ہیں۔ علیحدہ ملک جناح پور بنانے کی بات بھی کی گئی اور کراچی میں ٹارچر سیل ملنے، جہاں مقتدرہ ادارہ کے ایک افسر کو ٹارچر کرکے قتل کرنے کا الزام تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پارٹی کے چیئرمین عظیم طارق کو قتل کروایا گیا۔ جہاں تک مائنس ون فارمولے کی بات ہے تو ایم کیو ایم ہی نہیں ماضی میں دوسری جماعتوں میں بھی اس حوالے سے توڑ پھوڑ کی گئی۔
پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ کی لام قاف مارنے والے ابھی جانتے ہی نہیں ہیں کہ اس تحریک کی تنظیمی بنیاد کس قدر مضبوط ہے اور اسے توڑنے کے لیے پلان بھی جب تک الطاف حسین سے نہیں بنوایا جائے گا یہ جماعت ختم نہیں ہوسکتی۔ ایم کیو ایم کا قلعہ کوئی کمزور قلعہ نہیں، اس کی اٹھان احساس محرومی کے نتیجے میں ردعمل کے طور پر ہوئی ہے اور اس طرح کے نظریاتی قلعوں کی ہر اینٹ اپنی اپنی بقاء کے لیے دوسری اینٹ سے جڑ جاتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اردو بولنے والے ایم کیو ایم کی خاطر قربان ہوئے ہیں اور اب ان کی آیندہ نسلوں کے لیے اس تنظیم یا اس کی قیادت سے بغاوت کرنا اس قدر آسان نہیں۔
یہ بات بہرحال کسی بھی قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہے کہ الطاف حسین کے چاہنے والوں کی تعداد درجنوں، سیکڑوں، یا ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ متحدہ قیادت اور کارکنوں کے درمیان جو رشتہ مدتوں سے قائم ہے اس پر کوئی موسم اثر انداز ہی نہیں ہوتا، یہ ایک عجیب رشتہ جس پر کبھی حالات نے دباؤ ڈالا نہ ہی فاصلوں نے دوریاں پیدا کیں۔ مصطفی کمال کی نئی پارٹی کی سیاسی حیات اور کامیابی یا ناکامی سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ کی تنظیمی ساخت، اس پر الطاف حسین کی گرفت اور ماضی میں مختلف سیاسی و مذہبی تنظیموں سے الگ ہونے والے دھڑوں کا حشر یاد کرکے اس نئی جماعت سے امیدیں وابستہ کرنا بھی ہنوز درست نہ ہوگا۔
کراچی لہو رنگ اور ہمہ جہتی عذابوں سے گزرا ایک مظلوم شہر ہے، اگرچہ اسے عروس البلاد کہتے ہیں، مگر اس نئی سیاسی جماعت کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی بقا، اس کی سالمیت اور عوامی یک جہتی سیاسی جماعتوں کا نصب العین ہونا چاہیے، کراچی میں جو کچھ ہوا اس کی تاریخ نہ دہرائی جائے۔
کوئی شک نہیں کہ مصطفیٰ کمال باکمال شخصیت کے مالک ہیں، جنھیں ایم کیو ایم کی صفوں میں الطاف حسین کے بعد زیادہ مقبولیت حاصل تھی، کراچی کے لوگوں کی اکثریت ان سے محبت کرتی ہے اور پاکستان بھر میں بطور ناظم ان کی کارکردگی کو سراہا جارہا ہے۔ انیس قائم خانی بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، وہ تنظیمی مزاج کے آدمی ہیں، ایک لمبے عرصے تک ایم کیو ایم چلاتے رہے۔
یوں ان کا تنظیمی تجربہ اور مصطفیٰ کمال کی عوامی شخصیت سے ایک بڑی اچھی متوازن جوڑی بن جاتی ہے، لیکن نتائج کا انحصار ان دونوں کی مستقبل کی حکمت عملی، خود ایم کیو ایم کی جوابی حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی مقتدر قوتوں کی حکمت عملی پر ہوگا۔ مصطفیٰ کمال بھرپور تیاری کے بغیر میدان میں اترے، پارٹی کا اعلان کیا اور صدارتی نظام کا مطالبہ کیا۔ یہ اقدامات تاثر دیتے ہیں کہ وہ مقتدر قوتوں کے اشارے پر میدان پر آئے ہیں۔
مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی کراچی کی سیاست میں انٹری کی ٹائمنگ بڑی اہمیت رکھتی ہے، ان کی نئی پارٹی کے جھنڈے کے پیچھے کسی ڈنڈے کی طاقت ظاہر ہوتی ہے، وہ طاقت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود متحدہ کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد اب متحدہ کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنا چاہتی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور عروس البلاد کی حیثیت رکھتا ہے، پر کنٹرول کرنے کا گیم کھیلا جارہا ہے۔ اب اردو بولنے والوں کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ ماضی کی طرح آپس میں تقسیم ہوتے ہیں یا پھر اس سازش کو ناکام بناکر مزید طاقت حاصل کرکے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
کیا مصطفیٰ کمال ایسے قدر آور لیڈر ہیں جو الطاف حسین کے متبادل ہوسکتے ہیں؟ اس بارے میں پیش گوئی قبل از وقت ہوگی۔ ابھی تو یہ بھی واضح نہیں کہ اس سارے کھیل تماشے کا پس منظر کیا ہے؟ ایسا کرکے کیا مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ کوششیں اپنی جگہ مگر ہماری سیاسی جماعتوں کا اسٹرکچر ایسا ہے کہ یہ ایک لیڈر کے گرد ہی گھومتی ہیں جن کا مکمل ہولڈ ہوتا ہے اور انھیں علیحدہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بات ایم کیو ایم کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سچی ہے۔
آج دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں کی تعداد میں یہاں آباد ہیں، لیکن کراچی کا دل چھوٹا نہیں ہوا۔ مگر ان مہاجرین کے ساتھ ماضی میں جو ظلم و ستم ہوئے، وہ ملکی تاریخ کے سیاہ دھبے ہیں، دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا، مہاجر افسران کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا، سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا، اب کراچی پر کنٹرول کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے جارہے ہیں۔
مہاجروں سے منسوب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی ان گنی چنی سیاسی پارٹیوں میں شمار ہوتی ہے جو کہ مڈل کلاس کی نمایندگی کرتی ہیں، تاہم جو بات اس کی بہت ہی منفرد ہے وہ ہے اس کا کسی سیکیورٹی ایجنسی کی طرح کا ڈسپلن، جس کی خلاف ورزی ناقابل برداشت ہوتی ہے، رابطہ کمیٹی، سندھ تنظیمی کمیٹی، زونز، یونٹس میں کام کرنے والے عہدیداران و کارکنان کا احتساب ہوتا ہے اور غلطی پر سزا بھی دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ پارٹی آج تک دھڑے بندی کا شکار نہیں ہوئی، بس یہی بات بعض حلقوں کو کھٹکتی ہے کہ یہ پارٹی کیا آسمان سے اتری ہے؟ اس میں دھڑے بندی کیوں نہیں؟
گزشتہ 30 سال سے یہی کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح متحدہ میں دھڑے بندی کی جائے۔ ماضی میں ایم کیو ایم توڑنے کی کوشش کی گئی اور حقیقی کے نام سے آفاق احمد اور ان کے ساتھیوں نے الگ ایم کیو ایم بنائی، ان کے درمیان مسلح تصادم ہوئے، آفاق احمد کو جیل بھی کاٹنی پڑی۔ اب ایک بار پھر دھڑے بندی کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایم کیو ایم کے سابق کراچی ناظم کو دبئی سے راتوں رات کراچی لاکر نئی پارٹی بنانے کا اعلان کس کی شہ پر کرایا گیا، یہ سب جانتے ہیں۔ چند سال سے دل برداشتہ مصطفیٰ کمال نے دل کھول کر کراچی کے عوام کے سامنے رو رو کر اپنی بے بسی کی داستان سنائی۔ مصطفیٰ کمال دبئی میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے اچانک افق سیاست پر اس طرح نمودار ہوئے کہ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں خبروں کی بہار آگئی۔ صحافیوں اور میڈیا پرسن نے ماضی کا حساب چکتا کیا، لمبی چوڑی نشستیں سجائی گئیں، تبصرے ہوئے، ایسا لگ رہا تھا کہ وطن عزیز کے تمام مسائل میں سب سے اہم مسئلہ مصطفیٰ کمال کی نئی پارٹی ہے۔ کئی گھنٹے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے پریس کانفرنس کی، ایم کیو ایم کے قائد پر ''را'' کا ایجنٹ، قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے۔
مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی مشترکہ پریس کانفرنس پر جو فوری ردعمل متحدہ نے نائن زیرو سے اسی شام کو دیا وہ ناقابل یقین حد تک میڈیا، اسٹبلشمنٹ، سیاسی حلقوں اور سول سوسائٹی کو حیرت زدہ کرگیا۔ دونوں منحرف سابق رہنماؤں کے سنگین الزامات کو رابطہ کمیٹی لندن و پاکستان کے کنوینر ندیم نصرت نے مائنس الطاف فارمولے کو عملی جامہ پہنانے سے تعبیر کیا اور الزمات کو رد کردیا۔
جہاں تک الطاف حسین پر الزامات کا تعلق ہے تو اس سے زیادہ سنگین الزام ماضی میں لگائے جاچکے ہیں۔ علیحدہ ملک جناح پور بنانے کی بات بھی کی گئی اور کراچی میں ٹارچر سیل ملنے، جہاں مقتدرہ ادارہ کے ایک افسر کو ٹارچر کرکے قتل کرنے کا الزام تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پارٹی کے چیئرمین عظیم طارق کو قتل کروایا گیا۔ جہاں تک مائنس ون فارمولے کی بات ہے تو ایم کیو ایم ہی نہیں ماضی میں دوسری جماعتوں میں بھی اس حوالے سے توڑ پھوڑ کی گئی۔
پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ کی لام قاف مارنے والے ابھی جانتے ہی نہیں ہیں کہ اس تحریک کی تنظیمی بنیاد کس قدر مضبوط ہے اور اسے توڑنے کے لیے پلان بھی جب تک الطاف حسین سے نہیں بنوایا جائے گا یہ جماعت ختم نہیں ہوسکتی۔ ایم کیو ایم کا قلعہ کوئی کمزور قلعہ نہیں، اس کی اٹھان احساس محرومی کے نتیجے میں ردعمل کے طور پر ہوئی ہے اور اس طرح کے نظریاتی قلعوں کی ہر اینٹ اپنی اپنی بقاء کے لیے دوسری اینٹ سے جڑ جاتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اردو بولنے والے ایم کیو ایم کی خاطر قربان ہوئے ہیں اور اب ان کی آیندہ نسلوں کے لیے اس تنظیم یا اس کی قیادت سے بغاوت کرنا اس قدر آسان نہیں۔
یہ بات بہرحال کسی بھی قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہے کہ الطاف حسین کے چاہنے والوں کی تعداد درجنوں، سیکڑوں، یا ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ متحدہ قیادت اور کارکنوں کے درمیان جو رشتہ مدتوں سے قائم ہے اس پر کوئی موسم اثر انداز ہی نہیں ہوتا، یہ ایک عجیب رشتہ جس پر کبھی حالات نے دباؤ ڈالا نہ ہی فاصلوں نے دوریاں پیدا کیں۔ مصطفی کمال کی نئی پارٹی کی سیاسی حیات اور کامیابی یا ناکامی سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن متحدہ قومی موومنٹ کی تنظیمی ساخت، اس پر الطاف حسین کی گرفت اور ماضی میں مختلف سیاسی و مذہبی تنظیموں سے الگ ہونے والے دھڑوں کا حشر یاد کرکے اس نئی جماعت سے امیدیں وابستہ کرنا بھی ہنوز درست نہ ہوگا۔
کراچی لہو رنگ اور ہمہ جہتی عذابوں سے گزرا ایک مظلوم شہر ہے، اگرچہ اسے عروس البلاد کہتے ہیں، مگر اس نئی سیاسی جماعت کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی بقا، اس کی سالمیت اور عوامی یک جہتی سیاسی جماعتوں کا نصب العین ہونا چاہیے، کراچی میں جو کچھ ہوا اس کی تاریخ نہ دہرائی جائے۔
کوئی شک نہیں کہ مصطفیٰ کمال باکمال شخصیت کے مالک ہیں، جنھیں ایم کیو ایم کی صفوں میں الطاف حسین کے بعد زیادہ مقبولیت حاصل تھی، کراچی کے لوگوں کی اکثریت ان سے محبت کرتی ہے اور پاکستان بھر میں بطور ناظم ان کی کارکردگی کو سراہا جارہا ہے۔ انیس قائم خانی بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، وہ تنظیمی مزاج کے آدمی ہیں، ایک لمبے عرصے تک ایم کیو ایم چلاتے رہے۔
یوں ان کا تنظیمی تجربہ اور مصطفیٰ کمال کی عوامی شخصیت سے ایک بڑی اچھی متوازن جوڑی بن جاتی ہے، لیکن نتائج کا انحصار ان دونوں کی مستقبل کی حکمت عملی، خود ایم کیو ایم کی جوابی حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی مقتدر قوتوں کی حکمت عملی پر ہوگا۔ مصطفیٰ کمال بھرپور تیاری کے بغیر میدان میں اترے، پارٹی کا اعلان کیا اور صدارتی نظام کا مطالبہ کیا۔ یہ اقدامات تاثر دیتے ہیں کہ وہ مقتدر قوتوں کے اشارے پر میدان پر آئے ہیں۔
مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی کراچی کی سیاست میں انٹری کی ٹائمنگ بڑی اہمیت رکھتی ہے، ان کی نئی پارٹی کے جھنڈے کے پیچھے کسی ڈنڈے کی طاقت ظاہر ہوتی ہے، وہ طاقت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود متحدہ کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد اب متحدہ کے مینڈیٹ کو تقسیم کرنا چاہتی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کراچی جو پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اور عروس البلاد کی حیثیت رکھتا ہے، پر کنٹرول کرنے کا گیم کھیلا جارہا ہے۔ اب اردو بولنے والوں کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ ماضی کی طرح آپس میں تقسیم ہوتے ہیں یا پھر اس سازش کو ناکام بناکر مزید طاقت حاصل کرکے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
کیا مصطفیٰ کمال ایسے قدر آور لیڈر ہیں جو الطاف حسین کے متبادل ہوسکتے ہیں؟ اس بارے میں پیش گوئی قبل از وقت ہوگی۔ ابھی تو یہ بھی واضح نہیں کہ اس سارے کھیل تماشے کا پس منظر کیا ہے؟ ایسا کرکے کیا مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ کوششیں اپنی جگہ مگر ہماری سیاسی جماعتوں کا اسٹرکچر ایسا ہے کہ یہ ایک لیڈر کے گرد ہی گھومتی ہیں جن کا مکمل ہولڈ ہوتا ہے اور انھیں علیحدہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بات ایم کیو ایم کے بارے میں کچھ زیادہ ہی سچی ہے۔